Thursday 29 December 2016

2016 بھی گذر گیا ، کیا کھویا یا کیا پایا by M tahir Tabassum Durrani



 2016 بھی گذر گیا ، کیا کھویا یا کیا پایا    
از قلم ۔ محمد طاہر تبسم درانی
بقول شاعر:۔
ملے خاک میں اہل شان کیسے کیسے 
مکیں ہوگئے لا مکاں کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں گھا گئی آسماں کیسے کیسے 
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
سنا تھاقیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی ہو گی ، سال مہینوں میں ، مہینے دنوں میں اور دن گھنٹوں میں بدل جائیں گے، 2016 ابھی کل کی بات ہے جب شروع ہوا ہر طرف مبارکباد دی جا رہیں تھیں، مگر حیرت ہوتی ہے حضرت انسان پر اپنی زندگی کا ایک سال کم ہونے پر خوشی کا اظہار کرتا ہے ، کیوں کہ زمانے کمپیوٹر اور میتھی میتھکس کا ہے تو سمجھنا زیادہ آسان ہوگا کہ کُل زندگی کا ایک اور وسال کم ہوگیا، گھڑی کی لگاتار ٹِک ٹِک انسان کی زندگی پر لگا تار کڑی ضربیں ہیں جو لمحہ لمحہ زندگی کو کم کررہی ہے اب زرا بتائیں کیا سال کے اختتام پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے یا اگلی زندگی کی تیاری؟ ہم کتنے ہوشیار بنتے ہیں صبح دفتر ، سکول ، کالج یا کام پر جانے کی تیاری رات کو ہی کر لیتے ہیں ، ناشتے کا سامان پہلے ہی منگوا لیتے ہیں ، سردیا ں آتے ہیں گرم کپڑے پہلے نکال لیتے ہیں ، مہمان کی آمد کا پتا چل جائے تو اس کے کھانے پینے کا بندوبست پہلے کر رکھتے ہیں کہیں ناک نہ کٹ جائے مگر اپنی آخری اور ابدی زندگی کی بات کی جائے تو کہتے ہیں : دیکھی جائے گی:
2016 کیا کھویا کیا پایا؟ یہ سال بھی ہمیشہ کی طرح کتنے دکھ درد چھوڑ گیا ، کتنے حسین چہرے اپنے ساتھ لے گیا اور بدلے میں دکھوں میں سسکتے ہونٹ اور ہچکیا ں چھوڑ گیا۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو ہر وقت حالت جنگ میں ہے حکومت وقت کے لیئے سب سے بڑا چیلنج اس ناسور سے کا سرے سے خاتمہ ہے ، فو جی جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اس ملکِ خداداد کو اس اذیت سے نکالنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں اور کامیابیوں سے ہمکنا ر بھی ہور ہے ہیں اگر دیکھا جائے تو اس سال پہلے کی نسبت ملک میں امن رہا جس کا سہرہ پاک فوج کو جاتا ہے جنہوں نے دشمن کو اپنے قدم چھوڑنے پر مجبور کیا اور ملک پاکستان میں امن قائم ہوا۔
پاک چائنہ راہداری منصوبہ کے تحت پہلا فیز(مرحلہ) نومبر2016 ء میں تجارت کے لیئے کھولا گیا ۔ اس منصوبے کی اہمیت سے کون واقف نہیں یہ منصوبہ پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور منصوبے کا سہرہ بھی یقیناً پاکستان آرمی کو جاتا ہے ۔
اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو ملک میں بہت سے ایسے واقعا ت رونما ہوئے جن سے دل خون کے آنسوروتا ہے کئی ماؤں کے لخت جگر ان کی ماؤں سے جدا ہوئے کئی گھر اجڑ گئے کئی بچے یتیم ہوئے تو کسی نے اپنے شوہر کو کھویا 2016 جہاں خوشیاں لایا تو وہیں غمگین اور سوگوار بھی چھوڑ گیا۔
جنوری 2016 ء کوئیٹہ میں بم دھماکہ ہوا جس میں 15 لوگ اور 13پولیس اہلکا ر بھی شامل ہیں جو لقمہ اجل بنے جبکہ 25 کے قریب لوگ زخمی ہوئے ۔
