Thursday 23 February 2017

پاکستان سپر لیگ اور حکومت وقت کی دلچسپی by M Tahir Tabassum Durrani



پاکستان سپر لیگ اور حکومت وقت کی دلچسپی

اس میں کوئی شک نہیں ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے لیکن اس کے برعکس اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں جب کھیل کا نام آتا ہے توپہلا نام جوذہن میں آتا ہے وہ نام ہے کرکٹ، کرکٹ کا کھیل اس وقت پاکستان کا ہر طبقہ فکر کے لوگوں میں مقبول ہے بچہ ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت ، جوان ہو یا بوڑھا سب کے ہاں کرکٹ کے کھیل کو ایک اہمیت حا صل ہے ۔کرکٹ ایک سنسنی خیز اور دلچسپ کھیل ہے ۔ پاکستان میں شائد ہی کو ئی گاؤں ، شہر ، گلی محلہ یا سڑک ہو جہاں کر کٹ نہ کھیلی جاتی ہو یا کرکٹ کے دیوانے پائے نہ جاتے ہوں۔شہروں میں تو ایک عجیب سی دیوانگی نظر آتی ہے جگہ کم ہونے ، کرکٹ کے گراؤنڈز کے تعداد کم ہونے کی وجہ سے کرکٹ کے متوالے مین شاہراؤں کو ہی اپنی وکٹ اور فیلڈ گراؤنڈ بنا لیتے ہیں۔ جہاں مشہور ہے کہ شہر کے لوگ چھٹی والے دن زیادہ سونا اور آرام کرنا پسند کرتے ہیں وہیں کچھ نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں اپنے سکون، چین گلی میں کرکٹ کھیل کر ہی پورا کرتے ہیں بعض اوقات تو بزرگ شہریوں کی ڈانٹ بھی کھانا پڑ جاتی ہے یا محلے کی غصیلی آنٹی کی گالیاں بھی کھانی پڑ جائیں تو پروا نہیں کرتے لیکین کرکٹ کھیلنا اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں ۔
کرکت کھیلنے کی حد تک ہو یا دیکھنے کی حد تک یہ نہ صرف ایک تفریح مہیا کرتا ہے بلکہ انسان کو چاک و چو بند رکھنے میں بھی مد د کرتا ہے فارغ اوقا ت میں وقت گزارنے کا ایک بہترین مشغلہ ہے ۔ آج تقریباََ دنیا کے ہر ملک میں اس کھیل کو پسند کیا جا تا ہے اور شائد ہی کو ایسا ملک ہو جسکی اپنی قومی کرکٹ ٹیم نہ ہو۔بہت سے ممالک کے کھلاڑیوں نے اس کھیل میں اپنا ایک نام اور پہچان بنائی ہے اوردنیا میں اپنا نام پیدا کیا۔پاکستان میں بھی کرکٹ نے بہت سے نامور کھلاڑی پیدا کیے ہیں جنہوں نے اپنی محنت اور سچی لگن سے دنیائے کرکٹ میں پاکستان کا نام روشن کیا1992 ء میں ورلڈ کپ جیت کر پاکستان کو کرکٹ کی دنیامیں چیمپئنز نام لکھوایا بلا شبہ یہ تمام کھلاڑی حقیقی معنوں میں پاکستان کے ہیروز ہیں۔پاکستان کو کرکٹ کے دنیا میں ورلڈ چیمپئنز دیکھ کر بہت سے پاکستانی نوجوانوں کے دلوں میں جاوید میانداد ، عمران خان ، وسیم اکرم اور وقا ر یونس بننے کے خواب بیدار ہوئے ۔ 
نوجوانوں کے خوابوں کی تعبیر کے لیے پاکستان کرکٹ بور ڈ نے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جس سے نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے میں مدد ملی بہت سے نوجوان جو دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے تھے جن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی پاکستان کی نمائندگی کریں گے ، اپنا اور قوم کا نام روشن کریں گے۔لیکن بد قستمی سے پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سے بد امنی ، دہشتگردی کے لعنت نے گھیر لیا جس کی وجہ سے پاکستان کا نہ صرف امن تباہ ہوا بلکہ کرکٹ کو بھی شدید نقصان پہنچا، بیرونی ممالک کی ٹیموں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا جس سے پاکستان میں کرکٹ کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے ۔ لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے ہمیشہ سے مثبت سوچ اور کرکٹ کے امن میں اپنا کردار جاری رکھا۔2009ء میں بالاآخر پاکستان کرکٹ بور ڈ کی محنت رنگ لے آئی اور سری لنکا کرکٹ ٹیم پاکستان آنے پر رضامند ہوگئی جس سے پاکستان میں کرکٹ کے دروازے کھلتے نظر آنے لگے امید کی ایک کرن پھوٹنے لگی تھی کہ 3 مارچ 2009 ء کی ایک صبح جب سری لنکن ٹیم کھیلنے کے لیئے جا رہی تھی اس پر چھپے دشمن نے حملہ کر دیا اس حملہ میں 6 سری لنکن کھلاڑی زخمی ہوئے جبکہ 6 پاکستانی پولیس اہلکار وں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اپنی مہمان ٹیم کو ظالموں کی فائرنگ سے بچایا ۔ اس حملے سے نہ صرف پاکستان میں کرکٹ کی تباہی ہوئی بلکہ کرکٹ کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے۔ لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنی کوششوں کو جاری رکھا اور پھر ایک بار پاکستان کرکٹ بور ڈ کی محنت اور کوششیں رنگ لے آئیں ۔ پی سی بی نے زمبابوے ٹیم کو پاکستان لانے میں کامیابی حاصل کی اور اس طرح 23 اگست 2013 کو زمبابوے نے پاکستان میں اپنا پہلا مچ کھیلا ، زمبابوے ٹیم کو اسٹیٹ گیسٹ کے طور پر پاکستان میں رکھا۔ جو کہ ایک کامیاب دورہ تھا۔ اس کے بعد اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت نے ملک سے دہشتگردی کو ختم کرنے اور کرکٹ کی بحالی میں اپنا مثبت عمل جاری رکھا ہوا ہے ۔ جنرل راحیل شریف کے قیادت میں عسکری وسیاسی قوت نے مل کر دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی اپنائی جس سے پورے ملک میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ، پچھلے سال2016 ء میں پاکستاں کرکٹ بورڈ نے پاکستان سپر لیگ کروانے میں بھر پور محنت کی مگر ملکی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے لیگ کو دوبئی میں کرایا، اس میں شک نہیں اگر یہ ایونٹ پاکستان میں ہوتا تو براہ راست پاکستان کی معیشت پر اس کا اثر ہوتا لیکن اس کے باوجو د پاکستان نے یہ ایونٹ کامیابی سے کیا ۔ پاکستان سپر لیگ فیز 1 نے اپنی کامیابی کی جھندے گاڑھے، یہ ایونٹ 4فروری 2016 ء سے 23 فروری2016 ء تک رہا ، کامیابی کا سہر ا سلام آباد یو نائیٹڈ کے سر رہا ، عمر اکمل نے 335رنز بناکر لیگ میں سب سے زیادہ رنز کرنے والے کھلاڑی رہے اینڈریورسل سب سے زیادہ وکٹ حاصل کرنے والے کامیاب بولر رہے جبکہ روی بوپارہ کو مین آف دی سیریز کا لقب ملا۔
فروری 2017ء کو پاکستان سپر لیگ کا دوسرا فیز شروع ہوا، اس سال بھی یہ ایونٹ دبئی میں ہورہا ہے اور اس کے افتتاحی تقریب میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے یہ وعدہ کیا گیا کہ اس کا فائنل شیڈول کے مطابق7 مارچ 2017ء بروز منگل کو لاہور پاکستان میں کھیلا جائے گا اس طرح کے ایونٹس ( لیگز) جہاں براہ راست (انکم ) آمدنی کا ذریعہ ہوتی ہیں وہیں نئے کھلاڑیوں کو بھی کھیلنے کا موقع ملتا ہے ، سیاحت کے مواقع کھلتے ہیں جب سیاح ملک میں آتے ہیں وہیں کاروباری مراکز میں تیزی آتی ہے سیاحت کے باب کھلتے ہیں، ایک بڑے کاروباری سے لیکر ایک چھوٹے سے چھابڑی والے کو بھی اس کا فائدہ ہوتا ہے اور اس کا اثر براہ راست اس ملک کی معیشت پر پڑتا ہے۔