Thursday 30 March 2017

لاہور کی سیراور ڈبل ڈیکر بس کے مزے بھی By M Tahir Tbassum Durrani



لاہور کی سیراور ڈبل ڈیکر بس کے مزے بھی
کیا ہی ایک خوبصورت سہانی شام تھی لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی تھی، بہت سے علم و ادب سے وابستہ لوگ موجود تھے بند ہ ناچیز بھی مدعو تھا،وہاں ایک بہت خوبصورت اورشفیق دوست سے ملاقا ت ہوئی ، ملاقا ت تو پہلی تھی مگر وہ محترم اپنی مثال آپ تھے یوں ملے جیسے صدیوں سے دوستانہ ہو، محفل کے اختتام پر جنا ب محترم ڈاکٹر فخر عباس صاحب نے ایک شعر سنایا جس نے محفل لوٹ لی۔ آج تک مجھے ان کی وہ سریلی آواز، نر م اور دھیمہ سا لہجہ یا د ہے وہ پُر خلوص انداز بیان لاہورکے ساتھ محبت کو انہوں نے کچھ یون بیان کیا۔
یہ جو لاہور سے محبت ہے 
یہ کسی اور سے محبت ہے 
شائد ان کے اس شعر کو میں آج بھی نہیں سمجھ سکا کیوں کہ میں ابھی علم و ادب سے واقف بھی نہیں طفل مکتب ہوں ، کہا ں ان کی وہ گہرائی اور کہاں میر ا حقیر اور ناقص علم، ہاں ان کے اس شعر کے بعد لاہور کو دیکھنے کا بہت دل چاہا کہ آخر وہ کیا بات ہے یہ کسی اور سے محبت ہے ، لاہور کی اگر بات کی جائے تو بے شمار اللہ کی رحمتیں اور فیاض و برکات ہیں جو اس شہر کے حصے میں آئیں، اس شہر کو داتا کی نگر ی بھی کہتے ہیں ، یہاں پر بہت سے اللہ کے بزرگ ہیں جنہوں نے ڈیرے لگائے ہوئے ہیں ایک طرف داتا علی ہجویری ہیں تو دوسری طر ف مادھولال سرکار،ادھر بابا موج دریا ہیں تو ایک طرف میاں میر سرکار ہیں، ادھر جناب عاشق رسولﷺ غازی علم دین شہید نے بھی لاہورمیانی صاحب میں ڈیرے لگائے ہوئے ہیں میانی صاحب میں ہی میجر شبیر شریف شہید مدفون ہیں۔ شہر لاہور پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ تاریخ کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو لاہور میں بہت سے تاریخی مقاما ت ہیں جو سیاحت کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں مشرق میں 
شالیمار باغ ہے تو مغرب میں مقبرہ جہانگیر، شمال میں شاہی قلعہ تو جنوب میں چوبر جی واقع ہے ، بادشاہی مسجد اور اس کے سنگم میں قلندر لاہور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مدفون ہیں۔ دریائے راوی اور بارہ دری لاہوکے حسن کو اور بڑھاتے ہیں ، شاہی قلعہ کی دیوار کے ساتھ مشہور منٹوپارک (اقبال پارک)جہاں مینار پاکستان واقع ہے ، جہاں پنجاب حکومت نے اب گریٹر اقبال کے نام سے ایک پارک بھی بنایا ہے جو سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہے ایک طرف لاہورکامشہور بازار انارکلی اور اس کی دوسری طرف مسجد وزیر خان اپنی تاریخی حثیت رکھتی ہے انارکلی بازار کے ساتھ ہی قطب الدین ایبک ، لاہور کا مال روڈ ، ٹولنٹن مارکیٹ اور اس کے ساتھ واقع لاہور عجائب گھر ہے اور اس کے سامنے پنجاب یونیورسٹی کی عظیم بلڈنگ ہے ان تمام مقامات کی اپنی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت ہے۔ ایک طرف باغِ جناح ہے جس کے اندر مشہور قائد اعظم لائبریری ہے ۔ ایک طرف جیلانی پارک جہاں ہر سال رنگ برنگے پھولوں کی نمائش ہوتی ہے جو کہ اہل لاہور اوردور دراز علاقو ں سے آئے شائقین کے دل موہ لیتی ہے ۔ پھر لاہورکی خوبصورتی میں دن بدن اضافہ اس شعر کی حقیت کے قریب لے جاتا ہے 
لاہور پاکستان کا دل اور ریاست میں صوبہ پنجاب کا دارلحکومت کہلاتا ہے، لاہور جہاں بے پنا ہ خوبصورت شہر ہے وہاں اس شہر کے باشندے بھی بڑے دل والے اور زند ہ دل لوگ ہیں ان کی زندہ دلی کی کئی مثالیں ہیں کسی بھی تہوار میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔اس شہر کی سڑکوں کی اگر بات کر لیں تو سفر کرنے والوں کو سڑک کنارے پھولوں کی کیاریاں اور رنگ برنگے پھول ڈرائیونگ کا مزا اور بڑھا دیتے ہیں ۔ پنجاب حکومت نے لاہور کو اور زیادہ حسین اور خوبصورت بنانے میں دن رات ایک کر دیے ہیں، وقتی طور پر اگر مشکلات کا سامنا ہے تو بعید میں اس کا فائدہ بھی تو ہے مثل مشہور ہے جہاں کانٹے وہاں پھو ل بھی کھلتے ہیں ۔اگر آج کھودائی کی وجہ سے کسی علاقے میں پریشانی کا سامنا ہے تو کل سہولت بھی تو اٹھانی ہے ۔زیادہ دیر کی بات نہیں جب میٹرو بس کا منصوبہ زیر تعمیر تھاتو بہت سے لوگ اسے جنگلہ بس کہہ رہے تھے مگر آ ج اس کا فائد ہ صرف عوام اٹھا رہی ہے تنقید کرنے والے صرف اپنے مفاد کی خاطرترقی نہیں برادشت کر سکتے۔شاہدرہ سے گجومتہ کا سفر آج کے اس مہنگائی کے ستائے لوگوں میں صرف 20 بیس روپے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ وہ بھی لگثری سفر کسی معجزے سے کم نہیں ۔ناشکرے لوگ ہیں جو کہتے ہیں حکومت نے کیا دیا۔
