Friday 22 June 2018

ماہنامہ پھول میگزین۔۔۔نوائے وقت میں وعدوں سے تکمیل پر تبصرہ

http://www.phool.com.pk
Page no .66-67
ماہنامہ پھول میگزین۔۔۔نوائے وقت میں وعدوں سے تکمیل پر تبصرہ




مکمل تحریر >>

Eid al-Fitr celebrations around the world By M Tahir Tabassum Durrani

Eid al-Fitr celebrations around the world 
Sunday Magazine Jehan Pakistan
www.jehanpakistan.pk

Eid al-Fitr celebrations around the world 


عید کے لفظی معنی خوشی ، مسرت و شادمانی کے ہیں۔ اسلام ایک مکمل ظابطہ حیا ت ہے اور وہ انسان کو آسانی اور راحت کی زندگی گذارنے کے طریقے سیکھاتا ہے ۔اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو، میں اکثر سوچتا ہوں کہ میرا اللہ کتنا بڑا رحیم اور کریم ہے کہ اس نے مزدور کو اتنے بڑے حق سے نوازا، تو وہ ذات پھر اپنے مقرب بندوں کو کیسے کیسے نوازتی ہوگی!مقرب بندوں سے مراد جو اللہ کریم کے احکامات بجا لاتے ہیں ، سرکشی نہیں کرتے بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق اپنی زندگیوں کو گذارتے ہیں تو اللہ اُن کو کس شان سے نوازتے ہیں۔جب ایک مسلمان گرمی کی شدت میں اس کو راضی کرنے کے لیے چلتا ہے،سورج کی حرارت کے باجود اس کی خاطر بھوکا پیاسا رہتا ہے،موسم کی شدت کو دیکھے بغیر ننگے پاؤں اس کے گھر کا طواف کرتا ہے،یقیناً اس کی محنت کا صلہ... اس کے عمل کا اجر... اس کی مشقت کا انعام... دینے میں وہ کیسے تاخیر کر سکتا ہے؟ یقیناً وہ بھی اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسے عطا کرتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشا د باری تعالیٰ ہے (سورۃ الاعلیٰ آیت نمبر ۱۵) ترجمہ ’’ بے شک مُراد کو پہنچاجو ستھرا ہوا،اور اپنے رب کا نام لے کرنما ز پڑھی۔اگر اس آیت کریمہ کی تفسیر کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ستھرا ہونا سے مُراد صدقہ فطر دینااور رب کا نام لینے سے عید گاہ تک تکبیریں کہنااور نماز سے مراد نماز عید ہے۔ماہ صیام میں صدقہ فطر کی وہ حیثیت ہے جیسے نماز میں سجدہ سہو، یعنی رمضان کے روزے رکھنے کے دوران جو غلطی کوتاہی سر زد ہو جاتی ہے اُن غلطیوں کا کفارہ صدقہِ فطر کے طور پر ادا کر دینے سے اُن غلطیوں کی معافی مل جاتی ہے دوسرا یہ کہ غریب لوگوں کی مدد بھی ہو جاتی ہے ایسے لوگ جو عید کی خوشیوں سے محروم ہوتے ہیں ان کو صدقہِ فطر دینے ان کی مدد ہو جاتی ہے جس سے معاشرے میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے ۔ 
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تم (رمضان البارک کی)مطلوبہ گنتی پوری کرو اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے ہدایت دی تاکہ تم شکرادا کرو. احادیث مبارکہ میں آیا ہے کہ عید الفطر کی رات فرشتے حکم الہٰی سے راستوں اور گلیوں میں ندا کرتے ہیں: ’’اے مسلمانو! تمہیں اِس ماہ مبارک کے روزے رکھنے کا حکم تھا، تم بجالائے۔ تمہیں راتوں میں نماز پڑھنے کا حکم ملا،تم کا ربندر ہے، اب اُٹھو اور عید گاہ میں جاکر اپنے پروردگار کے سامنے صف بستہ مؤدب کھڑے ہو جاؤ، جب تم وہاں سے لوٹو گے تو تمہارے سب گناہ بخشے ہوئے ہوں گے۔‘‘ حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ عید الفطر کی رات کو فرشتے گلی کُوچوں میں صدادیتے ہیں، جسے جِنّ و انسان کے سوا تمام مخلوق سُنتی ہے:’’اے امت محمدؐ اپنے پروردگار کے حضور آؤ۔ تمہارا پروردگار بے حد بخشنے والا ہے۔ چھوٹی سی نیکی بھی قبول کرلیتا ہے۔ اور بہت بڑا گناہ معاف کردیتا ہے۔‘‘ جب لوگ عیدگاہ میں صف بستہ باادب حاضر ہوتے ہیں توا للہ تعالیٰ پوچھتا ہے ’’اے فرشتو! بتاؤ کہ محنت سے اپنا کام کرنے والے مزدور کا معاوضہ کیا ہونا چاہیے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: ’’یااللہ! معاوضہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری دی جائے۔‘‘ ارشاد ہوتا ہے: ’’اے فرشتو! گواہ رہو، میں اپنے نیک بندوں کو رمضان کے روزے اور راتوں کی نمازوں کے بدلے اپنی خوش نُودی اور ان کے گناہوں کی مغفرت سے مالا مال کرتا ہوں۔‘‘ 
عید کی خوشیوں اور رسم و رواج کا آغاز یکم شوال یا عید کا چاند نظر آجانے کے ساتھ ہی ہوجاتا ہے، رمضام المبارک اسلامی مہینوں میں مبارک و برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے، جب کہ شوال اسلامی کیلنڈر کا دسواں مہینہ ہے۔ رمضان المبارک میں قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا، مسلمانوں پر روزے فرض کیے گئے،نمازِ تراویح، شبِ قدراس مہینے کی خاص عبادات اور تحفے ہیں۔ چھوٹے اپنے بڑوں کو چاند کا سلام کرتے اور بڑے ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں۔ عید الفطر کا دن پور ی دنیا کے مسلمان جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔
پاکستان میں عید الفطر
پاکستان میں تو جیسے ہی شوال کے چاند کے نظر آنے کی خبر ملتی ہے لو گ چاند رات کو بھی خوب انجوائے کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اعتکاف میں بیٹھے اپنے پیاروں کو مسجد سے واپس گھر وں کو ٹولیوں کی شکل میں نعت خوانی کرتے اور اللہ کا ذکر کرتے واپس لاتے ہیں جو کہ ایک بہت ہی خوب صورت محفل نعت کا سا سماں ہوتا ہے ہرچہرہ مسکرا رہا ہوتا ہے ، خواتین چاند رات کو خوب بناؤ سنگھار کرتی ہیں ، ہاتھ پاؤں کو مہندی کے ڈیزاینوں سے خوب سجاتی ہیں ، رنگ برنگے، بھڑکیلے کپڑے پہنتی ہیں لیکن کچھ گھریلوخواتین کا سار ا وقت کچن میں کھانا بنانے اور مہمانوں کی مہمان نوازی میں گذر جاتا ہے ، اصل عید تو بچوں کی ہوتی ہے ، بچوں کو پیسوں کی شکل میں خوب عیدی ملتی ہے جسے وہ اپنی مرضی سے خرچ کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ عید کے دن صبح سویرے لوگ نماز عید کے لیے تیار ہو جاتے ہیں نئے کپڑے پہنتے ہیں ، خو شبو لگاتے ہیں ، کوئی میٹھی چیز کھاتے ہیں چاہے کھجور ہی کیوں نہ ہو پھر مسجدوں ، عید گاہوں کا رُخ کرتے ہیں، نماز عیدالفطر ادا کرنے کے لیے مسلمان ایک راستے سے جاتے ہیں جبکہ دوسرے راستے سے واپس آتے ہیں،راستوں میں تکبیرات کی صدائیں اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الااللہ واللہ اکبراللہ اکبر وللہ الحمدبلند کرتے مسجدوں ، عید گاہوں کی طرف جاتے ہیں۔دو رکعت عیدالفطر ساتھ زائد چھ تکبیرات کے نماز مکمل کرنے کے بعدایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں، رمضان کے روزوں ، تراویح اور عید کی مبارکباد دیتے ہیں اجتماعی دعا کی جاتی ہے جس میں مسلم اُمہ اور ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کی دعائیں بھی کی جاتی ہیں ، موبائل فون ، انٹرنیٹ فیس بُک نے ایک بہت خوبصورت رسم کو بالکل ختم کر ڈالا ہے ، لوگ اپنے پیاروں کو مہنگے دیدہ زیب اور 
