Tuesday 2 April 2019

کھیوڑہ سالٹ رینج نمت خدا وندی تحریر طاہر درانی

کھیوڑہ سالٹ رینج نعمتِ خدا وندی
از قلم۔ محمد طاہر تبسم درانی
0310-1072360
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بے شمار احسان کیے ، زندہ رہنے کے لیے کھانے کا بندوبست کیا ، اناج اُگانے اور سونے کے لیے زمین کو لیٹا دیا الغرض حضرت انسان کی خاطرو تواضع کے لیے انگنت نعمتیں نازل فرمائیں تا کہ انسان ان سے لطف اندوز ہو سکے اور سجدہ شکر بجا لائے ۔ پھر اپنی نعمتوں کا تذکرہ بھی خوب کیا قرآنِ مجید فرقان حمید کی سورۃ الرحمٰن میں اکتیس بار اس آیت کریمہ کو دہرایا ’’ کہ تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ‘‘ اس آیت کریمہ کو دہرانے کا مطلب اپنے بندوں کو اس بات کی تنبہ کرنا ہے کہ میں نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے نوازہ تا کہ تم شکر بجا لا سکواور اللہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط رکھوتا کہ تمہیں اور نواز سکوں ۔اگر اس سورۃ مبارکہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر دو نعمتوں کے بعد اللہ کریم نے اس آیت کریمہ کو نازل فرما یا’’ تم اپنے پروردگار کی کون کون سے نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ‘‘ اگردنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو جب کو ئی دوست اپنے دوست کے مشکل وقت میں کام آتا ہے، اُس کی کسی ضرورت کو پورا کرتا ہے ،لیکن دوسری طرف وہ انسان مسلسل احسان فراموشی کرتا ہے تو پہلا دوست یہ ضرور کہتا ہے کہ میں نے تیری فلا ں ضرورت کو پورا کیا تمہارے مشکل وقت میں تمہارا ساتھ دیا تمہیں میری کو ئی اچھائی یاد نہیں ؟ بالکل اسی طرح اللہ کریم اپنے بندوں کو بار بار یہ باور کروا رہے ہیں کہ میں نے تم پر اپنی نعمتوں کا نزول فرمایا اور تم شکر کرنے کی بجائے نافرمانی اور نا شکری کر رہے ہو۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اللہ کی نعمتوں سے مالا مال اسلامی ملک ہے ۔صوبائی دارلحکومت لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے تقریباََ250 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع جہلم کا ایک خوبصورت علاقہ کھیوڑا کا مقام ہے یہ مقام اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے اور یہ پہچان اللہ کے اُس نایاب تحفے کی وجہ سے جو دنیا میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے کھیوڑاکے مقام پر نمک کی وہ عظیم کان ہے جہاں نمک کی سب سے زیادہ مقدار نکالی جا رہی ہے ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت جتنا نمک اس کان سے نکالا جا رہے وہ مجموعی طور پر پاکستان کی دیگر کانوں سے نکالے جانے والے نمک سے زیادہ مقدار میں ہے قارئین کے لیے یہ بات دلچسپ ہو گی کہ پاکستان نمک کے ذخائرکے لحاظ سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آتا ہے دوسرے نمبر پرپولینڈ کے نمک کے ذخائر آتے ہیں۔ نمک ہمارے کھانوں کا ایک اہم جزو ہے کھانے میں اگر نمک کی کمی ہو تو اچھے سے اچھا کھانا بھی پھیکا اور بد مزہ ہو جاتا ہے اور اس لحاظ سے نمک کو کھانے کا سر دار جزو سمجھا جاتا ہے ہے کچھ جُملے بھی عام بولے جاتے ہیں ، فُلاں بڑا نمک حرام ہے ،فُلاں نمک حلال ہے ۔الغرض نمک کا ہماری روز مرہ زندگیوں کے ساتھ ایک گہرہ تعلق ہے ۔اور الحمد اللہ پاکستان نمک کے معاملے نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ وہ اسے فروخت کر کے دنیا میں اپنا ایک الگ مقام اور اہمیت رکھتا ہے ۔
