Thursday 16 February 2017

پاک چین راہداری منصوبہ اور حکومت پاکستان By M Tahir Tabassum Durrani



پاک چین راہداری منصوبہ اور حکومت پاکستان
1 اکتوبر 1949ء کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ جسے عوامی جمہوریہ چین کے نام سے جانا جاتا ہے پاکستان سے تھوڑے عرصے کے بعد آزاد ہونے والے اس ملک نے اپنی محنت اور جدوجہد مسلسل سے پور ی دنیا میں اپنے نام کو منوا لیا ہے ۔ امریکہ جو خود کو دنیا کی سب سے بڑ ی طاقت گردانتا ہے اسے بھی اس ملک کی وجہ سے لالے پڑے ہوئے ہیں اور اس کی بھر پور کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے اس مملکت کو زمین بوس کیا جائے۔ 
اس حقیقت سے بالکل انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاک چین دوستی پوری دنیا میں مشہور ہے اور اس وقت بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنا جھکاؤ چین کی طرف کر رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی چین کے ساتھ دوستی کی کوشش پاک چین تعلقا ت پر کس قدر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔کیا چین یہ سوچنے پر مجبور تو نہیں ہو رہا کہ ایک ہی خطے میں اس کو دو دوست مل جائیں گے اور اس طرح وہ اپنے روابط مضبوط کر کے سپر پاور بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ 21 مئی 1951ء چین کی آزادی کے بعددنیا کے تمام مما لک کی صف میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے چین کو تسلیم کیا۔ چین اور پاکستان نے باقاعدہ اپنے سفارتی تعلقا ت قائم کیے اور دو طرفہ دوستانہ تعلقات کا سنہرہ باب کھول دیا ،دونوں مما لک کے لیڈران نے پاکستان اور چائنہ کی ترقی کے لیئے منصوبہ جات کو عملی جامہ پہنا کر عوامی دل جیت لیے آج پاکستان کی عوام اپنے دوست چائنہ کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کوئی بھی آفت ہو ، زلزلہ ہو یا سیلا ب کی تباہی چائنہ نے ہمیشہ اپنی دوستی کا خیال رکھا۔اسکی ایک مثال یہ ہے 1960ء کی دہائی میں تبت، قراقرم اور کے ٹو کے معاملے پر دونوں ممالک میں ایک مسلہ زیر بحث آیا کہ بیان کردہ پہاڑ چائنہ کی حدود میں آرہے ہیں تو اس کو پاکستان نے بڑی خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے متذکرہ پہاڑ چائنہ کے حوالے کرنیکا فیصلہ کیا جس سے چائنہ کے دل میں پاکستان کی اور زیادہ عزت بن گئی اس کا جواب چائنہ نے 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں جب بھارت نے چائنہ سے کہا کہ ہمیں راستہ مہیا کریں تاکہ پاکستان پر چرھائی کر سکیں تب چائنہ نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اور کہا : پاکستان کے ساتھ جنگ بعد میں ہوگی پہلے چائنہ کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کریں :َ
دونوں ملکوں نے اپنے پروسی ہونے کے نا طے ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھا بین الا اقوامی مسائل ہو ں یا علاقائی مسائل دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی مدد کی پاکستان کو دہشت گردی کے مسائل سے نکالنے کے لیئے ہمیشہ مثبت حکمت عملی سے کام لیا اور پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے ایک بھائی کا کردار ادا کیا۔
موجودہ حکومت جہاں بہت سے مسائل کا شکار ہے اوربہت سی ملک دشمن قوتیں ترقی کی راہ میں روکاٹیں کھڑی کر کے ترقیاتی منصوبوں سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں لیکن ان ساری سازشوں کے باوجود سی پیک جیسے منصوبے پر کام کرنا اور اسے پایہ تکمیل تک پہچانا حکومت کی اولین ترجیحا ت میں شامل ہے۔ میں اپنے قارئین کو یہ بھی بتا نا چاہتا ہوں جب یہ منصوبہ شروع کیا جا رہا تھا تو وہ لوگ جن کو پاکستان کی ترقی پسند نہیں تھی انہوں نے اپنے منفی پراپیگنڈ ہ سے بلوچ نوجوانوں کو اس منصوبہ کے خلاف کرنا شروع کردیا ان سادہ بلوچوں اور پختونوں کو گمراہ کرکے ان کو بغاوت پر اکسایا جانے لگا، اس بار چائنہ پاکستان کی مدد کرنے کے لیے ٹھان چکا تھا اور اس منصوبہ کا کافی راستہ تکمیل کے مراحل میں ہے ، اگر دیکھا جائے یہ صر ف ایک سڑک نہیں بلکہ ترقی کی راہیں بھی اپنے ساتھ لا رہی ہے۔ جہاں جہاں سے سڑک گذرے گی اس کے ساتھ ساتھ کاروباری حضرات اپنی انڈسٹری بھی لگائیں گے جس سے کئی بند چولہے جلیں گے اور کئی خاندانوں کو روزگار میسر آئے گا۔یہ اقتصادی شاہراہ اپنے روشن مستقبل اور خوشحالی کا منصوبہ ہے بلوچستان کے خزانے براہ راست دنیا کی منڈی کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے، جہاں گوادر بندرگاہ کے ساتھ ایک نیا شہر آباد ہو گا وہیں تجا رت کے مراکز قائم ہوں گے وہ دن دوور نہیں جب اس کے ثمرات بلوچستان کو تو ملیں گے ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا میں پاکستان کا نام اور ایک الگ پہچان ہوگی۔
پاک چائنہ منصوبہ پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا اس کی تکلیف بہت سے ممالک کو ہے پاکستان کی معاشی قسمت کی تبدیلی 46 ارب ڈالر پاک چین اقتصادی راہدار ی منصوبہ جس کا مخالف صرف ہمسایہ ملک بھارت ہی نہیں بلکہ برطانیہ بھی ہے جسے یہ منصوبہ ہضم نہیں ہو رہا۔ایک نجی اخبار کے مطابق برطانیہ جنوبی ایشیا میں مضبوط ارتباط کا حامی ہے اس کے منصو بہ سازپاک چین اقتصاد ی راہداری کے حق میں نہیں۔جس سے نہ صرف پاکستان داخلی طور پر مضبوط ہوگا بلکہ چائنہ اور وسطی ایشا میں بھی مربوط ہو جائے گا۔
موجودہ حکومت کی شروع سے بد بختی رہی ہے جب بھی اقتدار میں آتے ہیں ملک دشمن قوتیں مل کر حکومت گرا دیتے ہیں نوے کی دہائی میں پہلی بار میاں نوازشریف ملک پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے 24 اکتوبر 1990 ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد 6نومبر 1990ء کو وزارت سمبھالی اور پاکستان کے 13ویں وزیر اعظم بنے ان کی حکومت 1990ء سے 1993ء تک رہی اسی دوران بے شمار ترقیاتی منصوبے شروع کیئے جو ان کے حکومت کے بعد دبا دیئے گئے اس طرح جب جب حکومت میں آئے کسی نہ کسی وجہ سے مدت پوری ہونے سے پہلے حکومت کو الٹا دیا جاتا رہا جس کی وجہ سے منصوبہ جات پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے ۔11مئی 2013ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد اپنی پوری توجہ صرف پاکستان کی ترقی کی طرف ہے اور کوشش ہے کہ حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرے اور اپنے منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنا ر کر ے۔حال ہی میں میاں شہباز شریف کی چینی وفد سے ملاقات میں بجلی کے منصوبہ پر بات ہوئی ہے جس پر مثبت نتایج کا انتظار ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا پاک چائنہ اقتصادی راہدرای منصوبے کا 46 ارب ڈالر سے زیادہ کا بجٹ ہے جس میں سے زیادہ بجٹ توانائی کے منصوبوں پر خرچ ہوگا جس سے لوڈشیڈنگ پر قابو پایا جاسکے گا، خادم اعلیٰ نے مزید کہا ملک اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے عسکری و سیاسی قیادت نے مل کر دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے بھر پور کوشش کی ہے اور دہشتگرووں کی کمر توڑ دی ہے جس سے دہشتگردی اور انتہاپسندی میں نمایاں کمی آئی ہے ا ور ا نشاء اللہ جلد اس ناسور سے ملک کو آزاد کرا لیا جائے گا، کراچی میں قیام امن، گیس کی فراہمی، لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی حکومت کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور کئی منصوبے قابل رشک ہیں پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ حکومت کی اولین ترجیح ہے جس سے پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک تجارتی مرکز بن کر ابھرے گا لوگوں کو روزگارمیسر ہوگا اور ملک میں خوشحالی آئے گی۔
پاکستان زندہ باد
پاک چین دوستی پائندہ باد

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