خوبصورت عیدکارڈ بھیج کر اپنی محبت اور خلوص کا اظہار کرتے تھے لیکن اب یہ رسم بالکل ناپید ہو کر رہ گئی ہے ،بس واٹس ایپ یا دیگر سوشل میڈیا پر ورچوئلی ہی عید کی مبارکباد دے دی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر جا کر فاتحہ خوانی کرتے ہیں قبروں کی مرمت کرتے ہیں اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ چونکہ یہ میٹھی عید کہلاتی ہے اس لیے اس عید پر حلوائی اور مٹھائی کی دکانوں پر خو ب رش ہوتا ہے لو گ اپنے پیاروں کو مختلف قسم کی مٹھائیاں، کیک، رس گُلے، گُلاب جامن، میٹھی سویاں، پھیونیاں حلوہ جات ایک دوسرے کے گھروں میں تحفے کے طور پر بھیجنے کا رواج قائم ہے ۔
سعودی عرب میں عیدالفطر
سعودی عرب میں بھی عید خوب مزے اور جوش و جذ بے سے منائی جاتی ہے ، شہری اپنے اپنے رشتے داروں سے ملنے جاتے ہیں ، گلے ملتے ہیں مختلف قسم کے پکوان بنا کر رشتے داروں عزیز و اقارب اور دوستوں کی خوب تواضع کرتے ہیں۔گھروں کو خوب سجایا جاتا ہے ۔نماز عید کے بعد سب خاندان آبائی گھروں میں جمع ہوتے ہیں بچوں کو تحفے سے بھرے بیگ دیے جاتے ہیں جن میں چاکلیٹ، کینڈیز وغیرہ ہوتی ہیں یہ بچوں کی خوب عیدی ہوتی ہے ۔سعودی عرب کی ایک یہ بھی روایت ہے کہ لوگ بڑی بڑی مقدار میں چاول اور دیگر اجناس خرید کر غریب لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں تا کہ وہ بھی عید کو خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
امریکہ میں عیدالفطر
دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح امریکہ میں مسلمان عید کی نماز کی ادائیگی کے لیے اسلامک سینٹرز میں اکٹھے ہوتے ہیں اور اس موقع پر پارک میں بھی نماز کی ادائیگی ہوتی ہے اور عید کی تقریبات تین دن تک جاری رہتی ہیں۔تمام مسلمان مل کراللہ جلہ شانہ کے حضور سجدہ بسجود ہو کر شکر ادا کرتے ہیں گلے ملتے ہیں اور عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔ مخیر حضرات اس بابرکت موقع پر بڑی بڑی پارٹیوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ اسلامک سینٹرز میں عید ملن پارٹیوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ بچوں کو عیدی دی جاتی ہے جبکہ خاندان آپس میں ایک دوسرے کو تحفے/ تحائف دے کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
چین میں عیدالفطر
عوامی جمہوریہ چین میں بھی مسلمان طبقہ کو عید منانے کی اجازت دی گئی ہے عید کے روز مسلم اکثریتی علاقوں میں سرکاری چھٹی ہوتی ہیں،ان علاقوں کے رہائشی مذہب سے بالاتر ہو کر ایک سے تین روز تک کی سرکاری چھٹی کر سکتے ہیں۔ یہاں پر بھی مسلمان اپنے رسم و رواج اور اسلامی اقدار کے مطابق عید مناتے ہیں ۔
انڈونیشیا میں عیدالفطر
انڈنیشیا میں عیدالفطر بڑے مذہبی جوش و جذبے او ر اسلامی اقدار کے عین مطابق منایا جاتا ہے ۔یہاں کے لوگ عید کے پُر مسرت دن پر ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کردیتے ہیں تمام شکوے گلے مٹا کر ایک دوسرے کے بغل گیر ہوتے ہیں اور اسلامی اخوت کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ جیسے پاکستان میں چاند رات منانے کی اہتما م کیا جاتا ہے ایسے ہی انڈو نیشیا میں بھی چاند رات منانے کا خوب اہتمام کیا جاتا جسے ان کی زبان میں ’’تیکرائن‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس رات سب لو گ مل کر ’’ ماشاء اللہ ‘‘ کہتے ہیں ، جس سے ماحول گونج اٹھتا ہے جبکہ گلیوں بازاروں میں نعرہ تکبیر بلند کیا جاتا ہے جو کہ ایک خوبصورت روایت ہے ۔گھروں کے دروازوں پر لالٹین ، موم بتیاں اور دیے جلا کر رکھے جاتے ہیں جو کہ ایک خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔یہاں عید کو ’’ عید الفطری اولیباران‘‘ بھی کہا جاتا ہے شاپنگ سنٹر پر خوب رش ہوتا ہے لوگ عید کے لیے بڑے بڑے شاپنگ مالز کا رخ کرتے ہیں۔پرانی تلخیاں بھلا کر ایک دوسرے سے معافی مانگی جاتی ہے اور سسرالی خاندان کے خصوصی دورے کیے جاتے ہیں۔