حکومتِ وقت نے عوام کو سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ صحت تعلیم اور دوسری عوامی ضروریات کے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کی ہے ، حکومت کی پور ی کوشش ہے کہ منصوبے بر وقت پایہ تکمیل کو پہنچیں، نوجوان کسی بھی قوم کے مستقبل کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ موجودہ حکومت نے بے روزگار نوجوانوں کے لیے آسان شرائط پر قرضہ سکیم متعارف کرائی اور تکنیکی تعلیم کے لیے مراکز قائم کیے تا کہ کم پڑھے لکھے نوجوان تکنیکی تعلیم حا صل کر کے اپنا روزگار قائم کر سکیں۔پاکستان اور چین کے ما بین صنعتی تعاون کے نتیجے میں مقامی صنعت کو فروغ اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں اقتصادی رہداری کی مخالف لابیاں سرگرم ہیں اورمن گھڑت خبریں ،افواہیں پھیلا کر عوام کو حکومت کے خلاف کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔
پنجاب حکومت شروع دن سے لاہور کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے سر گرم نظر آئی اور بے شمار عوامی منصبو بے قائم کر کے عوام سے کیے وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ لاہور چونکہ ایک تاریخی شہر ہے او ر سیرو سیاحت کے لیے بہت موزوں شہر ہے ۔پنجاب حکومت سیاحت کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی ہے ، اسی سلسلے کی ایک کڑی نومبر2015 ء میں لاہور میں ڈبل ڈیکر بس کا منصوبہ ہے جو کہ اہل لاہور اور سیاحت سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک انمول تحفہ ہے ۔ خادم پنجاب نے اس تقریب کے موقع پر کہا تھا جمہوریت انسانیت کی خدمت کا نام ہے ۔ اس بس کے لیے دو (2)ٹرمینل بنائے گئے ہیں ایک مین ٹرمینل پنجاب سٹیڈیم فیروز پور روڈ جبکہ دوسرا شاہی قعلہ فوڈسٹریٹ سے متصل ہے ۔ یہ منصوبہ چائنہ سے درآمد شدہ 2 بسوں پر مشتمل تھا اور ارادہ تھا کہ بعد میں ضرورت کے مطابق بسوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ڈبل ڈیکر بس لاہو ر کے تقریباََ تمام تاریخی مقامات کے قریب سے گزرتی ہے جس سے لاہور کا نظارہ بہت خوبصورت اندا ز میں کیا جا سکتا ہے اس بس کے اوپر والے کھلے حصے میں مسافروں کی تعداد 48ہے جو اوپر سے لاہور کا نظار ہ کر سکتے ہیں جبکہ بس کے اندر تقریباََ18 مسافر لطف اندوز ہو سکتے ہیں اس طرح ایک بس میں66 مسافر لاہور کی سیرو سیا حت سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
اب تک ان بسوں پر ایک لاکھ دس ہزار سے زائد ملکی و غیر ملکی سیاح ان بسوں پر سفر کر چکے ہیں بس کی ٹکٹ کی قیمت انتہائی موزوں ہے جو ہر طبقے سے تعلق رکھنے والا انسان برداشت کر سکتا ہے۔ یہ ٹکٹ بڑوں کے لیے 200 روپے بچوں کے لیے 100 روپے جبکہ چھوٹے بچے اور بزر گ شہری جنکی عمر 65 سال ہے اس بس میں مفت سفر کر سکتے ہیں تعلیمی اداروں کے لیے خصوصی دوروں کے انتظامات بھی شامل ہیں۔پہلے مرحلے میں ڈبل ڈیکر بسوں کی شاندار کامیابی کے بعد پور ی دنیا میں بسنے والے پاکستانیوں کی خواہش کا احترام کر تے ہوئے ڈبل ڈیکر بسوں کی تعد اد میں اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ عوام نے ان بسوں کو نہ صرف لاہور میں بلکہ ملکی سطح پر تاریخی مقاما ت پر چلانے کااظہار کیا ہے ۔ لاہور میں بیرون ممالک اور دوسرے صوبوں سے آنے والے سیاحوں نے حکومت پنجاب کے اس قدم کو خوش آئند قرار دیا ہے اور ان کی تعداد میں اضافے کی تجویز پیش کی ہے ۔ عوام میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑھنے کے بعدعوام کی پر زور فرمائش پر ان بسوں میں مزید 3بسوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔یہ بسیں چین سے درآمد کی ہیں،ان بسوں کی خوبصورتی بڑھانے کے لیے انتہائی دیدہ زیب اور پُر کشش انداز میں رنگ کیا گیا ہے یہ رنگ طالب علموں اور بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے ا ور سیر و سیاحت کے فروغ پیدا کرنے کی ایک عظیم کوشش ہے اسکا مقصد صوبے کے ثقافتی اور تاریخی ورثے کو فروغ دینا ہے ۔ یہ منصوبہ ٹوریزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب ((TDCPکے ما تحت کام کر رہا ہے ۔تما م گاڑیوں میں موسیقی کا موثرنظام موجود ہے سیاحوں کی راہنمائی قومی گیتوں کے ذریعے کی جاتی ہے یہ گیت لاہور کے ورثے ثقافت اورشہر کی تاریخ کے متعلق ہوتے ہیں جن سے سیاحوں میں دلچسپی کا عنصر بڑھتا ہے اور ہدایا ت بھی ملتی ہیں۔ ان بسوں کو پوری دینا میں سیرو سیاحت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ بہت کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔اور دنیا کے تمام مشہور شہروں میں کامیابی سے چل رہی ہیں۔اس منصوبے کے تحت لاہور میں سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا کیوں کہ اس منصوبے کے تحت ملکی و بین الااقوامی سطح پر ساحوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا ہے ۔بس کے سامنے والے حصے پر لاہور لاہور اے کا نعرہ بھی درج ہے ۔کیونکہ لاہور تے لاہوراے۔
مکمل تحریر >>

