Sunday 23 April 2017

عصرحاضر کا فلسفی شاعر۔۔۔۔by M Tahir Tabassum Durrani


مکمل تحریر >>

Thursday 20 April 2017

علامہ اقبال کا تصور ریاست اور موجودہ پاکستان By M Tahir Tabassum Durrani

http://sama.pk/epaper/page/10/
My Article Published in Daily Sama Lahore. 21-04-2017



مکمل تحریر >>

Monday 17 April 2017

کتابیں فرش پر اور جوتے شو کیس میں by M Tahir Tabassum Durrani

http://sama.pk/epaper/page/9/
کتابیں فرش پر اور جوتے شو کیس میں 
18-04-2017



مکمل تحریر >>

Thursday 13 April 2017

کتابیں فرش پر اور جوتے شو کیس میں by M Tahir Tabassum Durrani


کتابیں فرش پر اور جوتے شو کیس میں

سکول کے زمانے میں علم بڑی دولت ہے کا مضمون پڑھایا جاتا تھا، علم ایک قوت ہے علم کے ذریعے ہمیں صرف مادی دولت ہی نہیں بلکہ روحانی سکون بھی ملتا ہے ، علم ایک زیور ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتاہر مذہب میں علم حاصل کر نے کو ایک اہمیت حاصل ہے اور ہمارے مذہب میں علم حاصل کرنا فر ض قرار دیا گیا ہے ۔علم کے بغیر کوئی انسان اپنی ذات کو بھی نہیں پہچان سکتا اور یوں اپنے مقصد حیات سے بھی بے خبر رہتا ہے علم سے ہی انسان نے اپنے رب کو پہچانا، علم حا صل کر کے انسان اپنی، اپنے معاشرے اور قوم کی بہتری کا سبب بن سکتا ہے ۔یہ علم ہی ہے جس کے ذریعے انسان نے سمندروں کو چیرنا سیکھا ہواؤں میں اُڑنا سیکھا میلوں دور بیٹھے انسان سے قربت حاصل کی۔کسی ملک کے سیاسی نظام میں استحکام ، اداروں میں مضبوطی ، ثقافتی ، معاشرتی ترقی صرف اور صرف علم حاصل کرنے کے راز میں پنہاں ہے علم کے بغیر کسی معاشرے کی ترقی ناممکن ہے اور لوگوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کا شعور علم کے بغیر ناممکن ہے۔
لاہور کو ادب کے حوالے سے بھی بہت زیادہ اہمیت ہے ، لاہور علماء ، مذہبی ، ادبی، تعلیمی، سیاسی الغرض تمام شعبوں کا گھر ہے ۔ یہاں بہت بڑے بڑے نامور دانشوروں نے اپنی تخلیقا ت سے لوگوں میں علم و ادب کی شمعیں روشن کیں۔ان میں ایک ایسا شخص بھی گزرا ہے جسے پاکستان کا انقلابی شاعر کہتے ہیں۔ اس عظیم شاعر کو جناب فیض احمد فیض نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ حبیب جالب ہی عوام کے صحیح نمائندہ شاعر ہیں جو نہ ڈرتے ہیں نہ جھکتے ہیں۔لاہور کے مشہور مال روڈ پر پاک ٹی ہاؤس کو ادبی لحاظ سے بہت اہمیت حاصل ہے یہاں پر بڑے بڑے شاعر ، ادیب ، دانشور اور ادبی شخصیات بیٹھ کر اپنی تخلیقا ت ایک دوسرے کودکھا کر سناکر داد وصول کرتے اور چائے کی چسکیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو، ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی اور فیض احمد فیض ایک ساتھ بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے۔ پاک ٹی ہاؤس کی تاریخ پاکستان کی تاریخ سے تھوڑی زیادہ پرانی ہے۔ پاک ٹی ہاؤس 1940ء میں ایک سکھ خاندان نے چائے کا ڈھابا بنایا تھا جہاں ادبی علمی شخصیات اکثر و بیشتر آتی تھیں۔ اس ڈھابا نے بہت جلد موجو دہ نام کو حاصل کر لیا۔
