Monday 16 October 2017

by M Tahir Tabassum Durraniارے سچح تو میٹھا ہے http://www.abtak.com.pk/qaalam.htm http://sama.pk/epaper/page/10/

My Today Article published in daily Sama and Daily Abtak Lahore
http://www.abtak.com.pk/qaalam.htm
http://sama.pk/epaper/page/10/





مکمل تحریر >>

Sunday 15 October 2017

ارے سچ تو میٹھا ہے By M Tahir Tabassum Durrani


ارے سچ تو میٹھا ہے 

بچپن سے کہاوت پڑھتے سنتے چلے آ رہے ہیں ، سچ کڑ وا ہوتا ہے لیکن قران مجید میں اللہ کریم سبحانہ تعالی نے فرمایا۔ سورہ توبہ آیت نمبر 119، ’’یا ایھاالذی آمنواتقواللہ وکونو مع الصادقین‘‘۔ ترجمہ۔’’ اے ایمان والواللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کا ساتھ دو‘‘۔ لیکن افسو س ہم نے سچ کی حلاوٹ کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا۔ ہم اپنی ورز مرہ زندگی میں اتنے جھوٹ بولتے ہیں کہ اب جھوٹ جسے اللہ تعالیٰ نے گناہ کبیرہ کہا ہے ہم اس میں ایسے لت پت اور عادی ہو چکے ہیں کہ وہ گناہ بھی اب گناہ نہیں لگتا ۔یہ اللہ تعالی کا ہم پر بے حد احسان ہے کہ اس نے سچ جیسی نعمت کو بھی پیدا فرمایا۔اور انسانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ سچ کو اپنائیں ، سچ کی راہ پر چلیں،سچ کو اپنا وطیرہ و شیوہ بنائیں تا کہ ہم فلاح پا سکیں۔اللہ تعالی نے جھوٹ کو بھی پیدا فرمایا اور ساتھ ہی اس سے بچنے اور دور رہنے کا حکم فرمایا۔اس کے ساتھ ساتھ جھوٹ کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا اور اس سے اپنی زندگیوں کو پاک رکھنے کی تلقین فرمائی۔
سورہ محمد آیت نمبر 21 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔’’قل صداقواللہ لکان خیر الھم‘‘ تو اگر وہ اللہ کے ساتھ سچے رہیں توان کے لیے بہتری ہے۔سچ اور جھوٹ انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں اب انسان پر ہے کہ وہ جھوٹ کا سہارا لے کر شارٹ کٹ مار کر اپنی زندگی میں رنگینی پیدا کرنا چاہتا ہے یا سچ کے بل بوتے پر اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی حسین و جمیل بنانے کا خواہش مند رہتا ہے ۔ جھو ٹ انسان کو وقتی طور پر تو فائدہ دیتا ہے ہے لیکن ایک دن سچ سامنے آ کر رہتا ہے تو اس وقت صر ف ندامت ہی انسان کے حصے میں آتی ہے 
صدق اور کذب ایسی صفات ہیں جو ہمیشہ انسان کا ساتھ نبھاتی ہیں جھوٹ کو پیدا اس لیے فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں کو آزما سکے کہ وہ اللہ کے راسطے پر کس حد تک تکالیف و آزمائشوں کو برداشت کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ انسان کو اللہ نے دونوں صفات پر اپنی عطا سے قادر فرمایاکہ وہ اپنا فیصلہ خود کر سکتاہے ۔سچ کی قدروقیمت کرنے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں بے شمارانعامات کی نوید سنائی ہے اور لوگوں کو اس پر چلنے کی ترغیب دلائی ہے ۔قرآن مجید کی بے شمار آیات کریمہ ہیں جن کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سچ کی کتنی برکتیں ، رحمتیں اور مقام و مرتبہ ہے ۔
نواسہ رسولﷺحضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے حق اور سچ کی سر بلندی کی خاطر جام شہادت نوش فرمایا مگر جھوٹ کا ساتھ نہ دیا وہ تعداد میں کم تھے لیکن سچائی میں ان کا کو ئی ثانی نہ تھا۔ وہ سچ کی قدرو قیمت کو جانتے تھے ان کو پتہ تھا یہ عارضی زندگی ہے ۔وہ جانتے تھے اللہ کو تعداد کی نہیں بلکہ معیار کی قدر ہے ۔ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے بعد زندہ و جاوید ہیں کیونکہ سچ ہی زندہ رہتا ہے ۔سچ کی قدرو قمیت اس حدیث مبارکہ سے بھی واضع ہو جا تی ہے۔’’حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گناہ کبیرہ کا شمار کرتے فرمایا۔’’