یہ صرف کرکٹ کا ایک ایونٹ ہی نہیں بلکہ اس کے وجہ سے غیر ممالک کے بزنس مین پاکستان آتے ہیں اورملک کی انڈسٹریز کا وزٹ(دورہ) کرتے جس سے سیاحت کے ڈیپارٹمنٹ (شعبہ) کو فائدہ ہوتا، لیکن بد قستمی سے جیسے ہی اعلان کیا گیا پی ایس ایل کا فائنل پاکستان میں کھیلا جائے گا تو ملک میں امن کے دشمنوں نے ملک میں ایک بار پھر دہشتگردی کی فضا قائم کر دی جس سے نہ صرف پاکستان کا امن متاثر ہوا وہیں پاکستان سپر لیگ میں شامل غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان میں فائنل میچ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے ۔ لیکن پاکستان کر کٹ بورڈ نے حکومت وقت کے ساتھ مل کر یہ وعدہ کیا ہے کہ آنے والے تمام کھلاڑیوں کو اسٹیٹ گیسٹ کے طورپر رکھا جائے گا جس کی تائید پاکستان آرمی نے بھی کر دی ہے اس طرح سیاسی و عسکری قیادت نے پاکستان میں کرکٹ کے بحالی کے لیے بھر پور انداز میں حکمت عملی اپنائی ہے 
مثل مشہور ہے ایک مچھلی پورے تالاب کو گندہ کرتی ہے جیسے ہی پاکستان سپر لیگ فیزII شروع ہوئی ایک بار پھر کرکٹ میں موجود کچھ کالی بھیڑوں نے ملک اور کرکٹ کے وقار کا سوداکردیا۔ جگ ہنسائی ہوئی ایک بار پھر کچھ پاکستانی کھلاڑی سپاٹ فکسنگ جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث ہوئے ، ہمارا پاکستان کرکٹ بور ڈ سے مطالبہ ہے کہ ایسے کھلاڑیوں کو عبرت ناک سزا ہونی چاہیے کہ کوئی دوبارہ ایسی غلطی کرنے کا سوچے بھی نہیں۔ جیسے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اپنا مانیٹرنگ سیل بنایا ہوا ہے ایسا ہی پاکستان کرکٹ بور ڈ میں بھی ایک شعبہ ہونا چاہیے جو ایسے کالے چہروں کو بر وقت پکڑ لے، ایسے کھلاڑی جن کو قوم عزت شہرت، اور دولت دیتی ہے اور حکومت وقت ان کو شاہانہ زندگی اور قیمتی مرعات دیتی ہے اس کے باوجود ان کی حرص اور پیسہ اکٹھا کرنے کا لالچ ختم نہیں ہوتا ایسی کالی بھیڑوں کو پی سی بی ایسی سخت سے سخت سزاسنائے کہ دوبارہ کوئی ایسا سوچے بھی نہیں ۔
حکومت وقت کی خواہش ہے کہ پاکستان میں کرکٹ بحال ہو ، پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف خود کرکٹ کھیلنا پسند کرتے ہیں جو کہ (right hand) سیدھے ہاتھ سے کھیلنے والے بیٹسمن بھی ہیں، ان کی اولین کوشش ہے کہ پاکستان میں امن قائم ہو اور کرکٹ کے میدان سجیں اورغیر ملکی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں تا کہ پاکستان میں کرکٹ پھر سے آباد ہو۔پاکستان زندہ باد
مکمل تحریر >>

Thursday 16 February 2017

پاک چین راہداری منصوبہ اور حکومت پاکستان By M Tahir Tabassum Durrani



پاک چین راہداری منصوبہ اور حکومت پاکستان
1 اکتوبر 1949ء کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ جسے عوامی جمہوریہ چین کے نام سے جانا جاتا ہے پاکستان سے تھوڑے عرصے کے بعد آزاد ہونے والے اس ملک نے اپنی محنت اور جدوجہد مسلسل سے پور ی دنیا میں اپنے نام کو منوا لیا ہے ۔ امریکہ جو خود کو دنیا کی سب سے بڑ ی طاقت گردانتا ہے اسے بھی اس ملک کی وجہ سے لالے پڑے ہوئے ہیں اور اس کی بھر پور کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے اس مملکت کو زمین بوس کیا جائے۔ 
