Thursday 26 May 2016

یوم تکبیر ۔ آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

بقول شاعر( میں کھٹکتا ہوں دلِ کفر میں کانٹے کی طرح)
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات اتنے منفرد اہم اور تاریخی ہوتے ہیں کہ ان لمحوں کی اہمیت اور حثیت کا مقابلہ کئی صدیاں بھی مل کر نہیں کر 
سکتیں۔یہ منفرد قیمتی لمحات تاریخ کا دراصل وہ حساس موڑ ہوتے ہیں جہاں قوم اپنے لیئے عزت و وقار غرور و تمکنت ، زلت و رسوائی یا غلام محکومی میں سے ایک راستہ چُن لیتی ہے ، بزدل ، ڈرپوک ابن الوقت غلام ذہنیت کے لوگ ان تاریخ ساز لمحات کی قدر نہیں جانتے اور نہ ہی ان کے دل و دماغ کسی چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور نتیجتا ایسی قومیں غلام رہ جاتی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑی بھی نہیں ہو سکتیں پھر ایسی قوموں پر ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ ماضی کے گرد میں کھو کر تاریخ کی بوسیدہ کتابوں کا حصہ بن جاتی ہیں پاکستانی قوم غیرت اور ملکی سالمیت پر مر مٹنے والی قوم ہے یہ ایک زندہ قوم ہے اور اپنے ہیروز کہ ہمیشہ یاد رکھنے اور ان کی خدمات کو سرہانے والی قوم ہے دشمن نے جب بھی للکارہ اس قوم کے غیور اور بہادر سپوتوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے 1965ء کی جنگ میں پاک فوج کے جوانوں کا جذبہ دیدنی تھاجب انہوں نے اپنے جسموں سے بم باندھ کر بھارت کے کئی ٹینک تباہ کیئے اور بھارتی سورماؤں کو جہنم واصل کیا۔
1947ء کو دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی اسلامی سلطنت جس کو مدینہ ثانی بھی کہتے ہیں ، یہ پہلا اسلامی ملک ہے جس کے پاس اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیئے اور دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے اور کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے ۔ پاکستان جب سے آزاد ہوا ہمسایہ ملک بھارت نے اسے نقصان پہچانے میں کبھی کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی وہ اپنی جارحانہ حرکتوں سے باز نہیں آیا اور ہر وقت نقصان پہچانے کے لیئے کوئی نہ کوئی حکمتِ عملی اپنائے ہوا ہے ۔
1974ء میں بھارت نے پاکستان کو ڈرانے اور غرور کرنے کے لیئے دھماکے کیے اور ہر سطح پر پاکستان کو دھمکی آمیز لہجے کا استعمال شروع کر دیا، دشمن کا خیال تھا کہ وہ دھماکے کر کے پاکستان کو ڈرا دھمکا دے گا اور اس کی اس بزدالانہ حرکت سے پاکستان ڈر جائے گا اور یوں وہ اپنے آپ کو ایٹمی سپر پاور کہلائے گا، اس وقت کے نڈر اور بہادر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹونے ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیئے اسے (پاکستان) کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کا م کا آغاز ہو گیا، جب ہندوستان نے ایٹمی ڈھماکوں کا فیصلہ کر لیا تو پاکستان اس بات پر مجبو ر ہو گیا کہ اپنے ایٹمی پروگرام کو تیزی سے فروغ دے ، ایٹم بم بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا ، دنیا کی کوئی بھی طاقت خواہ آپ کے کتنے قریب کیوں نہ ہو کسی بھی قسم کے ایٹمی پروگرام میں آپ کا ساتھ ہرگز ہرگز نہیں دیتی کیونکہ ہر ملک ایٹمی عدم پھیلاؤ تنظیم کے تحت پابند ہوتا ہے ۔7 سال کی دن رات کی محنت اور کوششوں کے بعد مئی 1983ء میں پاکستان نے اپنا پہلا کولڈ ٹیسٹ کر کے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے ۔
مجھے قائد اعظم کے وہ تاریخی جملے یا د آر ہے ہیں جب انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا( پاکستان کی حفاظت کے لیئے میں تنہا لڑوں گا جب تک میرے جسم میں خون کا آخری قطرہ تک موجود ہے مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ آپ کو پاکستان کی حفاظت کے لیئے جنگ لڑنی پڑے تو کسی صورت ہتھیار نہ ڈالیں ۔ صحراؤں میدانوں جنگلوں اور سمندروں میں جنگ جاری رکھیں)