ترکی میں عیدالفطر 
ترکی میں عیدالفطر بڑے جوش اور جذبے سے منائی جاتی ہے یہاں کا ایک نہایت خوبصورت انداز یہ کہ بزرگوں کے دائیں ہاتھ پر بوسہ دے کران کی عزت وتکریم کی جاتی ہے بچے اپنے رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں عید کی مبارکباد دیتے ہیں اور اپنی عیدی وصول کرتے ہیں۔یہاں کی مشہور سوغات ‘‘بکلاوا ‘‘نامی مٹھائی ہے جو لو گ ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیتے ہیں۔اس کے علاہ رقم اور چاکلیٹ بھی تحفے کے طور پر دیتے ہیں۔ترکی میں عید کے دن مکمل چھٹی ہوتی اور لوگ عید کو خوب مزے سے گذارتے ہیں اور رشتہ داروں سے ملنے جاتے ہیں۔
برطانیہ میں عیدالفطر
برطانیہ میں عیدالفطر قومی تعطیل کا دن نہیں مگر یہاں بیشتر مسلمان صبح نماز ادا کرتے ہیں اس موقع پر مقامی دفاتر اور اسکولوں میں مسلم برادری کو حاضری سے استثنیٰ دیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیائی مرد جبہ اور شیروانی میں ملبوس نظر آتے ہیں جبکہ خواتین شلوار قمیض سے عید کا آغاز کرتی ہیں اور مقامی مساجد میں نماز ادا کر کے دوسروں سے ملا جاتا ہے۔یہاں پر بھی اپنے پیاروں سے ملنے ملانے اور تحفے تحائف دینے اور مبارکباد دینے کا سلسلہ پورا دن جاری رہتا ہے جبکہ مٹھائیاں اور روایتی پکوان ایک دوسرے میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔
نائیجیریا میں عیدالفطر
نائیجیریا میں عید کو‘چھوٹی’’ صلوۃ‘‘کانام دیا جاتا ہے اور لوگ مل کر اس دن کو مذہبی جوش و جذبے سے مناتے ہیں، اس موقع پر تین دن کی تعطیلات بھی دی جاتی ہیں۔
مصرمیں عیدالفطر
مصرمیں عید تین روزہ تہوار کے طور پر منائی جاتی ہے۔ عید کے موقع پر یونیورسٹیوں، اسکولوں اور سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں عام تعطیلات ہوتی ہیں اور عید کے موقع پر بڑے بڑے سٹورز اور ریسٹورانٹس بھی بند رہتے ہیں۔ عید کے دن کے آغاز پر بڑے بچوں کو لے کر مساجد کا رخ کرتے ہیں جبکہ خواتین گھر میں اہتمام کرتی ہیں۔ عید کی نماز کے بعد ہر کوئی ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیتا ہے۔ پہلے دن کو خاندان دعوتوں میں مناتے ہیں جبکہ خواتین کے لیے خصوصی تحائف کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔
ملائیشیا میں عیدالفطر
ملائیشیا میں عید کا مقامی نام’’ ہاری ریا عیدالفطری‘‘ ہے جس کا مطلب ہے کہ منانے والا دن، ملائیشیا میں عید کے دن لوگ خصوصی لباس پہنا جاتا ہے اور گھروں کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے جاتے ہیں تاکہ خاندان، ہمسائے اور دوسرے ملنے والے لوگ آ جا سکیں۔ عید پر روایتی آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے جس میں چین سے خصوصی طور پر منگوائے گئے کریکرز استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس آتش بازی کو دیکھنے کے لیے چھوٹے بڑے بچے، عورتیں بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ ملائیشیا میں عید کے موقع پر بچوں کو عیدی دی جاتی ہے جیسے‘دوت رایا’کہا جاتا ہے
بنگلہ دیش میں عیدالفطر
