Tuesday 23 February 2016

این سی سی تربیت لازمی قرار دی جائے

14 ۔اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی آزاد ریاست مملکت خداداد نے جنم لیا جس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے اس کی بنیاد کلمے پر رکھی گئی ۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی دونوں سرحدوں پر دشمن ڈیرے ڈالے اس کی بنیادوں کو دیمک کی طرح کھانے کے انتظار میں دن رات ایک کیئے ہو ئے ہے۔پہلے دن سے ہی انگریز سرکار کا جھکاؤ بھار ت کی طرف رہا بونڈری لائین کے وقت ریڈ کلیف نے وہ علاقے بھی بھارت کی گود میں ڈال دیئے جو پاکستان کے حصے میں میں آنے تھے، ابھی بھی انگریز سرکار کا دل نہیں بھرا تھا کہ اس نے اثاثوں کے تقسیم میں بھی بے ایمانی اور پاکستان کونقصان پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ۔پہلے دن سے پابندیوں میں گھرا پاکستان جب بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے راہ میں کوئی نہ کوئی روکاوٹ کھڑی کر دی جاتی ہے ۔
بھارت پاکستان کا دشمن اور امریکہ سرکارکا دوست ملک ہے جو پاکستان کو اندرونی اور بیروانی طور پر نقصان پہچانے میں کبھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اگر دوسرے طرف دیکھا جاے تو افغانستان ایک اسلامی ملک ہے جس نے پاکستان کوالگ آزاد ریاست ماننے سے انکارکیا ۔ امریکہ جو پوری دنیا کو اصلحہ فروخت کرتا ہے وہ دہشتگردی ختم کرنے کے لےئے ایک مدت سے افغانستان میں مقیم ہے ۔پاکستان اپنی بقا اور سرحدوں کے حفاظت کے لیئے کو ئی عملی کام کرنا چاہے تو ہمیشہ سے پابندی اور روکاوٹ پید ا کردی جاتی ہے جبکہ اس کے برعکس بھارت کے ساتھ امریکہ کے معاہدے طے ہوتے ہیں ۔بھارت پاکستان کو ہمیشہ دہشت گرد ملک گردنتا ہے تو کبھی پاکستان کا پانی بند کر کے نقصان پنہچاتا ہے ، کبھی پانی کو اتنا زیادہ چھوڑتا ہے کہ پاکستان کے بیشتر علاقے سیلاب کی نظر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ امن اور دوستی کا ہاتھ بڑھاتا آیا مگر بھارت نے کبھی سمجھوتہ ایکسپریس میں لاشوں کے تحفے بھیجے تو کبھی اشتعال انگیز فائرنگ اور گولہ باری کر سرحدوں پر بے گناہ لوگوں کو خوں میں نہلایا۔مگر افسوس اقوام متحدہ نے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی۔ پاکستان کی عمر اس وقت 69 سال کے لگ بھگ ہے جس میں دو بڑی جنگیں لڑ چکا جس سے نہ صرف اس کے بقا کو نقصان پہنچا بلکہ معاشی لحاظ سے بھی بہت پیچھے چلا گیا۔اس وقت ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے اور پاکستان کی تمام فورسز بہادر ی سے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہیں جن پر بطور پاکستانی ہمیں ناز ہے ۔ اگر نوے کی دہائی کا ذکر کیا جائے تو آج کی نسبت بہت امن اور سکون تھا، آج ہم بے چینی ، اضطراب، بے روزگاری ،خودکش بمبار ، فائرنگ سٹریٹ کرائم اور ایسے کئی بے شمار جرم ہیں جس نے ملک کا امن تباہ کر رکھا ہے اور اگر دیکھا جائے تو الیکٹرانک میڈیا نے بھی ا س بے چینی میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے ، رات کو ہر ٹی وی چینل پرافراتفری کا آلم دیکھا کر اور سیاست دانوں کے درمیا ن ایک نہ ختم ہونے والی رنجشیں دیکھا کر عوام کو آپس میں لڑانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے قوم اپنی امیدیں کھور ہی ہے یوتھ یعنی نوجوان نسل بھی بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے ، کسی بھی قوم کا خالص اثاثہ اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے ۔ صلاح الدین ایوبی کا قو ل ہے جس قوم کہ ختم کرنا ہو اس کی نسل کو بے حیائی پر لگا دو ۔لیکن یہ سب کچھ ہونے کی باوجود پاکستا ن کی نئی نسل کو اک امید باقی ہے وہ جانتے ہیں انشاء اللہ پاکستان میں ایک روشن صبح ہوگی جس سے سارے اندھیر ے چھٹ جائیں گے۔