مورخین اس کی تاریخ کے بارے میں کچھ خاص نہیں لکھتے البتہ اس بات پر سبھی کا اتفاق ہے کہ 322 قبل مسیح جب سکندر اعظم جب راجہ پورس سے لڑنے کے لیے نمک کے درے نندنہ سے گذر کر کھیوڑا کے مقام پڑاؤڈالااور اپنی فوجیں انہیں پہاڑوں میں چُھپا دیں ۔اسی دوران سکندر اعظم کا گھوڑا بیمار پڑ گیااورگھوڑے نے کان کی دیواروں کا چاٹنا شرو ع کر دیا اور گھوڑا تندرست ہو گیا پھر کچھ لوگوں نے بھی ان دیواروں کو چاٹنا شروع کر دیاجہاں انکشاف ہوایہاں قدرت نے نمک کا ایک انمول خزانہ چھپا رکھا ہے۔ کان جنجوعوں راجوں کے پاس رہی پھر مغلیہ دور میں یہ کانیں شاہی حکومت کے پاس آگئیں پھر آزدی کے بعد یہ حصہ پاکستان کی ملکیت بنا اوریہ کانیں پاکستان کے حصے میں آگئیں ۔ماہرین ارضیات کی تحقیق کے مطابق جہاں اب یہ نمک کے پہاڑ ہیں جن کو ’’ سالٹ رینج ‘‘ کہا جاتا ہے واقع ہیں یہ حصہ صدیوں پہلے سمندر کی تہہ میں تھا پانی کے بہاؤ، رساؤ بخارات کی وجہ سے یہ چٹانیں وجود میں آ گئیں پھر رفتہ رفتہ سمند ر ختم ہو گیا لیکن نمک کا یہ ذخیرہ زمین کے اندرمحفوظ ہوگیا ۔
موجودہ نظام ایک انجنیئر نے بنا یا تھا جس کا نام علی خان بتایا جاتا ہے ۔یہ اللہ کا انمول خزانہ 110 مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے ایک اندازے کے مقابق اس کان سے سالانہ 325000ٹن نمک حاصل کیا جاتا ہے ۔نمک نکالنے کے لیے ایک خاص طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ 50 فیصد نمک نکالا جاتا ہے جبکہ بقیہ 50 فیصد ستون اور دیوار کا کام کرنے کی غرض سے چھوڑ دیا ہے ۔اس کان کی 19 منزلیں ہیں جبکہ کہ گیا رہ (11) منزلیں زیر زمین ہیں ۔ کھیوڑا سے شروع ہونے والا یہ پہاڑی سلسلہ کالا باغ، میانوالی تک جاتا ہے ۔ کان کنی کا آغاز انگریز دور میں 1849ء میں شروع ہوا1872ء میں کان کے اندر نمک کے بڑے بڑے بلاکس کو لانے کے لیے چھوٹی ریلوے لائن بچھائی گئی اس ریل گاڑی کو کھینچنے کے لیے شروع میں گھوڑوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو ریل کے ڈبو ں کو باہر کھینچ کر لاتے پھر وقت بدلتا گیا اور ٹیکنالوجی سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے بجلی سے چلنے والے انجن کی مدد سے ریل کو کارآمد بنا یا گیا ۔کان کُنی کا طریقہ کار پہلے سادہ اور مشکل تھا یعنی ہتھ دستی خود ساختہ اوزار استعمال کیے جاتے بعد میں بجلی سے چلنے والے اوزاروں کا استعمال ہونے لگا اس کے بعد بارود کے ذریعے کان کو دھماکہ کر کے نمک حاصل کیا جانے لگا۔
کان میں کام کرنے والوں کی تعداد کافی ہے اور اس علاقے کے لوگ زیادہ تر اسی شعبے سے وابسطہ ہیں ۔ کچھ لو گ اپنا کاروبار بھی کرتے ہیں وہ نمک سے بنی خوبصورت آرائشی اشیا ء کوفروخت کرتے ہیں اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی مختلف اشیاء سیاحوں کو اپنی طرف مائل کر لیتی ہیں ، نمک سے بنے گلدان، ٹیبل لیمپ اور دیگر آرائشی اشیاء قابل ذکر ہیں۔ اس کان کے انتظامات پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کا رپوریشن کے پاس ہیں ۔شروع شرو ع میں کم لوگ اس کان کی سیر و تفریح کے لیے آتے تھے لیکن لوگوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اور سیاحوں کی بڑھٹی ہوئی تعداد کی وجہ سے پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کا رپوریشن نے ٹکٹ لگا دی جس سے اچھی خاصی انکم ہو جاتی ہے پاکستان اور دنیا بھر سے سیاح اس تاریخی کان کو دیکھنے آتے ہیں اور ٹکٹ حاصل کرکے کان کے اندر کی سیر کرتے ہیں ۔ داخلی دروازہ پہاڑوں کی نسبت بہت چھوٹا ہے ۔ چھوٹی ریل گاڑی جو نمک کو باہر لانے کے کام آتی ہے ایک ڈیڑھ کلومیٹر تک سیاحوں کو بھی اندر لے جانے اور واپس لانے میں مدد کرتی ہے لیکن اس کے لیے بھی الگ سے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے ۔کان کے اندر بہت گھُپ اندھیر ا ہوتا ہے لیکن برقی قمقموں کی وجہ سے ایک الگ دنیا 
کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ یہ کان دمہ کے مریضوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے اس لیے انتظامیہ نے کان کے اندر نمک کی دیواروں سے بنا ایک ہسپتال قائم کر رکھا ہے جس میں دمہ کے مریض کو رکھا جاتا ہے اور اس کی بیمار ی اللہ کے فضل سے تندرستی میں بدل جاتی ہے ۔ پیدل چلنے والوں کو احتیاطی تدابیر بھی بتائی جاتی ہیں کیونکہ اندر مختلف جگہوں سے نمک نکال لینے کی وجہ سے وہاں تالاب بن چکے ہیں ان تالابوں میں آج تک کوئی حادثہ پیش نہیں آیا چونکہ تالاب میں نمکین پانی موجود ہوتا ہے اگر اللہ نہ کرے کوئی گر بھی جائے تو وہ ڈوبتا نہیں ، وہاں پر یہ فقرہ بالکل ٹھیک کام کرتا ہے ’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ اگر کوئی گر بھی جائے تو مزدور / ورکر اوپر سے رسہ پھینکتے ہیں جسے پکڑ کر تالاب میں گرا ہوا انسان باہر آجاتا ہے ۔