یہاں پر بھی دیگر مسلمان ممالک کی طرح دن کا آغاز نماز عید الفطر سے ہوتا ہے لوگ صبح سویرے نئے کپڑے پہن کر عیدگاہوں ، مسجدوں کا رُک کرتے ہیں ۔بنگلہ دیش میں بھی عید کا تہوار تین روز تک منایا جاتا ہے اور سرکاری چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ اور اس کے بعد رشتہ داروں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ عید کے موقع پر زکوٰۃ اور فطرانہ بھی دیا جاتا ہے۔ گھروں میں خصوصی دعوتوں کا اہتمام ہوتا ہے اور خواتین اپنا ایک ہاتھ مہندی سے سجاتی ہیں۔
تیونس میں عید الفطر
تیونس میں عید الفطر تین سے چار روز تک منائی جاتی ہے جن میں صرف عید کے پہلے اور دوسرے روز ہی چھٹی ہوتی ہے۔ دوستوں اور عزیزوں کی تواضع کے لیے خاص کوکیز بنائے جاتے ہیں جن میں ترکی کی روایتی مٹھائی اور کئی طرح کے کیک بھی شامل ہوتے ہیں۔
عید کے دن رقص و موسیقی کی محافل سجائی جاتی ہیں جب کہ تحفے تحائف دینے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ شام کے وقت عید کی مناسبت سے خاص طور پر تیار کیے گئے پکوان دستر خوان کی زینت بنتے ہیں۔
افغانستاں میں عیدالفطر
عیدالفطر افغانستان کے مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل دن ہے جسے تین دن تک پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ پشتو بولنے والی برادری عید کو ’’کوچنائی اختر‘‘کہتے ہیں ہیں۔ عید کی تیاری دس روز پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے گھروں کی صفائی ہوتی ہے اور عید سے چند روز قبل بازاروں کا رخ کیا جاتا ہے تاکہ مٹھائیاں اور نئے کپڑے خریدے جا سکیں۔ عید کے خوبصورت موقع پر مہمانوں کی تواضع کرنے کے لیے جلیبیاں اور کیک بانٹا جاتا ہے جسے ’’واکلچہ ‘‘کہا جاتاہے۔لوگ عید والے دن لوگ گلے ملتے ہیں۔ نئے کپڑے پہنتے ہیں دوستوں اور مہمانوں کی خوب خاطر مدارت کرتے ہیں۔
دیگر اسلامی ممالک میں عیدالفطر
رمضان المبارک کی بابرکت سعا دتوں میں 14رمضان کے بعد خلیجی ممالک (گلف ریجن )ایک رمضا ن میلے کا انقعا د کرتے ہیں۔ہر ریجن اس کا انعقاد مختلف ناموں سے کر تا ہے۔گارنگیوں اورگاراگاؤ ایک روائتی بچوں کا عید تہوار ہے۔جو کہ چودہ رمضان یعنی کہ وسط رمضان سے عید کی تقریبات کے سلسلے کی شروعات ہے۔ اس تہوار میں بچے اپنے خوبصورت لباس میں اپنے پڑوسیوں کے ہاں جاتے ہیں اور وہ پیار سے تحفے دیتے ہیں۔ یہ تہوار خلیجی ممالک میں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ مثلاً قطر اور بحرین میں اسے ’’گاراگاؤ‘‘سعودی عرب میں ’’کارکیان یا کاریکان‘‘۔ کویت میں ’’گارگیان‘‘ عراق میں ’’الماجینا کرکیان‘‘ عمان میں ’’گارنگاشوچ‘‘ اطبلاح یا قارناکوش اور ہیگ الیلا متحدہ عرب عمارات میں کہا جاتا ہے۔دادیاں ، نانیاں(grandmothers) رمضان کے آخری عشرے میں شام کے وقت تحفے لے کر اپنے اپنے گھر کے دروازوں پر بیٹھ جاتی ہیں اور تحفے بانٹتی ہیں۔
بحرین میں عید کی تقریبات پانچ روز تک منائی جاتی ہیں اور پندرہ رمضان ہی سے تیاریاں کی جانے لگتی ہیں۔ عراق میں لوگ صبح نماز عید ادا کرنے سے پہلے ناشتے میں بھینس کے دودھ کی کریم اور شہد سے روٹی کھاتے ہیں۔ مصر میں عیدالفطر کا تہوار چار روز تک منایاجاتا ہے۔
عرب ممالک میں قدیم روایات کے ساتھ وہ جدید یعنی نئے کھانے بھی رواج پاگئے ہیں جن میں فاسٹ فوڈ بھی شامل ہے۔ عید کے روز عربوں کی سب سے پختہ روایت اعلیٰ اور قیمتی لباس زیب تن کرکے رشتے داروں اور دوستوں کے گھر جاکر ملنا ہے۔ شام کے وقت عید کے سلسلے میں منعقد کردہ میلے اس تہوار کی رونق کچھ اور بڑھا دیتے ہیں۔ دیہات میں اونٹوں کی ریس کا بھی رواج ہے۔
الغرض پوری دنیا کے مسلمان عید کے اس پُر وقار اور عالیشان دن کو خوب مناتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں
مکمل تحریر >>