صدر پرویز مشرف نے 2002ء میں این سی سی کی تربیت جو کہ ایک نہایت اچھا عمل تھا اس کوختم کر دیا گیا، اسی کی دہائی میں شروع ہونے والی یہ تربیت کسی بھی ملک کی خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی ہے آج جب بھارت پاکستان کے قبائلی علاقوں ، فاٹا اور بلوچستان میں غیراعلانیہ جنگ لڑ رہا ہے اور پاکستان کے غیرت مند سپوت جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے ملک کی شان اور عزت بچانے میں سرگرم ہیں ایسے حالات میں دشمن کے دانت پھیکے کرنے کے لیئے اپنی نوجوان نسل کو این سی سی کی تربیت دینا لازمی عمل قرار دیا جائے ، اگر اس تربیت کو نہ ختم گیا ہوتا تو آرمی پبلک سکول جیسا وقعہ کبھی رونما نہ ہوتا، انڈیا پاکستان کی سالمیت کے ساتھ ایک خفیہ کھیل کھیل رہا ہے ۔ ہم جب بھی ایسی ٹریننگ کا سوچتے ہیں یا بات کر تے ہیں لوگ سمجھتے ہیں ہم دہشتگردی کو پروان چڑھا رہے ہیں ، شاید ہم جنگ کو مسلط کرنا چاہتے ہیں ، ہماری سوچ بالکل منفی ہو چکی ہے حالانکہ لوگ نہیں جانتے آج بھی اسرائیل میں اس وقت تک کوئی میٹرک کے امتحان میں نہیں بیٹھ سکتا جب تک اس بچے نے ایک ہفتہ کی این سی سی کی ٹریننگ نہ حاصل کی ہو،ایف اے کے امتحان دینے سے پیلے ایک مہینے کی ٹریننگ نہ لے رکھی اور اور اسی طرح بی اے کے امتحان کے لیئے تین ماہ کی ٹریننگ لازمی دی جاتی ہے ہر طالب علم کو ایک انسٹی ٹیوٹ میں بھیجا جاتا ہے جہا ں آرمی کی بنیادی تربیت دی جاتی ہے اور ہر طالب علم کے لیئے پاس کرنا لازی ہوتا ہے۔اور یہ ٹریننگ نیشنل ڈیفنس سروس لاء 1986 ء کے تحت مرد عورت دونوں پر لازم ہوتی ہے ۔اس کی دوسری مثال پڑوسی ملک بھارت جہاں پر نیشل کیڈت کروپس (این سی سی )ٹریننگ شروع کی گئی ہے 1948ء این سی سی ایکٹ کے تحت لازمی قرار دیا گیا ہے ۔
اس قسم کی ٹرنینگ آرمی اور سول لوگوں کے درمیا ن خلا کو پُر کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں اور خاص کر نوجوانوں میں ایک نئی امنگ اور جوش جذبہ پیدا کرنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ اور خاص کر ایسے حالات میں جب ملک حالت جنگ میں ہو اور ملک میں ضرب عضب چل رہا ہو، اپنی آرمی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر نوجوان ملک کے لیئے ایک بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں۔
1965ء پاک بھارت جنگ میں منہ کی کھانے والے بھارت نے جنگ کے بعد این سی سی ٹریننگ کے سلیبس میں بہت ساری تبدیلیاں کر کے نئے سرے سے کورس کروانا شروع کیا۔
بھارت اور اسرائیل پاکستان کے خطرناک ترین دشمن ہیں جو اپنے نوجوانوں کو ایسی ٹریننگ دیتے ہیں تو یہاں سوال پید ا ہوتا ہے پاکستان میں ایسا کیوں نہیں؟؟ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے ملک کی بقا کے لیے کچھ کر سکیں۔اگر آج ہم نے ایسا نہ کیا تو کب کریں گے جب پانی سر سے گذر جائے گا؟
یہی وہ وقت ہے جب ہمیں اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو اپنے ملک کے دفاع کے لیئے لڑنا ہے اور دشمن کو بتا نا ہے کہ سرحدوں پر فوج اور پاکستان کے اندر سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں طالبعلم نہیں بلکہ سپاہی ہیں اگر دشمن نے زرہ برابر بھی میلی آنکھ دیکھا تو ہم اپنی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ بہت سارے کالج یونیورسٹییز اب ایسے اقدام کر رہی ہے اور ایسی ٹریننگ کا انتظام کر رہی ہے مگر ہمارا مطالبہ ہے این سی سی جیسیے ٹریننگ کو سرکاری طور پر سکول لیول سے لے کر یونیورسٹی تک لازم قرار دیا جائے۔
مکمل تحریر >>