حتیٰ کہ ایک انسان اور خصوصاََ مومن و مسلمان کومذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جھوٹ کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا سورہ المائدہ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو راہ نہیں دیکھاتے جو اسراف کرنے والے ہیں اور جھوٹے ہیں‘‘۔اسلام نے ہمیں جھوٹ سے قطعاََ دور رہنے کی ہدایت فرمائی ہے یہاں تک کہ خریدو فروخت میں بھی سچ کو ترغیب دی ہے کیونکہ جھوٹ سے چیز بِک تو جائے گی مگر اس میں برکت نہیں رہے گی ہم میں سے بہت سے دوست یہ سوچتے ہیں کہ فلاح انسان جھوٹ بو ل کر اپنی چیزیں فروخت کر تا ہے اور بہت امیر ، مال و دولت سے مالا مال ہے اسے تو کوئی سز ا نہیں ملی تو اسے صرف خامی خیالی ہی تصور کیا جا نا چاہیے کیونکہ ایسے لوگوں کو اللہ دنیا میں بہت نوزاتے ہیں مگر آخرت میں ان کو بہت بڑی سزاسے گذرنا پڑے گا ۔ہمارے معاشرے کی ایک برائی یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی پرورش میں جھوٹ شامل کر دیتے ہیں مثال کے طور پر دروازے پر گھنٹی بجی ہم اپنے بچے کو اکثر یہ کہہ دیتے ہیں کہ جو بھی ہو اسے کہنا کہ گھر پر کوئی نہیں ہے یہاں سے جھوٹ کی ابتدا ہو جاتی ہے وہ معصوم بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اسے یہ چھوٹے چھوٹے جھوٹ گناہ نہیں لگتے ۔
اگر نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی زندگی کو دیکھیں تو بچپن میں ہی لوگ آپ کو امین اور صادق کے لقب سے پکارا کرتے تھے اللہ کریم نے آپ ﷺ کی ذات کو ہمارے لیے نمونہ بنا دیا ۔سچائی، انسانیت اور ایمانداری کا یہ عالم تھا کہ دشمن بھی آ پ کی تعریف کرتے تھے ، آپ ہی وہ ہستی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مقامِ محمود عطا فرمایا۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں اور علم کے بحر میں غوطہ لگائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ آزمائشیں بھی انبیاء کرام پر آئیں لیکن وہ صابر رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت و جلال کے مراتب پر فائز فرمایا۔آنحضرتﷺ پر سب سے زیادہ آزمائشیں آئیں لیکن آپ نے سچائی کے ساتھ اللہ کے ساتھ کیے وعدوں کو پورا فرمایا ۔ آج ہم پرذرہ برابر پریشانی آ جائے توہم جھوٹ کے دامن کا سہارا لے کے کامیابی کا راستہ ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں اور جھوٹ کی دلدل میں بس ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ آج ہم مختلف مصیبتوں اور آزمائشوں میں مبتلا ہیں ہمارا یہ وطیرہ ہے کہ ہم دوسروں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ فلاں نے میرے بارے ایسا غلط کیا ہوگا جس کی وجہ سے میں آج اس حالت میں ہوں لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جو ہم لوگ چھوٹے چھوٹے گناہ کرتے ہیں ایفائے عہد پورا نہیں کرتے ، امانت میں خیانت کرتے ہیں ، چغلی کرتے ہیں ، دوسروں کی برائیاں کرتے ہیں کیا ان کی سز ا نہیں ملے گی؟ جی بالکل یہی وہ چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جن کو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ سچائی میں اگرچہ خوف ہے لیکن باعث نجات ہے جب کہ اس کے بر عکس جھوٹ میں اطمینان ہے لیکن موجب ہلاکت ہے۔ دراصل ہم جھوٹ کی کڑواہٹ میں اتنے گُھل مل گئے ہیں کہ سچ کر حلاوٹ بھی محسو س نہیں کر سکتے۔ اگر ہم صرف اتنا محسوس کر لیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے ، نہ اس کی زمین سے نکل سکتے ہیں نہ اس سے چھپ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ واللہ اگر ہم صرف جھوٹ بولنے کی عادت کو ترک کر دیں تو یقین مانیں یہ دنیا اللہ کے فضل و کرم سے جنت بن جائے۔
مکمل تحریر >>