کل میں پاک ٹی ہاؤس میں ایک دوست کے ساتھ بیٹھ کر کچھ ادبی گفتگو کر رہا تھا کچھ سیکھنے کی بات کر رہا تھا تو میں نے وہاں پر احمد ندیم قاسمی اور دیگر ادبی لوگوں کی تصاویر دیکھیں ، یقیناََہم جیسے طفل مکتب کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔لیکن ایک چیز دیکھ کر بہت دکھ ہوا جب چائے پینے کے بعد واپس آرہے تھے ان اتنے بڑے بڑے نامور شخصیات کی کتابیں زمیں پر پڑی تھیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ ایک کالم لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تو اتنی بڑی بڑی شہرہ آفاق کتابیں جو کتنی عرق ریزی سے شائع کرائی ہونگی ۔ کتنی محنت اور لگن سے کام کیا ہوگا، لیکن آ ج وہ مال روڈپر گرد میں لپٹی زمین (فٹ پاتھ)پر پڑی اس قوم سے سوال کر رہی ہیں ، کیا ایسی قومیں ترقی کرتی ہیں؟ جن کی اتنی نایاب کتابیں زمین پر پڑی ہوں اور پاؤں کی زنیت بننے والے جوتے شیشے کے شو کیس میں سجائے گئے ہوں۔کتنے افسو س کی بات ہے کتابیں جو ہمیں علم کی روشنی سے مستفید کرتی ہیں وہ زمیں پر کھلی فضا میں گَر د میں لپٹی پڑی ہوں اور جوتوں کو چمکدار شیشوں کے اندرطرح طرح کی روشنیوں میں سجا کر رکھا ہو۔
کیا ہم بحیثیت قوم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمیں نہ علم کی قدر، نہ استاد کی عزت اور نہ کتاب کی عظمت کا خیال ۔ہم ایک دوسرے پر تنقید برائے تنقید کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم دوسر وں کو تو سدھارنا چاہتے ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانکنا تک گوارہ نہیں کرتے ۔ ہم دوسروں کی تو اصلا ح کرنا چاہتے ہیں مگر اپنی ڈوبتی نہیا کو نہیں دیکھنا چاہتے ۔ دشمن اپنے مضموم ارادوں میں کامیاب ہوتا چلا جا رہا ہے ہم ابھی تک ایک قوم نہیں بن سکے۔ہم اپنے لیڈرز کوبدلنا چاہتے ہیں ، مگر اپنے آپ کو نہیں۔تبدیلی نظام بدلنے سے یا لیڈرز بدلنے سے نہیں آنے والی تبدیلی خود کو بدلنے سے آئے گی۔علم کی آگاہی اور شعور سے ہی ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ممکن ہے ۔
کتنے افسو س کی بات ہے نہ حقو ق العباد کی فکر ، نہ فکرِ آخرت لیکن آرزو جنت الفردوس کی، ہمیشہ وہ قومیں ترقی کی منزلوں کو چھوتی ہیں جو علم کی دولت سے مالا مال ہوتی ہیں۔جو اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں ۔علم کی افادیت سے کون انکار کر سکتا ہے زمانہ قدیم سے دور حاضر تک ہر متمدن و مہذب معاشرہ علم کی اہمیت سے آگاہ ہے۔اسلام نے بھی علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ہمارے پیارے کریم آقا ﷺ نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔اتنی بڑی بڑی کتابیں پڑھ کربڑی بڑی ڈگری حاصل کر نے کے باوجود اگر شعور حاصل نہ کیا تو صرف کاغذ کے ٹکڑے اکھٹے کرنے کے سوا کچھ نہ کیا۔ آج ہم ذوال کی دلدل میں دھنستے جار رہے ہیں ، مصیبتوں ، پریشانیوں نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال رکھا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ علم کی دولت سے دوری اور کتابوں کے ساتھ بے وفائی ہے ۔ ہماری ایک بد قسمتی یہ بھی ہے پہلے سکول علم کے ساتھ شعور بھی پیداکرتے تھے مگر اب درسگاہیں صرف کاروبار کا زریعہ بن گئیں ہیں۔ کچھ عناصرتعلیم کے دشمن بن گئے ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق کررہے ہیں۔ ایک مرتبہ شیخ سعدی نے علم کی اہمیت کے بارے بہت خوبصورت انداز میں فرمایا جس آدمی میں علم نہیں وہ آدمی نہیں جانور ہے۔ اور جس گھر میں کوئی علم والا نہیں وہ گھر نہیں جانوروں کا دربار ہے۔اور جس ملک میں علم کا رواج نہیں وہ ملک نہیں حیوانات کا جنگل ہے۔ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے اور بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسی قوم جو کتاب کی افادیت اور علم کی دولت کو پاؤں کے تلے روندتی ہے اور جوتوں کو سروں پر سجاتی ہے ایسی قوم کو کتابوں کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔
مکمل تحریر >>