Tuesday 12 June 2018

Nishan E Haider and Story of Sowar Muhammad Husain Shaheed 6th Episode by M Tahir Tabassum Durrani


Nishan E Haider and Story of  Sowar Muhammad Husain Shaheed by M Tahir Tabassum Durrani


مکمل تحریر >>

Monday 4 June 2018

Nishan E Haider and Story of Major M Shabir Shareef Shaheed by M Tahir Tabassum Durrani




از قلم ۔محمد طاہر تبسم درانی

سلسلہ وار نشانِ حیدر کی پانچویں قسط

28 سال کی عمر میں پاک فوج کاسب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر پانے والے پانچویں عظیم انسان قومی ہیرو میجرشبیر شریف کی یاد میں تحریر
شہید کی جو موت ہے ، وہ قوم کی حیات ہے 
شاعر نے سمند ر کو کس خوبصورت انداز سے کوزے میں بند کیا ہے اگر اس شعر کی گہرائی میں جائیں تو اس شعر کی حقیقت معلوم ہو گی کہ وہ کون ساجذبہ ہوتا ہے وہ کون جوان ہوتے ہیں جو اپنی خوبصورت زندگیوں کو ملک و ملت کی بقا ء اور حُرمت پر قربان کر دیتے ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی سے قوم امن اور سکون کی زندگی بسر کرتی ہے ،اس میں زرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں کہ پاک فوج کی جوان اپنی بہادری اور جرت کی وجہ سے پور ی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام اور حیثیت رکھتے ہیں جذبہ شہادت دوسرے ممالک کی افواج سے پاک فوج کو ممتا ز کرتاہے ان بہاد ر اور نڈر فوجی جوانوں کی وجہ سے قوم کو زندگی ملتی ہے ۔
موت ایک مسلمہ حقیقت ہے جس نے ایک نہ ایک دن ضرور آنا ہے ۔ یہ نہ جوانی دیکھتی ہے نہ بڑھاپا ۔ یہ نہ صحت دیکھتی ہے نہ بیماری نہ ہی جاہ و جلال اور نہ ہی مرتبہ۔اور وہی لوگ زندہ و جاوید کہلاتے ہیں جو اپنی زندگی کو اللہ کی راہ میں اور ملک و قوم کی عزت و بقاء پر قربان کر دیتے ہیں اور جنت میں اعلیٰ مقام حاصل کرتے ہیں۔کبھی ہم نے سوچا جب سخت سردی کے موسم میں ہم گرم بستر کے مزے لُوٹ رہے ہوتے ہیں ہمارے یہ جوان بائیس ہزار فٹ کی بلندی پر سیاچین کے گلیشئر پر جہاں سردی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ خون رگوں میں منجمد ہو جاتا ہے ، جب سخت گرمی میں ہم اپنی بیوی بچوں کے ساتھ مل کر ائر کنڈیشنز میں مزے لے رہے ہوتے ہیں یہ فوجی جوان سرحدوں پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں ہوتے ہیں ۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور پاک فوج میں شمولیت اختیار کرنے والا جوان تنخواہ لینے کی غرض سے شمولیت اختیار نہیں کرتا بلکہ اُ س کے اندر ایک جذبہ ہوتاہے کہ وہ اپنے ملک کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے شہید کہلائے گا اورجنت میں اعلیٰ مقام حاصل کرے گا۔ حالا نکہ دنیاوی زندگی کی بارے وہ جانتا ہے کہ اپنا کاروبار شروع کر کے مزے کی آزادانہ زندگی بھی گذار سکتا ہے ، وہ یہ بھی جانتا ہے سیاست میں اپنا نام کما سکتا ہے اور بعد میں اپنی نسل کو بھی سیاسی مقام دلا کر عیش و عشرت کی زندگی گذار سکتا ہے اُسے یہ بھی معلوم ہے کہ یورپ کا ویزہ لگا کر عیاشی کی زندگی بسر کر سکتا ہے لیکن ایک جذبہ جو اسے پاک فوج میں شامل ہونے پر مجبور کرتاہے وہ ہے زندہ رہا تو غازی اور اگر ملک و قوم کی بقاء کے لیے لڑتے لڑتے مارا گیا تو شہید کا رتبہ ملے گا۔