Tuesday 10 October 2017

اقوام کی ترقی میں زبانوں کا کردار‎‎ by M Tahir Tabassum Durrani


http://www.abtak.com.pk/qaalam.htm
http://sama.pk/epaper/page/10/




مکمل تحریر >>

Monday 9 October 2017

اقوام کی ترقی میں زبانوں کا کردار By M Tahir Tabassum Durrani

اقوام کی ترقی میں زبانوں کا کردار

لسان عر بی کا لفظ ہے جس معنی ہیں زبان، بولی، بھاشا بنیادی طور پر زبان وہ پُل ہے جو لوگوں کے درمیاں تبادلہ خیال کرنے ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔یا ایسی آوازیں جن کے ذریعے ہر قوم اپنے اغراض و مقاصدبیان کرے۔ہر علاقے ، ملک اور قوم کی الگ الگ زبان ہوتی ہے لیکن مقصد ایک ہی ہے کہ اپنے الفاظ دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ۔زبان کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جو بولی جاتی ہیں۔مادری زبان یعنی ایسی زبان جو انسان اپنے ماں باپ سے بچپن میں سیکھتا ہے اسے آبائی زبان ،نسلی زبان یا پیدائشی زبان بھی کہا جاتا ہے اس کے بعد دوسری زبان کا نمبر آتا ہے یعنی ایسی زبان جو اس کی مادری تو نہ ہو لیکن اس کے اردگرد بولی جاتی ہو۔سرکاری زبان ایسی زبان جو ہم روزمرہ زندگی میں نہیں بلکہ سرکاری مقاصد حاصل کرنے کے لیے بولتے ہیں اس کو قانونی زبان بھی کہتے ہیں اور یہ گورنمنٹ کی طرف سے لاگوکی جانے والی زبان ہوتی ہے ۔قومی زبان ، ایسی زبان جو کسی قوم یا ملک کی پہچان اور شناخت کی علامت سمجھی جاتی ہے جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بھی بولی جاتی ہیں ۔ جیسے پنجابی، سندھی ، بلوچی، ہندکو، سرائکی، پشتووغیرہ ۔ زبان کی مدد سے ہم ایک دوسرے سے رابطہ کر کے اپنے احوال بھی بیان کر تے ہیں اپنے جذبات احساسات کو اپنے محبوب تک پہنچانے میں زبان ہی رابطہ کا ذریعہ ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اس کی زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے لیکن اب یہ سلسلہ آہستہ آہستہ شہروں کی طرف بڑھ رہا ہے اس لیے شہری زندگی کی مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے لیکن حکومت وقت ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے سر بستہ ہے اور گاہے بگاہے عوام کی بہتری کے لیے مختلف منصوبہ جات پرعملی طور پر کام کر رہی ہے ۔طالبعلم کسی بھی ملک کا سرمایہ اور اثاثہ ہوتے ہیں حکومت پنجاب نے ایک انتہائی موثر اور انقلابی پروگرام شروع کیا جس کی مدد سے طالبعلموں کے لیے مختلف وظائف مقرر کیے گئے تا کہ ہونہار طالبعلموں کی حوصلہ افزائی ہو سکے اور یہ ہونہار ملک و قوم کی خدمت کر کے ملک کا نام روشن کر سکیں۔ چیف منسٹر ٹیلنٹ سکالر شپ کے ذریعے ہونہار طالبعلموں کے چائنہ زبان سیکھنے کے لیے بالکل مفت پروگرام کا اعلان کیا ۔ یہاں پر تاریخ کا ایک واقعہ بیاں کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں جب مسلمان ناکام ہوئے تو سر سید احمد خان نے ایک خوبصورت جملہ کہا تھا، کہ مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھ کر میرے سرکے بال سفید ہو گئے ، انہوں نے مسلمانوں پر اس بات کا زور دیا کہ وہ تعلیم حاصل کرکے انگریزی زبان پر عبور حاصل کریں کیونکہ اس وقت برصغیر پر انگریز کا راج تھا اور مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری انگریزی زبان سے لا علمی تھی ، جب سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کو انگریزی زبان سیکھنے کا کہا تو اس وقت بھی لوگ ان کے خلاف ہو گئے اور کہنے لگے کہ ملاں ہمیں فرنگی کی زبان یعنی انگریزی سیکھا کر انگریز بنانا چاہتا ہے لہذا وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ سر سید احمد خان صاحب نے جو کہا وہ سچ ثابت ہوا کیونکہ جب آپ کسی کی زبان ہی نہیں سمجھ سکتے تو آپ اس سے بات کیسے کر سکتے ہیں یااپنا اظہارِخیال کیسے کر سکتے ہیں ، قومیں وہی بنتی ہیں جو تعلیم کو اپناشعار بناتی ہیں۔
