Sunday 21 May 2017

میاں شہباز شریف عصر حاضر کا شیر شاہ سوری By M Tahir Tabassum Durrani



میاں شہباز شریف عصر حاضر کا شیر شاہ سوری

ہندوستان کی تاریخ میں ایسا مسلمان بہادر جرنیل بھی گذرا ہے جس کی مدت بادشاہت بہت کم ہے جو کم و بیش (5 ) پانچ سال بنتی ہے یہ وہ واحد مسلم بادشاہ ہے جس کہ عمر کے آخری حصے میں بادشاہت نصیب ہوئی، مگر اس آدمی کے کارنامے کسی بھی بادشاہ جس کو حکومت ایک لمبے عرصے کے لیے ملی اس سے کہیں زیادہ اچھے اور فلاحی تھے۔ اس انسان نے دہلی پر حکمرانی کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے لیے بہت کام کیا سڑکوں کا جال بچھایا۔اپنے دور حکومت میں شیر شاہ سوری نے سڑکیں اس انداز میں بنوائیں کی سفر کرنے والوں کو کسی بھی قسم کی پریشانی یا تکلیف نہ ہوتی، سڑکوں کے ساتھ سایہ دار درخت لگائے تا کہ سفر کے دوران تیز دھوپ سے بچا جا سکے ، سڑک کے ساتھ ساتھ مخصو ص فاصلوں پر سرائے (آرام گاہیں) بنوائیں ہر آرام گاہ کے دو دروازے ہوتے ایک دروازہ مسلمانوں کے لیے جبکہ دوسرا دروازہ ہندؤں کے لیے ہوتاتھا۔ اسی طرے ایک مخصوص فاصلے پر ایک میٹھے پانی کا کنواں ہوتا جس سے پینے کا ٹھنڈا اور صاف پانی دستیاب ہوتا ،کنواوں کے اندر جانے کے لیے خوبصورت سیڑھیاں بنائی جاتیں تا کہ نیچے تک جا کر پانی حا صل کیا جا سکے۔
شیر شاہ سوری نے اپنے وقت میں ڈاک کا تیز ترین نظام متعارف کرایا سڑک کے کنارے چوکیاں بنوائیں ہر چوکی پر ایک تاز دم گھڑ سوار تیار کھڑا ہوتا ، ایک چوکی سے دوسری چوکی تک ایک گھڑ سوار ڈاک کا تھیلہ دوسری چوکی پر موجود گھڑ سوار کو دیتا اس طرح ڈاک کا تھیلہ آگے سے آگے تیزی سے پہنچا دیتا یوں بہت قلیل وقت میں ڈاک کی ترسیل کا عمل تیزی سے مکمل ہو جاتا۔
یہ بہادر جرنیل 1486ء میں پیدا ہوا اس کا اصل نام فرید خان تھا بے شمار کارنامے انجام دینے والا یہ مسلم جرنیل صرف 59 کے عمر میں 1545ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔اس عظیم بادشاہ کے کارناموں میں ایک کارنامہ پشاور سے کلکتہ تک سڑک کا قیام ہے اس سڑک کو گرینڈ ٹرنک روڈ (GT Road) جی ٹی روڈ بھی کہتے ہیں۔ اس بادشاہ کی پانچ سالہ حکومت سے ایک یہ بھی تخیل کیا جا سکتا ہے کہ ایک حکومت کے لیے پانچ سال کا عرصہ کافی ہوتا ہے اور اگر وہ عوام کے لیے کوئی فلاحی کام کرنا چاہیں تو یہ وقت ایک آیئڈیل(معیاری /مطمع نظر)وقت ہوتا ہے ۔ وہ جانتا تھا سڑکیں ملک و قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اگر عصر حاضر کی بات کی جائے تو جس انداز سے ملک میں اور خاص طور پر پنجاب میں کام ہورہا ہے اور ہر طرف سڑکوں کا جا ل بچھایا جا رہاہے تو میاں شہباز شریف کو عصر حاضر کا شیرشاہ سوری کہنا غلط نہ ہوگا۔ان گنت عوامی فلاحی منصوبوں پر دن رات کام ہو رہا ہے مختلف علاقوں کے فاصلوں کو کم کرنے کے لیے پلیں تعمیر ہو رہی ہیں جس سے مسافت میں کمی اور وقت کی بچت ہوگی، ایسے بے شمار منصوبے زیر تعمیر ہیں جو عوام کے ساتھ کیے وعدوں کے تکمیل اور ملکی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔اربوں روپے کے سینکڑوں منصوبہ جات کی تکمیل کے بعد جنوبی پنجاب کی عوام کے لیے حکومت پنجاب کا ایک اور تاریخ ساز قدم۔21 ارب روپے کی لاگت سے لودھران تا خانیوال 98 کلومیٹر کی طویل دو طرف سڑک۔ 1ارب 16 کروڑ کی خطیر رقم سے فلائی اوور ز(پُل)بمقام ریلوے کراسنگ لودھراں ۔ جلالپور پیروالا، 