شہید کے بارے قرآن پاک میں اللہ کریم کا ارشاد پاک ہے جس سے شہید کے رتبے کی اہمیت واضح ہو تی ہے ۔۔سورۃحج آیت نمبر۵۸ ترجمہ’’ اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی اور پھر قتل ہوگئے ،یا انہیں موت آگئی،تو یقیناًانہیں اللہ کریم بہترین رزق عطا کریں گے کہ بے شک وہ بہتر رزق دینے والاہے ‘‘
پاکستان کی معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے اور اسے ختم کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے اور وہ کسی نہ کسی صورت میں نقصان پہنچانے میں کوئی نہ کوئی حربہ اختیار کرتا رہتا ہے لیکن ہمیشہ ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے ۔ پاکستانی فوجی جوان بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کرتے ہی رہتے ہیں۔ ہمیں اپنی فوج پر مکمل بھروسہ اور اعتماد ہے کہ وطن عزیز پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اور ماضی میں بھی ملتی ہے ۔قوموں/ ملکوں کی تاریخ میں کبھی کچھ ایسے دن بھی آجاتے ہیں جو بڑی بڑی قربانی مانگتے ہیں۔ماؤں سے ان کی لخت جگر ، بوڑھے باپ سے اُس کا چشم و چراغ، بیوی سے اُس کا سہاگ، بیٹی سے اُس کے باپ کا مطالبہ کرتے ہیں۔پھر قربانی کی داستانیں رقم ہوتی ہیں۔ کچھ جام شہادت نوش کر کے ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سُرخرو ہوتے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ اللہ نے ہمیں مسلمان پیدا کیاہمیں شہادت ملے یا غازی دونوں پر ہی فخر ہے ۔ 
6 ستمبر 1965ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا دن ہے جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔اِن کاخیال تھا کہ وہ پاکستان پر حملہ کرکے اسے کمزور کر دیں گے۔ ان کے جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ راتوں رات پاکستان کی اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے اور لاہور ناشتہ کریں گے۔ لیکن انہیں پاکستانی فوجی جوانوں کے جذبے مہارت اور پاکستانی قوم کا درست اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس غیور اور نڈر بہادر سپوتوں کے ساتھ لڑائی کرنے جا رہے ہیں ۔ وہ جذبہ وہ جرت قابل رشک تھی جب افواج پاکستان اور عوام نے مل کر دشمن کا مقابلہ کیا اور سیسہ پلائی دیوار بن کر حملے روکے اور ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ جسموں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر بھارت کو ناکوں چنے چبوائے ۔