Sunday 26 March 2017

جنوبی پنجاب کی بیٹیوں کے لیے زیور تعلیم By M Thair Tabassum Durrani

جنوبی پنجاب کی بیٹیوں کے لیے زیور تعلیم
Daily Sama Lahore
http://sama.pk/epaper/page/9/



مکمل تحریر >>

Thursday 23 March 2017

جنوبی پنجاب کی بیٹیوں کے لیے زیور تعلیم By M Tahir Tabassum Durrani



جنوبی پنجاب کی بیٹیوں کے لیے زیور تعلیم
سورۃ ال علق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے جو علم کی افادیت اور حکمت کو بیان کر تا ہے 
اَلّذی علّمَ باِلقَلم۔علَّمَ اِلاءِ نسٰنَ مَالَم یَعلَم۔
(ترجمہ)جس نے قلم کے ذریعے لکھناسکھایا۔انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا
تعلیم کسی بھی قوم کے فرد کا بنیا دی حق ہے ہر مرد عورت کے لیے لازم ہے کہ وہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو، کوئی بھی قوم تعلیم کے بغیر ترقی کی منزلوں کو نہیں چھو سکتی، پور ی دنیا میں عورتوں کے حقو ق کی بات کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کی آج کے دور میں عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی دکھائی دیتی ہے ، پاکستان میں حالیہ کچھ برسوں سے اگر دیکھا جائے تو خواتین کا کردار ترقی کی راہوں میں بہتر نظر آئے گااور بالخصو ص پاکستان میں خو اتین کی شرح خواندگی میں بہتری آئی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے ۔ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے اوریہ وقت کا تقا ضہ ہے کہ آج کی عورت کو تعلیم کے زیو ر سے آراستہ کیا جائے کیونکہ ایک پڑھی لکھی عورت ہی ایک بہترین معاشرہ تشکیل دینے میں معاون و مدد گارثابت ہوتی ہے تعلیم کا سلسلہ ماں کی گو د سے لے کرگور تک جاری رہتا ہے ۔ 
تاریخ گواہ ہے جو قومیں تعلیم سے بھاگیں وہ غلام بن گئیں اور بحیثیت قوم اپنی شناخت تک کھو بیٹھیں دنیا کی سربلندی صرف انہی قوموں کو ملی جنہوں نے تعلیم کے زیور کو اپنایا۔کیونکہ علم ایک ایسا زیور ہے جسے کو ئی چرا نہیں سکتا حدیث پاک کا مفہوم ہے ایک گھڑی علم کی طلب و تلاش کرنا پوری رات قیام کرنے سے بہتر ہے اور ایک دن علم کی تلاش کر نا تین ماہ روزوں کے برابر ہے، علم اسلام کی حیا ت اور دین کا ستون ہے جس نے علم سکھایا اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کا اجرو ثواب پور ا کر ے گا۔ جس نے علم کی تلاش کی تو وہ اللہ کے راستے میں ہے ۔ علم 
حا صل کر و چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔ دنیا کی تمام تر ترقی علم کی بدولت ہی ممکن ہے ، علم دراصل ایک انسان کو انسانی صلاحیتوں سے نوازتا ہے ، انسان کو اچھے اور برے کی پہچان بھی علم سے ہوئی ، علم کے ذ ریعے ہی انسان نے ہواؤں میں اڑنا سیکھا اپنی حفاظت کے لیے طرح طرح کے طریقے سیکھے ، ایک زمانہ تھا جب انسان بادل کی کڑک اور بجلی کی چمک سے ڈرتا تھا مگر آج کے انسان نے نہ صرف ڈرنا ختم کیا بلکہ بجلی کو استعما ل میں لا کر اپنے لیے بے پناہ آسانیاں پیدا کر لیں۔انسان نے علم کی بدولت ہی تفریح وطبع سہولتیں پیدا کر لیں ہیں الغر ض کامیاب زندگی گزارنے کا راز ہی حصول تعلیم میں پنہاں ہے علم کے بغیر انسان اور جانور میں تمیز کرنا بھی مشکل عمل نظر آتا ہے ۔
زمانہ جاہلیت میں عورت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، عورت کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا جس گھر میں لڑکی پیدا ہو جاتی گویا اس گھر میں قیامت برپا ہو جاتی یہاں تک کہ لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے مگر اسلام نے عورت کو وہ مقام اور مرتبہ دیا جو شائد پہلے کبھی نہ تھا، عورت کو جائیداد میں حصہ دیا،ماں کے قدموں میں جنت رکھ دی گئی۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بہت سے خاندان ہیں جو بیٹی کو تعلیم دلوانے کو معیوب سمجھتے ہیں، ما ضی میں خواتین کے حقوق اور تعلیم کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا تھا مگر پنجاب حکومت نے ہمیشہ خواتین کے حقوق کی پاسبانی کی چاہے وہ (Women's Protection Bill)خواتین کے تحفظ کا بل ہو اس کے علاوہ ایک ایسا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا جو عورتوں کے حقوق کے لیے کام کر رہا ہے اس کے مطابق کام کرنے والی خواتین کو ہوسٹل ، ڈے کئیر، قرضہ سکیم اور 
بے شمار سہولتیں مہیا کرتا ہے تا کہ آج کی عورت اپنااور گھر کا وقار بلند کر سکے۔