پاک چائنہ راہداری منصوبہ ایک ایسا لازوال منصوبہ ہے جو پاکستان کی تقدیر بدل رہا ہے ابھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوا لیکن اس کے ثمرات ملنے بھی شروع ہو گئے ہیں پاکستان کے کئی ہمسایہ ممالک پاکستان کے ساتھ تجارتی روابط قائم کرنا چاہتے ہیں،ان ممالک میں روس، برطانیہ ایران بھی شامل ہیں جس کے لیے ایک اور منصوبہ زیر غور ہے جس پرحال ہی میں ایک کانفرنس بھی ہو چکی ہے جس کے مطابق ایک نیا پراجیکٹ ون بیلٹ ون روڈ کا قیام ہے یہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا منصوبہ ہوگا جس کے لیے سمندری راستہ اختیار کیا جائے گا اس منصوبہ کو سلک روڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سمندری منصوبہ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ چین سے جنوبی ایسٹ ایشیا، افریقہ اور وسطی ایشیا کو آپس میں جوڑے گاجس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بڑھے گی اور پاکستان ترقی کرے گا۔ پنجاب گورنمنٹ آنے والے دنوں میں چائنہ زبان کو نصاب میں بطور اختیاری مضمون شامل کرنے جا رہی ہے اور آنے والے وقت میں تمام سرکار ی درسگاہوں میں چائنہ زبان بطور لازمی مضمون پڑھایا جائے گا ۔ کیونکہ چائنہ راہداری منصوبہ اور دیگر کئی منصوبہ جات چونکہ چائنہ ہی کام کر رہا ہے اس لیے پاکستانی عوام کو چائنہ زبان پر گرفت دلانے کے لیے چیف منسٹر ٹیلنٹ سکالرشپ پروگرام کے تحت300 (تین سو)ہونہار طالبعلموں کو سرکاری خرچے پر چین بھیجا گیا تا کہ آنے والے وقت میں دونوں ملکوں میں تجارتی اور دوستانہ تعلقات میں مذیدبہتری پیدا ہو سکے ، اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کی طلبا و طالبات کے لیے 10% (دس فیصد)زیادہ کوٹہ رکھا گیا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ طالعلموں کو اس پروگرام کے تحت مستفید کیا جا سکے۔پاکستان اور چین کے لوگوں کے درمیان ابلاغ کو موثر بنانے میں چائنہ لینگوئج سکالر شپ پروگرام بہت مفید ثابت ہوگا۔
اس پروگرام امیدوارکے لیے امیدوار کے پاس پنجاب کا ڈومیسائل ہونا لازم ہے اور اس کے عمر 22سے 24 سال رکھی گئی ہے14 سالہ تعلیم مکمل ہو اور آخری امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ہو اور پورے تعلیم دورانیہ میں تھرڈ ڈویژن نہ ہو, امیدوار جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند و توانا ہو۔ امیدوارسے ایک تحریری امتحان لیا جائے گا جس میں کامیابی کے بعد امیدوار کو اہل سمجھا جائے گا اور چین کے بہترین یونیورسٹیز میں دو سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے بھیج دیا جائے گا۔بلاشبہ یہ ایک انقلابی منصوبہ ہے ۔ یہ پروگرام مرحلہ وار شروع کیا گیا ہے پہلے مرحلے میں میرٹ پر پورے اترنے والے 66ہونہار طالبعلموں کو چین بھجوا گیا جو چین کی بہترین یونیورسٹیز سے تعلیم مکمل کر نے کے بعد پاکستان میں اپنی خدمات سر انجام دیں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں چار سو سے زیادہ ہونہار طالبعلم اس سہولت سے مستفید ہونگےAیا A+گریڈ حاصل کرنے والے طالبعلموں کو پاکستان واپسی پر گورنمنٹ کے درسگاہوں میں ملازمت دی جائے گی۔اگر دیکھا جائے تو مفت میں تعلیم بھی حاصل کرو اور بعد میں سرکاری اداروں میں نوکری کی سہولت بھی جس سے یقیناََ ملک میں حقیقی معنو ں میں تبدیلی آئے گی اور لوگ خوشحالی کی زندگی بسر کریں گے۔
مکمل تحریر >>

