Tuesday 13 June 2017

پنجاب سیف سٹی منصوبہ عصر حاضر کی اہم ضرورت by M Tahir Tabassum Durrani


http://www.abtak.com.pk/qaalam.htm
today 14-06-2017



مکمل تحریر >>

Monday 12 June 2017

پنجاب سیف سٹی منصوبہ عصر حاضر کی اہم ضرورت. by M Tahir Tabassum Durrani



پنجاب سیف سٹی منصوبہ عصر حاضر کی اہم ضرورت

1973ء کا آئین جمہوری وفاقی اور عوامی امنگوں کا آئینہ دار ہے۔آئین کے مطابق اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اہل اقتدار پابند ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ملک کا نظام چلائیں۔اس سے رو گردانی کرنے والا اللہ کے نزدیک مجرم ہے حکومت وقت کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی عوام،قوم جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن وسائل بروے کار لائے۔ اس میں کوئی شک نہیں وطن عزیز کو امن و امان کے حوالے سے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے اور حکومت وقت کو ان حقائق کابخوبی ادراک بھی ہے ۔
اندرونی اور بیرونی اختلافات اور خلفشار کی وجہ سے نہ صرف ملک میں معاشی ترقی میں روکاوٹ کا سامنا ہے بلکہ سلامتی کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا ہے اور بعض انتہا پسند عناصر سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت منفی سرگرمیوں کے ذریعے کمزور کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ حکومت وقت ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے بھر پور انداز میں کوشش کر رہی ہے اس سلسلے میں چینی صدر نے بھی دہشتگردی کے خلاف جنگ ملکی استحکام اور عوام کی جان و مال کے لیے پاکستان کی بھر پور حمایت کرنے کا اعلان کیا ۔
جلا وطنی کاٹنے کے بعد جب محمدنوازشریف وطن واپس لوٹے تو عدلیہ کی آزادی کی تحریک کا حصہ بنے اور فوجی آمر کو ہٹانے میں اپنا کردار ادا کیا اور وطن عزیز کو ایک آمر سے آزاد کرایا اور جمہوریت کی فضا کو قائم کیا ۔ ایک منتخب وزیر اعظم سے اس کے حکومت چھین لی جائے اس کے بعد اس کو ملک بدر کر دیا جائے ملک بدری جیسی سزا کی تکلیف بھی وہی جان سکتا ہے جس پر یہ ظلم ڈھایا گیا ہو۔ زندگی کی اہمیت کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے موت کو اپنے قریب سے دیکھا ہو۔ اقتدار سے قید کا فاصلہ اتنی سبک رفتاری سے طے کیا ہو حقیقی معنوں میں وہی محسوس کر سکتا ہے جس پر بیتی ہو۔
پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا بڑا صوبہ ہے دوسرے صوبوں کی نسبت اس کے مسائل بھی زیادہ ہیں۔ لیکن حکومت پنجاب نے اقتدار سمبھالنے سے لیکر اب تک صوبہ پنجاب کو بلکہ پورے پاکستان بحرانوں سے نکالنے کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا کر کوشش کر رہی ہے۔ حکومت عسکری قیادت کے ساتھ مل کر ملک کو بد امنی اور دیگر حفاظتی اقدامات کر رہی ہے حال ہی میں ایک ایسا شاندار منصوبہ شروع کیا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔
پنجاب کی عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ایک خوبصورت منصوبہ جس کا نام پنجاب سیف سٹی اتھارٹی Punjab Safe Cities Authority (PSC ہے۔ یہ منصوبہ حکومت پنجاب کے زیر سایہ مکمل ہوگااور اس منصوبہ کی نگرانی بذات خود جناب خادم اعلیٰ پنجاب کریں گے۔ یہ منصوبہ پنجاب کے بڑے شہروں میں شروع کیا ہے ابتدائی طور پر یہ منصوبہ لاہور میں شروع کیا ہے ا س کے بعد یہ منصوبہ دوسرے بڑے شہروں جن میں ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالا، سرگودھا میں شروع کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ حکومت پنجاب نے ایک معروف کمپنی ہواوے (HUAWEI) کے ساتھ مل کر مکمل کری گی۔ پاکستان اور ہواوے کے درمیان اپنی نوعیت کا یہ پہلا منصوبہ ہے۔
