Wednesday 24 May 2017

عصر حاضرکا شیر شاہ سوری By M Tahir Tabassum Durrani


مکمل تحریر >>

Sunday 21 May 2017

میاں شہباز شریف عصر حاضر کا شیر شاہ سوری By M Tahir Tabassum Durrani



میاں شہباز شریف عصر حاضر کا شیر شاہ سوری

ہندوستان کی تاریخ میں ایسا مسلمان بہادر جرنیل بھی گذرا ہے جس کی مدت بادشاہت بہت کم ہے جو کم و بیش (5 ) پانچ سال بنتی ہے یہ وہ واحد مسلم بادشاہ ہے جس کہ عمر کے آخری حصے میں بادشاہت نصیب ہوئی، مگر اس آدمی کے کارنامے کسی بھی بادشاہ جس کو حکومت ایک لمبے عرصے کے لیے ملی اس سے کہیں زیادہ اچھے اور فلاحی تھے۔ اس انسان نے دہلی پر حکمرانی کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے لیے بہت کام کیا سڑکوں کا جال بچھایا۔اپنے دور حکومت میں شیر شاہ سوری نے سڑکیں اس انداز میں بنوائیں کی سفر کرنے والوں کو کسی بھی قسم کی پریشانی یا تکلیف نہ ہوتی، سڑکوں کے ساتھ سایہ دار درخت لگائے تا کہ سفر کے دوران تیز دھوپ سے بچا جا سکے ، سڑک کے ساتھ ساتھ مخصو ص فاصلوں پر سرائے (آرام گاہیں) بنوائیں ہر آرام گاہ کے دو دروازے ہوتے ایک دروازہ مسلمانوں کے لیے جبکہ دوسرا دروازہ ہندؤں کے لیے ہوتاتھا۔ اسی طرے ایک مخصوص فاصلے پر ایک میٹھے پانی کا کنواں ہوتا جس سے پینے کا ٹھنڈا اور صاف پانی دستیاب ہوتا ،کنواوں کے اندر جانے کے لیے خوبصورت سیڑھیاں بنائی جاتیں تا کہ نیچے تک جا کر پانی حا صل کیا جا سکے۔
شیر شاہ سوری نے اپنے وقت میں ڈاک کا تیز ترین نظام متعارف کرایا سڑک کے کنارے چوکیاں بنوائیں ہر چوکی پر ایک تاز دم گھڑ سوار تیار کھڑا ہوتا ، ایک چوکی سے دوسری چوکی تک ایک گھڑ سوار ڈاک کا تھیلہ دوسری چوکی پر موجود گھڑ سوار کو دیتا اس طرح ڈاک کا تھیلہ آگے سے آگے تیزی سے پہنچا دیتا یوں بہت قلیل وقت میں ڈاک کی ترسیل کا عمل تیزی سے مکمل ہو جاتا۔
یہ بہادر جرنیل 1486ء میں پیدا ہوا اس کا اصل نام فرید خان تھا بے شمار کارنامے انجام دینے والا یہ مسلم جرنیل صرف 59 کے عمر میں 1545ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔اس عظیم بادشاہ کے کارناموں میں ایک کارنامہ پشاور سے کلکتہ تک سڑک کا قیام ہے اس سڑک کو گرینڈ ٹرنک روڈ (GT Road) جی ٹی روڈ بھی کہتے ہیں۔ اس بادشاہ کی پانچ سالہ حکومت سے ایک یہ بھی تخیل کیا جا سکتا ہے کہ ایک حکومت کے لیے پانچ سال کا عرصہ کافی ہوتا ہے اور اگر وہ عوام کے لیے کوئی فلاحی کام کرنا چاہیں تو یہ وقت ایک آیئڈیل(معیاری /مطمع نظر)وقت ہوتا ہے ۔ وہ جانتا تھا سڑکیں ملک و قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اگر عصر حاضر کی بات کی جائے تو جس انداز سے ملک میں اور خاص طور پر پنجاب میں کام ہورہا ہے اور ہر طرف سڑکوں کا جا ل بچھایا جا رہاہے تو میاں شہباز شریف کو عصر حاضر کا شیرشاہ سوری کہنا غلط نہ ہوگا۔ان گنت عوامی فلاحی منصوبوں پر دن رات کام ہو رہا ہے مختلف علاقوں کے فاصلوں کو کم کرنے کے لیے پلیں تعمیر ہو رہی ہیں جس سے مسافت میں کمی اور وقت کی بچت ہوگی، ایسے بے شمار منصوبے زیر تعمیر ہیں جو عوام کے ساتھ کیے وعدوں کے تکمیل اور ملکی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔اربوں روپے کے سینکڑوں منصوبہ جات کی تکمیل کے بعد جنوبی پنجاب کی عوام کے لیے حکومت پنجاب کا ایک اور تاریخ ساز قدم۔21 ارب روپے کی لاگت سے لودھران تا خانیوال 98 کلومیٹر کی طویل دو طرف سڑک۔ 1ارب 16 کروڑ کی خطیر رقم سے فلائی اوور ز(پُل)بمقام ریلوے کراسنگ لودھراں ۔ جلالپور پیروالا، 