Tuesday 3 October 2017

شہرخموشاں اور یوم عاشور By M Tahir Tabassum Durrani

My Today Article Published in daily abtak and sama lahore.
http://www.abtak.com.pk/qaalam.htm
http://sama.pk/epaper/page/10/
http://sama.pk/epaper/page/10/


مکمل تحریر >>

Monday 2 October 2017

شہر خموشاں اور یوم عاشور by M Tahir Tabassum Durrani


شہر خموشاں اور یوم عاشور

آئے بن ٹھن کے شہر خموشاں میں وہ
قبردیکھی جو میری تو کہنے لگے
ارے آج اتنی تو اس کو ترقی ہوئی
اک بے گھر نے اچھا سا گھر لے لیا
قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے فانی ہونے اور ہر چیز کے فناہ ہونے کی یاد دلا ئی ہے انسان ہو یا حیوان ہر جاندار چیز کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، کیونکہ یہ دل لگانے کی دنیا نہیں یہ عارضی زندگی ہے ۔قل نفس ذائقہ الموت۔ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے ، یعنی انسان ہوں یا جن ، فرشتے ہوں الغرض اللہ جلہ شانہ زندہ ہیں اس کے سوا سب فانی ہیں ۔ کل دسویں محرم اپنے ایک عزیز کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے گیا جہاں پر بڑے بڑے نام دیکھے ایسے ایسے نام جن کی ہیبت سے لوگ دہل جاتے تھے جو کبھی سمجھتے تھے ان کے بغیر شائد دنیا کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا، ایسے ایسے خوبصورت جوان وہاں پر سوئے دیکھے جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ مرتے تھے ان کو دیکھنے کے لیے بے تاب دیوانہ وار لوگ انتظار کرتے تھے ، ایسے ایسے بہادر کرنل اور جرنل کوبھی وہاں سوئے دیکھا جن کے فیصلوں سے کبھی ملکوں کی تقدیر بدل جایا کرتی تھی ، بہنوں کے بھائی، ماؤں کے لخت جگر، سروں کے تاج، بیٹیوں کے باپ کو مدفن دیکھا، وقت کے جابر کو زمین کی خاک میں ملتے دیکھا۔آنکھیں نم ہوتی ہی چلی جا رہیں تھیں جانے کس کس کا غم تھا کبھی ماں کی جدائی یاد آتی تو کبھی باپ کی شفقت سے محرومی ستاتی ،کبھی دوستوں کے ساتھ گذرا وقت یاد آتا جو آج اللہ کریم کے پاس اس دنیا کی رنگینی کو چھوڑ کر موٹ کی آغوش میں چلے گئے تھے۔
دسویں محرم کا دن اسلام میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے یہ وہی دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کا وجود فرمایا۔اسی دن حضرت آدم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے معافی کا شرف بخشا، اسی دن عرش ، کرسی اور چاندستارے وجود میں آئے ، اسی دن زمین پر پہلی بارش ہوئی، اسی دن قیامت برپا ہوگی اور یہی وہ دن ہے جس دن نواسہ رسولﷺ حضر ت امام حسینؓ نے اسلام کی سربلندی اور وقت کے جابر کے سامنے کلمہ حق ادا کرتے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ہمارے اکثر دوست احباب اس دن اپنے پیاروں سے عقیدت و احترام اور فاتحہ خوانی کے لیے شہرخموشاں کا رخ کرتے ہیں جو کہ اچھی رویت ہے بحثیت مسلمان ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے پیاروں کی قبروں پر جا کر ان کے لے ایثال ثواب کریں اور اپنی حثیت کے مطابق صدقہ و خیرات بھی کریں۔