Monday 12 June 2017

سو شل میڈیا کا ہماری زندگیوں پر اثر By M Tahir Tabassum Durrani



سو شل میڈیا کا ہماری زندگیوں پر اثر

ایک زمانہ تھا جب ایک دوسرے کی خیر و آفیت جاننے کے لیے خط کا سہارا لیا جاتا تھا، خط کو ملاقا ت کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور لوگ ایک دوسرے کے خط کا بڑی بے تابی سے انتظار کیا کرتے تھے ۔ گرمی ہو یا سردی خاکی وردی میں ملبوس سائیکل پر سوا ر ایک شخص ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہوا کرتا تھا اور ہر گھر کے فرد کی حیثیت رکھتا تھا اس کے سائیکل کی گھنٹی بجتے ہی کئی لوگوں کے دلوں میں پیار کی گھنٹیاں بجنے لگ جاتی تھیں فلمو ں اورکہانیوں میں یہ کام کبوتر سے لیا جاتا تھا اور اس سے اپنے محبوب کے نام خط بھیجا جاتا تھا۔ جیسے جیسے حضر ت انسان نے ترقی کی منزلوں کو چھوا اور اپنے لیے طرح طرح کی آسانیاں پیدا کیں وہیں خط و کتابت کا سلسلہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا گیا۔ہم برقی خط و کتابت سے جتنا ایک دوسرے کے قریب آ تے جار ہے ہیں اتنے ہی اخلاقی طور پر ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اب جگہ اور وقت کی قید و بند سے آزاد ہے ۔
آج کے اس ترقی یافتہ ڈیجیٹل اور سائنسی زمانے میں اخلاقیات ، تحمل ، بردباری اور برداشت سے ہم خالی ہوتے جا رہے ہیں۔جہاں سوشل میڈیا خبریں پہنچانے کا تیز ترین وسیلے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے وہیں اس کے منفی اثرات زندگیاں گُل کر رہے ہیں ۔ کئی ہنستے بستے گھر اجڑ گئے ہیں۔ کئی ماؤں کے لخت جگر جد ا ہو چکے ہیں۔ کسی بھی خبرکو بنا تحقیق ہم سچ مان لیتے ہیں جس سے معاشرہ تباہی کے دہانے چلا گیا ہے۔لوگ سوشل میڈیا کی بات یا خبر پر یقین کر لیتے ہیں اور بعض شر پسند عناصر اس سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لوگوں کے احساسات مجروح ہو رہے ہیں۔
مارک زکر برگ کی اس تخلیق (فیس بک) نے جتنی جلد ی مقبولیت حاصل کی یہ ایک حیران کن ریکارڈ ہے یہ آپ کو پوری دنیا میں بسنے والوں سے جڑنے کا ایک ذریعہ فراہم کرتی ہے۔ اگر سوشل میڈیا سے لوگوں کی آگاہی کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے تقریباََ (90%)نوے فیصد سے زیاد ہ لوگ ہیں جو انٹرنیٹ سے آشنا ہیں۔ سوشل میڈیا یعنی فیس بک، ٹویٹر،سکائپ، واٹس آیپ، یوٹیوب وغیرہ ہیں،سوشل میدیا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کو لوگ اظہار رائے کے لیے استعمال کر تے ہیں لاکھوں میل دور بیٹھا انسان اپنے پیاروں سے براہ راست بات کر لیتا ہے سوشل میڈیا کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ بچہ، بوڑھا، مرد ، عورت الغرض ہر طبقہ فکر کا انسان اس کا استعمال کر رہا ہے ،یہ ایک ایسا میڈیم ہے جس کو اگر مثبت انداز میں استعمال کیا جا ئے تو بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے لیکن ہمیں یہ فیصلہ کر نا ہے کہ ہم اسے مثبت یا منفی اندازمیں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس کی افادیت اور نقصانات سے بھی واقف ہونا لازم ہے ۔کوئی بھی چیز اگر متوازن ہوتو اس کا فائدہ ہی ہوتا ہے مگر کسی چیز کا حد سے زیادہ استعمال نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
