Sunday 15 October 2017

ارے سچ تو میٹھا ہے By M Tahir Tabassum Durrani


ارے سچ تو میٹھا ہے 

بچپن سے کہاوت پڑھتے سنتے چلے آ رہے ہیں ، سچ کڑ وا ہوتا ہے لیکن قران مجید میں اللہ کریم سبحانہ تعالی نے فرمایا۔ سورہ توبہ آیت نمبر 119، ’’یا ایھاالذی آمنواتقواللہ وکونو مع الصادقین‘‘۔ ترجمہ۔’’ اے ایمان والواللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کا ساتھ دو‘‘۔ لیکن افسو س ہم نے سچ کی حلاوٹ کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا۔ ہم اپنی ورز مرہ زندگی میں اتنے جھوٹ بولتے ہیں کہ اب جھوٹ جسے اللہ تعالیٰ نے گناہ کبیرہ کہا ہے ہم اس میں ایسے لت پت اور عادی ہو چکے ہیں کہ وہ گناہ بھی اب گناہ نہیں لگتا ۔یہ اللہ تعالی کا ہم پر بے حد احسان ہے کہ اس نے سچ جیسی نعمت کو بھی پیدا فرمایا۔اور انسانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ سچ کو اپنائیں ، سچ کی راہ پر چلیں،سچ کو اپنا وطیرہ و شیوہ بنائیں تا کہ ہم فلاح پا سکیں۔اللہ تعالی نے جھوٹ کو بھی پیدا فرمایا اور ساتھ ہی اس سے بچنے اور دور رہنے کا حکم فرمایا۔اس کے ساتھ ساتھ جھوٹ کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا اور اس سے اپنی زندگیوں کو پاک رکھنے کی تلقین فرمائی۔
سورہ محمد آیت نمبر 21 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔’’قل صداقواللہ لکان خیر الھم‘‘ تو اگر وہ اللہ کے ساتھ سچے رہیں توان کے لیے بہتری ہے۔سچ اور جھوٹ انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں اب انسان پر ہے کہ وہ جھوٹ کا سہارا لے کر شارٹ کٹ مار کر اپنی زندگی میں رنگینی پیدا کرنا چاہتا ہے یا سچ کے بل بوتے پر اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی حسین و جمیل بنانے کا خواہش مند رہتا ہے ۔ جھو ٹ انسان کو وقتی طور پر تو فائدہ دیتا ہے ہے لیکن ایک دن سچ سامنے آ کر رہتا ہے تو اس وقت صر ف ندامت ہی انسان کے حصے میں آتی ہے 
صدق اور کذب ایسی صفات ہیں جو ہمیشہ انسان کا ساتھ نبھاتی ہیں جھوٹ کو پیدا اس لیے فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں کو آزما سکے کہ وہ اللہ کے راسطے پر کس حد تک تکالیف و آزمائشوں کو برداشت کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ انسان کو اللہ نے دونوں صفات پر اپنی عطا سے قادر فرمایاکہ وہ اپنا فیصلہ خود کر سکتاہے ۔سچ کی قدروقیمت کرنے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں بے شمارانعامات کی نوید سنائی ہے اور لوگوں کو اس پر چلنے کی ترغیب دلائی ہے ۔قرآن مجید کی بے شمار آیات کریمہ ہیں جن کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سچ کی کتنی برکتیں ، رحمتیں اور مقام و مرتبہ ہے ۔
نواسہ رسولﷺحضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے حق اور سچ کی سر بلندی کی خاطر جام شہادت نوش فرمایا مگر جھوٹ کا ساتھ نہ دیا وہ تعداد میں کم تھے لیکن سچائی میں ان کا کو ئی ثانی نہ تھا۔ وہ سچ کی قدرو قیمت کو جانتے تھے ان کو پتہ تھا یہ عارضی زندگی ہے ۔وہ جانتے تھے اللہ کو تعداد کی نہیں بلکہ معیار کی قدر ہے ۔ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے بعد زندہ و جاوید ہیں کیونکہ سچ ہی زندہ رہتا ہے ۔سچ کی قدرو قمیت اس حدیث مبارکہ سے بھی واضع ہو جا تی ہے۔’’حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گناہ کبیرہ کا شمار کرتے فرمایا۔’’