حکومت پنجاب ہمیشہ صوبے کی بہتری اور فلاح کے لیے کوشاں رہتی ہے ۔ صوبے کا خادم اعلیٰ 18-18 گھنٹے کی انتھک محنت سے عوام کی فلاح و بہود کے لیے کام کرتا ہے صوبے کی مسائل کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کے لیے جدو جہد مسلسل کر رہا ہے تا کہ عوام کو سہولتیں اور سکون میسر آ سکے ۔ ذہین طالب علموں کے لیے کبھی سولر سسٹم ، 25 ارب کی لاگت سے اجالا پر وگرام کے تحت2لا کھ طلباء طالبات کوسولر ہوم سسٹم کی فراہمی تو کبھی تعلیم سب کے لیے کے تحت مفت کتابیں، لیپ ٹاپ، سکولوں کی مرمت ، نئے کلاس رومز کے لیے فنڈز جاری کرنا ہے۔ زیر تعلیم طالب علمو ں کو سفری سہولتوں کے لیے سفر ی کارڈ کا اجراء کرناہے تا کہ غریب والدین پر مزید بوجھ نہ پڑے۔ پنجاب حکومت بہت سے عوام دوست منصوبوں پرکام کر رہی ہے حال ہی میں ایک اور شاندار منصوبے کی منظور ی دی ہے جس سے تعلیم کے میدان میں ایک انقلاب برپا ہوگا، ایسی بیٹیاں جو کسی وجہ سے تعلیم کے زیور سے محروم تھیں ، علم حاصل کر نے سے قاصر تھیں وہ اس منصوبے سے علم کی دولت سے مالا مال ہو سکیں گی۔
حکومت پنجاب نظام تعلیم کی بہتری کے لیے سر گرم عمل ہے اور اس نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے عملی اقدام کر رہی ہے ۔ بچیوں کی بہتر تعلیم کے لیے 16 ارب روپے کی خطیر رقم سے ایک مثالی پروگرام ترتیب دیا ہے جس سے 460,000چار لاکھ ساٹھ ہزار روپے بچیوں میں 1000 روپے ماہانہ کی بنیاد پر وظیفہ دیا جائے گا۔ اس پروگرام کے تحت پنجاب کے 16 اضلاع میں سرکاری سکولوں کی طالبات میں وظائف تقسیم کیے جائیں گے۔ اس سے پہلے طالبات میں 200 روپے کی رقم بطور وظیفہ دی جا تی تھی جو کہ موجودہ حالا ت کے پیش نظر آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی خادم اعلی ٰ نے عوام کی پریشانیوں کے پیش نظر یہ رقم بڑھا کر 1000 روپے کر دی، اب ماہانہ وظیفہ فی بچی 1000 روپے دیا جائے گا۔ ایسی ذہین اور محنتی طالبات جن کی سکول میں سالانہ حاضری اسی(80%) فیصد ہوگی وہ بذریعہ خدمت کارڈ اس سہولت سے مستفید ہوگی، او ر دلچسپ عمل یہ ہے کہ ان کی پڑھائی کے ساتھ ان کے کھانے / خوراک کے اخراجات بھی پنجاب حکومت برداشت کرے گی۔یقیناان عملی خدمات کی بدولت ایک لازوال مثال قائم کی ہے۔
میاں صاحب ایک اقتصادی ماہر ہیں اوران کے عملی اقدامات سے صوبے کے لوگوں کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔ منصوبے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا یہ پاکستان کسی سیاستدان، جج یا جرنیل کی اولاد کے لیے نہیں بنا عام آدمی کے لیے بنا ہے ، میں بطور خادم اعلیٰ صوبے کے لیے اپنی زندگی کا آخری لمحہ بھی عوام کی خدمت کے لیے وقف کر وں گا۔ جو لوگ تنقید کرتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے لیے کچھ نہیں کیا جار ہا اور سارا پیسہ لاہور کی سڑکوں اور تزین و آرائش پر خرچ کیا جا رہا ہے ان کے لیے میرا واضع پیغام ہے جتنی مرضی تنقید کر لیں لیکن حقیقت کو مت جھٹلائیں، میٹرو بس ملتان کا منصوبہ کامیابی سے ہمکنا ر ہوا اور یہ ملتان کی عوام کے لیے تحفہ ہے ۔ جنوبی پنجاب کی 16 اضلاع میں 16 ارب روپے تقسیم ہونگے جنوبی پنجاب کی 4 لاکھ بیٹیاں اس کثیر رقم سے مستفید ہونگی۔ خادم پنجاب زیور تعلیم پروگرام کے تحت قوم کی بیٹیوں میں خدمت کارڈ تقسیم کیے جائیں گے ، قوم کی بیٹیوں کو تعلیم دینے کے پروگراموں کے لیے وسائل کی فراہمی پر تنقید کرنے 
والوں کی سوچ پر دولت کی پٹی بندھی ہوئی ہے ۔ یہ لوگ ملک کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ اس پروگرام کے تحت چھٹی جماعت سے لیکر دسویں جماعت کی طالبات کو فائدہ ہوگا وزیر اعلی ٰ نے مزیدکہا انشاء اللہ 2018ء تک 20 لاکھ نوجوانوں کو فنی تعلیم دینے کے ہدف کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
آ ج ہم جو مسائل کا شکار ہیں اور آئے روز نئی مصیبتوں میں مبتلا ہورہے ہیں وہ صرف تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے ۔اگر حکومت پنجاب خدمت کے ایسے لازوال منصوبوں کی داستاں رقم کرتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب پنجاب سے غربت اور بے روزگاری ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی، پڑھے لکھے نوجوان اپنا بہتر مستقبل بنا سکیں گے جبکہ کم پڑھے لکھے نوجوان فنی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر ملک میں اپنا نام پیدا کر سکیں گے،تعلیم کے زیور سے ہی ایک بہترین اور پُر امن معاشرے کی تشکیل دی جاسکتی ہے۔
مکمل تحریر >>

Monday 20 March 2017

. 100 لفظوں کی کہانی کے موجد جنگ میڈیا گروپ کے مایہ ناز لکھاری، جناب مبشر زیدی صاحب کے چند پل M Tahir Tabassum Durrani

 لفظوں کی کہانی کے موجد جنگ میڈیا گروپ کے مایہ ناز لکھاری، جناب مبشر زیدی صاحب کے چند پل Hundred
  سو
  M Tahir Tabassum Durrani
مکمل تحریر >>

ڈرامہ نگار، کالمنگار، مصنف، استاد، جناب امجد اسلام امجد صاحب کے ساتھ گزرے چند پل جو صدیوں برابر تھے

ڈرامہ نگار، کالمنگار، مصنف، استاد، جناب امجد اسلام امجد صاحب کے ساتھ گزرے چند پل جو صدیوں برابر تھے