Tuesday 16 February 2016

Rashid Minhas Shaheed


مکمل تحریر >>

My New Article Aurat Pagal Hai.............published in Column Point.........http://columnpoint.com/?p=2618


عورت پاگل ہے 
شکوہ ۔۔جواب شکوہ
اکثر پڑھے لکھے لوگ یہ فقرہ استعمال کرتے ہیں، عورت پاگل ہے ، اسے پاؤں کی جوتی سمجھنا چاہئے، اسے دبا کے رکھنا چاہیے ، اگر اس کو زیادہ اہمیت دے دی جائے تو سر پر سوار ہو جاتی ہے ، عورت کو تمیز نہیں ہر وقت فضول بولتی رہتی ہے، اگر کوئی اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے تو سب اس کا مذاق اُڑاتے ہیں ، اسے رن مرید کہتے ہیں ، عورت کی عقل اس کے پاؤں میں ہوتی ہے ایسے کئی القاب ہیں جن سے عورت کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے ، عورت کو معاشرے میں ہمیشہ کم تر سمجھا جاتا ہے ، کبھی اُسے بازارِ حسن کی زینت بنایا جاتا ہے تو کبھی دیوا ر میں چنوا دیا جاتا ہے ، اُمراء کے نازو نخرے اُٹھانے کے لیئے بھی صنفِ نازک اس کے حوس کا نشانہ بنتی ہے ،عورت کو معاشرے میں کمتر سمجھا جاتا ہے اور کہیں بھی اس کی تضحیک کا پہلو ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا،کہیں سے یہ آوازیں بھی اٹھتی ہیں کہ عورت بے حیائی پھیلاتی ہے اس کا باہر جانا بند کر دو اور کچھ تو یہ کہتے ہیں ان کا سکول جانا بند کردہ یہ تو پاؤں کی جوتی ہے ۔ہاں وہ پاگل ہے ، تمہاری غیر موجودگی میں تمہارے گھر کی چوکیداری کرتی ہے ، تمہارے بچوں کی تربیت کرتی ہے انہیں معاشرے میں ایک مقام دلاتی ہے ہاں عورت پاگل ہے ۔ 
کیونکہ عورت جس سے محبت کرتی ہے جتنی زیادہ محبت اتنی زیادہ خاموش رہتی ہے ، کبھی اظہار نہیں کرتی کبھی بتا نہیں سکتی، مرد جب محبت کرتا ہے اس کا اظہار شدت سے کر دیتا ہے وہ خاموش نہیں رہ سکتااس لیئے کہ اسے وصول کرنا ہوتا ہے ، مرد محبت نہیں سودا کرتا ہے وہ جو لگاتا ہے اس سے کہیں زیادہ گُنا حاصل کرنا چاہتا ہے ، اس کے برعکس جب عورت اپنا آپ داؤ پر لگاتی ہے تواسے کسی صلے کی یا انعام کی خواہش نہیں ہوتی کیونکہ وہ صرف دینے والی ہوتی ہے اور اگر اسے کچھ مل جائے تو خود کو خوش نصیب سمجھتی ہے او ر نہ ملے تو گلہ شکوہ نہیں کرتی بلکہ خاموش رہتی ہے عورت کی فطرت میں صرف وفا ہوتی ہے۔اسلام نے عورت کو جو مقام دیا شائد کسی اور مذہب نے وہ دیا ہو، آج کل یہودیت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور بہت سے لوگوں نے عورتوں کے حقوق کے انجمنیں بنا لی ہیں اور حقیقی طور پر کوئی بھی تنظیم اس پر عمل پیرا نظر نہیں آتی ، اسلام نے عورت کے بارے کیا لکھا ہے وہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔عورت کے لفظی معنی ہیں پردہ، اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے عورت کے حقوق رکھے ہیں اور اس کی حفاظت کی ہے عورت اپنے آپ کو جس قدر چھپا کر رکھے گی تو اس کو عزت بھی اتنی ہی زیادہ ملے گی اسلام نے عورت کی خوبصورتی اسکے پردے میں پنہاں رکھی ہے ۔