جس وقت پاکستان نے ایٹم بم کا کولڈ ٹیسٹ کیا اس وقت دنیا میں ایٹمی تجربات پر پابندی لگانے کی کوششیں تیزکردی گیں تھیں اور پاکستان کی حکومت کے لیئے ایٹمی ٹیسٹ کرنا ایک بہت بڑا چیلنج اور بہادری کا کام تھا۔ مئی1998 ء میں ہندوستا ن نے ایک بار پھر راجھستان کے علاقے میں ایٹمی تجربات کرنے کا فیصلہ اس کی خام خیالی تھی کہ وہ ایک عالمی سپر پاور بننے جا رہا ہے، تیرہ مئی 1998ء ہندوستان نے 5 ایٹمی دھماکے کیے۔ پاکستان ان دھماکوں کے جواب دینے کا بہت شدت سے انتظار کر رہا تھا 14 مئی 1998ء کو ڈیفنس کمیٹی آف دی کیبنٹ کا اجلاس وزیراعظم کی سربراہی میں ہوا اور میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو بھر پور جواب دینا چاہیے ، ابھی دھماکوں کا فیصلہ ہی ہوا تھا کہ اس کی خبر امریکی صدر بل کلنٹن کوہو گئی ، امریکہ نے پاکستان کو قرضے معاف کرنے اربوں ڈالرامداد دینے اور اس کے بدلے ایٹمی پروگرام بند کرنے کے لیے دباؤ ڈاالا جانے لگا ایف سولہ طیارے جو پاکستان کی ملکیت تھے مگر امریکہ نے روک رکھے تھے وہ بھی پاکستان کو دینے کا وعدہ کیا ۔
پاکستان کی تاریخ میں 28مئی کا دن ایک تاریخی دن اور بہت بڑ ی اہمیت کا حامل دن ہے جب بھارت کے 5 دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے 6 دھماکے کر کے اپنی برتری ثابت کی۔ 28مئی 1998ء کو نمازِ مغرب سے پہلے ٹیسٹ ٹیم ہیلی کاپٹروں کے ذریعے چاغی سے خاران منتقل ہو گئی وہاں ایٹم بم کا ایک آخری ڈیزئن ٹیسٹ کیا جانا تھا یہ سائز میں چھوٹا تھا مگر طاقت میں چاغی والے بموں سے زیادہ تھا، پاکستان کے ایٹمی تجربات کی کامیابی نے پور ی ٹیسٹ ٹیم کو سجدہ ریز کر دیا اور زمیں کا 55 ڈگری سینٹی گریڈ گرم زمیں بھی سجدہ کو نہ روک سکی ، دشمن ان تجربات سے کافی خوف ذدہ ہو ا او اب اس کہ نظر آرہاتھا کہ جو خواب ان نے دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور بھارت دنیا میں ایٹمی طاقت بن کا سپر پاور نہیں بن سکتا۔ پاکستانی سائنسدانوں نے بھارت کے اس خواب کو خاک میں ملادیا تھا اور پوری پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی بیرونی جارحیت کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات کو مکمل طور پر مٹایا جا سکے۔
پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہے جو کسی بھی جارحیت یا دشمن کا منہ توڑجواب دینے کی طاقت رکھتا ہے جو طاقتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام/ صلاحیت کے خلاف ہیں ان کے پاس اب صرف ایک راستہ رہ جات ہے کہ وہ پاکستان کو اندر سے کمزور اور غیرمستحکم بنایں اور پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دیا جائے اور اسے دنیامیں بد نام کیا جائے اور ایک ناکام ریاست بنادیا جائے ، دنیا کو شائد یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کلمہ کی بنیاد پر معر ضِ وجود میں آیا ہے اور اسکی حفاظت اللہ جلہ شانہ ہی فرما رہے ہیں۔
آج دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے ایٹم بم اپنے مایہ ناز سائنسدانوں کی ان تھک محنت اور کوششوں سے بالکل اپنے طور پر بنایا ہے اور قابل فخربات یہ ہے کہ اس میں کسی غیر ملکی ایجنسی کی یا کسی غیر ملک کی امداد یا عنصر شامل نہیں ۔
پاکستان کا جوہری پروگرام پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ نہایت اور موثر نظام کے تحت اپنی راہ پر گامزن ہے کیونکہ یہ پروگرام ارضِ وطن کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کی ممکن صلاحیت رکھتا ہے ملکی دفاع کو نا قابل تسخیر کا سہرہ بھی اسی پروگرام کو جاتا ہے۔28 مئی کا دن پاکستان میں یومِ تشکر اور یوم تکبیر کے طور پر منا یا جاتا ہے ہر سال ملک بھر میں یوم تکبیر بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا تا ہے پوری قوم سر بسجود ہو کر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتی ہے ملک بھر کی تمام سماجی غیر سماجی سیاسی غیرسیاسی جماعتوں کی جانب اس سلسلے میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ریلیاں نکالی جاتی ہیں ، جلسے جلوس اور سیمنار منعقد کیے جاتے ہیں۔