خانیوال سے لودھراں براستہ ملتان 127 کلومیٹر کا فاصلہ جو 29کلومیٹر کم ہو کر اب صرف 98کلومیٹر رہ جائے گا ، بہاولپور ، رحیم یار خان، ملتان ، لودھراں ، خانیوال اور وہاڑی کی تجارتی سرگرمیوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
صادق آباد اور فیصل آباد کی تجارتی سرگرمیوں کے لیے باآسانی رسائی، خانیوال انٹرچینج سے موٹروے تک آسان رسائی ، کراچی سے لاہور کے لیے متبادل راستہ ،ملتان بائی پاس سے وقت کی بچت اور ٹریفک کے بہاؤ میں آسانی۔ٹریفک کے بہاؤ میں بہتری ، حادثات اور شرح اموات میں نمایاں کمی اور ٹریفک کے مسائل سے چھٹکارا حا صل ہوگا۔ موٹر وے ایم تھری(M3) یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کے تحت جنوبی اور شمالی پاکستان کو آپس میں جوڑا جا سکے گا، لاہور سے عبدالحکیم تک یہ موٹروے 230 کلومیٹرلمبا ہے 140 میل کا یہ طویل منصوبہ ابھی زیر تعمیر ہے اس امید کی جاسکتی ہے یہ منصوبہ 2018 ء تک مکمل کر لیا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت ننکانہ صاحب، جڑانوالا، سمندری اور پیر محل کے شہروں کو خاص اہمیت حاصل ہوگی۔ ان علاقوں میں روزگار بڑھے گا اور علاقے بھی ترقی کریں گے۔ یہ منصوبہ 6لینز پر مشتمل ہو گا جبکہ آرام گاہوں کی تعداد 3ہوگی۔
موٹر وے ایم فور (M4) شمال جنو ب کے علاقوں کو ملانے والا کہ منصوبہ پنڈی بھٹیاں انٹرچینج سے ملتان تک تعمیر ہو رہا ہے ۔ کچھ حصے مکمل ہوچکے ہیں جو ٹریفک کے لیے کھول دیے گئے ہیں، جبکہ باقی علاقوں میں ابھی کام جاری ہے یہ پنڈی بھٹیاں سے ملتان براستہ فیصل آباد ملتان پہنچے گا۔ 53کلومیٹر پنڈی بھٹیاں سے فیصل آباد تک مکمل ہو چکا ہے جبکہ 62 کلومیٹر کا علاقہ گوجرہ سے شورکوٹ تک ابھی مکمل نہیں ہوا اور کام تیزی سے جاری ہے یہ منصوبہ بھی انشاء اللہ 2018ء تک مکمل ہو جائے گا جبکہ خانیوال سے ملتان کا حصہ مکمل ہو چکا ہے۔موٹر وے کا جال پور ے ملک میں پھیلایا جا رہا ہے اوپر ابھی صرف چند ایک کا زکر کیا ہے جبکہ موٹر ویز کے تعدا د 14 کے قریب ہے۔
یہ منصبوبہ جات حکومت کی اولین ترجیح ہیں کیونکہ جیسے جیسے منصوبہ جات مکمل ہو تے جائیں گے پور ا ملک آپس میں منسلک ہوتا جائے گا۔ لاہور میں بیٹھا تاجر کراچی بندر گاہ سے براہ راست اپنا میٹریل لاہور زمینی راستے سے لا سکے گا۔ ایک تو خرچ میں کمی آئے گی دوسرا فائد ہ عوام کو سستی چیزیں مہیا ہونگی۔موٹو ویز کا جال پھلانے کا مقصد تمام شاہرات کو موٹر ویز کے ساتھ منسلک کرکے بندرگاہوں تک رسائی حاصل کرنا ہے ۔ کچھ شر پسند عناصر یہ تعصب پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جنوبی پنجا ب کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اس تعصب کو ختم کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب میں بے شمار عوامی فلاح کی منصوبہ جات شروع کیے ہوئے ہیں ۔ ان منصوبہ جات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حکومت پنجاب اور جنوبی پنجاب ایک خاندان کا حصہ ہیں۔
مکمل تحریر >>