جہاں لوگ اپنے پیاروں کی قبر پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے جاتے ہیں قبرستانوں میں ایک میلے کا سا سماں نظر آتا ہے اپنے مرحومین کی قبروں کی مرمت کرتے ہیں وہیں ایک عجیب بات یہ بھی سامنے آئی پھول پتیاں بیچنے والے اس دن سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔قبرستان ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہمیں اپنی موت کو یاد کرنا چاہیے تا کہ ہم بطور مسلمان اپنی آخرت کی فکر پیدا کریں لیکن افسوس وہاں پر بھی کاروبار کرنے والے دیہاڑی باز اپنے اوزار خوب تیز کر کے رکھتے ہیں گُل فروش منہ مانگے داموں پھول فروخت کرتے ہیں۔ خوشبو پیدا کرنے والی اگر بتی جو دس روپے کا پورا پیکٹ مل جاتا ہے اس دن ایک اگر بتی پورے دس روپے کی ملتی ہے ، بات مہنگی چیز ملنے کی نہیں صرف توجہ مبذول کروانا مقصد ہے کہ ہم کتنے خود غرخ ، بے حس ہو چکے ہیں وہ جگہ جہاں ہم سب نے ایک نہ ایک دن دفن ہونا ہے لوگ اپنی موت کو بھول کر وہاں پر بھی بے ایمانی اور غیر قانونی طریقے سے پیسہ کمانے کی حرص میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
بقول شاعر۔ْ
کیا بشر کی بساط
آج ہے کل نہیں
اس شعر میں شاعر نے انسان کی اوقات کو خوب احاطہ کیا ہے دنیا کی رنگینیوں اور مستیوں میں انسان ایسے مست ہو جاتا ہے جیسے یہی اس کے لیے سب کچھ ہے اس عارضی دنیا کو بہتر بناتے بناتے اپنی اُخروی زندگی کو خراب کر بیٹھتا ہے یہ عارضی اور کمزور زندگی ہے جس کی جستجو میں ہم اپنے رات دن ایک کر دیتے ہیں اس دنیا کی بہتری کی خاطر ہمیشہ رہنے والی زندگی کو یکسر بھلا بیٹھے ہیں کیونکہ آج ہم زندہ ہیں تو کل ہمارا مسکن بھی ایک چھوٹی سی قبر ہے۔قبرستان میں داخلی راستے پر ہدایات نامہ نصب تھاجسے پڑھ کر دل محو حیرت اور آنکھیں پُرنم ہوگئیں وہ انسان جو کبھی محل میں رہتا تھا بڑے بڑے کمروں میں مہنگے مہنگے نوادرات (شو پیس)رکھتا تھا آج اس کے لیے 4*6 کی قبر مختص کر دی گئی اور لکھا تھا قبر کے اردگرد دیوار بنانا منع ہے اور اپنے گھر کی چاردیواری اتنی اونچی کہ اگر کسی غریب کے گھر پاس ہے تو اس ہوا تک نہ لگے ۔ہمیں شہرخموشاں میں جاکر نصیحت پکڑنی چاہیے ۔انسان اتنے بڑے بڑے محلات نما گھر بنارہا ہے لیکن آخر میں وہی 4*6 کی قبر جس میں امیر غریب کی تفریق کے بغیرایک چھوٹا سا گھر ملتا ہے ۔بڑے نصیب اور قسمت کی بات ہے کہ یہ 4*6 کی قبر بھی انسان کو مل جائے۔یو ں تو شہرخموشاں کو جائے عبر ت بھی کہتے ہیں اور سامان عبرت کا حصول ہی وہ شرط واحد ہے جس کی وجہ سے اسلام میں قبروں کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے تاکہ ہم عبرت پکڑیں اور آخرت کی تیاری کر سکیں۔ہم جب بھی قبرستان جائیں پہلے داخل ہونے کی دعاپڑھنی چاہیے اسلام و علیکم یا اہل القبور۔پوری دعا کا ترجمہ یہ ہے ۔ سلام ہو تم پر اے اہل قبور، اللہ تعالی ٰ ہماری اور آپ کی بخشش فرمائے ،تم آگے جاچکے ہواور ہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔
حال ہی میں کراچی کے ایک قبرستان میں آگ لگنے کا واقع رونما ہوا ، مسلمان ہونے کے ناطے بہت ہی افسو س ہوا ہماری آخری آرام گاہ کے ساتھ بھی ایسا سلوک نا قابل معافی جرم اور قابل مذمت و صد افسوسناک ہے ، اس میں انتظامیہ کا قصور ہے یا ہم سب کا کس کو مجرم ٹھہرائیں؟یہ واقع تو میڈیا کی کوریج کی وجہ سے عام لوگون تک پہنچ گیا لیکن ایسے کئی قبرستان موجود ہیں جن میں نہ صفائی کا انتظام ہے نہ کو قبروں کی حفاظت کا انتظام ، اس کے ساتھ ساتھ منشیات فروش بھی اپنی آخرت کو بھول کر یہ گھناؤنا جرم یہیں بیٹھ کر تے ہیں حکومت وقت سے ہم تقاضہ کرتے ہیں قبرستانوں کی حفاظت کے لیے عملی طور پر اقدام اٹھائیں۔
مکمل تحریر >>