مکمل تحریر >>

Monday 16 May 2016

ڈاکٹر مسیحا یا قصائی

ڈاکٹر مسیحا یا قصائی
زندگی انسان کو صرف ایک بار ملتی ہے اس میں اتار چڑھاؤ ، نشیب و فراز آتے رہتے ہیں انسان کو اچھے بُرے ہر قسم کے لوگ بھی ملتے ہیں زندگی ریل گاڑی کی طرح ایک پٹڑی پر چلتی رہتی ہے مختلف اسٹیشن آتے ہیں لوگ سوار ہوتے ہیں اور اتر جاتے ہیں کبھی کوئی ہمیشہ کے لئے آپ کا ساتھ نہیں دیتا ،بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنکو اچھے اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والے دوست یا خیرخواہ ملتے ہیں زندگی دن بدن تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے (یعنی آخرت کیطرف)گھڑی کی سوئیاں ہر لمحے باور کروا رہی ہیں کہ مزید ایک پل کم ہو گیا ہے ، کسی نے کیا خوب کہا ہے گھڑی کی ٹِک ٹِک مسلسل ایک کڑی ضرب ہے زندگی کی سانسوں پر ، جو ایک ایک سانس کاٹ رہی ہے اور انسان کتنا نادان ہے جو زندگی کم ہونے کی خوشی مناتا ہے ۔ 
انسان فنا ہے اور ایک دن اپنے خالقِ حقیقی سے واپس جا کر ملنے والا ہے لیکن پھر بھی دنیا کی حرص اس قدر ہے کہ انسانیت تک بھول جاتا ہے ایک زمانہ تھا جب ہم لوگ سنتے تھے کہ ڈاکٹر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لیئے مسیحا ہوتا ہے وہ دکھی انسانیت کی خدمت کرتا ہے ، ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ ہوتا ہے ، جہا ں عام انسا ن بیماری کے خلاف نا اُمید ہو جاتا ہے وہا ں ڈاکٹر روشنی کی کرن ہوتا ہے اور لوگ اس پیشے سے وابستہ لوگوں کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جیسامیں نے پہلے کہا اچھے اور بُرے انسان ہر معاشرے اور ہر دور میں پائے جاتے ہیں ایسے ہی ڈاکٹرز میں بھی اچھے اور برے لوگ موجود ہیں کچھ لوگ محبت اور صرف خدمتِ خلق کے جذبے سے سر شار ہوتے ہیں تب نہ صرف لوگ ان کی عزت کرتے ہیں بلکہ ان کو اپنا مسیحا مانتے ہیں لیکن جب سے ڈاکٹر اور مریض کے رشتے نے گاہک کا رشتہ اپنایا ہے تب سے انسانیت تو جیسے فوت ہی ہو گئی ہو۔
ایک دوست کو اللہ جلہ شانہ نے بیٹی کی رحمت سے نوازہ ، ایک سال ہو گیا تھا مبارکباد دینے نہیں گیا تھا، اتفاق سے چھٹی تھی سوچا مبارکباد بھی دے آؤں اور اس کے گلے شکوے بھی دور کر آؤں، جب میں اس کے گھر پہنچا تو وہ خوشی سے پھولا نا سمایا ، مبارکباد دی وہ خوش بھی ہوا اوراسکے آنسو بھی آنکھوں سے ٹپکنے لگے ۔میں نے آنسوں کی وجہ پوچھی تو خاموش ہو گیا اور چائے کی طرف اشارہ کیا، میرے بے حد اصرار پر اس نے بتایا۔
میں ایک غریب انسان بارہ (12000)تیرہ ہزار روپے کماتا ہوں کرائے کا گھر ہے بتا ؤ ایسے میں پرائیویٹ ہسپتا ل کیسے برداشت کر سکتا ہے ، میں نے کہا آپ سرکا ری ہسپتا ل سے اپنا کیس کروا لیتے جس پر اس نے کہا چھ ماہ میں اپنے بیوی کو سرکار ی ہسپتا ل سے باقاعدہ چیک اپ کرواتا رہا ہوں ۔ رجسٹریشن کا رد بھی میرے پا س موجو د ہے ، لیڈی ڈاکٹر نے کہا تھا جب حالت نازک ہو گی تو فورا ہمارے پاس لے آنا ڈیلیوری کر دیں گے میں نے حسب ضرورت پانچ چھ ہزا ر پکڑے اور اسی سرکار ی ہسپتال لے گیا جہاں سے رجسٹریشن کروائی تھی اور ہر مہینے دو بار چیک کروانے جایا کرتا تھا ، جب ہم لوگ ہسپتا ل پہنچے توہمارے ساتھ بھیکاریوں جیسا سلوک کرنے لگے کبھی اس طرف لے جاؤ کبھی اُس طرف پھر جا کر میری بیوی کو اندر لے گئے اور 3 تین گھنٹون بعد واپس لے جانے کو کہہ دیا، ہم لوگ بہت پریشان تھے ایسا کیوں کر رہے ہیں انہوں نے کہا ہمارے پاس ڈاکٹر کم ہیں اور آپریشن کرنا پڑے گا نارمل ڈیلیوری نہیں ہوسکتی ہم آپریشن بھی ما ن گئے پھر کہنے لگے آپریشن تھیٹر ایک ہی ہے او ر مریض زیادہ لہذا آپ اپنے مریض کو لے جایں ہم نے فورا اپنے مریض کو ایک اور بڑے سرکاری ہسپتا ل میں لے گئے انہوں نے تو حد ہی کر دی ایک گھنٹے بعد کہنے لگے ہمارے پاس ان کا کوئی ریکارڈ نہیں لہذا جہا ں سے چیک اپ کرواتے تھے وہیں لے جایں ، بہت پریشان حال مریض کی طبیعت مزید بگڑتی جا رہی تھی وہ نازک سے نازک حالت میں ہوتی جا رہی تھی مگر ان قصائیوں پر غصہ آرہا تھا حکومت ان کو