Wednesday 12 April 2017

پاکستان مسلم لیگ (ن)2025ء وژن by M Tahir Tabassum Durrani


مکمل تحریر >>

Monday 10 April 2017

نون لیگ کا 20 ٹونٹی فائیووژن by M Tahir Tabassum Durrani


نون لیگ کا 20 ٹونٹی فائیووژن


پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور آزادی سے لیکر آج تک مسائل میں گھرا ہوا ہے ۔ غربت ، افلاس، بے روزگاری، شعور کی کمی اور شرح خواندگی میں کمی جیسے مسائل اس کی ترقی میں روکاوٹ کی بڑی وجہ ہیں۔ ہر آنے والا دن پہلے دن سے مختلف ہوتا ہے نشیب و فراز زندگی کے سفر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں اور ہر رات کے بعد ایک روشن صبح ضرور طلوع ہوتی ہے ۔ وہ قومیں جو تعلیم اور محنت کو اپنا شعار بناتی ہیں وہی ترقی کی منزلوں کو چھوتی ہیں۔ بڑی نصیبوں والی وہ قوم ہوتی ہے جن کو وسیع النظر اور حب الوطن لیڈر میسر آتے ہیں کیونکہ لیڈر اپنے اگلے الیکشن کا نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کا سوچتے ہیں۔چین ، کوریا، ملائیشیا ترکی اور انڈیا کے مثال ہی لے لیں ۔ لیڈر ہی قوم کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اگر کسی قوم پر بُر ا وقت آیا تو بھی اس میں لیڈران کابڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ الحمداللہ پاکستان اُن مما لک میں سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ایسے عظیم لیڈر عطا کیے ہیں جو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ محمد علی جناح، شہید ذولفقارعلی بھٹو ، محترمہ شہید بی بی بے نظیر بھٹو پھر اگر عصر حاضر میں دیکھا جائے تو میاں براران ہی اس وقت اُمید کی وہ واحد کرن ہیں جو ملک کی تقدیر بدلنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
میاں برادراں کے پاس ایسی تجربہ کار ٹیم ہے جو ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے دن رات محنت کر رہی ہے ۔ اس ٹیم میں ایک ایسا ایسا دانشو اور سلجھا ہوا ر لیڈر بھی ہے جو پاکستان کو 2025ء تک دنیا کے 10 ترقی یافتہ ممالک کے صف میں دیکھ رہا ہے ، پروفیسر احسن اقبال صاحب وزیر منصوبہ بند ی نے وژن 2025پیش کر کے حب الوطن شہری ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔جو چاہتا ہے کہ 2025ء میں ہمارا پیا را پاکستان دنیا کے ٹاپ 10ممالک میں اپنا الگ مقام بنانے میں کامیاب ہو۔پروفیسر احسن اقبال ایک پڑھے لکھے منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جو کہ ایک سیاسی خاندان میں 1958ء میں پیدا ہوئے۔ان کی والدہ محترمہ نثار فاطمہ قومی اسمبلی کی رکن تھیں۔اور ان کے نانا چوہدری عبدالرحمٰن انگریز کے زما نہ میں 1927ء سے 1945ء پنجاب لجسلیٹو اسمبلی ( Punjab Legislative Assembly) کے ممبر رہے۔آپ نے 1976 ء میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (UET Lahore) لاہور سے مکینیککل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی اس کے بعد انہوں نے ایم بی اے (MBA) ڈگری پنسلوانیا سے حاصل کی۔زمانہ طالبعلمی سے ہی آپ سیاست سے 
وابستہ تھے ،1988ء میں مسلم لیگ نون میں شامل ہوئے ہیں۔1993 کے جنرل الیکشن میں نیشنل اسمبلی این اے(NA-117)نارووال سے الیکشن جیت کے پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔اور اس وقت پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت میں وزیر منصوبہ بندی ہیں۔
