Monday 25 September 2017

خطرے کی گھنٹی۔۔۔۔۔تمباکونوشی کے نقصانات پر مبنی کالم۔۔۔۔ By M Tahir Tabassum Durrani

http://www.abtak.com.pk/qaalam.htm
my today article published in daily sama and abtak lahore


http://sama.pk/epaper/page/10/

مکمل تحریر >>

Sunday 24 September 2017

خطرے کی گھنٹی۔۔۔تمباکونوشی کی نقصانات۔۔۔By M Tahir Tabassum Durrani


خطرے کی گھنٹی۔۔                       تمباکونوشی کی نقصانات۔۔۔

ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں اسلام کی لفظی معنی سلامتی اور امن کے ہیں اسلام جہاں ہمیں بھائی چارہ ، رواداری، محبت اور پاکیزگی کا درس دیتا ہے وہیں حرام اور حلال کی تمیز بھی سیکھاتا ہے اور حرام چیزوں سے بچنے کی تلقین بھی کرتا ہے کیونکہ جتنا ہم حرام سے بچیں گے اتنا ہی صحت مند معاشرہ تشکیل پائے گا۔اسلام نے نشہ کو حرام قراردیا ہے کیونکہ اس سے برائیاں جنم لیتی ہیں لیکن دل محو حیرت ہے کہ اس کے نقصانات اور خطرات معلوم ہونے کے باوجود اس کے استعمال میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے انسان چند لمحوں کے سرور کی خاطر اپنی لاکھوں کروڑں کی زندگی کو ناقابل تلافی نقصان کے حوالے کر کے خوش ہورہا ہے ۔نوجوان نسل میں اس کا استعمال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور نشہ آور ادویات کی ترسیل اور خرید و فروخت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے قابل تشویش بات یہ ہے کہ درسگاہوں، سکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیز میں اس کی فروخت عام ہے ، ایک مزدور اپنی خون پسینے سے حاصل کی گئی رقم کو دھویں میں اڑا دیتا ہے۔کئی زندگیاں اور خاندان برباد ہو چکے ہیں۔ گھر وں میں لڑائی جھگڑے ، چوری ، ڈکیتی کی وارداتیں، عورتوں بچوں کی ساتھ بد فعلی یا زیادتی ، غیر قانونی کام ہوں، سڑک پرحادثے ہوں یا قتل و غارت کے واقعات سب اسی نشہ آور چیزوں کے استعمال کی وجہ سے ہیں۔
تمباکونوشی سب برائیوں کی جڑ ہے ، تمباکونوشی ایک آفت ہے جو انسانی تہذیب کا حصہ بنتی جا رہی ہے اور معاشرے میں برائی کی جڑوں کو مضبوط کرتی جا رہی ہے اس کے خطرات اور مکمل شعور ہونے کے باوجود لوگ اس سے بچنے کی فکر نہیں کرتے بلکہ تمباکو نوشی کو اپنا سٹیٹس سمبل(Status Symbol)سمجھتے ہیں۔ایک بات واضع کرنا چاہتا ہوں تعجب کی بات ہے سگریٹ / تمباکونوشی کے ڈبوں پراس کے نقصان اور مضر صحت ہونے کے پیغام کو شائع تو کیا جاتا ہے لیکن اس کے نقصان کو جانتے ہوئے بھی اس کی پیداوار اور ترسیل کو روکنے کے لیے کوئی عملی کام نہیں کیا جاتا۔حکومت وقت کی اولین ترجیحح اورذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی ہر اُس چیز کی روک تھام کریں جو انسانی صحت اور جان کے لیے خطرناک ہو۔معاشرے کو برائیوں اور نشے سے پاک رکھنا حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس جان لیوا اور گھناونے کاروبار میں ملوث ہیں ان کو قرا ر واقعی سزا دیں تا کہ آنے والی نسلوں کو اس موزی بیماری سے بچایا جا سکے کیونکہ تمباکو نوشی زہر قاتل ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اس ناسور کو پھلنے پھولنے سے روکنے میں اپنا اخلاقی فرض ادا کریں۔ والدین پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ تعلیمی اخراجات پور ے کرنے اور جیب خرچ دینے کے بعد اولاد کی ذمہ داریوں سے خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں حالانکہ ان پر اس سے بڑی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ اولاد پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں کہ ان کے دیے گئے جیب خرچ کو کہاں خرچ کیا جارہا ہے ۔ بچوں پر اندھا اعتبار و یقین کر لینا مستقبل کے ایسے نقصانات کو ہوا دیتے ہیں تمباکو نوشی نوجوان نسل کی رگوں میں زہر اتارنے کے برابر ہے اس سے معاشرے میں نہ صرف اضطرابی پیدا ہوتی ہے بلکہ ایک کمزور معاشرہ تشکیل پاتاہے۔آج ہم جس دور سے گذر رہے ہیں الیکٹرونک میڈیا ، سوشل میڈیا ہمیں ہر قسم کی آگاہی دے رہا ہے ۔ آگاہی ہونے کے باوجود ہم اس پر توجہ نہیں دے رہے تو ہمارا آنے والا کل یقیناََ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ والدین کو بچوں پر اور ان کے دوستوں پر کٹری نظر رکھنی چاہیے بچوں کے دوستوں کے بارے مکمل شعور و آگاہی رکھنی چاہیے کہ ان کا بچہ کس قسم کے دوستوں کے ساتھ مصروف رہتا ہے کیوں کہ انگریزی کی کہاوت بھی مشہور ہے ۔