اس حقیقت سے بالکل انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاک چین دوستی پوری دنیا میں مشہور ہے اور اس وقت بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنا جھکاؤ چین کی طرف کر رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی چین کے ساتھ دوستی کی کوشش پاک چین تعلقا ت پر کس قدر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔کیا چین یہ سوچنے پر مجبور تو نہیں ہو رہا کہ ایک ہی خطے میں اس کو دو دوست مل جائیں گے اور اس طرح وہ اپنے روابط مضبوط کر کے سپر پاور بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ 21 مئی 1951ء چین کی آزادی کے بعددنیا کے تمام مما لک کی صف میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے چین کو تسلیم کیا۔ چین اور پاکستان نے باقاعدہ اپنے سفارتی تعلقا ت قائم کیے اور دو طرفہ دوستانہ تعلقات کا سنہرہ باب کھول دیا ،دونوں مما لک کے لیڈران نے پاکستان اور چائنہ کی ترقی کے لیئے منصوبہ جات کو عملی جامہ پہنا کر عوامی دل جیت لیے آج پاکستان کی عوام اپنے دوست چائنہ کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کوئی بھی آفت ہو ، زلزلہ ہو یا سیلا ب کی تباہی چائنہ نے ہمیشہ اپنی دوستی کا خیال رکھا۔اسکی ایک مثال یہ ہے 1960ء کی دہائی میں تبت، قراقرم اور کے ٹو کے معاملے پر دونوں ممالک میں ایک مسلہ زیر بحث آیا کہ بیان کردہ پہاڑ چائنہ کی حدود میں آرہے ہیں تو اس کو پاکستان نے بڑی خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے متذکرہ پہاڑ چائنہ کے حوالے کرنیکا فیصلہ کیا جس سے چائنہ کے دل میں پاکستان کی اور زیادہ عزت بن گئی اس کا جواب چائنہ نے 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں جب بھارت نے چائنہ سے کہا کہ ہمیں راستہ مہیا کریں تاکہ پاکستان پر چرھائی کر سکیں تب چائنہ نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اور کہا : پاکستان کے ساتھ جنگ بعد میں ہوگی پہلے چائنہ کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کریں :َ
دونوں ملکوں نے اپنے پروسی ہونے کے نا طے ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھا بین الا اقوامی مسائل ہو ں یا علاقائی مسائل دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی مدد کی پاکستان کو دہشت گردی کے مسائل سے نکالنے کے لیئے ہمیشہ مثبت حکمت عملی سے کام لیا اور پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے ایک بھائی کا کردار ادا کیا۔
موجودہ حکومت جہاں بہت سے مسائل کا شکار ہے اوربہت سی ملک دشمن قوتیں ترقی کی راہ میں روکاٹیں کھڑی کر کے ترقیاتی منصوبوں سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں لیکن ان ساری سازشوں کے باوجود سی پیک جیسے منصوبے پر کام کرنا اور اسے پایہ تکمیل تک پہچانا حکومت کی اولین ترجیحا ت میں شامل ہے۔ میں اپنے قارئین کو یہ بھی بتا نا چاہتا ہوں جب یہ منصوبہ شروع کیا جا رہا تھا تو وہ لوگ جن کو پاکستان کی ترقی پسند نہیں تھی انہوں نے اپنے منفی پراپیگنڈ ہ سے بلوچ نوجوانوں کو اس منصوبہ کے خلاف کرنا شروع کردیا ان سادہ بلوچوں اور پختونوں کو گمراہ کرکے ان کو بغاوت پر اکسایا جانے لگا، اس بار چائنہ پاکستان کی مدد کرنے کے لیے ٹھان چکا تھا اور اس منصوبہ کا کافی راستہ تکمیل کے مراحل میں ہے ، اگر دیکھا جائے یہ صر ف ایک سڑک نہیں بلکہ ترقی کی راہیں بھی اپنے ساتھ لا رہی ہے۔ جہاں جہاں سے سڑک گذرے گی اس کے ساتھ ساتھ کاروباری حضرات اپنی انڈسٹری بھی لگائیں گے جس سے کئی بند چولہے جلیں گے اور کئی خاندانوں کو روزگار میسر آئے گا۔یہ اقتصادی شاہراہ اپنے روشن مستقبل اور خوشحالی کا منصوبہ ہے بلوچستان کے خزانے براہ راست دنیا کی منڈی کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے، جہاں گوادر بندرگاہ کے ساتھ ایک نیا شہر آباد ہو گا وہیں تجا رت کے مراکز قائم ہوں گے وہ دن دوور نہیں جب اس کے ثمرات بلوچستان کو تو ملیں گے ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا میں پاکستان کا نام اور ایک الگ پہچان ہوگی۔
پاک چائنہ منصوبہ پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا اس کی تکلیف بہت سے ممالک کو ہے پاکستان کی معاشی قسمت کی تبدیلی 46 ارب ڈالر پاک چین اقتصادی راہدار ی منصوبہ جس کا مخالف صرف ہمسایہ ملک بھارت ہی نہیں بلکہ برطانیہ بھی ہے جسے یہ منصوبہ ہضم نہیں ہو رہا۔ایک نجی اخبار کے مطابق برطانیہ جنوبی ایشیا میں مضبوط ارتباط کا حامی ہے اس کے منصو بہ سازپاک چین اقتصاد ی راہداری کے حق میں نہیں۔جس سے نہ صرف پاکستان داخلی طور پر مضبوط ہوگا بلکہ چائنہ اور وسطی ایشا میں بھی مربوط ہو جائے گا۔
موجودہ حکومت کی شروع سے بد بختی رہی ہے جب بھی اقتدار میں آتے ہیں ملک دشمن قوتیں مل کر حکومت گرا دیتے ہیں نوے کی دہائی میں پہلی بار میاں نوازشریف ملک پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے 24 اکتوبر 1990 ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد 6نومبر 1990ء کو وزارت سمبھالی اور پاکستان کے 13ویں وزیر اعظم بنے ان کی حکومت 1990ء سے 1993ء تک رہی اسی دوران بے شمار ترقیاتی منصوبے شروع کیئے جو ان کے حکومت کے بعد دبا دیئے گئے اس طرح جب جب حکومت میں آئے کسی نہ کسی وجہ سے مدت پوری ہونے سے پہلے حکومت کو الٹا دیا جاتا رہا جس کی وجہ سے منصوبہ جات پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے ۔11مئی 2013ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد اپنی پوری توجہ صرف پاکستان کی ترقی کی طرف ہے اور کوشش ہے کہ حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرے اور اپنے منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنا ر کر ے۔حال ہی میں میاں شہباز شریف کی چینی وفد سے ملاقات میں بجلی کے منصوبہ پر بات ہوئی ہے جس پر مثبت نتایج کا انتظار ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا پاک چائنہ اقتصادی راہدرای منصوبے کا 46 ارب ڈالر سے زیادہ کا بجٹ ہے جس میں سے زیادہ بجٹ توانائی کے منصوبوں پر خرچ ہوگا جس سے لوڈشیڈنگ پر قابو پایا جاسکے گا، خادم اعلیٰ نے مزید کہا ملک اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے عسکری و سیاسی قیادت نے مل کر دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے بھر پور کوشش کی ہے اور دہشتگرووں کی کمر توڑ دی ہے جس سے دہشتگردی اور انتہاپسندی میں نمایاں کمی آئی ہے ا ور ا نشاء اللہ جلد اس ناسور سے ملک کو آزاد کرا لیا جائے گا، کراچی میں قیام امن، گیس کی فراہمی، لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی حکومت کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور کئی منصوبے قابل رشک ہیں پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ حکومت کی اولین ترجیح ہے جس سے پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک تجارتی مرکز بن کر ابھرے گا لوگوں کو روزگارمیسر ہوگا اور ملک میں خوشحالی آئے گی۔