ان کا وژن 2025 پڑھنے کے بعد میں بڑے یقین سے کہ سکتا ہوں اگر مسلم لیگ نون کو دوبارہ اقتدار ملا تو بلا شبہ پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ٹاپ 10ممالک کی صف میں نہ صرف کھڑا ہوگا بلکہ دنیا کے بڑے بڑے بزنس تائیکون پاکستان میں بزنس کرنا فخر سمجھیں گے۔ان کے وژن کے مطابق 2025ء میں پاکستان کا شمار دنیا کے 25 اور 2047 تک دسویں بڑی معیشتوں میں ہوگا انشاء اللہ۔اس منصوبہ میں سات ستون (SEVEN PILLARS) کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ، سماجی فلاح اور انسانی بہبود کے منصوبوں پر عمل درآمد، شرح خواندگی میں اٖضافہ کرنا ، پرائمری سکولوں میں داخلہ اور حاضری کوسو فیصدیقینی بنانا منصوبے میں شامل ہے ۔ ہائر ایجوکیشن میں اضافہ کرنا اسے 7 فیصد سے بڑھا کر 12فیصد تک لانا، پاکستان میں پی ایچ ڈیز کی تعداد میں اضافہ کرنا موجودہ تعداد 7000 ہے جس کو بڑھا کر 15000 تک لے جانا۔ عورتوں کے برابر حقوق کی تقسیم ، خواتین کی افرادی قوت میں اضافہ کرنا جو کہ 24فیصد ہے بڑھا کر 45 فیصد تک کرنا۔صحت کے شعبے میں اصلاحات لانا، صحت عامہ کے منصوبہ جات پر عمل درآمد کرنا تاکہ لوگوں کو جان لیوا بیماریوں جیسے پیپاٹائیٹس، اسہال، شوگر اور دل کی مہلک بیماریوں میں 50 فیصد تک کمی لانا۔غیر نصابی سرگرمیوں پر کام کرنا۔وژن 2025 میں سالانہ جی ڈی پی پیداوار 4تا5 فیصد سے بڑھا کر 7 فیصد اضافے کے ہدف مقر ر ہے۔ امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانا اور معیشت کی بہتری ، توانائی کے بحران پر قابوپانا۔نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا اولین ترجیحات میں شامل ہے ۔
پاکستان میں بہتر حکمت عملی کے ذ ریعے زرعی شعبہ کی بحالی ، بر�آمدات میں اضافہ اور گڈگورنس اہم نکات ہیں۔ اس وژن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد 60 فیصد ہے ،بے روزگار نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ قو م کا مستقبل بہتر ہو سکے۔اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لیے ملک میں انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری بہت ضروری عمل ہے پاکستان میں موجودہ فی کس آمدنی 1299 ڈالر سے بڑھا کر 4200ڈالر تک لے جانے کا ہدف منصوبہ کاحصہ ہے۔غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا، غربت 49 فیصد سے کم کر کے 20فیصد تک لانا شامل ہے۔
بجلی کی ضرورت اور خرچ کے فرق کو 2018ء تک ختم کرنے اور 2023 ء تک 25000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا ہدف بھی وژن میں شامل ہے ۔بجٹ کے خسارے کو کم کر کے 4فیصد تک لانے اور نیشنل سیونگز کو جی ڈی بی کا 18 فیصد سے 21 فیصد تک بڑھانے اور ایف بی آر کو ملکی غیر ملکی دستاویزی معیشت کو دستاویزی شکل میں لانے کے اہداف شا مل ہیں۔ اگر موجودہ حکومت اپنے اس وژن پر عمل درآمد کر لیتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں صف میں کھڑا ہوگا۔ جہاں روزگار ملے گا وہیں ایک باعزت اور پڑھا لکھا 
معاشرہ تشکیل پائے گا۔ موجودہ حکومت بہت حد تک اپنے اس وژن پر عملی طور پر کام کرتی دیکھائی دے رہی ہے ۔ پورے ملک میں طرح طرح کے ترقیاتی منصوبہ جات تیزی سے تکمیل کے مراحل میں پہنچ چکے ہیں ۔ ہسپتال، سکول، بجلی گھر اور سڑکوں کو جال بچھایا جار ہاہے یہ تمام منصوبہ جات وژن 2025ء کا جزو ہیں جس پر حکومتِ وقت (نون لیگ)کام کر رہے انشاء اللہ بہت جلد ملک سے اندھیرے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے۔
شرح خواندگی میں اضافہ
انسانی و سماجی بہبود کے منصوبے 
صحت عامہ کے پروگرامز
طالبعلموں کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں میں اضافہ
بے ورزگاری کا خاتمہ
نوجوانوں کے لیے روزگار کی فراہمی
معیشت میں بہتری، امن وامان کی صورت حال اور توانائی کے بحران پر قابوپانا وژن 2025 کے اہم نکات ہیں۔
مکمل تحریر >>