خانیوال سے لودھراں براستہ ملتان 127 کلومیٹر کا فاصلہ جو 29کلومیٹر کم ہو کر اب صرف 98کلومیٹر رہ جائے گا ، بہاولپور ، رحیم یار خان، ملتان ، لودھراں ، خانیوال اور وہاڑی کی تجارتی سرگرمیوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
صادق آباد اور فیصل آباد کی تجارتی سرگرمیوں کے لیے باآسانی رسائی، خانیوال انٹرچینج سے موٹروے تک آسان رسائی ، کراچی سے لاہور کے لیے متبادل راستہ ،ملتان بائی پاس سے وقت کی بچت اور ٹریفک کے بہاؤ میں آسانی۔ٹریفک کے بہاؤ میں بہتری ، حادثات اور شرح اموات میں نمایاں کمی اور ٹریفک کے مسائل سے چھٹکارا حا صل ہوگا۔ موٹر وے ایم تھری(M3) یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کے تحت جنوبی اور شمالی پاکستان کو آپس میں جوڑا جا سکے گا، لاہور سے عبدالحکیم تک یہ موٹروے 230 کلومیٹرلمبا ہے 140 میل کا یہ طویل منصوبہ ابھی زیر تعمیر ہے اس امید کی جاسکتی ہے یہ منصوبہ 2018 ء تک مکمل کر لیا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت ننکانہ صاحب، جڑانوالا، سمندری اور پیر محل کے شہروں کو خاص اہمیت حاصل ہوگی۔ ان علاقوں میں روزگار بڑھے گا اور علاقے بھی ترقی کریں گے۔ یہ منصوبہ 6لینز پر مشتمل ہو گا جبکہ آرام گاہوں کی تعداد 3ہوگی۔
موٹر وے ایم فور (M4) شمال جنو ب کے علاقوں کو ملانے والا کہ منصوبہ پنڈی بھٹیاں انٹرچینج سے ملتان تک تعمیر ہو رہا ہے ۔ کچھ حصے مکمل ہوچکے ہیں جو ٹریفک کے لیے کھول دیے گئے ہیں، جبکہ باقی علاقوں میں ابھی کام جاری ہے یہ پنڈی بھٹیاں سے ملتان براستہ فیصل آباد ملتان پہنچے گا۔ 53کلومیٹر پنڈی بھٹیاں سے فیصل آباد تک مکمل ہو چکا ہے جبکہ 62 کلومیٹر کا علاقہ گوجرہ سے شورکوٹ تک ابھی مکمل نہیں ہوا اور کام تیزی سے جاری ہے یہ منصوبہ بھی انشاء اللہ 2018ء تک مکمل ہو جائے گا جبکہ خانیوال سے ملتان کا حصہ مکمل ہو چکا ہے۔موٹر وے کا جال پور ے ملک میں پھیلایا جا رہا ہے اوپر ابھی صرف چند ایک کا زکر کیا ہے جبکہ موٹر ویز کے تعدا د 14 کے قریب ہے۔
یہ منصبوبہ جات حکومت کی اولین ترجیح ہیں کیونکہ جیسے جیسے منصوبہ جات مکمل ہو تے جائیں گے پور ا ملک آپس میں منسلک ہوتا جائے گا۔ لاہور میں بیٹھا تاجر کراچی بندر گاہ سے براہ راست اپنا میٹریل لاہور زمینی راستے سے لا سکے گا۔ ایک تو خرچ میں کمی آئے گی دوسرا فائد ہ عوام کو سستی چیزیں مہیا ہونگی۔موٹو ویز کا جال پھلانے کا مقصد تمام شاہرات کو موٹر ویز کے ساتھ منسلک کرکے بندرگاہوں تک رسائی حاصل کرنا ہے ۔ کچھ شر پسند عناصر یہ تعصب پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جنوبی پنجا ب کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اس تعصب کو ختم کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب میں بے شمار عوامی فلاح کی منصوبہ جات شروع کیے ہوئے ہیں ۔ ان منصوبہ جات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حکومت پنجاب اور جنوبی پنجاب ایک خاندان کا حصہ ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