پاکستان زندہ باد
پاک چین دوستی پائندہ باد
مکمل تحریر >>

Thursday 9 February 2017

دھرنے چھوڑیں ترقی میں ہمارا ساتھ دیں by M Tahir Tabassum Durrani



دھرنے چھوڑیں ترقی میں ہمارا ساتھ دیں
8 فروری 2017ء کی صبح جو کہ پنجاب کے ایک ضلع شیخوپورہ کی عوام کے لیئے خوشیوں کا پیغام لائی اور یقیناًخوشی پھیلانے سے زیادہ ہوتی ہے ، شیخوپورہ کی قریب ایک گاؤں جس کا نام بھکی ہے اور یہ فیصل آباد روڈ پر واقع ہےَ َ یہاں پر ایک پاور پلانٹ کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں ہے اور انشاء اللہ 2017ء میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ کر عوام کو بجلی کی بندش ا اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے جان چھڑانے میں مدد کا ر ثابت ہو گا۔
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ عوام سے کیے وعدوں پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ شیخوپورہ بھکی تھرمل پلانٹ کے معائنے کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ان کا کہنا تھا کہ خوشی کا موقع ہے ہماری محنت رنگ لا رہی ہے بھکی پاور پلانٹ کا کام 84 فیصد مکمل ہو چکا ہے اس کے ساتھ ساتھ توانائی کے بہت سے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچا دیے ہیں پاکستان میں تیزی سے ترقی کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور دنیا میں ایسے منصوبوں کی مثال دی جائے گی۔ یہ با ت بہت خو ش آیند ہے کہ ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہے اور انشا ء اللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ترقی یا فتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا سی پیک(پاک چین راہداری منصوبہ) جیسا منصوبہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا، لوگ دبئی کو چھوڑ کر پاکستان میں اپنا بز نس کرنا فخر محسوس کریں گے ۔
میں اپنے قارئین کو یہ بتا تا جاؤں بھکی پاور پلانٹ 1180 میگا واٹ کا پراجیکٹ ہے اور ایل این جی سے چلنے والے اس بجلی گھر سے تقریباََ 1200 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی اس کی پیداوار سے قومی خزانے کو ایک اندازے کے مطابق 100 ارب روپے کی بچت ہوگی۔بھکی پاور پلانٹ بجلی کی لوڈ شیڈ نگ کے جن پر قابوپانے کا ایک عملی نمونہ ہے ۔ نواز لیگ کی حکومت میں ایسے ان گنت منصوبے ہیں جن پر تیزی سے کام جاری و ساری ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں امن قائم کرنے میں نوازحکومت نے ایک عملی کام کیا جس کے نتیجے میں آج ملک میں امن کی شمع روشن ہے اور ملک میں بد امنی کا خاتمہ ہورہا ہے ۔ جیسا کہ مثل مشہور ہے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، ایسے ہی بہت سی بیماریوں کا خاتمہ ایک دم سے مشکل کام ہے یہاں جب پورے آوے کا �آوہ ہی بگڑا پڑ ا ہو تو درست سمت میں لانے کے لیئے تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے اس کام پر دن رات ایک کر کے لیڈران اپنی زمہ داریاں ادا کررہے ہیں ، ایک وقت تھا جب ہر روز پاکستان کی سر زمین دھماکوں سے لرز جاتی تھی کتنی ماؤں کے لخت جگر اور کنتی بیٹیوں کے باپ اور کتنی سہاگنوں کے سہاگ اجڑ جا تے تھے لیکن ایسی صورت حال میں جب ملک اتنہائی کمزور اور بد امنی کا شکار تھا تب نون حکومت نے اسے سمبھالا اور آج ملک میں دھماکوں کی جگہ مختلف ترقیاتی منصوبو ں کے افتتاحوں کے فیتے کاٹے جاتے ہیں لیکن مخالفین نت نئے نئے اندا ز میں روکاوٹیں ڈالتے ہیں ۔ پاکستان میں اگر تھوڑا پیچھے جا کر تاریخ میں دیکھیں تو بڑے بڑے شہروں میں 19-18 گھنٹوں کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جاتی تھی جس سے بڑے تو کیا سکول جانے والے بچے بھے متاثر ہوتے تھے ، بزرگ شہری نماز وضو کے لیئے پانی کی بوند بوند کو ترستے تھے صرف بجلی کے جن پر قابو نہ پانے کی وجہ سے مگر اس حکومت نے اس پر نہ صرف کام کیا بلکہ عملی جامہ پہنا کر لوگوں کو اس عذاب سے نجات دلائی ۔
نون لیگ حکومت کے وزیر اعلیٰ پنجاب جو خود کو خادم اعلیٰ کہتے ہیں اگر ان کے ذکر یہاں نہ کیا تو ان کی محنت اور عوامی محبت کے جذبے کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ اپنی بیماری کوبالا تاق رکھتے ہوئے صرف عوامی فلاح کے لئے 18-18گھنٹے کا م کرتے ہیں اور جہاں کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہاں ان کے دکھ میں برابر شریک ہوکر دکھ بانٹتے ہیں۔ عوام کی سہولت کے لیئے سستے بازار ، رمضان شریف میں سستے
رمضان بازاروں کا قیام اولین ترجیحح ہوتی ہے میں وزیر اعظم صاحب کے بیا ن سے بالکل اتفاق کرتا ہوں 2013ء سے پہلے جو لوڈ شیڈنگ کا حال تھا آج اس میں نمایاں کمی نظر آرہی ہے اور انشاء اللہ 2018ء سے پہلے اس کمی کو ہمیشہ کے لیئے ختم کر دیا جائے گا اور ملک میں اندھیرے ہمیشہ کے لیئے ختم ہو جائیں گے اور صرف لوڈ شیڈنگ ہی ختم نہیں ہوگی بلکہ اسے سستا مہیا کرنا بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
بچھلے دورِ حکومت میں پیٹرول کی قیمتوں میں آئے روز ردوبدل ہوتا تھا جس نے عوام کو بے چین کر رکھا تھا ۔ 2013 ء کے بعد اس میں خاطر خواہ کمی آئی اور ایک مقرر ریٹ پر پیٹرول دستیاب ہے اس میں کوئی شک نہیں اتار چڑھاو زندگی کا حصہ ہے ایسے ہی اس میں بھی کمی بیشی آتی رہی لیکن وہ صورت حال پیدا نہیں ہوئی جو اس حکومت سے پہلے تھی۔میٹرو بس کا منصوبہ عوام دوست منصوبہ ہے جس سے براہ راست فائدہ عام آدمی کو ہوا ہے ۔ روزانہ کی بنیاد پر سفر کرنے والوں کو اس منصوبے نے بہت فائدہ دیا ، شاہدرہ سے جنرل ہسپتا ل یا قصور جانے والے لوگوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا لوکل ٹرانسپورٹ(رکشہ، وین)سے اتنا لمبا سفر کر نا مشکل تھا اور بھاری بھر کم کرایہ ادا کرنے کے ساتھ دشورای اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر میٹروبس نے یہ سفر نہ صرف آسان کر دیا بلکہ معیا ری اور سستا سفر مہیا کیا، ایک اندازے کے مطابق تقربیاََ روزانہ اڑھائی لاکھ(250,000) مسافر اس سہولت سے مستفید ہوتے ہیں اور وزیر اعلی پنجاب کے اس عوام دوست منصونے کو سراہاتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں۔ گرمیوں میں ٹھنڈا اورسردیوں میں گرم ماحول مہیا کیا اور عوام عزت اور احترام کے ساتھ اپنا سفر طے کرتی ہے ۔انشاء اللہ آنے والے دنوں میں مزید بہتری پیدا ہوگی اور پاکستان میں ایک روشن صبح ہوگی۔
مکمل تحریر >>