Thursday 6 April 2017

اورنج لائن ٹرین حکومت پنجاب کا انقلابی منصوبہ bye M Tahir Tabassum Durrani



اورنج لائن ٹرین حکومت پنجاب کا انقلابی منصوبہ
سورۃ النشرہ آیت نمبر 5 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : تو بے شک دشواری کے بعد آسانی ہے ۔اس آیت کریمہ کے روشنی میں اگر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب کوئی انسان کسی کام کو کرنے لگتا ہے تو شروع میں مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر انسان مسمم ارادے اور نیک نیتی سے کسی کام میں لگا رہے تو کامیاب ضرور ہوتا ہے ۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے شروع دن سے ہی ملک پاکستان کے ساتھ زیادتیوں کے سلسہ جڑا ہوا ہے، پاکستان کو اللہ تعالی نے آج تک شاد و آباد کھا ہوا ہے اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک زندہ و جاوید رہے گا۔ 
پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا آبادی والا صوبہ ہے اور اس کے مسائل بھی اسی حساب سے بہت زیادہ ہیں لیکن پنجاب حکومت اپنے تمام تر وسائل انتہائی نیک نیتی ایمانداری اور دیانتداری سے استعمال میں لا کرعوامی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کر رہی ہے ۔عوامی مسائل کے حل کے لیے ہسپتال، سکولز، سڑکیں اور بجلی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے بھر پور انداز میں کوشاں ہے ۔یقیناًجہاں پھول ہوں وہیں کانٹے بھی ہوتے ہیں ، لیکن جب آسانی حا صل کرنی ہوتو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہوتی ہے۔ سورۃ الرعد آیت نمبر 11 میں اللہ جلہ شانہ‘ انسان سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں(بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی آپ کو نہ بدل ڈالے)اس آیت کریمہ سے ہمیںیہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو اپنے حالات بدلنے کے لیے ہمیشہ محنت کرتے رہنا چاہیے کیونکہ جب تک انسان محنت نہیں کرتاوہ اپنے حالات نہیں بدل سکتا۔ اگر حکومت پنجاب کی بات کی جائے تو وہ تما م تر وسائل بروئے کار لا کر ملک و قوم کی حالت بدلنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ صوبہ پنجاب کا ایسا بہادر لیڈر، مدبرانہ صلاحیتوں کا مالک عوام دوست رہبر ہر وقت صوبے کے مسائل سے لڑنے کے لیے تیار رہتا ہے ۔ رمضان میں سستے رمضان بازاروں کا قیام اور عام دنوں میں اتوار بازار کا قیام تا کہ عوام سستے اور معیاری اشیاء کو خرید سکیں۔ طبی سہولتوں کے لیے ہسپتالوں کے اندر کام، سکولوں کے لیے فنڈز کا اجرء اولین ترجیح ہے۔ صوبے میں ایک تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ حکومت پنجاب کی ساری توجہ لاہور ،فیصل آباد ، گوجرانوالا پر دی جا رہی ہے جبکہ جنوبی پنجاب کو یکسربھلا کر سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہے یہ محض تعصب اور بغض ہے ، میٹروبس ملتان کا کامیاب منصوبہ الحمداللہ پایہ تکمیل تک پہنچا ، جنوبی پنجاب کی بیٹیوں کے لیے زیور تعلیم پروگرام، صاف پینے کے پانی کے فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب جنوبی پنجاب کی عوام کے ساتھ محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ 