کتنی تنخواہیں دیتی ہے کتنی مرعات دیتی ہے اور یہ ایسا رویہ اخیتار کیے ہوئے ہیں بہت سے افسردہ حا لت میں ایک پرائیویٹ ہسپتا ل کا رخ کیا جہا ں جاتے ہیں انہوں نے 150000ایک لاکھ پچاس ہزار پہلے جمع کرانے کا کہا باقی ٹیسٹ وغیرہ لیں گے پھر بتایں گے مریض کے ساتھ کیا کرنا ہے اتنے زیادہ پیسے سنتے ہی میرے تو پاؤں تلے سے زمین جیسے نکل گئی ہو میں ایک غریب آدمی اتنی بڑی رقم کا بندوبست کہا ں سے کرتا ، اپنے مریض کو وہاں سے لیا اور باہر آکر بے بس رونا شروع کر دیا ایک دوست کو فون کیا اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا رات نو 9 بجے سے صبح 6 بج گئے تھے مگر میری پریشانی بڑھ رہی تھی ، میرا دوست کچھ دیر بعد میر ے پاس آگیا اور ہم نے مزنگ کے قریب ایک نجی ہسپتال کارخ کیا ، وہا ں پر دو لیڈی ڈاکٹرز ہیں دونوں ماں بیٹی ہیں اور ان کے ہاتھ میں بھی چھر ی جس کے دو منہ ہوتے ہیں ان سے بات کی توکہنے لگی میرے پاس ٹائم نہیں جو انتظار کرتی رہوں آپریشن کروانا ہے تو بتایں میں نے پیسوں کی بات کی کو کہتی آپ کو معلوم نہیں پرائیویٹ ہسپتال میں سستا نہیں ہوتا چلو آپ پچاس ہزار جمع کراویں ۔میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں تو کہتی جلد بتایں میں نے اور بھی کوئی کام کرنا ہے بڑی منتوں سماجتوں سے 45 ہزارروپے پے بات مان گئی ۔ یوں میرے دوست نے میری مدد کی اور میری بیٹی پیدا ہوئی۔
یہ صرف ایک واقع ہے ایسے بے شمار واقعات ہیں جو بیان سے بھی باہر ہیں دل خون کے آنسو روتا ہے کیا غریب آدمی اولا د پیدا کرنے سے پہلے ایک لاکھ روپے جمع کرے پھر اس نعمت کا سوچے ؟ ایک ڈاکٹر حکومت سے ایک اچھی تنخواہ لیتا ہے مرعات لیتا ہے ۔ ایک نرس جو کہ 16 و یں سکیل میں کام کرتی ہے جو سارے کام کرتی ہے وارڈ دیکھتی ہے ، ایمرجنسی میں کام کرتی ہے میڈ وائف ایک مخصوص کا م کے سوا کوئی کام نہیں کرتی جب کہ LHV صرف فون سننے میں مست رہتی ہے ڈاکٹر زصاحبان سیاسی بنیادوں پر آئے روز ہڑتا ل کرتے ہیں اور اپنے مطالبات منوانے کی خاطر ہسپتالوں میں کام نہیں کرتے، کبھی سوچااس وقت کتنے مریض اذیت کا شکار ہوتے ہیں کتنے مریضوں کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے فوت بھی ہو جاتے ہیں اور آپ صرف چند ٹکوں کی خا طر یا سیاسی مفاد کو پورا کرنے کے لیئے انسانیت کا خون کر دیتے ہیں۔ حکومیتں بلند و باگ دعوے کرتی ہے ، ہر طر ف پانامہ لیکس ، آف شور کمپنیاں ، کرپشن کا ذکر ہے ، ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہو رہی ہے ایک جماعت اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیئے دوسری جماعت پر کیچڑ پھینک رہی ہے سب کے سب ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہیں مگر کسی میں اتنی ہمت ہے کہ عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیئے اسمبلی میں کوئی بل پاس کروائے۔ کسی کو میٹرو پر اعتراض ہے تو کوئی اورنج ٹرین کے پیچھے اپنی سیاست چمکا رہا ہے ، کیا اس درندگی سے بچنے کے لیئے بھی کوئی حکمت عملی بنائی ؟ ڈاکٹرز اپنی مرضی اور پیسووں کے لالچ میں ایک تندرست حاملہ خاتوں کا آپریشن کر دیتے ہیں 
کیا یہ کرپشن نہیں ؟ 
کیا یہ جرم نہیں؟
2015ء میں پنجاب اسمبلی میں عورتوں کے حقو ق اور ان کے تحفظ پر ایک قانون پاس کیا گیا جس کی رو سے عورتوں پر تشدد اور ان کی عزت کی خلاف ورزی جرم ہو گا تو جناب سرکار ی ہسپتالوں کے ڈاکٹرز جان بو جھ کر کیس نہیں لیتے کیوں کہ ہر ڈاکٹر نجی ہسپتا ل میں کام کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضو ں کا علا ج معالجہ کیا جائے پھر وہ اپنی کمیشن کہاں سے وصول کریں گے۔ حکومتِ وقت کو چاہیے جب بھی کو ئی ڈاکٹر سرکاری ملازمت اختیار کر ے اس کے لیئے لازم ہو کہ وہ کسی پرائیویٹ ہسپتا ل میں کام نہیں کرے گا ۔ 
سرکاری ہسپتالوں کے عملہ کی تربیت کی جائے کہ مریض اور لواحقین کے ساتھ نرمی سے پیش آیں ڈاکٹرز کو چاہیے کہ وہ خدمت خلق اور انسانیت کے جذبے سے کام کریں تاکہ لوگ انہیں اپنا مسیحا مانیں نا کہ قصائی۔
مکمل تحریر >>