(A man is known by the company he keeps)
ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایسے افراد جو تمباکونوشی کثرت سے کرتے ہیں وہ متعدد بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں تمباکوپھیپھڑوں کے کینسر کے ساتھ ساتھ اور بھی مہلک (جان لیوا)بیماریوں کا سبب بن رہی ہے ۔ اندھا پن، شوگر، جگر کی بیماری اور بڑی آنت کے کینسر جیسی بیماریاں پید ا ہو سکتی ہیں۔ تمباکو نوشی کو قتل قبل از مرگ کا سبب بننے والی بیماری بھی کہا جا سکتا ہے۔تمباکونوشی کرنے والے افراد خود تو ان بیماریوں کا شکار ہوتے ہی ہیں لیکن وہ لوگ جن کو یہ دھواں چھو کر گذر جاتا ہے وہ دل کے عارضہ کا شکار ہو سکتے ہیں۔تمباکونوشی کرنے والے افرادنظر کی کمزوری جیسے مرض پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایسی خواتین جو دوران حمل تمباکونوشی کرتی ہیں ان کے ہاں بچوں کی پیدائش متاثر ہو سکتی ہے ۔کٹے ہونٹ والے بچے کی پیدائش بھی ہو سکتی ہے ۔اس کے علاوہ دوران حمل پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں جسم کے دفاعی صلاحیتوں میں اور جوڑوں کا درد بھی ہو سکتا ہے ۔
حکومت وقت نے جیسے انرجی و کولڈ ڈرنک کو سکولوں کالجوں یونیورسٹیز میں مکمل پابندی لگائی ہے ہم بطور عوام اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں ایسے ہی عملی طور پر تمباکوکی خرید و فروخت اور ترسیل پر مکمل پابندی عائد کی جائے کیونکہ یہ کام صرف حکومت وقت ہی کر سکتی ہے ۔ حکومت وقت اس بات کا احسن طریقے سے اندازہ لگا سکتی ہے کہ یہ کس قدر مو زی مرض ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ایک پڑھا لکھا طبقہ بھی اس کے خطرات و نقصانات کا اندازہ لگا سکتا ہے ۔آیئے مل کر اس موذی مرض سے بچنے کے عملی طور پر ایک عہد کریں اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن نشین کر لیں۔
سب سے پہلے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور اسلامی ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام ہمیں ایسی تما م خرافات سے منع کرتا ہے جس میں نشہ کا زرہ برابر بھی عنصر شامل ہو۔اس کے بعد اس کے مضر اثرات کو اپنے دماغ میں رکھنا چاہیے ، زندگی اللہ تعالیٰ کے دی ہوئی امانت ہے جس کو لوٹانا بھی ہے اس لیے اس کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔ایسی تمام مضر اشیاء جن سے عارضی اور فرضی طور پر سکون، سرور میسر ہو لیکن مستقبل میں اس سے جان کو خطرہ لاحق ہو اسے ابتدائی مرحلے پر ہی ترک کر دینا عقل مندی ہے۔اس کے لیے ایک وقت متعین کر لینا چاہیے اس کے بعد چاہے طبیعت جتنا مرضی میلان کرے اس سے باز رہنا چاہیے ۔ ایسے دوستوں اور محفلوں سے بچنے کو شش کرنی چاہیے جو اس بری عادت میں مبتلا کرنے کا باعث ہو۔اسلام نے نشہ حرام قرار دیا ہے اس کی خریدو فروخت کو بھی منع فرمایا ہے ، یعنی ایسی چیزوں کو بیچنا خریدنا بھی ممنوع قرار دیا ہے ۔ارشاد نبویﷺ ہے۔ کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر چلتا ہے ، اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ غور کر لے کہ وہ کس کو اپنا دوست بنا رہا ہے۔ ا چھی صحبت اوراچھے دوست ہی انسان کو ایسی خرافات اور برائیوں سے پاک رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

Wednesday 13 September 2017

آج پھر محمد بن قاسم کی ضرورت ہے By M Tahir Tabassum Durrani

http://www.abtak.com.pk/qaalam.htm
http://sama.pk/epaper/page/10/
my today article published in daily Abtak and Daily Sama-Lahore



مکمل تحریر >>

Tuesday 5 September 2017

مریم نواز سیاسی افق کا ابھرتا ہوا روشن ستارہ By M Tahir Tabassum Durrani.

http://www.abtak.com.pk/qaalam.htm
Today Article published 


مکمل تحریر >>

مریم نواز سیاسی افق کا ابھرتا ہوا روشن ستارہ by M Tahir Tabassum Durrani



مریم نواز سیاسی افق کا ابھرتا ہوا روشن ستارہ

تقریر کرنا ، لوگوں کو متوجہ کرنا، اپنی بات لوگوں تک پہنچانا پھر داد لینا یا لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا، اپنی گفتگو کے ذریعے مطمعن کرنا اگر سچ پوچھیں تو یہ ایک بہت بڑا فن ہے جو ہر بندے کے پاس نہیں اگر کہا جائے کہ یہ ایک خدا داد صلاحیت ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اللہ رب العزت جسے چاہے اس فن سے نواز دے بہت سے پڑھے لکھے اچھے لوگ تعلیم یافتہ تو ہو سکتے ہیں لیکن اچھے سپیکر نہیں۔بولنے کا ڈھنگ ، بات سے بات کو جوڑنا اور اپنے موضوع پر رہتے ہوئے بات کرنا اللہ کی عطا ہے ۔ اگر ماضی کی بات جائے تو یہ فن اللہ کریم نے شہید ذولفقارعلی بھٹو صاحب کو عطا کیا تھا وہ عوامی لیڈر تھے اور عوام میں بے پناہ مقبول تھے لوگ ان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے گریز نہ کرتے تھے ان کے بعد ان کی بیٹی محترمہ شہید بے نظیر بھٹوصاحبہ میں یہ فن باکمال تھا وہ لفظوں کے جوڑ تور سے خوب واقف تھیں ان کو اپنے لفظوں پر خوب گرفت تھی۔ 
حا ل ہی میں ملک کاسیاسی پارہ کافی گرم رہا ، ملک میں کافی تبدیلی دیکھنے کو ملی کچھ جوڑ توڑ ہوئے ملک کے وزیر اعظم کو ناہل قرار دے کر کرسی سے ہٹایا گیا، مختلف سیاسی جماعتوں نے خوب جشن منایا الغرض ملک میں ایک عجیب سی کیفیت دیکھنے کو ملی ۔ ایک بات یہاں کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ قوم سے ایک سوال ہے۔ہم کیسی قوم ہیں ؟ سیاسی لیڈر کرسی سے ہٹے تو مٹھائیاں بانٹتے ہیں ، کوئی فوجی ڈکٹیٹر ملک میں مارشل لاء نافذ کرے تو مٹھائیاں بانٹتے ہیں، وہی فوجی ڈکٹیٹر جب کرسی سے ہٹایا جائے تو مٹھا ئیاں بانٹتے ہیں ۔ کوئی سیاست دان ملک میں واپس آئے تو فقید المثا ل استقبال پھول کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں اور بعد میں اس کے جانے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں ہم کون ہیں ؟ ہمیں آج تک فیصلہ ہی نہیں کرنا آیا تھا ۔ لیکن اب سیاسی شعور بیدار ہوچکا ہے وقت کو بدلتا دیکھ رہا ہوں لوگوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہو رہا ہے لوگوں کو اپنا لیڈر چننے کی تمیز آ چکی ہے لوگوں کو اپنے ووٹ کی قیمت کا اندازہ ہو چکا ہے لوگ اب جان چکے ہیں کہ ووٹ سے ہی وہ ملک میں تبدیلی لا سکتے ہیں ۔لوگوں کو یہ بھی اندازہ ہو چکا ہے کون شعبدہ باز / مداری ہے اور وہ کون لوگ ہیں جو صرف ڈگڈگی بجا کر لوگوں کواکھٹا کر کے اپنا مداری شو دیکھا رہے ہیں جس کا حاصل کچھ بھی نہیں ہے یہ صرف اور صرف سازش ہے ملک میں ترقی کی راہوں کو روکنے کی اور کون لوگ ہیں جو صرف دھرنوں اور دعووں کی سیاست سے اپنی دکان داری چمکا رہے ہیں۔حلقہ این اے 120 اس وقت ن لیگ کے لیے ایسا بن چکا ہے جیسے ایم کیو ایم کے لیے نائن زیرو، پی پی پی کے لیے گھڑھی خدا بخش، عوامی مسلم لیگ کے لیے لال حویلی(پنڈی)۔
اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کا رخ اور توجہ حلقہ این اے 120کے ضمنی الیکشن پر مرکوز ہیں سب کے سب اس وقت اپنی اپنی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں تمام سیاسی پارٹیوں کے امیدوار اپنی اپنی سیاسی مہم بھر پور انداز سے چلا رہے ہیں ۔ لیکن کل جیسے میں نے محترمہ مریم نواز شریف کا استقبال دیکھا لوگوں کا جوش و جذبہ دیکھا وہ یقین مانیں دیدنی تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی عظیم لیڈر اپنے عوام میں گھل مل گیا ہو۔ کہتے ہیں جتنے منہ اتنی باتیں ۔ لیکن یہ بات ماننا پڑے گی جس انداز سے مریم نواز اس وقت انتخابی مہم چلا رہی ہیں اس سے دوسری سیاسی پارٹیاں خوف ذدہ ہیں اور انہیں اپنی ہار واضع نظر آرہی ہے ۔ایک سیاسی پارٹی نے تو اپنا نمائندہ ہی ہٹا لیا کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ جیسے یہاں پر لوگ اپنے قائد کی بیٹی کا، جس انداز سے استقبال کیا ہے وہ ان کی ہار کی علامت بنتا جا رہا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں اپوزیشن پارٹی کا امیدوار بھی کا فی مضبوط ہے لیکن جیت مسلم لیگ (ن) کی واضع اکثریت سے نظر آرہی ہے ۔ جس انداز سے مریم نواز نے اپنی تقریر سے لوگوں کو متوجہ کیا اور وعدے لیے اپنے الفاظوں کو خوب استعمال کیا ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹوصاحبہ کی یاد تازہ کر دی ۔ شیر کی طرح دھاڑیں مارتی بجلی کی طرح گرجتی یہ دختر پاکستان جب عوام کی عدالت میں پہنچی تو لوگوں نے گُل پاشی کر کے اپنی بیٹی کا استقبال کیا۔ یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے کامیاب ہو کر میاں صاحب۳ بار وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔ 
مریم نواز سیاسی افق کا روشن ستارہ ہیں اور آنے والا وقت ان کا ہے ۔مریم نواز ایک سیاسی خاندان میں پیدا ہوئیں اور میاں محمد شریف جو کہ اتفاق گروپ کے بانی ہیں ان کی پوتی اور میاں محمد نواز شریف کی بیٹی اور خادم اعلیٰ کی بھتیجی ہیں 28 اکتوبر 1973 ء کو پیدا ہوئی اور ابتدائی تعلیم لاہور کے ایک نجی سکول سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر گری حاصل کی۔ مریم نواز 1997ء سے شریف ٹرسٹ کی چیئرپرسن بھی ہیں اور سیاسی سماجی اور فلاح و بہبود کے کاموں کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں انہوں نے 2012ء میں اپنے خاندان کے ایک رفاہی ادارے میں کام کا آغاز کیا اور سیاست میں باقاعدہ قدم 2013ء کی جنرل الیکشن میں رکھا۔الیکشن کے دوران ضلع لاہور کی الیکشن مہم کی ساری ذمہ داری ان کے کندھوں پر ڈالی گئی جسے مریم نے بخوبی نبھایااور ایک کامیا ب الیکشن مہم چلانے میں اپنا کردار ادا کیا اور اپنے والد کی کامیابی میں ایک اہم رول ادا کیا۔22 نومبر 2013ء کو انہیں وزیر اعظم یوتھ پروگرام کا قلم دان تھمایا گیاجس کو ایک سال کے قلیل عرصہ کامیابی کے ساتھ چلانے کے بعدانہوں نے چھوڑ دیا۔1992ء میں کیپٹن صفدر اعوان سے ان کی شادی ہوئی ۔مریم نواز بے پناہ صلاحیتوں کی مالک ہیں ۔ اگروہ اپنے والد کی جانشین نہ بھی ہوں تو بھی وہ ایک مکمل اور پختہ شخصیت کی مالک وہ سیاسی فہم و فراصت کی مالک ہیں اور پاکستان کے سیاسی افق کا ابھرتا ہوا روشن ستارہ ہیں۔ وہ ملک میں اپنا نام پیدا کر سکتیں ہیں۔
مکمل تحریر >>