کان کے اندر سیاحوں کے لیے مختلف قسم کے پروگرامز بھی مرتب کیے جاتے ہیں کبھی موسیقی کا پروگرام کبھی فیملی کے لیے پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں اندازے کے مطابق روزانہ 500 سے 600 افراد اس قدرت کے انمول خزانے کی سیر کرنے آتے ہیں ۔کان کے اندر بہتر حکمت عملی کو اپناتے ہوئے آدھانمک نکالا جاتا ہے تا کہ بقیہ دیواریں ستونوں اور پُل کا کام کر سکیں تا کہ کان نیچے کو نہ بیٹھ جائے جس سے خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے ۔کچھ حصہ اتنا گہرا کھودا جا چکا ہے کہ نیچے پانی نکل آیا ہے جس کے وجہ سے کافی جگہوں پر جھیلیں بن چکی ہیں ۔آنے جانے کے لیے نمک کو کاٹ تراش کر سیڑھیاں بنائی گئیں ہیں ۔ ایک ڈیرھ کلومیٹر اندر جا کر ایک چوکی نما جگہ بنی ہوئی ہے جہاں سے چار مختلف راستے نکلتے ہیں ۔ایک طرف نمک سے بنی خوبصورت مسجدہے جسے بادشاہی مسجد کا نام دیا گیا ہے یہ مسجد سیاحوں کو اپنی طرف مائل کر لیتی ہے اس مسجد کو 1994ء میں تعمیر کیا گیا تھا اس پر خوبصورت جگمگاتے برقی قمقمے اس مسجد کو خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں، اس سے تھوڑا آگے جائیں تو ایک ایسی جگہ آتی ہے جہاں پہاڑوں سے ہر وقت پانی رستا رہتا ہے اور پھر قطروں کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور اسی حالت میں جم جا تی ہے اور لڑیوں کی صورت نظر آتا ہے اس جگہ کو ’’ اشک نمک ‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے تھوڑا آگے جا کر نمک سے بنا خوبصورت مینار پاکستان نظر آتا ہے جس کے اندر بلب روشن ہوتے ہیں شفاف نمک سے باہر آتی روشنی اسے مزید خوبصورت اور جاذبِ نظر بنا دیتی ہے ۔ کان کے اندر مختلف حصوں کو نام بھی دیے گئے ہیں جیسے ’’ بانوں بازار، شیش محل،بھاٹی گیٹ اور پُل صراط‘‘وغیرہ۔ کان کے اندر اگر آپ چاہیں تو اپنے ساتھ گائیڈ بھی لے جا سکتے ہیں جو نہ صرف آپ کی راہنمائی کرتا ہے بلکہ مختلف حصوں کے بارے آگاہی بھی دیتا ہے جس سے سیاحت کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
سیاحوں کی خاطر تواضع کے لیے پارکنگ ایریا کے سامنے بہت بڑا ہوٹل ہے جو بہترین کھانا اور چائے مناسب داموں آپ کی خدمت میں پیش کرتاہے اسی ہوٹل کے ساتھ چھوٹی چھوٹی سرکاری دکانیں موجود ہیں جہاں سے آپ اپنے پیاروں کے لیے نمک سے بنے تحفے تحائف خرید سکتے ہیں ۔ہوٹل سے لیکر ٹکٹ گھر تک عارضی آہنی لوہے کی بنی چھت موجود ہے تا کہ سیاح گرمی کی شدت سے بچ سکیں ۔داخلی راستے سے پہلے سکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے واک تھرو گیٹ بنایا گیا ہے جہاں جامہ تلاشی کے بعد سیاحوں کو اندر جانے کی اجازت ملتی ہے پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کا رپوریشن نے بچوں کے لیے جھولے ، سرکس اور دیگر تفریحی چیزوں کا بھی بندوبست کیا ہوا ہے ۔
اتنی بڑی نعمت لیکن افسو س ہم اس نمک کو بھارت جیسے دشمن ملک کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ رہے ہیں جبکہ بھارت میں اس نمک کو بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔اور اپنی مذہبی رسومات میں استعمال کرتا ہے جبکہ یہودی بھی اس کا استعمال ’’کوشر ‘‘ حلال کے طور پر کرتے ہیں۔ اگر اسی صنعت پر توجہ دی جائے تو پاکستان اپنی معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے اگر بھارت پاکستان کے ساتھ کیے معاہدے توڑ سکتا ہے تو پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ نمک کے معاہدے کو توڑ کر اسے مہنگے داموں فروخت کر کے اپنا لوہا منوائے بھارت کے ساتھ دیگر ممالک کو بھی
نمک کی سپلائی دی جانی چاہیے تا کہ اس صنعت کو اور اس سے وابستہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتربنایا جاسکے 


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