Monday 9 May 2016

شوگر ایک جان لیوا مرض

شوگر ایک جان لیوا مرض
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقا ت پیدا کیا اور اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازہ۔ کھانے کے لیئے اناج، پہننے کے لیئے اچھے اچھے خوبصورت کپڑے اور ساتھ قراْنِ پاک میں اپنی نعمتوں کا اظہار بھی کیا کہ اے انسان ( اورتم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے) بس انسان ہی ہمیشہ اپنے رب کی نعتوں کا نا شکرہ ہے ، تمام چیزیں اپنی جگہ لیکن سب سے عظیم نعت جو اللہ جلہ شانہ نے انسان کو نصیب کی ہے وہ ہے تندرستی ۔ انسان جتنا مرضی امیر ہو لیکن تندرستی نہ ہو تو سب سہولتیں بے کا ر ہوتی ہیں اگرچہ انسان معاشی طور پر کمزور ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی اس نعمت یعنی تندرستی سے مالامال ہو تو اس جیسا امیر انسان دنیا میں کہیں نہیں۔
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزاز نعمت ہے
محنت سے انسان کامیابیوں کے منزلیں طے کرتا ہے اور آگے سے آگے بڑھنے کا جزبہ حضرتِ انسان میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے ، کامیابی پانے کے لیئے تندرستی بہت ضروری ہے اگر انسان تندرست اور توانا ہے تو وہ مشکل سے مشکل کام کو آسانی سے سر انجام دے سکتا ہے ۔بیمار آدمی تو محنت سے تنگدستی بھی دور نہیں کر سکتا۔انسانی جسم ایک مشین کی مانند کام کرتا ہے مشین کا ایک پرزہ بھی خراب ہو جائے تو ساری کی ساری مشین خراب ہو جاتی ہے ، اگر ساری خراب نہ بھی ہوتو اس کی کارکردگی میں بہت فرق آ جاتا ہے۔جب انسان کا کوئی عضو ٹھیک طور پر کام نہیں کرتا تو وہ بیمار آدمی کہلاتا ہے اور صحت کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتا نہ اپنے کام سنوار سکتا ہے اور نہ وہ دنیاوی کام سرا نجام دے سکتاہے نہ وہ اپنوں کے کام آ سکتا ہے اور نہ وہ دوسروں کی مدد کرسکتا ہے ، نہ وہ خدمت خلق کر سکتا ہے نہ قوم و ملت کے لیئے قربانی پیش کر سکتا ہے۔
شوگر ایک جان لیوا مرض ہے اگر پرہیز اور بر وقت علاج نہ کرایا جائے تو یہ انسان کو موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے ، یہ ایک ایسا مرض ہے جو انسان کو اندر ہی اند ر سے دیمک کی طرح کھاتا رہتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنا کام دکھاتی ہے پاکستان میں 2015ء کے سروے رپورٹ کے مطابق شوگر کے7 ملین سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جو کہ ایک انتہائی تشویش کا باعث ہے۔
شوگر کیا ہے ؟ شوگر کسے کہتے ہیں؟ ڈاکٹرز کے مطابق یہ ایک میٹابولک بیماری ہے یعنی جسم کے کسی مخصوص اعضاء کے نہ کام کرنے کی وجہ سے ہو سکتی ہے ۔اس بیماری کی وجہ سے خون میں گلوکوزکی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے اور یہ گلوکوزجسم میں خلیہ تک جزب نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہمارے جسم کو توانائی نہیں ملتی،گلوکوز کو انسانی خلیوں میں جذب ہونے کے لیئے انسولین کی ضرورت پڑتی ہے ذیابیطس میں ہمارا جسمانی نظام یا تو انسولین پیدا کرنے کی صلاحیت سے بالکل محروم ہو جاتا ہے یا جسمانی خلیات خون میں شامل گلوکوز کوجذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ ذیابیطس دو طرح کی ہوتی ہے اس کو ایسے بھی کہہ سکتے ہیں(شوگر)گلوکوزکی اس مقدار کو انسولین(لبلبے سے خارج ہونے والے ہارمون)کنٹرول کرتا ہے اور ایک حد سے زیادہ گلوکوز کی مقدار کوبڑھنے نہیں دیتااگر انسولین کی مقدار کم ہویا لبلبہ انسولین بنانا بند کر دے تو شوگر( ذیابیطس)کی بیماری نمودرار ہوتی ہے ۔
شوگر( ذیابیطس)عموما دو قسم کی ہوتی ہے ۔ 1۔ ٹائپ ون ذیابیطس 2۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس
اول ٹائپ ذیابیطس اکثر بچوں اور نوجوانوں میں نمودار ہوتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ لبلبہ انسولین بالکل نہیں بناتا، دوئم ٹائپ ٹو ذیابیطس نوے (90) فیصد ٹائپ ٹو ذیابیطس کسی بھی عمر کے افراد کو ہو سکتی ہے اس طرح کی مریضوں کے خون میں انسولین موجود ہوتی ہے مگر کام نہیں کر پا رہی ہوتی یا اس کی مقدار روز بروز کم ہوتی جا رہی ہوتی ہے ۔ شوگر کی کی وجہ سے بہت سے مہلک بیماریاں جبم لے سکتی ہیں اگر بر وقت علاج نہ کیا جائے اور ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق عمل اور پرہیز نہ کیا جائے تو موت واقع ہو سکتی ہے ۔آنکھوں کی شریانوں کی بیماری بھی لگ سکتی ہے ۔ کیونکہ شوگر سب سے پہلے الائیڈ آرگنز مفلوج کرتی ہے اور انسانی آنکھ سب سے کمزور آرگن ہوتا ہے جس پر اس کا بہت جلد حملہ ہوتا ہے اور آنکھ کے ضائع ہونے کا خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔دانت اور مسوڑھوں کی بیماری بھی لاحق ہو سکتی ہے اور خاص طور پر بڑی عمر کے لوگوں پر اس کا حملہ زیادہ ہوتا ہے ، کیونکہ دانتوں اور مسوڑھوں میں خوراک کا کوئی نہ کوئی زرہ رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے زیادو اثر اند از ہوتے ہیں۔دل کی شریانوں کی بیماری ،جسم میں چربی کی اضافی مقدار، کولیسٹرول کی زیادتی اور خون میں شکر کی وافر مقدار، شریانوں اور خاص طور پر دل کی شریانوں کو بند کر نا شروع کر دیتے ہیں جس سے ہائی بلڈ پریشر ہو جاتا ہے جو آگے جا کردل کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے ۔گُردے کی شریانوں کی بیماری،خون کے گاڑھے ہونے کی وجہ سے گردے بھی متاثر ہوتے ہیں۔اور آہستہ آہستہ گردے ناکارہ ہوجاتے ہیں۔جنسی بیماریاں۔شوگر(ذیابیطس )کا مرض جسم کے ہر حصے کو متاثر کرتا ہے حتیٰ کہ یہ جنسی حصوں کو آہستہ آہستہ مفلوج کرنا شروع کردیتی ہے ۔ان کی افادیت میں کمی واقع کردیتی ہے خواتین کی نسبت مرد حضرات اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔اعصاب اور خون کی شریانوں کی بیماری۔جسم کے تمام اعصاب اورخون کی شریانیں اس بیماری سے متاثر ہوتی ہیں خون میں شکر کی زیادتی کی وجہ سے جسم میں خون کی سپلائی میں خلل پیدا ہوتا ہے اور ان میں سخت درد ہوتا رہتا ہے اس لیئے زیادہ ورزش کو تر جیح دی جاتی ہے ۔اگر شروع میں اس مرض کو نہ روکا جائے تو یہ بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔ پاؤں کی بیماریاں۔شوگر کا مریض زیادہ تر پاؤں میں درد کی زیادہ شکایت کرتا ہے اس مرض کو ڈاکٹری زبان میں پولونیورو پیتھی(Poly Neurpathy)کہتے ہیں۔اس تکلیف سے بچنے کا بہترین طریقہ ورزش ہے ۔
علاج ، ہدایات و احتیاتی تدابیر۔
جب لیبارٹریز کی رپورٹس اور دیگر تجزیاتی عمل کے بعدشوگر کی موجودگی کا علم ہو جائے تو اس مرض کا باقاعدہ طور پر علاج کروانا چاہیے کیونکہ یہ طویل عر صہ پر محیط علاج ہوتا ہے جن میں انسولین تھراپی اور دیگر انٹی ڈیباٹک (Antidiabtic)ادویات مسلسل استعمال کرنی ہوتی ہیں کسی مریض کو انسولین کی کم مقدار کی ضرورت ہوتی ہے تو کسی کو زیادہ، ایک تندرست انسان کی پینکریازروزانہ 50 یونٹ انسولین بناتے ہیں اور خون میں داخل کرتے ہیں۔ اس مرض میں مریض کو اپنی بلڈ شوگر کو خود کنٹرول کرنا یعنی کم از کم 40 منٹس ورزش کو معمول بنانے سے بلڈ شوگر کو کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔مریض کو اپنی روز مرہ کی خوراک پر توجہ دینا ہوگی اور مناسب تبدیلی لانا ہو گی۔ ایک دم پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ وقفہ وقفہ سے کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا چاہیے۔ خو د انتظامی (self management) اس مرض کا بہتریں علاج ہے یعنی اپنی شوگر کو بار بار چیک کرتے رہنا اور ادویات کو باقاعدہ استعما ل کرنے سے اس مہلک بیماری سے لڑا جا سکتاہے
سگریٹ نوشی ، شراب نوشی ترک کر دینی چاہیے تا کہ مزید پیچیدیگیوں سے بچا جا سکے۔مریض کو میٹھی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے، اور خاص کر بیکری آیٹمز سے جتنا زیا دہ پرہیز کیا جا سکے کرنا چاہیے۔تازہ پھل اور سبزیاں مناسب مقدار میں کھانی چاہیں یا پھر ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے، کھانا وغیرہ کولیسٹرول فری آئل میں پکا کر کھانا چاہیے۔ روازنہ پیدل چلنا چاہے اور ورزش کو اپنا معمول بنانے سے اس مہلک مرض سے بچا جا سکتا ہے۔اور اپنے معالج سے رابطے میں رہنا چاہیے۔
اللہ ہم سب کو صیحت اور تندرستی عطا فرمائے۔آمین
مکمل تحریر >>