حتیٰ کہ ایک انسان اور خصوصاََ مومن و مسلمان کومذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جھوٹ کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا سورہ المائدہ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو راہ نہیں دیکھاتے جو اسراف کرنے والے ہیں اور جھوٹے ہیں‘‘۔اسلام نے ہمیں جھوٹ سے قطعاََ دور رہنے کی ہدایت فرمائی ہے یہاں تک کہ خریدو فروخت میں بھی سچ کو ترغیب دی ہے کیونکہ جھوٹ سے چیز بِک تو جائے گی مگر اس میں برکت نہیں رہے گی ہم میں سے بہت سے دوست یہ سوچتے ہیں کہ فلاح انسان جھوٹ بو ل کر اپنی چیزیں فروخت کر تا ہے اور بہت امیر ، مال و دولت سے مالا مال ہے اسے تو کوئی سز ا نہیں ملی تو اسے صرف خامی خیالی ہی تصور کیا جا نا چاہیے کیونکہ ایسے لوگوں کو اللہ دنیا میں بہت نوزاتے ہیں مگر آخرت میں ان کو بہت بڑی سزاسے گذرنا پڑے گا ۔ہمارے معاشرے کی ایک برائی یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی پرورش میں جھوٹ شامل کر دیتے ہیں مثال کے طور پر دروازے پر گھنٹی بجی ہم اپنے بچے کو اکثر یہ کہہ دیتے ہیں کہ جو بھی ہو اسے کہنا کہ گھر پر کوئی نہیں ہے یہاں سے جھوٹ کی ابتدا ہو جاتی ہے وہ معصوم بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اسے یہ چھوٹے چھوٹے جھوٹ گناہ نہیں لگتے ۔
اگر نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی زندگی کو دیکھیں تو بچپن میں ہی لوگ آپ کو امین اور صادق کے لقب سے پکارا کرتے تھے اللہ کریم نے آپ ﷺ کی ذات کو ہمارے لیے نمونہ بنا دیا ۔سچائی، انسانیت اور ایمانداری کا یہ عالم تھا کہ دشمن بھی آ پ کی تعریف کرتے تھے ، آپ ہی وہ ہستی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مقامِ محمود عطا فرمایا۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں اور علم کے بحر میں غوطہ لگائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ آزمائشیں بھی انبیاء کرام پر آئیں لیکن وہ صابر رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت و جلال کے مراتب پر فائز فرمایا۔آنحضرتﷺ پر سب سے زیادہ آزمائشیں آئیں لیکن آپ نے سچائی کے ساتھ اللہ کے ساتھ کیے وعدوں کو پورا فرمایا ۔ آج ہم پرذرہ برابر پریشانی آ جائے توہم جھوٹ کے دامن کا سہارا لے کے کامیابی کا راستہ ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں اور جھوٹ کی دلدل میں بس ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ آج ہم مختلف مصیبتوں اور آزمائشوں میں مبتلا ہیں ہمارا یہ وطیرہ ہے کہ ہم دوسروں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ فلاں نے میرے بارے ایسا غلط کیا ہوگا جس کی وجہ سے میں آج اس حالت میں ہوں لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جو ہم لوگ چھوٹے چھوٹے گناہ کرتے ہیں ایفائے عہد پورا نہیں کرتے ، امانت میں خیانت کرتے ہیں ، چغلی کرتے ہیں ، دوسروں کی برائیاں کرتے ہیں کیا ان کی سز ا نہیں ملے گی؟ جی بالکل یہی وہ چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جن کو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ سچائی میں اگرچہ خوف ہے لیکن باعث نجات ہے جب کہ اس کے بر عکس جھوٹ میں اطمینان ہے لیکن موجب ہلاکت ہے۔ دراصل ہم جھوٹ کی کڑواہٹ میں اتنے گُھل مل گئے ہیں کہ سچ کر حلاوٹ بھی محسو س نہیں کر سکتے۔ اگر ہم صرف اتنا محسوس کر لیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے ، نہ اس کی زمین سے نکل سکتے ہیں نہ اس سے چھپ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ واللہ اگر ہم صرف جھوٹ بولنے کی عادت کو ترک کر دیں تو یقین مانیں یہ دنیا اللہ کے فضل و کرم سے جنت بن جائے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