اکتوبر 2016 ء میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ پنجاب سیف سٹی اتھارٹی انشا ء اللہ 2017ء میں مکمل ہو جائے گا۔
صوبہ پنجاب کے 6(چھ) بڑے شہروں میں 44ارب کی لاگت سے پنجاب سیف سٹی اتھارٹی پروگرام کا آغاز ہو چکا ہے ۔ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالا، سرگودھا اور بہاولپور کی سکیورٹی کو جدید انداز میں تشکیل دیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں لاہو ر پر 13 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ ہوگی۔ اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحت ایک جامع نظام پر عمل درآمدکیا جائے گا۔لاہور میں ہونے والا یہ منصوبہ جون 2017ء تک مکمل ہو جائے گا۔
لاہور میں مال روڈ پر سیف سٹی منصوبہ کے تحت جدید ترین کیمروں کی تنصیب کا عمل جاری ہے اور رواں ماہ مکمل ہو جائے گا۔ ان کیمروں کی مدد سے لاقانونیت کی سر کوبی ہوگی، ٹریفک مسائل سے کافی حد تک چھٹکارا ملے گا، جو لوگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کوروکنے میں مدد ملے گی۔پولیس اور عوا م کے درمیان چالان پر اکثر جھگڑے رونما ہو جاتے ہیں اس منصوبے کے تحت ان مسائل پر بھی قابو پانا آسان ہو جائے گا۔ خودکار سسٹم کے تحت گاڑیوں کا چالان ہوگا ، گاڑیوں کی نمبر پلیٹس حکومت کی طرف سے جاری کردہ نمونہ جات کے مطابق ہونگی ان نمونہ جات کے علاوہ نمبر پلیٹس کو جعلی اور غیرقانونی تصور کیا جائے گا۔ جعلی نمبر پیلیٹس استعمال کرنے والے اور بنا کر دینے والے دونوں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے سٹی ٹریفک پولیس، ضلع پولیس اور محکمہ(Excise &Taxation ) ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مشترکہ کاروائی کرتے ہوئے بغیر نمبر پلیٹس والی گاڑیوں کے خلاف سخت کاروائی کرتے گرفتار بھی کریں گے اور ان کے خلاف مقدمات درج ہوں گے۔
منصوبہ کی تقریب میں خادم علی نے کہا تھا پنجاب پہلا صوبہ ہے جہاں ایسے منصوبہ جات پایہ تکمیل تک پہنچیں گے تاکہ صوبے کی عوام کو ریلف ملے اورلوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔ اس منصوبہ کے تحت8 ہزار جدید کیمرے لاہور میں 3400 اہم مقامات پر نصب کرائے جائیں گے جب کہ اسلام آباد میں 2ہزار کمیرے نصب کیے جایں گے۔اس منصوبہ کی مدد سے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ شکنی ہوگی اور جرائم کی روک تھام میں اہم کردار ادا کریں گے۔ دیگر شہروں میں بہاولپور پر 5.6 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ فیصل آباد، گوجرانوالہ، راولپنڈی، ملتان اور سرگودھا میں باالترتیب9.2 ارب، 7.8ارب،9.2 اور 5.5 ارب روپے خرچ ہونگے۔ملک میں امن و امان کی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکومت پنجاب کی اس منصوبہ کی عصر حاضر میں اشدضرورت تھی ۔ لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں میں اس منصوبہ کی تکمیل کے بعد جرائم کی روک تھام اور ٹریفک کے مسائل پر قابوپانے میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔
مکمل تحریر >>

سو شل میڈیا کا ہماری زندگیوں پر اثر.by. M Tahir Tabassum Durrani..... published in daily Sama

My Article published in Daily Sama today 13-06-2017
http://sama.pk/epaper/page/10/