جہاں سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا وہیں کتاب کے مطالعہ کے رجحانات کوکم بلکہ ختم کر دیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہم انٹرنیٹ کے ذریعے ہرقسم کی معلومات حاصل کر لیتے ہیں وہیں اس کے کثرتِ استعمال سے آنکھوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے جس سے آنکھوں کے خلیوں میں کھنچاؤ ذہنی تناؤ پیدا ہو جاتا ہے اورمختلف قسم کی بیماریوں کے شکارہونے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے ۔ انٹر نیٹ کے استعمال نے میلے ٹھیلوں ، محفلوں اور دیگرسماجی رونقوں کو ختم کر دیا ہے ۔شرپسند عناصر غیر اخلاقی و غیرقانونی افعال سر انجام دیتے ہیں دہشت گردی اور کرپشن جیسے گھناؤنے جرم کرنے والے اپنے مکروہ دھندے بھی انٹرنیٹ کے ذریعے کرتے ہیں، جس سے معاشرے میں بد امنی پیدا ہورہی ہے۔ خا ص کر نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔سوشل میڈیا پر مذہبی انتشار پھیلایا جا رہا ہے سیاسی بیانات اورذاتی اختلافات کی وجہ سے معاشرے میں بیگاڑ پیدا ہو رہاہے ، سوشل میڈیا جہاں بہت مفید ہے وہیں اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ بہت سے واقعات ہمارے سامنے ہیں جس سے لوگوں کی زندگیا تک ختم ہوچکی ہیں۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے یہاں پر بھی سوشل میڈیا نے کئی زندگیا ں نگل لی ہیں۔سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرنے والی 26سالہ ایک ماڈل گرل جسے قتل کر دیا گیا تھا ۔ اس کے موت کی وجہ بھی سوشل میڈیا تھا۔وہ اپنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالتی تھی جس سے اسے کافی پزیرآئی ملی اور وہ بہت جلدی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی پھر اسی سوشل میڈیا پر اس کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوا جو اس کی موت کا سبب بنا۔ ہمیں اس کے نقصانات سے بھی آگاہ ہونا چاہیے اس پر غیر اخلاقی مواد جان بوجھ کا ڈال دیا جاتا ہے جو غیراخلاقی سرگرمیوں میں اضافے کی باعث بنتا ہے جس سے ہمارا نوجوان طبقہ بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے ،کم عمری میں غیر اخلاقی ویڈیوز سے ان کے کچے زہنوں سے کھیلا جاتا ہے اور بچے اکثر غیر ملکی غیر اخلاقی فلمیں دیکھنے کے بعدوالدین کے نافرمان اور بد تمیزبن جاتے ہیں اور مغربی تہذیب اپنانے کے چکر میں اپنے اصل کو بھی کھو دیتے ہیں۔
ہم انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے اس قد ر جڑ گئے ہیں کہ اگر ایک منٹ کے لیے بھی کنکشن منقطع ہو جائے تو ہماری تو جیسے ورچوئلی موت(Virtually Death) واقع ہوگئی ہو۔ ہم اس قدر سوشل میڈیا پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر کوئی خبر درست نہ بھی ہوتو ہم اسے سچ مان لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں پر اس قدر اپنے اثرات نقش کر چکا ہے کہ اس کے بغیر ہم اپنی زندگی کو نامکمل سمجھتے ہیں۔کسی بھی مذہب میں انسان کے قتل کو منع کیا گیا ہے ۔ حضور پُر نور آقا کریم ﷺ کا ارشاد پاک ہے جس نے ایک شخص کو قتل کیا گویا اس نے پور ی انسانیت کا قتل کیا، اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پور ی انسانیت کی جان بچائی۔ہم جتنی مرضی ترقی کر لیں ہمیں اخلاقیات کو نہیں بھولنا چاہیے ۔ صبر ، برداشت او ر بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے ، اگرسوشل میڈیاکے بڑھتے ہوئے استعمال پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ رکھا گیا تو مردان یونیورسٹی جیسے واقعات معمول بن جائیں گے اور لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلے خود کرتے رہیں گے حکومت وقت کو چاہیے کہ سوشل میڈیا پر کڑی نظر رکھیں اور ایسے عوامل کی سر کوبی کریں جو معاشرے میں بگاڑ پیدا
کرنے کے جرم کے مرتکز ہوں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