مکمل تحریر >>

Wednesday 15 March 2017

پنجاب میں موٹر بائیک ایمبولینس سروس کا آغاز By M Tahir Tabassum Durrani



پنجاب میں موٹر بائیک ایمبولینس سروس کا آغاز
پاکستان دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں رب کائنات نے اپنے تمام خزانے لوٹا دیے ہیں، اس مملکت خدا داد میں بے شمار خزانے چھپے ہیں بے شمار نعمتوں سے مالامال یہ ملک اپنی مثال آپ ہے۔ ہمارے بہت سے لکھاری بھا ئی ہمیشہ منفی پراپیگنڈا کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ تصویر کے ہمیشہ دو رخ ہوتے ہیں ایک منفی تو ایک مثبت ۔ میں آج کی تحریر میں صرف مثبت رخ دکھانے کی کوشش کروں گا۔ یہ ایسا ملک ہے جس کے پاس ایسی نعمتیں ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے پاس بھی نہیں، یہاں میدان ہیں، صحرا، پہاڑ ، دریا، سمندر، گرمی ، سردی خزاں اور بہار، سب پاکستان کے حصے میں آئے ہیں۔ اب ہم پرفر ض عائد ہوتا ہے کہ ہم ان تمام نعمتوں کا شکر کیسے ادا کرتے ہیں اور ان کی حفاظت میں کردار کیسے اداکرتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے ملک سے بد امنی دہشتگرد ی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں حکومت کا موقف ہے کہ قائد کے پاکستان میں انتہا پسند ی کی کوئی گنجائش نہیں اور دہشتگردی کے نا سور کوختم کر کے ہی دم لین گے۔ کرپشن کے خلاف زیرو ٹالیرنس پالیسی اپنائی گئی ہے۔حکومت نے عسکری قیادت کے ساتھ مل کر دشمنوں کو ناکوں چنے چبوانے کی ٹھانی ہوئی ہے ۔ پاک فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے اور مجھے یہ بتا تے ہوئے انتہائی مسر ت ہو رہی ہے کہ حال ہی میں پاک فوج میں نیا ائر ڈیفنس سسٹم شامل کیا گیا ہے جس کا نام ایل وائی اسی ہے (LY-80) یہ چینی ساخت کا فضائی دفاعی نظام ہے اس نئے نظام سے فضائی خطرات سے نمٹنے میں بے حد مدد ملے گی یہ دشمن /ہدف کو نچلی اور درمیانی بلندی پر دوران پرواز نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
آبادی کے لحاظ سے پا کستان کا سب سے بڑا صوبہ، صوبہ پنجاب ہے جس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ101.4 ملین ہے اور اس کا رقبہ تقریباََ 205344 مربع کلومیٹر ہے ۔ صوبہ پنجاب وسائل سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے مسائل کا شکار بھی ہے اور ملک پاکستان کے سب سے زیادہ شہر بھی پنجاب کے حصے میں آتے ہیں۔ اس صوبے کے انتظامی امور کو چلانے کے لیے بھی ایک ایسے نڈر ، انتھک ، محنتی اور بہادر شخص کے ضرورت ہے جو احسن طریقے سے ان امور کو نبھا سکے ، پنجاب کے عوام کی خوش قسمتی کہ اس کو ایک بے باک ، نڈر اور قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مالیڈر میاں محمد شہباز شریف کی صورت میں ملا، جو دن رات صرف اور صرف عوام کی بھلائی کی خاطر اپنے سکون کی پرواہ کیے بغیر لگاتار کام میں مصروف رہتا ہے ۔ ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھاجس میں لکھا تھا، میاں صاحب نے اپنے ایک قریبی دوست سے بات کرتے کہا کہ مجھے 25 گھنٹے کام کرنا اچھا لگتا ہے دوست نے کہا، میاں صاحب کچھ وقت آرام کرنے کے لیے بھی نکالنا چاہیے جس پر میاں صاحب مسکرائے اور کہا 25 واں گھنٹہ آرام کے لیے ہی تو کہہ رہا ہوں۔(بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی یہی فرمایا کام کام اور بس کام۔ تو میاں صاحب کے اوپر بیان کر دہ جملے قائد کے فرمان کے ترجمانی کرتے ہیں)
پنجاب گورنمنٹ کے بے شمار عوام دوست منصوبے زیر تعمیر ہیں جن پر دن رات کام ہور ہا ہے حال ہی میں میاں صاحب نے ایک اجلاس میں ایک اور انقلابی منصوبہ شروع کرنے کی منظور ی دی ہے جو براہ راست دکھی انسانیت کی خدمت ہے ۔ اجلاس میں میاں صاحب نے پنجاب میں موٹر بائیک ایمبولینس سروس شروع کرنے کی منظوری دی ہے اور ریسکیو 1122 کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ وہ اس منشن میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ یقیناًیہ ایک خوش آئند منصوبہ ہے جس کی زیادہ سے زیادہ تعریف کرنی چاہیے ۔ اس منصوبے کے بارے بات کرنے سے پہلے میں اپنے قارئین کو موٹر بائیک ایمبولینس کیاتاریخ بتاتا ہوں کہ سب سے پہلے کہاں شروع ہوئی ، پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور انشاء اللہ بہت جلد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا۔
دنیا میں بہت سے مما لک میںیہ سروس کا م کر رہی ہے اس کا سب سے بڑا فائد ہ یہ ہوتا ہے کہ وزن میں ہلکی ، ہیت میں چھوٹی ہونے کی وجہ سے ہر وقت بر وقت با آسانی آ جا سکتی ہے ۔ یہ سروس برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے دوران زخمیوں کو اٹھا نے کے لیے استعمال کی تھی ۔ 1915 ء میں(Redondo Beach, California) کیلی فورنیا بیچ پر موٹر سائیکل کے ساتھ سائیڈ پر کار کی طرح بکس لگاکر استعمال کی تھی۔برازیل میں 2000کی دہائی میں ہنڈا موٹر سائیکل کو ایمبولینس سروس کے طور پر استعما ل کیا، جرمنی میں 1983ء میں موٹر سائیکل ایمبولینس سروس شروع کی۔ہانگ کانگ میں 1982ء میں موٹر سائیکل ایمبولینس سروس کا آغاز ہوا۔ ہمسایہ ملک انڈیا نے موٹر سائیکل ایمبولینس سروس کا آغاز 16 اپریل2015ء میں کیا ، کینیا میں بھی موٹر سائیکل ایمبولینس سروس کا آغاز 2015ء میں ہوا۔یوگانڈا میں دسمبر 2010 میں موٹر سائیکل ایمبولینس سروس کا آغاز ہوا۔سربیا میں موٹر سائیکل ایمبولینس سروس کا آغاز 2011ء میں ہوا۔ زمبیا میں موٹر سائیکل ایمبولینس سروس کا آغاز 2009ء میں ہوا جبکہ امریکا میں اس سرو س کا آغاز 1994ء میں ہوا۔
پنجاب جیسے بڑے صوبے کے لیے ایسا انقلابی منصوبہ حقیقی معنوں میں قابل رشک ہے 900 موٹر بائیکس پر مشتمل نئی ایمبولینس سروس سے دکھی انسانیت کی خد مت ہو گی ۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بڑے بڑے شہروں میں خصوصاََ لاہور گوجرانوالا، راولپنڈی ،فیصل آباد اور دیگر شہر ایسے ہیں جن کے اندرون حصوں میں اگر کوئی حادثہ یا سانحہ پیش آ جائے تو وہاں بڑی گاڑی (ایمبولینس)کا گزرنادشوار ہو جاتا ہے اور زخمیوں کو بر وقت طبی امداد یا ریسکیوکرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اندرون شہر میں اگر خدانخواستہ آگ لگنے ، چھت گرنے ،زلزلہ سے مکان گرنے یا چھت کے نیچے دب جانے جیسے واقعا ت رونما ہوتے ہیں تو آفت زدہ لوگوں کو طبی امداد/ ریسکیو کرنے میں کافی دشواری پیش آتی ہے حکومت کے اس انقلابی منصوبے سے کسی حد تک ان مسائل پر قابو پایا جا سکے گا۔
ابتدائی طور پر یہ سروس بڑے شہروں ، لاہور، راولپنڈی ، ملتان ، فیصل آباد، سرگودہا، گوجرانوالا، بہاولپور، ڈی جی خان، اور ساہیوال میں شروع کی گئی ہے اور آہستہ آہستہ اس کا دائرہ کار پنجاب کے دیگر شہروں تک بڑھایا جائے گا۔میاں صاحب نے اجلاس میں بتا یا موٹر سائیکل ایمبولینس وہاں با آسانی پہنچ سکے گی جہاں عام ایمبولینس داخل نہیں ہوسکتی ، لاہور سمیت دوسرے شہروں میں جیسے بے ہنگم ٹریفک کا بہاؤ رشی علاقے ایسی صورت حال میں موٹر بائیک ایمبولینس باآسانی اپنے مشن کو مکمل کر سکے گی۔لاہور سمیت پنجاب کے تما ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں سروس شروع کی جائے گی ۔ موٹر سائیکل ایمبولینس ہنگامی کٹس اور زندگی بچا نے والے تمام جدید آلات سے لیس ہوں گی۔
اس سروس کے لیے 900 میڈیکل ٹیکنیشنز کو بھی بھرتی کیا جائے گا،اس منصوبے کا دوسرا فائد ہ لوگوں کو روزگاربھی میسر آئے گا، 900 میڈیکل ٹیکنیشنز کا مطلب 900 خاندانوں کو روزگار بھی ملے گا یعنی 900 گھروں کے چولہے چلیں گے، یقیناََ اس سروس سے عوام کو بے پنا ہ ریلیف ملے گا۔بڑے شہروں میں تنگ گلی محلے جہاں بڑی ایمبولینس نہیں پہنچ پاتی وہاں موٹر بائیک ایمبولینس باآسانی پہنچ کر ریسکیوکر سکے گی۔ ابتدائی طور پر لاہورسمیت تمام ڈویژنز کو موٹر بائیکس باالترتیب لاہو ر کو، 100 راولپنڈی کو 100 ملتان کو 100 ، فیصل آباد، گوجرانوالا کو 100 جبکہ بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، سرگودہا، ساہیوال ڈویژنز 50پچاس موٹر بائیکس دی جائیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں اگر دوسر ے صوبوں کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو پنجاب حکومت پر انگلی اٹھانے سے پہلے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا کیونکہ ماضی میں حکمرانوں نے عوام کے ساتھ کیے وعدوں کو پور ا نہیں کیااس کے بر عکس جتنا کام پنجاب میں ہو رہا ہے اس کی نظیر کسی دسرے صوبے میں نہیں ملتی ۔ پنجاب گورنمنٹ عوامی فلاح کے لیے بے شمار منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور وسائل کا درست اور شفاف استعمال کر رہی ہے ۔لوگ اب دھرنوں کی سیاست کو چھوڑ کر عملی طور پرمیدا ن میں اتریں اور عوام کے لیے کچھ کرکے دیکھائیں ۔ اب عوام با شعور ہے اور وہ اپنا فیصلہ خودکرنے اور درست سمت کا انتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ایسے منصوبوں سے براہ راست صر ف ہم عوام ہی مستیفد ہوتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