جنوری میں ایک اور سانحہ باچہ خان یونیورسٹی پر حملہ کی صورت میں ہوا ، جس میں جوان طالب علموں سمیت کئی قیمتی جانیں قربان ہوئیں ایک رپورٹ کی مطابق 22 لو گ شہید ہوئے جبکہ22 لوگ زخمی ہوئے اور 200 طلباء کو ریسکیو کیا گیا۔
فروری میں کوئٹہ پر ایک اورحملہ ہوا جس میں تقریباََ 9 لوگ مارے گئے، مارچ 2016 میں ضلع چار سدہ کی ایک مقامی عدالت پر خود کش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 10 لو گ جن میں تین پولیس اہلکار زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ14 زخمی ہوئے
مارچ 2016ء میں پشاور کی ایک بس پر حملہ ہوا جو گورنمنٹ ورکر کو لے کر جا رہی تھی جس کے نتیجے میں 15 افراد شہید جبکہ 25 افراد زخمی ہوئے
22جون 2016ء کو ایک صوفی گلوکار امجد صابری کو کراچی میں فائرنگ کر کے موقع پر ہلاک کر دیا گیا ۔ 
8جولائی 2016ء کو ایک پاکستانی بزرگ ہستی جو غریبوں کی دل کی دھڑکن تھے وہ اس دنیا فانی سے چل بسے ایدھی صاحب کو حکومت پاکستان نے مکمل عزت کے ساتھ دفن کیا، ایدھی صاحب کی جنازے میں شامل ہو کر ایدھی صاحب سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔
8 اگست 2016ء کو کوئیٹہ کے ایک سرکاری ہسپتال پر حملہ ہوا جس میں وکلاء کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 70 شہید جبکہ 130 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے
ستمبر 2016 ضلع مردان کی ایک عدالت پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 14 افرا د جان بحق جبکہ 52 افراد زخمی ہوئے
ستمبر میں ہی ایک اور خود کش حملہ سندھ ایک شہر شکارپور میں ہوا جس میں 13 پولیس اہلکار زخمی ہوئے
24 اکتوبر 2016 کو کوئٹہ پولیس ٹرینگ کالج پر حملہ ہوا جس میں 62 لوگ شہید ہوئے جبکہ 165 سے زیا دہ لوگ زخمی ہوئے
12 نومبر 2016 پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن جب دہشتگردوں نے ایک بلوچستان میں نورانی شاہ کے مزار پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 55 سے زیادہ لوگ شہید جبکہ 102 کے قریب لوگ زخمی ہوئے 
7 دسمبر 2016 پاکستان کا ایک اور سیاہ دن جب ایک پاکستان ائر لائنز کا طیار ہ مسافروں کو لے کر چترال سے اڑا جس میں سٹاف سمیت 47 لوگوں کو لیئے اپنی منزل کی طرف گامزن تھی کہ بد قمست طیارہ حادثہ کا شکار ہو گیا اور 47 لوگ اپنی زندگیوں کی بازی ہار گئے ۔ اسی طیارے میں مشہور گلوکا ر جو بعد میں اسلام کی طرف راغب ہو گئے اور اپنی ساری زندگی اسلام اور تبلیغ کے لیئے وقف کر دی ۔ اللہ تعالیٰ تمامسافروں سمیت جنید جمشید بھائی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور سب پر اپنی رحمتِ خاص عطا فرمائے آمین۔
پور ا سال دکھوں اور تکلیفوں میں گذرا تو اس کے اختتام پر کیسی خوشی؟
پور ا دسمبر گذر گیا اللہ کی رحمت یعنی بارش نہیں ہو رہی ہر طرف بیماریاں پھیل رہی ہیں جو کہ صرف ایک بارش کی وجہ سے ختم ہو سکتی ہیں ہم سب کو اللہ کے حضور گڑ گڑا کر مل کر دعا کرنی چایئے تا کہ بارش ہو۔ زراعت سے وابستہ لوگوں کی رپورٹ کی مطابق اگر موسم ایسے ہی خشک اور بارش کے بنا رہا تو قہت سا لی کا بھی خدشہ ہو سکتا ہے ۔ آئیں مل کراللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم سب پر اپنا خاص کرم فرمائے اور رحمت کی بارش کا نزول فرمائے اور ہمیں خرافات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
مکمل تحریر >>