Sunday 8 May 2016

http://universalurdupost.com/?p=36167 (my new column published on universal urdu post)

 (my new column published on universal urdu post)
مکمل تحریر >>

Friday 6 May 2016

ماواں ٹھنڈیاں چھاواں



ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
بقول شاعر۔
یہ کہہ کر میں فرشتوں سے جنت میں چلا جاؤں گا                              
کہ میں اپنی ماں کے قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہا ہوں۔                              
دنیا آنکھ ہے تو ماں اس کی بینائی، دنیا پھول ہے تو ماں اس کی خوشبو، سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے نرم کیا جا سکتا ہے ۔زندگی میں ایک ایسا رشتہ جو بغیر کسی لالچ کے دکھ درد بانٹتا ہے اور پیار کرتا ہے تو وہ ہے ماں۔لفظ ماں کے ساتھ میرے لور ی کے الفاظ نہیں گونجتے ، کوئی لاڈ یا پیار کا لفظ بھی دور  تک نظر نہیں آتا،بس دو آنکھیں ہیں جن میں کبھی پیا ر امڈتا ہے تو کبھی غصہ۔
ماں کی محبت اور اس کی اہمیت کے لیئے جب بھی قلم اُٹھایا تو مجھے لگا جیسے لفظ کم پڑ گئے ہوں میں لکھتے لکھتے صبح سے شام کر دوں تو بھی شاید ا س عظیم ہستی کا ایک پہلو بھی بیا ں نہ کر سکوں ، ماں کی بے پایاں محبت کوشاید لفظوں میں نہ ڈھال سکوں اور نہ ہی کوئی ایسا پیمانہ بنا ہے جس سے جنت کی اس ملکہ کے پیا ر کو ناپا جا سکے ۔خدمت اور خلوص کی اس عظیم ہستی کو سمجھنا بھی جوے شیر لانے کے برابر ہے ، خود بھوکی رہ کر اولاد کے پیٹ کو بھرنے والی کی عظمت کو سلام، لفظ ماں جیسے زبا ن پر آتا ہے گویا بے جان جسم میں جان آجاتی ہے خوشی کی ایک لہر پورے وجود میں دوڑ جاتی ہے اس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی رب ذولجلال نے دنیا میں پیدا ہی نہیں کی ۔دھوپ ہو چھاؤں ، آندھی ہو طوفان اس کی محبت اور پیار میں کمی نہیں آتی ۔ وہ کڑی دھوپ میں ایک سائباں کے طرح اسکی تپش سے بچا لیتی ہے اور اس کی گرم گود سردی کی سرد ہواؤں سے بچا لیتی ہے ۔خود کانٹوں پر چلتی ہے اور اولاد کو پھولوں کی سیج مہیا کرتی ہے ۔دنیا جہان کے غموں کو اپنے آنچل میں سمیٹ لیتی ہے مگر لبوں پر مسکراہٹ سجائے زندگی کے ساتھ رواں دواں رہتی ہے 
8مئی کو پوری دنیا میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دن منایا جا تا ہے جس کا مقصد ماں کی اہمیت کو اجا گر کرنا اور ماں کی خدمت کو سراہنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حکم دیا ہے:(اور اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آیا کرو) ماں نو ماہ تک بچے کو اپنے پیٹ میں رکھتی ہے اور اللہ اس کی حفاظت فرماتے ہیں، ماں گرمی سردی میں اولاد کا خیال رکھتی ہے ایک اور جگہ پر اللہ جلہ شانہ نے والدین کے لیٗے خصوصی دعا مانگنے کا حکم دیا۔ :(رب ارحمھماکما ربیانی صغیرا): جس کا ترجمہ ہے اے میرے رب میرے والدین پر رحم فرما جیسے انہوں نے مجھ پر بچپن میں کیا۔یعنی مجھے چلنا نہیں اتا تھا ، اپنا نام تک معلوم نہیں تھا ،تب میرے ماں نے مجھ پر رحم کیا اور مجھے چلنا سیکھایا ۔