ؒ لاہور پنجاب کا دل ہے اور ٹریفک کے مسائل سے دوچار ہے ان مسائل کے حل کے لیے حکومت پنجاب نے عملی اقدامات کی ایک مثال قائم کر رکھی ہے آئے روز ٹریفک کے مسائل کے لیے بے پناہ منصوبوں پر کا م کیا ہے شروع میں کھودائیوں کی وجہ سے بے شک مشکلات کا سامنا رہتا ہے لیکن یہ وقتی مشکلات ہیں جیسے ہی یہ منصوبہ جات مکمل ہوتے ہیں فائدہ عوام کوہی ہوتا ہے۔لاہو ر میں سگنل فری نظام نہ صرف متعارف کرایا بلکہ اس وقت بہت سی شاہرات پرٹریفک روان دواں ہے۔ حکومت پنجاب نے ایک بے مثال منصوبے کی بنیاد رکھی ہمیشہ کی طرح ملکی ترقی کے دشمن اس منصوبے میں بھی روکاوٹ بنے اور منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔ دنیا بھر میں جہاں ٹریفک کے مسائل ہوں اُن کے حل کے لیے میٹرو بس ، ٹرانزٹ ریل جیسے منصوبے ٹریفک کے مسائل کے حل کے لیے بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ حالا نکہ تنقید کرنے والے خود ایسے منصوبہ جات شروع کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ریل کا ادارہ حکومتی ادارہ ہوتا ہے جو کہ آمدورفت میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ مسافروں کی مسافت ہو یا پھر ترسیل سامان ، پاکستان ریلوے سستا ترین زریعہ آمدورفت گنا جا تا ہے۔ پہلی مرتبہ 13 مئی 1861ء کو کراچی سے کوٹری تک عام لوگوں کے لیے ریلوے لائن کھولی گئی تھی، 1885 ء میں ریلوے کی چار شاخوں کو ملا کر ایک کمپنی سکنڈے پنجاب اور دہلی ریلویز بنا دی گئی جسے انڈین سکریٹری آف اسٹیٹ نے خرید لیا۔ صوبہ پنجاب کے بڑے شہر یعنی لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ معرض وجود میں آیا جو کہ پاکستان اور چین اقتصادی راہداری منصوبے کا ایک حصہ ہے اور پاک چین دوستی کی ایک عظیم مثال قائم ہوئی۔ یہ منصوبہ ملک کی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا ، پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو گا کہ بین الاقوامی معیار کا سفر لاہور کی عوام کو شہر کے اندر میسر ہوگا، ایک تقریب میں میاں شہباز شریف نے چین کے ساتھ میٹرو ٹرین چلانے کے منصوبے کے معاہدے کو تاریخی قراردیتے ہوے کہا کہ میٹرو ٹرین منصوبہ ملک کی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ اور عوام کو جدید اور بہترین سفری سہولتیں میسر آیں گی۔ میٹرو ٹرین منصوبہ آمدورفت کے نظام میں انقلاب برپا کر دے گا۔اورنج لائن منصوبہ کی نگرانی اس کی کنسٹرکشن اور ڈیزایننگ ایک مشہور چینی کمپنی کرے گی اور حکومت پنجاب کمپنی کو ہرممکن مدد فراہم کرے گی اس منصوبے کی سب سے مزے کی بات یہ ہے تعمیر و تکمیل کے بعد کا مکمل انتظام و انصرام بھی چین خود کرے گا۔بے شک چین کی قیادت کے بغیر ایسا شاندار منصوبہ جس کی پہلے کبھی نظیر نہیں ملتی ممکن نہ تھا۔