Wednesday 28 December 2016

Muhammad Tahir Tabassum Durrani, selected as Finance Secretary of PFUC


With the grace of Almighty Allah Muhammad Tahir Tabassum Durrani, selected as Finance Secretary, of Pakistan Federal Union of Columnist


مکمل تحریر >>

Thursday 8 December 2016

پاکستان میں ہوائی حادثا ت ذمہ دار کون؟ از قلم ۔محمد طاہر تبسم درانی


http://www.abtak.com.pk/qaalam.htm
My article Daily Abtak Lahore today 0-12-16



مکمل تحریر >>

پاکستان میں ہوائی حادثا ت ذمہ دار کون؟ از قلم ۔محمد طاہر تبسم درانی wordreel.blogspot.com tahirdurrani76@gmail.com



پاکستان میں ہوائی حادثا ت ذمہ دار کون؟
از قلم ۔محمد طاہر تبسم درانی
wordreel.blogspot.com
tahirdurrani76@gmail.com
پاکستان کی تاریخ بے شمار قربانیوں اور واقعات سے لیس ہے ، جب سے ملک آزاد ہوا ہے ہم ایک قوم نہیں بن سکے ، سنا تھا قیامت کا دن ہو گا سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی ، بیٹا باپ کو نہیں پہچانے گا بیوی شوہر کو نہیں پہچانے گی نفسا نفسی کا عالم ہوگا،مگر اگر یقین کی نظر سے دیکھیں تو ہمارے ملک کا حال اب سے ہی قیامت خیز ہے ۔ہم زندوں کے ساتھ عداوت تو مروں کو کندھا دینا فرض سمجھتے ہیں، عمرے پے عمرے کیے جا رہے ہیں مگر اپنے ہی گھر میں غریب بھائی کی مدد کرنے میں اپنی توہین محسوس کرتے ہیں ، اللہ جلہ شانہ نے ریا کار ی سے منع فرمایا ہم جب تک پورے محلے کو بتا نہ دیں نیکی کو نیکی نہیں سمجھتے ، بحثت قوم ہم مردہ ہو چکے ہیں ،قدرتی آفات و حادثات میں انسان بے بس ہے مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم سے نوازہ ہے اور اپنی حفاظت کے لیئے اس عقل کو استعمال کرنے کو کہا ہے ۔ ہمیں واقعات بھولنے کی بیماری ہے ہم بہت جذباتی قوم ہیں سزا جزا کا فیصلہ بھی خود کرنا پسند کرتے ہیں۔ آیئے میں آپکی یاداشت تازہ کرنے میں مدد کرتا ہوں ویسے تو ضرورت نہیں کیوں کہ انٹر نیٹ کا زمانہ ہے لیکن ہم میں سے بہت سے ایسے افراد ہیں جو پکی پکائی دیگ کا ہی مزہ لیتے ہیں۔
26مارچ 1965 کو لورائی کے قیریب ہوائی حادثے میں تقریباََ 18 کے قریب اموات ہوئیں۔
پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز(PIA)کا فوکر طیارہ ایف 27 ، 25 اگست 1989ء جس نے 7.36 منٹس پر اُڑان بھری اور ہمالیہ کی پہاڑیوں میں کھو گیا آخری اطلاع 7.40 پر مو صول ہوئی اس کے بعد آج تک اس طیارے کی آج تک کوئی خبر نہیں ملی ، اس وقت بھی یہی بیان دیے گئے کہ کمیٹی بنا دی گئی ہے اور جلد اس کی رپورٹ منظر عام پر آ جائی گی اور عوام کے سامنے پیش کر دی جائے گی۔ اس فوکر طیارے میں 49 لوگ سوار تھے جبکہ کرو سٹاف کے 5 لوگ شامل تھے اس طرح کل 54 لوگ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیئے اپنے پیاروں کو سوگوار چھوڑ کر چلے گئے۔