Thursday 4 May 2017

غزل by M Tahir Tabassum Durrani


مکمل تحریر >>

Tuesday 2 May 2017

تبدیلی کھوکھلے دعوؤں اور دھرنوں سے نہیں آتی by M Tahir Tabassum Durrani


http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/05-05-2017/details.aspx?id=p13_09.jpg

تبدیلی کھوکھلے دعوؤں اور دھرنوں سے نہیں آتی

سورۃ الحجرات میں اللہ تبارک و تعالی ٰ کا فرمان ہے ۔اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دواور پھر اپنے کیے پرنادم ہونا پڑے۔مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں،تو اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جا ئے۔
بڑے نصیبوں والی وہ قوم ہوتی ہے جس کے حب الوطن اور وسیع النظر لیڈر میسر آتے ہیں کیوں کہ قومیں لیڈروں کے وژن سے بنتی ہیں۔ لیڈر ہی کسی قوم کو بلندیوں تک پہنچاتے ہیں اور لیڈر ہی قوموں کے زوال کے سبب بنتے ہیں۔پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے اور اس وقت اس ملک میں بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں جو پاکستان کی عوام کی قیادت کر رہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین،پاکستان پیپلزپارٹی (شہید بھٹو) پاکستان تحریک انصاف۔عوامی نیشنل پارٹی،جماعت اسلامی پاکستان،جماعت اسلامی پاکستان (ف)متحدہ وقومی مومنٹ ، پاکستان عوامی تحریک اور پاک سر زمین۔دیکھا جائے تو سبھی جماعتوں کا اپنا اپنا وژن ہے جس کے مطابق وہ کام کر رہی ہیں لیکن جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے سرفہرست دوبڑی جماعتیں ہی رہیں ہے جو کبھی اقتدار میں تو کبھی اپوزیشن میں رہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی 30 نومبر 1967ء کو معرض وجود میں آئی اور حکومت کا حصہ رہی ہے اور عوام میں بے حد مقبول رہی ہے ، اس کے بعد ایک ایسی جماعت معرض وجود میں آئی جس نے نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کی یہ جماعت 25اپریل 1996ء کو معرض وجود میں آئی ۔2013ء کے جنرل الیکشن میں ایسا لگ رہا تھا جیسے کلین سویپ کر دی گے مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی اور ناکامی کا سامنہ رہا اور اس بار بھاری مینڈیٹ سے پاکستان مسلم لیگ (نون)نے میدان مار لیااور پاکستان تحریک انصاف کو خیبر پختوں خواہ میں حکومت ملی ، لیکن وہ ڈیلور کرنے میں بھی ناکام رہی ۔آئے روز دھرنے ، جلسے جلوسوں نے اس کی ساخت کو بہت نقصان پہنچایا جس کی ذمہ داری بھی اس کی لیڈر شپ کو جاتی ہے۔ مسٹر خان نے الزامات کی بنیادپر عوامی نمائندہ جماعت جس کو عوام نے بھاری مینڈیٹ سے اپنا رہبر و رہنما چنا اسے گرانے کے لیے پے در پے وار کرنے شروع کر دیے اور حکومتِ وقت کو خوب نشانہ بنایا۔ پاکستان اس وقت ترقی کی راہوں پر گامزن ہو چکا ہے اور انشاء اللہ بہت جلد ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) کے نظریات یا ذاتیات کے ساتھ اختلاف ہوسکتا ہے ۔ لیکن ایک بات ماننا پڑے گی جب بھی بر سراقتدار آئے ہیں ملک میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آئی ہے ۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے مو جودہ حکومت بھر پو ر انداز میں کوشش کر رہی ہے اور پاور پلانٹس کی تنصیب کا کام تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔تبدیلی کھوکھلے نعروں اور دعوؤں سے نہیں آتی اس کے لیے عملی طور پر کام کر کے دکھانا پڑتا ہے ۔ صرف سڑکوں پرعوام کودر بدرکر کے تبدیلی نہیں آنے والی بلکہ پارلیمنٹ میں مل بیٹھ کر قوانین بنا کر عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہیے۔ کبھی پانامہ کا شور مچا کر عوام کو بیوقوف بنایا تو کبھی کوئی الزام لگا کر عوام کو لال بتی کے پیچھے لگا کر وقت ضائع کیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا کیس تھا جس میں دونوں فریقین کیس کی سماعت میں پیش پیش رہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور ہر روز کیس کی سماعت کے دوران بولے جانے والے ڈائیلاگز کو بریکنگ نیوزکے طور پر پیش کیا ، اخبارات کو بھی خوب شہ سرخیاں ملتی رہیں اور عوام میں بھی بے چینی پنپتی رہی۔پانامہ کا فیصلہ آنے سے پہلے تمام پارٹیوں کااتفاق تھاکہ معزز عدلیہ جو بھی فیصلہ دے گی سب اس کو قبول کریں گے جب معزز عدالت نے اپنا فیصلہ سنا یا تو پہلے سب نے لڈیاں ڈالیں لیکن جیسے وقت گذرا عدالت عالیہ کے فیصلے کے بر عکس بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوگیایقیناََ عدلیہ کے فیصلے پر اعتراض کرنا معزز جج صاحبان کی نیت پر شک کرنے اور عدالت پر کڑی ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ ابھی کوئی نہیں جانتاکہ کس کو فائدہ ہوا اور کس کو نقصان یہ وقت بتائے گا۔ مسٹرخان نے ایک اور یوٹرن لیا اور فرمانے لگے ہمیں عدالت کے فیصلے پر شک نہیں بلکہ دو جج صاحبان نے میاں صاحب کو نااہل قرار دیا ہے اس پر زور دے رہے ہیں۔اب ان کو کون سمجھائے جب آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور آپ خود فرماتے ہیں جمہوریت اکثریت رائے کی پابند ہے یعنی جدھر اکثریت ہوگی وہی فیصلہ منظور کیا جائے گا ، جب تین معزز جج صاحبان نے ان کے حق میں فیصلہ دیا تو دیدہ دلی سے فیصلے کو مان کر ایک تاریخ رقم کرتے اور آنے والے الیکشن کی تیاری کرتے تا کہ عوام میں ان کو خاص اہمیت حاصل ہوتی، اگلے دن پھر ایک نیا الزام لگا دیا گیا کہ مجھے خاموش کرنے کے لیے 10 ارب روپے کی آفر کرائی جارہی ہے۔ اتنا بڑا لیڈر اور ایسی باتیں ، قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد ان کی شخصیت کے بالکل منافی ہے ۔ جیسا وہ پانامہ کیس میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکے۔حال ہی میں اتنا بڑا الزام ایک منتخب وزیر اعظم پر لگانا کوئی اچھی روش نہیں اور یقیناََ وہ اس الزام کا دفاع کرنے میں بھی ناکام رہیں گے۔خود مہینوں دھرنا دیں اور اگر ملک و قوم کے معمار اساتذہ اپنا حق مانگنے کے لیے ایک دن دھرنا دیں تو سکول سے غیر حاضری پر طالبعلموں کا دن ضائع ہوتا ہے اور ان کی ایک دن کی تنخواہ کاٹنے کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے ، وہ کیا عجب منطق ہے ۔ لا ہور میٹرو بس کو جنگلہ بس کہنے والے خود ایسے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ خادم اعلیٰ کے منصوبوں سے کس قدر اتفاق کرتے ہیں لیکن ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
سادگی اور سٹیٹس کے خاتمے کا نعرہ لگانے والے خود اپنے اردگرد نہیں دیکھتے کتنے غریب لوگ ہیں جو ان کی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر ہیں،24 اپریل 2017 ء ایک نجی اخبار کے مطابق اب جناب مصطفےٰ کھر صاحب بھی پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کھر صاحب ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور پنجاب کے گورنر کی حیثیت سے اپنی خدمات ادا کر چکے ہیں لیکن ان کا پی ٹی آئی میں شامل ہونا اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی بھی اب صرف اشرافیہ کی جماعت ہے اور اپنے وژن سے کوسوں دور دیکھائی دے رہی ہے اور عوام بھی فیصلہ کر چکی کی آئندہ کس کو ووٹ دینا ہے ۔ کون سی جماعت خالی کھوکھلے نعرے لگا کر عوام کو بیواقوف بنا رہی ہے اب عوام سڑکوں پر خوار ہونے کبھی نہیں نکلے گی ۔عوام نعروں،جلسے جلوسوں اور دھرنوں کی سیاست کو دفنا چکی ہے ۔اب عوام میں شعور پیدا ہو چکا ہے کہ اب وہی برسر اقتدار آئے گا جو صحیح معنوں میں عوام کے مسائل کو حل کرے گا۔ عوام کو ریلف دے گا اور عوام کے لیے فلاحی منصوبے بنائے گا۔

مکمل تحریر >>