ٹرین کے سپیڈ80کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی یہ ٹرین26 اسٹیشنز سے گذرتی ہوئی اپنی منزل کی طرف گامزن رہے گی۔ 2 اسٹیشنز زیر زمین ہوں گے جوکہ چینی کمپنی کے مطابق بین الاقوامی طرز تعمیر کے خوبصورت دیدہ زیب ہوں گے۔یہ تاریخ ساز منصوبہ لاہور کے سبھی علاقوں کو جوڑتا ہوا ڈیرہ گجراں سے شروع ہو کر علی ٹاؤں رائے ونڈ روڈ تک جائے گا ۔27.1 کلو میٹر کا یہ فاصلہ 45 منٹس میں طے ہوگا۔اس منصوبے کی خوبصورتی یہ ہے کہ 4.25 کلومیٹر کا ٹریک ایلویٹیڈ یعنی معلق ہوگا منصوبہ کے تحت ہر گھنٹہ میں 10 ہزارمسافر اس آرام دہ اور معیاری سفر ی سہولت سے مستفید ہونگے۔ یہ ٹرین روزانہ صبح 5:30 سے رات 11:00 بجے تک جو تقریباََ 18 گھنٹے بنتے ہیں سفر ی سہولت فراہم کرے گی۔ اس کے کرائے کا حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا لیکن امید کی جاتی ہے عوام کی امنگوں کے عین مطابق ہوگا۔ ٹرین کی سہولت ہر آدھ گھنٹہ بعد میسر آئے گی۔ یہ عوام دوست منصوبہ 27ماہ میں مکمل ہونا تھا لیکن ملک اور ترقی کے دشمن اس میں روکاوٹیں کھڑی کر کے اس منصوبے کہ نقصان پہنچانے میں سرگرم عمل ہوگئے لیکن حکومت پنجاب نے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہچانے میں ہر ممکن کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔یہ منصوبہ تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہاہے اس وقت 7 کلومیٹر ایلو یٹیڈ ٹریک مکمل ہو چکا ہے اور7 اسٹیشنز بھی مکمل ہو چکے ہیں ان پر پٹری بچھانے اور دیگر الیکٹریکل و میکنیکل کام جاری ہے جو کہ ایک خوش آئندبات ہے ۔تمام محکمے جو اس منصوبہ سے وابستہ ہیں محنت ،ایمانداری اور لگن سے کام کر رہے ہیں۔
اس عوام دوست منصوبے کے تحت روزانہ کی بنیاد پر 2,50,000(دو لاکھ پچاس ہزار)مسافر سفر کریں گے۔ حکومت پنجاب کا یہ ایک تاریخی اور بے مثال منصوبہ ہے وقتی طور پر اس منصوبے کی وجہ سے عوام کو پریشانی کا سامنا ہے لیکن اس کے مکمل ہونے پر فائدہ بھی ہم عوام کوہوگا۔ اس منصوبے کے تحت نہ صرف ٹریفک کے مسائل پر قابو پایا جا سکے گا بلکہ سستے آرام دہ اور معیاری سفر کی سہولت بھی میسر آئے گی۔
مکمل تحریر >>

Tuesday 4 April 2017

Imtehan..........................100 words Story


مکمل تحریر >>

Sunday 2 April 2017

لاہور کی سیراور ڈبل ڈیکر بس کے مزے by M Tahir Tabassum Durrani.....published daily Naibaat and Sama Lahore

http://sama.pk/epaper/page/10/

http://naibaat.com.pk/Pre/lahore/Page13.aspx

مکمل تحریر >>