Thursday 9 March 2017

شکریہ نواز شریف By M Tahir Tabassum Durrani


شکریہ نواز شریف
قوموں کی تقدیر ان کے لیڈر بدلتے ہیں، و ہ قوم بڑ ی خوش نصیب ہوتی ہے جن کو سیاستدان نہیں بلکہ اچھے لیڈرز ملتے ہیں کیونکہ کسی نے
نیلسن منڈیلا سے پوچھا کہ سیاستدان اور لیڈر میں کیا فرق ہے تو انہوں نے جواب دیا سیاستدا ن وہ ہوتا ہے جو اپنے اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے جبکہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچتا ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح بابائے قوم نے قیام پاکستان کے بعد پہلی عیدالفطر کے موقع پر قو م سے خطاب میں کہا تھا۔:ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے لیکن یہ ہمارے مقصد کی ابتدا ہے ، ابھی ہم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ حصول پاکستان کے مقابلے میں اس ملک کی تعمیر پر کہیں زیادہ کوششیں صرف کرنی ہیں اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی ہیں:۔اس میں کوئی شک نہیں جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے ہمسایہ ممالک نے اسے نقصان پہنچانے میں کبھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی یہ تو اللہ جلہ شانہ کا لا کھ بار احسان ہے کہ یہ ٹکڑا جنت نظیر آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہے اور انشاء اللہ روز قیامت تک یہ ایسے ہی پھلتا پھولتا رہے گا۔
69 سال6 ماہ اور24 دن کا یہ ملک پاکستان جس میں آج تک کم و بیش 18 آٹھارہ وزیر اعظم اب تک حکمرانی کر چکے ہیں ملک پاکستان پر سب سے زیادہ حکمرانی کرنے والے وزیر اعظم کا اعزار میاں محمد نوازشریف کو جاتا ہے جو تیسری باراس منصب پر فائز ہیں۔ اللہ تعالی ٰ جلہ شانہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے ۔ اور تو جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے اور ساری بھلائی تیری طرف سے ہے اور توہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ کسی ایک شخص کے تیسری بار کسی ملک کا وزیراعظم بننا اللہ جلہ شانہ کی دی ہوئی عزت ہے ناقدین جتنی مرضی تنقید کریں لیکن ایک بات ہمیشہ ذہن نشین کر لینی چاہیے جو اچھا کام ہو اور اس کا فائد ہ پاکستان یا براہ راست قوم کو ہو اس نہ صرف سراہانہ چاہیے بلکہ اس کام میں شانہ بشانہ مل کر چلنا چاہیے ۔ 
وفاقی حکومت کے زیرانتظام علاقہ غیر یعنی فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی اصلاحات کی منظوری 3 مارچ 2017 ء جناب وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے دے دی۔ یہ ایک بہت عمدہ اور مثبت قدم اٹھایا ہے جس کا شکریہ پوری قوم کو ادا کرنا چاہیے (فاٹا ) قبائلی علاقہ جات جو پاکستان کا حصہ ہیں مگربہت سی سہولتوں سے محروم ہیں محرومی کی زندگی گزارتے انہوں نے 69 سال سے زیادہ کا عر صہ گزار دیا مگر ان کے لیے کوئی مثبت حکمت عملی نہ اپنائی اور نہ ہی پارلیمنٹ میں کوئی ایسی قانون سازی کی گئی جس سے فاٹا کے عوام کو فائدہ حاصل ہو سکے ۔ ان کی اپنی زندگی ، اپناجرگہ سسٹم، سزا جزا کے مالک خود۔ نہ وہ پاکستان کے کسی قانون کے پابند قومیت سے آزاد، آج تک فاٹا کو صوبائی حکومت میں نہ لیا گیا جس کی وجہ سے وہا ں کے لوگ گورنمنٹ کی طرف سے دی جانے والی سہولتوں سے فیض یا ب نہ ہو سکے ۔ فاٹا میں سول اور فوجداری مقدمات آج بھی فرنٹیر کرائمز ریگولیشن 1901ء کے قانون کے مطابق (جرگہ) کے تحت نمٹائے جاتے ہیں۔ جرگے میں دی جانے والی سزاپر اپیل کے لیے پاکستان سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ۔ چندلوگوں کو قومی اسمبلی میں نششتیں دی جاتی ہیں۔ فاٹا کے اگر حالات کی بات کی جائے تو بہت سے شدت پسند اس علاقے میں رہائش پزیر تھے تاہم پاک فوج کی کاروئیوں سے فاٹا سے عسکریت پسند وں (دہشتگرووں )کا صفایا ہونے اور خطے میں امن اور تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا۔ فاٹا میں کل سات ایجنسیز ہیں مہمند ایجنسی، باجوڑ ، خیبر، اورکزئی، کرم ، شمالی وزیرستان ا ور جنوبی وزیرستان جو وہاں کی ایڈ منسٹریشن کو دیکھتی ہیں اور فاٹا کی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن کوئی صوبائی لیول پر اپنا کوئی وزیر نہیں ۔وہاں کے پولیٹکل ایجنٹس ہی ترقیاتی کاموں کے لیے سپر وائزری کا کردارا دا کرتے ہیں۔ زیادہ تر پارٹیاں ایسی ہیں جو حکومت کے اس فیصلہ کو خوش آئند قرار دے رہی ہیں جبکہ کچھ پارٹیاں ایسی بھی ہیں جو حکومت کے اس فیصلے پرنا خوش ہیں۔مسلم لیگ (نواز)خود بھی ایک سیاسی پارٹی ہے اور تقریباََ عرصہ دراز سے کے پی کے (خیبر پختوں خواہ) میں اپنی پوزیشن مستحکم نہیں کر سکے اب دیکھنا ہے اس فیصلے کے بعد وہ اپنی حثیت کتنی مضبوط اور بر قرار رکھ سکتے ہیں ۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا، وفاقی کابینہ نے فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات کو اصولی منظوری دے دی ہے جس کا مقصد قبائلی علاقوں کو پانچ سال کے اندرخیبر پختوں خواہ میں ضم کر دیا جائے گا۔ یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے اس سے علاقے میں ترقی کے کام ہوں گے ۔ لوگوں کو زندگی گزارنے کی سہولتیں ملیں گی ۔ جس سے علاقے میں خوشحالی آئے گی۔ اس کا ایک اور فائد ہ جو خیبر پختون خواہ کو ہو گا وہ یہ کہ صوبے میں آبادی اور رقبے کا اضافہ ہوگا۔ اس علاقے کے لوگ اپنی مرضی کے مطابق اپنے نمائندے چُن کر اسمبلیوں میں بھیجیں گے جس سے علاقے کے لوگوں کو براہ راست فائدہ ہوگا۔میاں صاحب نے اس فیصلے کو علاقے کے لوگوں کے لیے خوشحالی اور ترقی کا پیغا م کہا انہوں نے کہا، سفارشات میں تمام عارضی بے گھر افراد کی رواں سال اپریل کے آخر تک واپسی کا حد ف بھی شامل ہے جبکہ تعمیر نو کی سرگرمیاں 2018ء تک مکمل کر لی جائیں گی۔ اس فیصلے کے بعد فاٹا کی عوام دیگر صوبوں کی طرح ، سکول ، کالج، صحت عامہ اور اس جیسی دیگر سہولتوں کا بھی فائدہ حاصل کر سکیں گے۔وزیر اعظم نے مزید کہا یہاں کے غریب اور متوسط لوگوں کو بے نظیر انکم سپورٹ ، بیت المال اور دیگر چھوٹے قرضوں کی فراہمی بھی اس پروگرام میں شامل ہے ۔69 سالوں میں پہلی بار فاٹا کے عوام کوبا اختیار اور عوامی حقوق جیسی نعمت سے نواز جائے گا اور یہ سب موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں سے ایک ہے 
تقریباََ 110ارب روپے کی خطیر رقم فاٹا کے اندر ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جائے گی یہاں ایک بات اور واضع ہو جاتی ہے جب ایسے پرا جیکٹس پر کام ہوتا ہے تو ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی کھلتے ہیں۔
ہمارے ملک کی ایک بد بختی یہ بھی ہے کچھ مفاد پرست اپنے مفاد کی خاطر قومی مفاد کو پس پردہ ڈال کر معصو م لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ جیسے ہی ٖفاٹا میں اصلاحات لاکر اسے قومی دھارے میں لانے کی منظوری ہوئی ساتھ ہی یہ تعصب پھیلایا جا رہا ہے کہ ان اصلاحات سے علاقے کے لوگوں کی حق تلفی کی جارہی ہے انہیں ان کے حقوق سے محروم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے حالانکہ یہ کوئی نہیں جانتا جب فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیا جائے گا تب اس علاقے کی لوگوں کو وہ تمام بنیادی سہولتیں حاصل ہوں گی جو ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں ۔ ہاں اس کا نقصان مفاد پرست ٹولا کو ضرور ہے جو اپنے مفاد کی خاطر معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں انہیں گمراہ کرتے ہیں اور حکومت کے خلاف نفر ت کا بیج بوتے ہیں کیون کہ وہ نہیں چاہتے کہ لوگ ان کی غلامی سے آزاد ہوں ۔ ان کی اجارہ داری ختم ہو۔ عوام غلامی کی زنجیروں سے نکل کرآزاد زندگی گذاریں ۔ فاٹا کے لوگ اور ان کے بچوں کو بھی تعلیم ا ور صحت جیسی سہولتیں حاصل ہوں گی لوگوں کو اپنے حقو ق حاصل کر نے کے لیے کسی کی غلامی نہیں کرنا پڑی گی ۔ ایک وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ فاٹا کے مختلف مقاما ت کوپاک چائنہ راہداری کے راستوں کے ساتھ منسلک کیا جائیگا جس سے اُن علاقوں میں ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔ان اصلاحات سے فاٹا کے لوگوں کو محرومیوں سے نکالا جا سکے گا۔ ہمارے ہاں ابھی بھی شعو ر کی کمی ہے لوگوں کو اپنے اچھے اور برے کی تمیز سوچ سمجھ کر کر نی چاہیے اور ملک دشمن قوتوں کو بے نقاب کرنا چاہیے ملک سے بد امنی اور دہشتگردی ختم کر نے میں حکومت کی کارکردگی کو سراہاتے ہوئے ساتھ دینا چاہیے ۔ کس بھی ملک کی جب سرحدیں محفوظ ہوتی ہیں وہ ملک مضبوط ماناجاتاہے اُس ملک کی ترقی اور خوشحالی کو کوئی روک نہیں سکتا ۔ ہم امید کرتے ہیں فاٹا کی عوام اور اہل علم دانش اپنی ذاتیات لسانیت اورصوبایت کو بالا طاق رکھتے ہوئے میاں محمد نواز شریف کے اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول کریں اورپاکستان کی ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں ۔ 
مکمل تحریر >>