جنرل ضیا ء الحق جو پاکستان کے فور سٹار آرمی رینک جنرل تھے جو کہ ایک جہاز حاثہ میں شہید ہوئے جنرل صاحب ایک سرکاری دورے پر بہاولپورسے واپس آ رہے تھے کہ 17 اگست 1988 کو ملٹری کے طیارے سی 130- نے اُڑان بھرنے کے چند منٹس بعد ہی تباہی کا شکار ہو گیا اس طیارے میں مقامی اور بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے 31 لوگ اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ اس پر بھی تحقیقاتی کمیٹی بنی اور آج تک طیارے کی فنی خرابی یا دیگر کسی بھی قسم کی کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔
10جولائی 2006 کے د ن کے 12:05 منٹس پرملتان ایئر پورٹ سے پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز(PIA)کا فوکر طیارہ ایف 27 اکتالیس افراد کو لے کر اپنی منزل لاہور کی طرف گامزن تھا کہ اُڑان بھرنے کے بعد دونوں انجن بند ہونے کی وجہ سے حادثہ پیش آیا اور گر کر تباہ ہو گیااس میں 4 ائر کرو سمیت 41 لوگ لقمہ اجل بنے اس کی بھی تحقیقاتی کمیٹی بنی اور بنی ہی رہ گئی لواحقین کو صرف صبر کر نے کی تلقین اور حادثے کی جلد رپوت پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک اور رنجیدہ دن جب ائر بلو کا بد قسمت طیارہ ائر بس اے 321- -231-کراچی سے بے نظیر انٹرنیشنل ائر پور ٹ اسلام آباد کے لیئے 146 مسافر اور 6 ائر کرو کو لے کر روازنہ ہوئی اور اسلام آباد میں داخل ہوتے ہوئے مارگلہ کے پہاڑوں سے ٹکرا گئی اور مکمل طور پر تباہ ہو گئی اس میں 152 لوگ اپنی زندگیوں کی بازی ہار گئے ۔ اب کے بار بھی وہی رویہ وہی بیانات مگر رزلٹ آج کسی کو معلوم نہیں ہو سکا۔
20 اپریل 2012 ایک اور سیا ہ دن جس دن 127 لوگ لقمہ اجل بنے بھوجا ائر کا بد قسمت طیارہ جناح ائر پورٹ کراچی سے اسلام آباد بے نظیر انٹر نیشنل ائر پور ٹ کے لیئے 121 مسافروں اور 6 ائر کرو کو لیئے اپنی منزل کے قریب پہنچا تو بوئنگ (Boeing 737-236A) راولپنڈی کے قریب حسین آباد گاؤں میں گر کر تباہ ہو گیا اس پر بھی کمیٹی بنی مگر کوئی خاطر خواہ رزلٹ آج تک نہیں ملا۔
7 دسمبر 2016 بروز بدھ شام 4:30 منٹس پر ایک اور خوفنا ک حادثہ پیش آیا جب پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز(PIA) پی کے661- ، 46 چھیالیس مسافروں کو لے کر چترال سے اڑا اور اپنی اڑان کے چند منٹس کے بعد اس کے ایک انجن میں آگ لگ گئی جس کے باعث طیار ہ حادثہ کا شکار ہو گیا اور حادثہ میں مشہور سنگر جو بعد میں تبلغ کی طرف آگئے جنید جمشید بھائی اپنی اہلیہ کے ہمراہ اسی طیارے حادثے میں شہید ہو گئے بحث انسان و مسلمان ہم سب تمام حادثات میں شہید ہونے والوں کے درجات کی بلندی اور بخشش کے لئے دعا گو ہیں۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایسے واقعا ت جب بھی رونما ہوتے ہیں اس کے بعد ایک کمیٹی بنا دی جاتی ہے جو تحقیقات کرتی ہے مگر نتیجہ عوام تک کبھی نہیں پہنچتا ایسا کیوں؟
ہر حادثے کے بعد ہی سخت ایکشن لیا جائے گا ، مگر پہلے اس کی فٹنس پر کمپرومائز کیوں؟
سول ایوایشن کی ذ مہ داریاں کیا ہیں ؟
ہر بار ادراے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر دیتے ہیں حکومتی اہلکار مذمتی بیان پر ہی اکفتاہ کرتے ہیں سزا کیوں نہیں ؟
کیا کوئی قانون ہے جو اپنوں کی جدائی پر لواحقین کو انصاف فراہم کرے؟
یا ہم صرف لاشوں کو اٹھانے کا کام کرتے رہیں گے ؟
کبھی تو میرے ملک میں بھی دن ہوگا

مکمل تحریر >>