عورتوں کو پاؤں کی جوتی سمجھنے والوں کے لیئے عرض ہے(جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاں فرشتے بھیجتے ہیں جو آکر کہتے ہیں:اے گھر والو تم پر سلامتی ہووہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں او ر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کمزور جان ہے جو کمزور جان سے پیدا ہوئی جو اس بچی کی پرورش اور نگرانی کرے گاروز قیامت اللہ کی مدد اس ک ساتھ شامل حال رہے گی)اللہ تعالیٰ نے جب اپنی محبت بندے سے ظاہر کرنی چاہی تو بھی ذکر ماں کی محبت کا کیا،کہ اللہ ستر ماؤں سے بھی زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے ۔اللہ کے پیارے نبیؐ نے عورت کی شان کو یوں بیان کیا،جنت ماں کے قدموں کے تلے ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں جب کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوجاتی تو وہ افسردہ ہو جاتے اور بعض اوقات تو زندہ لڑکیوں کو درگور کر دیا جاتا مگر اسلام نے عورت کو ماں، بیٹی بہن، بیوی کے مقدس رشتوں سے عزت بخشی، عورت تو پاگل ہے جس عورت نے جنم دیا جس نے 9ماہ اپنے پیٹ میں رکھا ، پھر جب تم اس دنیا میں آئے تجھے گرم ، سرد کی تمیز نہ تھی تب تمہیں گرمی اور سرد ی سے بچایا، آج جب تم کہتے ہو عورتوں کو کیا پتا، تب جب تمہیں بولنا نہیں آتا تھاجب بھوک میں کھانا مانگنا بھی نہیں آتا تھا وہ تب بھی تمہاری زبان کو سمجھتی تھی آج اگر وہ تم سے دوبارہ سوال کر دے بیٹا سمجھی نہیں کیا کہا، تب اسے ڈانٹ دیتے ہو ،جب تم اسے بار بار ٹوٹی کھانی ہے کہتے تھے اور وہ بار بار کہتی تھی جی میرے لال ابھی دیتی ہوں ۔ 
جب تم سکول سے آکر اکثر فرش پر سو جاتے تھے جب آنکھ کُھلتی تھی تو خود کو نرم بستر پر پاتے تھے وہ عورت ہی ہوتی تھی ۔
عورت خد ا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے
عورت دنیا کی آبادکاری اوردینداری میں مردوں کے ساتھ تقریبابرابر کی شریک ہے
عورت مرد کے دل کا سکون اورروح کی راحت ذہن کا اطمینان اور بدن کا چین ہے
عورت دنیاکے خوبصورت چہرہ کی ایک آنکھ ہے
عورت حواہ علیہ سلام اور آدم علیہ سلام کے علاوہ ہر انسان کی ماں ہے ،اس لیئے وہ قابلِ احترام ہے 
عورت کا وجود انسانی تمدن کے لیئے بے حد ضروری ہے ۔ اگر عورت نہ ہوتی تو مردوں کی زندگی جنگلی جانوروں سے بھی بد تر ہوتی 
عورت بچپن میں بھائی بہن سے محبت کرتی ہے شادی کے بعد شوہر سے محبت کرتی ہے اور ماں بن کر اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے 
عورت ہی ہے جو گھر کو جنت بناتی ہے 
عورت دنیا میں پیار اور محبت کا تاج محل ہے ۔
مکمل تحریر >>

Thursday 11 February 2016


مکمل تحریر >>