Sunday 5 March 2017

پی ایس ایل فائنل ہنگامہ ویلڈن خادم اعلیٰ by M Tahir Tabassum Durrani



پی ایس ایل فائنل ہنگامہ ویلڈن خادم اعلیٰ
پھر سیٹی بجے گی
سٹیج سجے گا
اور تالی بجے گی
اب کھیل جمے گا
جی ہاں یہ ہیں وہ الفاظ جس نے پاکستانی قوم کا حو صلہ بڑھایا ۔ ایک ولو لہ اور جوش پیدا کیا، پاکستانی ایک زندہ قوم ہیں یہاں کے مرد عورت بچہ بوڑھا سب کرکٹ کے دیوانے ہیں۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں وہ زندہ دلی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ جیسے ہرچیزکا ایک دل ہوتا ہے ایسے ہی پاکستان کا بھی دل ہے اور وہ دل ہے لاہور۔: ایویں تے نیئی کیندے لاہور لاہوراے: لاہوریے اپنی مہمان نوازی میں پور ی دنیامیں مشہور ہیں۔میں نے ایک بات نوٹ کی ہے لاہورمیں کوئی بھی تقریب ہو کوئی بھی موقع ہو ، لاہوریے اس میں بڑھ چڑھ حصہ لیتے ہیں۔شب قدر ہو یاشب برات ، راتوں کونماز، قیام الیل، نوافل اور دیگر محافل کا بندوبست کیا جاتا ہے ، محرم الحرام میں اس کے تقدس اور احترام میں کھانے پینے لنگر نذر و نیاز کا اہتمام کرتے ہیں، 12ربیع الاول شریف پر گلیوں بازاروں کو دلہن کے طرح سجانے کے ساتھ ساتھ لنگر کا وسیع انتظام کر تے ہیں الغرض کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تو کیسے ممکن ہے ہر دل عزیز کھیل کا موقع ہو اور لاہوریے کسی سے پیچھے رہ جائیں اتنی گھمبیر صورت حال جب ہرطرف دھماکو ں کا خوف ہو، ملک میں سات دنوں میں متعدد دھماکے ہو چکے ہوں جہاں لوگ گھروں تک محصورہوکر رہ گئے ہوں، لوگ باہر نکلناہی نہ چاہتے ہوں وہاں ایک ہی رات میں کرکٹ کے میدان میں سیٹی بجانے سٹیج سجانے 
، تالی بجانے اور کھیل جمانے کے لیے بیچے جانے والے ٹکٹس فوراََ بک جائیں اور sold out (سب بِک گیا)کا بورڈ آویزاں کرنا پڑے وہاں اس زند ہ قوم کو 21 توپوں کی سلامی تو بنتی ہے ۔ جیسے ہی حکومت وقت نے اعلان کیا کہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل میچ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا لوگوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی جیسے مردہ جسم میں جان آگئی ۔ اپنے پسند کے ہیروز کی شرٹس کی خریداری میں دیوانہ وار لوگ چل نکلے ، خواتین نے اپنے بناؤ سنگھار کے لیے بیوٹی سیلونز کا رخ کر لیا کسی نے اپنے چہرے پر اپنے پسند کی ٹیم کا لوگو بنوایا تو کسی نے پاکستان کا جھنڈا پینٹ کروایا۔ خواتین کا جوش و خروش دیدنی تھا لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بڑی بڑی ٹی وی سکرین لگا کر اس پروگرام کا کامیا ب بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لاہو کی ر سڑکوں پر برقی قمقمے لگا کر دلہن کی طرح سجایا گیا۔ امن کے دشمنوں کے منہ پر ایک تماچہ ہے پوری دنیا کو ایک واضع پیغام جاتا ہے پاکستانی نڈر اور امن پسند قوم ہے ۔
عالمی دہشتگردی کا اگر ریکارڈ دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دہشتگردی کی لسٹ میں پاکستان 13 ویں نمبر پر آتا ہے جبکہ بھارت کا نمبر16وان ہے اس طرح اگر دیکھا جائے تو بھارت کا پاکستان سے صرف دو نمبر کا فرق ہے اور بھارت باتیں ایسے کرتا ہے جیسے اس جیسا کوئی امن پسند اور پُر امن ملک ہی نہیں اور دہشتگر دی کی لسٹ میں شامل ہی نہ ہو۔حالانکہ بم دھماکے وہاں پر بھی ہوتے ہیں لیکن آی پی ایل کا پور ا یونٹ انڈیا میں ہوتا ہے یہاں تک کہ ورلڈ کپ تک کے میچز بھی انڈیا میں ہوتے ہیں تب نہ تو غیرملکی کھلاڑیوں کو کوئی مسلہ پیش آتا ہے بلکہ وہ یہاں آنا پسند کرتے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ تھائی لینڈ میں بھی دھماکے ہوتے ہیں تو کیا وہاں سیرو سیاحت بند ہوجاتی ہے ۔ اس صورت حا ل کو دیکھا جائے تو کیا یہ صرف پاکستان میں کرکٹ کو ختم کرنے کی سازش تو نہیں؟ حال ہی میں عمران خان صاحب نے ایک بیان دیا کہ پی ایس ایل کا فائنل پاکستان میں کرانا ایک پاگل پن ہے ۔ ان کی بات اپنی جگہ شائد وہ ملک میں امن و امان کی صورت حال سے مطمعن نہ ہوں اس لیے وہ ایسا کہہ رہے ہوں ۔ لیکن جناب عمران خان صاحب بھارت میں بھی دھماکے ہوتے ہیں لیکن وہاں کی کرکٹ بحال ہے کوئی گراؤنڈ سنسان نہیں۔وہاں پر جب کسی علاقے میں میچ ہوتا ہے تو پور ا پور ا علاقہ سیل (close) کر دیا جاتا ہے ۔ جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو پورا گھر اس تکلیف کو برداشت کرتا ہے سب مل کر اس کا مقابلہ کرتے ہیں اکیلا انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہوتو پورا جسم درد کی شدت محسو س کرتا ہے ۔ علاج کرانے کے کچھ عرصہ بعد ہی صحت بحال ہوتی ہے ۔
ملک میں امن قائم کرنے کے لیے موجودہ حکومت کی کوششوں کی تعریف کرنی چاہیے ۔دشمن کے مذموم عزائم و ناپاک ارادوں کو مٹانے کے لیے اپنے ذاتیات سے بالا تر ہو کرہمیں متحد ہونا ہوگا ۔ خادم اعلیٰ کی پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہورمیں کروانے، غیرملکی کھلاڑی جن میں ڈیرن سیمی، مارلن سموئل،ڈیود میلان،مورگن اور کرس جورڈن کو مطمعن کرنے اور آسٹریلوی کمنٹیٹرز کو پاکستان لانے پر ان کی محنت، لگن اور ایمانداری پر شک کرنا سرا سر زیادتی ہوگی۔ انہوں نے نیک نیتی کے ساتھ ملک میں کرکٹ کی بحالی کے لیے کام کیا،اور انہوں نے عسکری قیادت کے راہنماؤں کے ساتھ مشاورت کرنے کے بعد فائنل میچ لاہور میں کرانے کا فیصلہ کیا۔ الغرض گھر کے حالا ت جیسے بھی ہوں، مہمان نوازی میں کبھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑنی چاہیے ۔لوگ ہمیشہ تنقید ہی کرتے ہیں لیکن جو اچھا کام کر رہا ہو ا سکی بلاشبہ (appreciate) تعریف کرنی چاہیے۔خادم اعلی اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب اور دیگر ادارو ن کے سربراہان نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں دن رات ایک کر کے محنت کی جس کی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے۔
بالاآخر وہ دن آگیا جس کا انتظار تھا، سٹیج بھی سجاسیٹی بھی بجی اور کھیل بھی جما ۔چچا کرکٹ اور چاچا ٹی 20 نے بھی میچ گرمایا ۔ علی ظفر نے براہ راست سیٹی بجا کر شائقین کرکٹ کے دل جیت لیے۔ فاخر ، علی عظمت نے بھی میلا لوٹا، تقریب کے شروع میں پاکستان کے عظیم شہدا کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ سیاسی راہنماؤں نے عوام میں بیٹھ کر میچ کا نظاراکیا، حکومت پنجاب نے اس ایونٹ کو کامیاب بناکر پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھولنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔شائقین کو کسی بھی پریشانی سے بچنے کے لیے بہتر سے بہتر حکمت عملی سے کام لیا، شائقین کے لیے پارکنگ سے 36 شٹل بسیں چلائی گئیں۔ شائقین کرکٹ کی راہنمائی کے لیے شٹل سروس پر ہدایات نامہ بھی آویزاں کیا جس پر گیٹ نمبر ،انکلوژردرج تھا، بزرگ شہریوں کے لیے گیٹ نمبر اور گیٹ کا نام درج تھے ،خصوصی افراد کے لیے ماجد خان گیٹ مختص کیا گیا۔ اس بار فتح کا سہرا پشاور زلمی کے سر رہا، غیرملکی کھلاڑی اور پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی نے پاکستان کی سکیورٹی کو سہراہا اور دوسرے غیرملکی کھلاڑیوں کا پاکستان آنے کی دعو ت دی انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان کے لوگ بہت خوش مزاج اور دوستانہ ہیں انہیں بالکل کوئی خوف خطرہ محسوس نہیں ہوا۔اس بار پاکستانی بلے باز کامران اکمل نے میدان مارا جنہوں نے اس ایونٹ میں سب سے زیادہ رنز بنائے کپتان ڈیرن سیمی مین آف دی میچ قرار پائے۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور غیرملکی چینل ٹین سپورٹ (ten sports)کے شکریہ جنہوں نے اس میچ کو براہ راست دیکھا کر شائقین کرکٹ کے دلوں میں اپنے نقش اتار دیے ۔
بقول شاعر۔
ؔ ؔ تندیِ بادِمخالف سے نہ گھبرا ائے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے
مکمل تحریر >>