مکمل تحریر >>

سو شل میڈیا کا ہماری زندگیوں پر اثر By M Tahir Tabassum Durrani



سو شل میڈیا کا ہماری زندگیوں پر اثر

ایک زمانہ تھا جب ایک دوسرے کی خیر و آفیت جاننے کے لیے خط کا سہارا لیا جاتا تھا، خط کو ملاقا ت کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور لوگ ایک دوسرے کے خط کا بڑی بے تابی سے انتظار کیا کرتے تھے ۔ گرمی ہو یا سردی خاکی وردی میں ملبوس سائیکل پر سوا ر ایک شخص ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہوا کرتا تھا اور ہر گھر کے فرد کی حیثیت رکھتا تھا اس کے سائیکل کی گھنٹی بجتے ہی کئی لوگوں کے دلوں میں پیار کی گھنٹیاں بجنے لگ جاتی تھیں فلمو ں اورکہانیوں میں یہ کام کبوتر سے لیا جاتا تھا اور اس سے اپنے محبوب کے نام خط بھیجا جاتا تھا۔ جیسے جیسے حضر ت انسان نے ترقی کی منزلوں کو چھوا اور اپنے لیے طرح طرح کی آسانیاں پیدا کیں وہیں خط و کتابت کا سلسلہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا گیا۔ہم برقی خط و کتابت سے جتنا ایک دوسرے کے قریب آ تے جار ہے ہیں اتنے ہی اخلاقی طور پر ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اب جگہ اور وقت کی قید و بند سے آزاد ہے ۔
آج کے اس ترقی یافتہ ڈیجیٹل اور سائنسی زمانے میں اخلاقیات ، تحمل ، بردباری اور برداشت سے ہم خالی ہوتے جا رہے ہیں۔جہاں سوشل میڈیا خبریں پہنچانے کا تیز ترین وسیلے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے وہیں اس کے منفی اثرات زندگیاں گُل کر رہے ہیں ۔ کئی ہنستے بستے گھر اجڑ گئے ہیں۔ کئی ماؤں کے لخت جگر جد ا ہو چکے ہیں۔ کسی بھی خبرکو بنا تحقیق ہم سچ مان لیتے ہیں جس سے معاشرہ تباہی کے دہانے چلا گیا ہے۔لوگ سوشل میڈیا کی بات یا خبر پر یقین کر لیتے ہیں اور بعض شر پسند عناصر اس سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لوگوں کے احساسات مجروح ہو رہے ہیں۔
مارک زکر برگ کی اس تخلیق (فیس بک) نے جتنی جلد ی مقبولیت حاصل کی یہ ایک حیران کن ریکارڈ ہے یہ آپ کو پوری دنیا میں بسنے والوں سے جڑنے کا ایک ذریعہ فراہم کرتی ہے۔ اگر سوشل میڈیا سے لوگوں کی آگاہی کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے تقریباََ (90%)نوے فیصد سے زیاد ہ لوگ ہیں جو انٹرنیٹ سے آشنا ہیں۔ سوشل میڈیا یعنی فیس بک، ٹویٹر،سکائپ، واٹس آیپ، یوٹیوب وغیرہ ہیں،سوشل میدیا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کو لوگ اظہار رائے کے لیے استعمال کر تے ہیں لاکھوں میل دور بیٹھا انسان اپنے پیاروں سے براہ راست بات کر لیتا ہے سوشل میڈیا کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ بچہ، بوڑھا، مرد ، عورت الغرض ہر طبقہ فکر کا انسان اس کا استعمال کر رہا ہے ،یہ ایک ایسا میڈیم ہے جس کو اگر مثبت انداز میں استعمال کیا جا ئے تو بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے لیکن ہمیں یہ فیصلہ کر نا ہے کہ ہم اسے مثبت یا منفی اندازمیں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس کی افادیت اور نقصانات سے بھی واقف ہونا لازم ہے ۔کوئی بھی چیز اگر متوازن ہوتو اس کا فائدہ ہی ہوتا ہے مگر کسی چیز کا حد سے زیادہ استعمال نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