ماں کی قدروقیمت کی اہمیت کے لیئے ہمارے آقا کریم ﷺ فرماتے ہیں ۔ محمد ﷺ اگر فرض نماز پڑھ رہے ہوں اور مجھے میرے ماں بلائے تو قسم ہے رب زوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جاں ہے میں نماز چھوڑ کر پہلے ماں کی بات سنوں گا۔ خدا نے اس کی عظمت کو بلند کرنے کے لیئے جنت کو اس کے قدموں میں رکھ دیا اب جس کا جی چاہے اس کی خدمت کر کے اس کی عزت کر کے جنت حاصل کرلے ۔( الجنت تحت الاقدام المھات) جنت ماں کے قدموں میں ہے اللہ تعالیٰ جلہ شانہ نے بھی ماں کی اہمت کو اپنے اس انداز میں بیاں فرمایا۔ اور اللہ 70 ماؤں سے بھی زیادہ انسان سے محبت کرتا ہے ۔ایک مرتبہ ایک صحابی نے آپ ﷺ سے دریافت کیا میرے ماں با پ میں سے مجھ پر زیادہ کس کا حق ہے جس پر آپ ﷺ نے والدہ کے بارے 3 مرتبہ کہا پھر چوتھی بار والد کے حق کی بات کی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ماں کی وفات کے بعد اللہ جلہ شانہ سے ہم کلام ہونے جا رہے تھے کہ راستے میں ٹھوکر لگنے سے گرنے ہی لگے تھے کہ آواز آئی :اے موسیٰ: سنبھل کر چل اب تیرے پیچھے دعا کرنے والی ماں نہیں ہے ۔وہ ماں ہی ہے جو نہ کبھی احسان جتاتی ہے اور نہ ہی اپنی خدمت کا صلہ نہیں مانگتی ہے بلکہ کوہلوکے بیل کی طرح کام کرکے بھی اس کے چہرے پر پریشانی یا تھکن نمودار نہیں ہوتی بلکہ اولاد کی خوشی کی خاطر اس کے چہرے پر رونق اور مسکرا ہٹ رہتی ہے بلکہ بے غرض ہو کر اپنی محبت ان پر نچھاور کرتی رہتی ہے ۔دنیا کا ہر رشتہ کسی نہ کسی غرض سے منسلک ہوتا ہے مگر دنیا میں ماں ایک ایسا عظیم رشتہ ہے جو بے غرض اور بے لوث ہوتا ہے آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جایں ماں کی دعایں سائے کی طرح پیچھا کرتی رہتی ہے ، ماں اپنی اولاد کے خاطر تقدیر سے لڑ جاتی ہے ماں اولاد کی پر یشانی کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے اور اس کی دعاؤں سے بڑی سے بڑی مصیبت ٹل جاتی ہے۔
اکثر لوگ کہتے ہیں ایسے دن منانا مسلمانوں کا کام نہیں یہ غیر مسلم لوگ مناتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے جو ماں بچپن میں بچوں کو پالتی پوستی ہے انکی ضرورتوں خیال رکھتی ہے جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو اولڈ ہاؤس کیوں بھیج دیے جاتے ہیں
اولڈ ہاؤس بھی تو غیرمسلموں کے طریقوں میں سے ایک ہے ۔ کتنی مائیں ہیں جو اپنی اولاد کی شکل دیکھنے کو سالہاسال سے ترس رہی ہیں
کیا اسی دن کے لیئے اس بوڑھی ماں نے دعائیں مانگی تھیں اور جنم دیا تھا۔ ماں کی بد دعا سے بچنا چاہیے اس کی بد دعا عرش کو ہلا دیتی ہے وہ لوگ سچ میں بڑے بد نصیب ہوتے ہیں جو اس عظیم ہستی کی نافرمانی کرتے ہیں وہ نہ صرف اس دنیا میں ذلت کی زندگی گذارتے ہیں بلکہ اپنی آخرت کو بھی بربا د کرلیتے ہیں۔ماں کی نافرمانی کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ ماں وہ ہستی ہے جس نے اپنے بچوں کو اپنا خوں پلا کر ان کو پالا پوسا خو د گرمی سردی ، بھوک پیا س ، دکھ برداشت کیے اپنی خواہشوں کو قرباں کیا۔ کیا ایسی ہستی دنیا میں اور کوئی ہے؟ اس کی محبت کا بدل کوئی ہے؟وہ محبت کا ایک سمندر ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔جس گھر میں ماں نہیں وہ گھر قبرستاں کی مثل ہے۔ 
بقول شاعر جن کے سر سے ماں کا سایہ چھن جاتا ہے 
مائے نی میں کنوں آکھاں۔درد وچھوڑے دا حال نی
دھواں دُھکھے میرے مرشد والا۔جاں پھُلاں تاں لال نی
جنگل بیلے پھراں ڈھوڈھیندی۔ اجے نہ پائیولال نی
دکھاں دی روٹی سُولاں دا سالن۔آہیں دا بالن نال نی
مکمل تحریر >>