بھارتی فوج نے 17 دنوں میں 13 بڑے حملے کیے لیکن لاہور ناشتہ کرنے کا خواب وہ پورا نہ کرسکے ۔ پاک فوج کی بہادر جوانوں نے اُن کا منہ توڑ جواب دیاکیوں کہ وہاں قوم کے بہادر سپوت سینہ سپر ہو کر کھڑے تھے ان بہادر جوانوں میں ایک جوان ایسا بھی تھا جس نے صرف 28 سال کی عمر میں جام شہادت نوش کر کے پاک فوج کا سب سے بڑا فوجی اعزاز اپنے نام کیا میری مراد میجر شبیر شریف ہے ۔میجر شبیر شریف 28 اپریل1943ء کو پاکستان کے ایک شہر گجرات کے ایک قصبہ کنجاہ میں پیدا ہوئے ، ان کا خاندان سپہ گیری میں ایک الگ اور بلند مقام رکھتا ہے۔ میجر شبیر شریف نے لاہور کے سینٹ انتھونی سکول سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی اور وہ لاہور گورنمنٹ کالج کے بھی طالب علم رہے ۔ پاکستانی فوجی درسگاہ کاکول اور 19 اپریل1964ء میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی اس وقت ان کی عمر21 سال تھی ۔1965ء کی پاک بھارت جنگ میں میجر شبیر شریف کے ماموں میجر عزیز بھٹی نے جام شہاد ت نوش کیا۔ میجر شبیر شریف کم عمر شہید ہیں ۔ آ پ شروع سے ہی وطن عزیز پر مر مٹنے کا جذبہ رکھتے تھے،1965ء پاک بھارت جنگ میں انہوں نے سیکنڈلیفٹینٹ کی حیثیت سے جنگ لڑی اور دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی جنرل راحیل شریف پاک فوج کے سپہ سالار کے عہدے پر فائض رہے ہیں ۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ میں نمایاں کارکردگی دکھانے اور جذبہ حب الوطنی (جب الوطنی کے معنی ہیں کسی شخص کی اپنے ملک اپنی وطن کی ساتھ بے پنا ہ خالص محبت اور اپنے ملک و قوم کی بقاء کے لیے اپنی جان کانذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہ کرنے کا مطلب ، حب الوطنی کہلاتا ہے)سے سرشار اس نوجوان نے سلیمانکی ہیڈ ورکس پر 3 دسمبر 1971ء کو ملک کی خاطر لڑتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ وہ ایسی بہادری کے ساتھ لڑے کہ تاریخ رقم کر دی ان کی عظیم قربانی اور بہادری کی داستان ہمیشہ یاد رکھی جائے گی انہوں بیک وقت دشمن کی 43 فوجیوں کو جہنم واصل کیا28 فوجیوں کو قیدی بنایا اوردشمن کی 4 ٹینک بھی تباہ کیے اس بہادر شہید کو لاہورکے میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ان کی خدمات کے اعتراف میں پاک فوج کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدردیا گیا۔ ان کی بہادری اور جرت پر ان کو پہلے ستارہ جرت اور اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا ۔یاد رہے 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ان کی زیر قیادت 6ایف ایف رجمنٹ نے سلیمانکی ہیڈ ورکس پر بھارتی سورماؤں کو تہس نہس کر دیا۔ دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا اِن کے کئی ٹینک اور فوجیوں کو نقصان پہنچایا۔ اور اسی میدان میں بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نو ش کیا۔
میجر شبیر شریف جیسے جانثار بہادر جوانوں کی بدولت ملک خداداد ہمیشہ پھلتی اور پھولتی رہے گی اور قوم امن اور سلامتی کی زندگی گذارتی رہے گی۔جب تک مائیں ایسی لعل پیدا کرتی رہیں گے دشمن کبھی میلی آنکھ دیکھنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ۔
ایہہ شیر بہادر غازی نیں۔ایہہ کسے کولوں وی ہردے نیں
اینا دشمناکولوں کی ڈرنا۔ایہہ موت کولوں وی ڈردے نیں


مکمل تحریر >>