Thursday 2 March 2017

خادم اعلیٰ کا امن بحال رکھنے کا عزم by M Tahir Tabassum Durrani



خادم اعلیٰ کا امن بحال رکھنے کا عزم
بے شمار قربانیوں بعد پاکستان معرضِ وجود میں آیا، آزادی کی خاطر بہنوں بیٹیوں نے اپنی عصمتوں اور سہاگ کی قربانی دی، ماؤں نے اپنے لخت جگر قربان کیے بز رگوں نے لاشے اپنے کانپتے ہاتھوں سے اُٹھائے کئی سسکیاں بھر تے بچے یتیم ہوئے، اپنا کاروبار مال اسباب اللہ کے سپرد کر کے اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے پھر جا کر یہ ملک جس میں ہم آزاد سانس لے رہے ہیں ہمیں نصیب ہوا۔ہمارے لیے یہ بات قابل فخر ہے کہ ہم نے ایک آزاد ریاست میں آنکھیں کھولیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو مشکلوں اور دشواریوں نے پہلے دن سے ہی گھیر رکھا ہے ۔1947ء سے لیکر آج تک مشکلوں دشواریوں میں اضافہ ہی ہوتا نظر آیا، اس میں بیرونی سازشیں تو تھیں ہی لیکن اندرونی دشمنوں نے بھی اسے دیمک کی طرح چاٹنا شروع کیا ہو اہے ۔
ابھی پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہی نہیں ہوا تھا کہ اس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح ا س دنیا فانی سے کوچ کر گئے ، ابھی قائد کی جدائی کے زخم تازہ تھے کہ قائد ملت لیا قت علی خان کا قتل ہو گیا حالات ابتر سے ابتر ہوتے گئے ، اس وقت کے سیاسی و عسکری آکابرین نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ اپنی آنے والی نوجوان نسل اور ملک کے معماروں کے لیے کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ اور نتیجہ یہ نکلا آ ج تک ہم قوم نہیں بن سکے آج تک ہم ایک ہجوم کی طرح ہیں کسی ملک کی بقا اور ترقی کاانحصارقومی یکجہتی اور اتفاق پر ہے ، کوئی سیاسی مفا د کی جنگ لڑ رہا ہے توکوئی ذاتی مفاد کی خاطر پاکستان کو کھوکھلا کر رہا ہے سب کی ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے اور سبقت لے جانے کی کوشش ہے ، ہم میں قومی یکجہتی نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہم ایک قوم نہیں بن سکے ہیں اور ہم انتشار کا شکار ہیں اور ان تما م مسائل کی جڑ شرح خواندگی میں کمی اور فرقہ واریت ہے ، لوگ ایک دوسرے کو اپنی پہچان خاندانوں اور فرقوں سے کرواتے ہیں اور نفرتوں کے بیج بوئے جاتے ہیں، یہی نفرتیں 
قومی یکجہتی میں سب سے بڑی روکاو ٹ بنتی ہیں۔
پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اس وقت تین الف ہیں جو پاکستان کی سا لمیت کے دشمن ہیں اور وہ کسی صورت میں پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے ، وہ اپنے ناپاک ارادوں سے پاکستان کو ہمیشہ نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ اور ان تین الف کو چوتھا الف مدد گار کے طور پر کام کر رہا ہے اور یہ چوتھا الف وہ واحد ملک ہے جس نے کبھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔انڈیا ، امریکہ اور تیسر ا الف اسرائیل ہے ان تینوں کو افغانستان نے ہمیشہ مدد دی ہے چونکہ افغانستان کا بارڈر پاکستان کی سر حد کے ساتھ ہے اور یہ لمباترین بارڈر ہے جو تقریباََ 2640 کلو میٹر پر محیط ہے۔ جس کے راستے یہ دشمن کو ملک کے اندر داخل کر دیتا ہے بزدل اور ڈرپوک دشمن چھپ کر وار کرتاہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی سالگرہ پر خطاب میں فرمایا تھا۔یا د رکھیے قیام پاکستان ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تاریخ عالم میں کوئی نظیر نہیں ملتی تاریخ عالم کی عظیم ترین مملکتوں میں اس کا شمار ہے او ر وقت کے ساتھ ساتھ اس کو اپنا شاندار کردار ادا کرنا ہے صرف شر ط یہ ہے کہ ہم دیانتداری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرتے رہیں مجھے اپنی قوم پر اعتماد ہے کہ وہ ہر موقع پر خود کو اسلامی تاریخ عظمت اور روایا ت کا امین ثابت کرے گی۔
سب سے پہلے میں سلام پیش کرتا ہوں قوم کے ان غیور فوجی بہادروں کو جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اس ملک کو بد امنی سے پاک کرنے میں اپنا کلیدی کردرار ادا کیا،دہشتگروں کے ارادوں کو خاک میں ملایا اور قوم کا سینہ ہمیشہ کے لیے چوڑا کر دیا ۔ پاکستانی پوری قوم اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ یہاں میں سلام پیش کرتا ہوں ملک کے غیوراور بہادر سپوت ڈی آی جی (ر)کیپٹن احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشن زاہد گوندل جنہوں نے ملک و قوم کی خاطرجام شہادت نوش کیا اللہ تعالیٰ ان پر کروٹ کروٹ رحمتیں برکتیں نازل فرمائے اور اہل خانہ کو صبرجمیل عطا فرمائے۔
جمہوریت میں جلسہ جلوس دھرنے اور اپنی اپنی دکانداری کرنا ، اپنے رائے کا اظہار کر نا جمہوریت کا حسن ہے ، اپنے حق کی خاطر آواز بلند کرنا سب کا جمہوری حق ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر دیکھا جائے جب ملک مسائل کا شکار ہو ہر طرف افرا تفری کی سی صورت ہو تو ایسے میں حکومت وقت کے ساتھ مل کر پالیسیز (حکمت عملی)بنانی چاہیے تا کہ ملک ترقی کرے نہ کہ لوگوں میں مزیدبے چینی کی صورت حال پیدا کرنی چاہیے ۔حال ہی میں حکومت وقت نے عسکری قیادت کے ساتھ مل کر آپریشن ردالفساد کے نام سے شروع کیا ہے جس کا مقصد امن دشمن قوتوں کو جڑ سے ختم کرنا ہے ۔ اس آپریشن کے شروع ہوتے ہی کچھ شر پسند عناصر سر گرم ہو گئے ہیں جو ملک میں خانہ جنگی پیدا کرنا چاہتے ہے جو دشمن کے مزموم ارادوں کو تقویت دے کر ان کی مدد کر نا چاہتے ہیں۔ ملک میں ایک نیا پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ پٹھان بھائیوں کو چن چن کر پنجا ب سے نکالا جا رہا ہے اور آپریشن ردالفساد کا مقصد صرف پنجاب سے پٹھان بھائیوں کو نکالنا ہے جس کی وجہ سے ماحول میں گرمی پائی جارہی ہے ٹیلی ویثرن پر مختلف پراگرامز میں بھی اس ہاٹ ایشو (شر انگیز مسلے) کو لے کر بات کی جارہی ہے جس سے ہمارے پٹھان بھائیوں دل میں نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے ۔پاکستان ایک غیو ر اور بہادر قوم ہے جو کسی بھی جارحیت کا بھر پور انداز میں جواب دینے کی اہلیت رکھتی ہے ۔
حا ل ہی میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے ایک تقریب سے خطاب کر تے ہوئے ان شر انگیز مسائل پر با ت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب میں سر چ اور کومبنگ آپریشن کسی ایک قوم کے خلاف نہیں بلکہ اس کا ہدف دہشتگرد او ر ان کے سہولت کار ہیں۔پٹھان بھائیوں کی شکایا ت کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں پختون بھائی ہمارے سر کا تاج اور ماتھے کا جھومر ہیں۔ قابل ذکر بات ہمسایہ ملک سے جعلی آئی ڈیز بنا کر لوگوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف مسخ شدہ تصوریریں لگا کر قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور یہ سرا سر ایک افواہ ہے اس کے علاہ کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ یہ لڑائی کسی ایک صوبے یا کسی ایک گروہ یا علاقے کی نہیں بلکہ یہ مسلہ پورے پاکستان کا ہے اس وقت تفرقہ بازی اور نفرت پھیلانے کی ضرورت نہیں بلکہ متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ یہ لڑائی سب کی لڑائی ہے، بلوچی ، سندھی، پختون اور پنجابی سب بھائی اور پاکستانی ہیں آزاد کشمیراور گلگت بلتستان کے بغیر پاکستان ادھورا ہے۔
دہشتگردوں کے خلاف آپریشن بلاتفریق کیا جا رہا ہے ، دہشتگردی کا واقعہ لاہور میں ہو یا سندھ میں بلوچستان میں ہویا پختون خواہ میں نقصان ہم سب کا ہے حادثوں کا شکار ہونے والے سب پاکستانی ہیں ۔ دہشتگروں کا نہ کوئی دین ہے نہ ملک ہے اور نہ ہی کوئی مذہب یہ صر ف پاکستا ن اور امن کے دشمن ہیں۔پختون پنجاب میں ہو یا سندھ میں کاروبار کرنا ان کا اتنا ہی حق ہے جتنا ایک پنجابی ، سندھی یا بلوچی کا۔سرچ آپریشن میں چادر اور چار دیواری کا تقدس کبھی بھی پامال نہیں کیا جائے گا۔ انشاء اللہ ملک میں بہت جلد امن قائم ہو گارونقیں بحال ہونگی اور میرے ملک میں بھی دن ہوگا کیوں کہ میں با لکل مایوس نہیں ہوں ۔
بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ۔
ملت سے اپنا ربط استوار رکھ
پیوستہ راہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ۔
مکمل تحریر >>