جہاں سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا وہیں کتاب کے مطالعہ کے رجحانات کوکم بلکہ ختم کر دیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہم انٹرنیٹ کے ذریعے ہرقسم کی معلومات حاصل کر لیتے ہیں وہیں اس کے کثرتِ استعمال سے آنکھوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے جس سے آنکھوں کے خلیوں میں کھنچاؤ ذہنی تناؤ پیدا ہو جاتا ہے اورمختلف قسم کی بیماریوں کے شکارہونے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے ۔ انٹر نیٹ کے استعمال نے میلے ٹھیلوں ، محفلوں اور دیگرسماجی رونقوں کو ختم کر دیا ہے ۔شرپسند عناصر غیر اخلاقی و غیرقانونی افعال سر انجام دیتے ہیں دہشت گردی اور کرپشن جیسے گھناؤنے جرم کرنے والے اپنے مکروہ دھندے بھی انٹرنیٹ کے ذریعے کرتے ہیں، جس سے معاشرے میں بد امنی پیدا ہورہی ہے۔ خا ص کر نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔سوشل میڈیا پر مذہبی انتشار پھیلایا جا رہا ہے سیاسی بیانات اورذاتی اختلافات کی وجہ سے معاشرے میں بیگاڑ پیدا ہو رہاہے ، سوشل میڈیا جہاں بہت مفید ہے وہیں اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ بہت سے واقعات ہمارے سامنے ہیں جس سے لوگوں کی زندگیا تک ختم ہوچکی ہیں۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے یہاں پر بھی سوشل میڈیا نے کئی زندگیا ں نگل لی ہیں۔سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرنے والی 26سالہ ایک ماڈل گرل جسے قتل کر دیا گیا تھا ۔ اس کے موت کی وجہ بھی سوشل میڈیا تھا۔وہ اپنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالتی تھی جس سے اسے کافی پزیرآئی ملی اور وہ بہت جلدی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی پھر اسی سوشل میڈیا پر اس کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوا جو اس کی موت کا سبب بنا۔ ہمیں اس کے نقصانات سے بھی آگاہ ہونا چاہیے اس پر غیر اخلاقی مواد جان بوجھ کا ڈال دیا جاتا ہے جو غیراخلاقی سرگرمیوں میں اضافے کی باعث بنتا ہے جس سے ہمارا نوجوان طبقہ بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے ،کم عمری میں غیر اخلاقی ویڈیوز سے ان کے کچے زہنوں سے کھیلا جاتا ہے اور بچے اکثر غیر ملکی غیر اخلاقی فلمیں دیکھنے کے بعدوالدین کے نافرمان اور بد تمیزبن جاتے ہیں اور مغربی تہذیب اپنانے کے چکر میں اپنے اصل کو بھی کھو دیتے ہیں۔
ہم انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے اس قد ر جڑ گئے ہیں کہ اگر ایک منٹ کے لیے بھی کنکشن منقطع ہو جائے تو ہماری تو جیسے ورچوئلی موت(Virtually Death) واقع ہوگئی ہو۔ ہم اس قدر سوشل میڈیا پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر کوئی خبر درست نہ بھی ہوتو ہم اسے سچ مان لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں پر اس قدر اپنے اثرات نقش کر چکا ہے کہ اس کے بغیر ہم اپنی زندگی کو نامکمل سمجھتے ہیں۔کسی بھی مذہب میں انسان کے قتل کو منع کیا گیا ہے ۔ حضور پُر نور آقا کریم ﷺ کا ارشاد پاک ہے جس نے ایک شخص کو قتل کیا گویا اس نے پور ی انسانیت کا قتل کیا، اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پور ی انسانیت کی جان بچائی۔ہم جتنی مرضی ترقی کر لیں ہمیں اخلاقیات کو نہیں بھولنا چاہیے ۔ صبر ، برداشت او ر بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے ، اگرسوشل میڈیاکے بڑھتے ہوئے استعمال پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ رکھا گیا تو مردان یونیورسٹی جیسے واقعات معمول بن جائیں گے اور لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلے خود کرتے رہیں گے حکومت وقت کو چاہیے کہ سوشل میڈیا پر کڑی نظر رکھیں اور ایسے عوامل کی سر کوبی کریں جو معاشرے میں بگاڑ پیدا
کرنے کے جرم کے مرتکز ہوں۔
مکمل تحریر >>