Wednesday 30 December 2015

Monday 28 December 2015

Millat ka pasban


مکمل تحریر >>

Monday 21 December 2015

Hafeez Jalandhari ..Yom e Wasal


مکمل تحریر >>

حفیظ جالندھری National Poet1900 to 1982

14
 اگست 1947ء کو دنیاکی تاریخ میں ایک اسلامی سلطنت کا قیام ہوتا ہے اور ریڈیو پاکستان لاہورسے ایک اعلان ہوتا ہے کہ 
 کلمہ کی بنیاد پر ایک نئے اسلامی ملک کا قیا م مبارک ہو آج سے ہم ایک آزاد قوم کے طور پر دنیا پر نمودار ہوئے ہیں اور ایک ریاستِ خدا د ملکِ پاکستان نے جنم لیا ہے۔ جسکو سننے کے بعد لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اوراس خوشی کی خبر کے پیچھے لاکھوں قربانیوں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ماؤں بہنوں نے اپنی عصمتوں کی قربانی دی بھائیوں نے اپنی جانوں کو اس آزادی پر نچھاور کیا اور بزرگوں نے اپنی جوان بیٹوں کی لاشوں کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر حا صل کی۔
تحریک پاکستان میں بے شمار ایسے لوگ شامل تھے جو قائداعظم کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن جو خاموش سپاہی کا کردار ادا کرتے رہے اس تحریک میں نوجوانوں نے قائداعظم کے شانہ بشانہ بہت کردار ادا کیا ان نوجوانوں میں ایک نام حفیظ جالندھری کا بھی آتا ہے ۔
حفیظ جالندھری  14 جنوری  1900ء جالندھر کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوے آپ کے والد کا نام شمس الدین تھا جو ایک محنتی شخص تھے اور جافظِ قرآن تھے اس لیئے آپ کی ابتدئی تعلیم اپنے گھرانے سے ہوئی اور آپ نے مسجد سکول میں اپنی بنیادی تعلم حا صل کی اس کے بعد آپ نے ساتویں تک وہاں کے ایک مدرسے سے تعیلم حا صل کی۔حفیظ جالندھری بچپن سے ہی اپنے دوستوں میں ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ مشن ہائی سکول جالندھر میں زمانہ طالبعلمی کے دوران میرٹھ، دہلی اور بمبئی کے سیر سپاٹے کرتے رہے اور یوں تعلیم پر پوری توجہ نہ دے سکے ۔اسی زمانے میں آپ کو اردو ادب سے دلچسپی پیدا ہوگئی اور باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز کیا۔
1917ء میں جب آپ کی عمر سترہ سال کی ہوئی تو والدین نے شادی کے بندھن میں باندھ دیا اور یوں آپ نے سترہ سال کی عمر میں اپنی کزن زینت بیگم سے شادی کی جس سے اُن کے ہاں سات بچوں کی پیدائش ہوئی اور اس طرح آپ کو اللہ تعالیٰ نے سات بیٹیوں کی رحمت سے نوازہ۔ اس کے بعد آ پ نے انتالیس سال کی عمر میں دوسرے شادی ایک انگریز لڑکی سے کے جو زیادہ دیر نہ رہ سکی اور طلاق کے بعد علحد گی ہو گئی، آپ کی پہلی بیگم 1954ء میں انتقال کر گئیں اور یوں ایک سال بعد آپ نے خورشید بیگم سے شادی کی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائی تو جالندھری صاحب کی ذاتی زندگی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی مگر آپ کے دل میں مسلمانوں کے لیئے بہت جگہ اور محبت بھری ہوئی تھی زندگی کے اتار چڑھاؤ کے باوجود وہ اردو ادب کے لیئے کام کرتے رہے 1917ء میں پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر انہوں نے جنگ کے موضوع پرایک نظم لکھی جو بہت پسند کی گئی اور آپ کو اس موقع پر انعام سے نوازہ گیا۔
1918ء میں مولاناگرامی سے فارسی درس لینا شروع کر دیا اور تین سال بعد جالندھر سے ایک رسالہ نکالنا شروع کیا جس کا نام اعجاز رکھا لیکن جالندھر ی صاحب کے حالا ت ناسازگار تھے اور مالی نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے بعد میں اس رسالے کو بند کرنا پڑا۔آپ اپنی زندگی کے نشیب و فرازکو بالا طاق رکھتے رہے اور اپنی کوشش جاری رکھی اور کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی جستجو میں لگے رہے کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُن کے اس نام کو صدیوں یاد رکھا جائے گا، پھر قسمت کی دیوی اُن پر مہربان ہوئی اور 1922 سے 1929ء تک وہ چند ماہانہ میگزین کے ایڈیٹر متخب ہوئے اور آپ کی زیر سایہ بہت سے رسالے جن میں نونہال، ہزار دستان، تہذیب نسواں اور مخزن جیسے رسالے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے آپ نے بچوں کے بہت کام کیا آپ نے اپنی مشہور نظمَ۔۔ مجھے ایک ننھا سا بچہ نہ سمجھو۔۔ میں قوم کے معماروں کے لیئے ایک ایک ایسا سبق دیا کہ اگر اس پر عمل پیرا ہو جایں تو آج کے نوجوان کو اس کی منز ل مل جائے ۔
1935ء میں اُنکی نظموں پر مشتمل مکمل گلدستہ جس کا نام۔۔۔ نغمہ زار۔۔۔ تھا وہ پبلش ہوئی اور یوں ان کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی اور لوگوں میں مقبولیت کا مقام حاصل کیا جالندھری صاحب کو اپنے ملک سے بے پنا ہ محبت اور عقیدت تھی وہ کہتے تھے کوئی ہمیں یاد کرے یا نہ کرے لیکن ہم اپنے ملک کی بقاء کے وہ سب کچھ کریں گے جس کی ہم میں اسطاعت ہے وہ اپنے شعروں میں بھی اپنی عقیدت کو بیا ن کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ نے کہا !
کوئی پرسان نہیں پیرِمغاں کا
فقط میر ی وفا ہے اور میں ہوں۔
حفیظ شعرا کے اس دبستان سے تعلق رکھتے تھے جس نے ہند ی بحروں کو اردو میں رائج کرنے اور شعر میں الفاظ بششت اور ترکیبوں سے حسن اور ترنم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ان کی نظموں میں خیا ل کی رعنائی جزبات کی فراوانی اور ترنم ریزی نے نئی نسل کو بے حدمتاثر کیا ان میں پرتاثیرنغمگی پائی جاتی ہے ہلکے پھلکے گیت لکھنا نظم کی نئی نئی شکلیں پیدا کرنا اور رومانی نظمیں لکھنا جالندھر ی صاحب کا خاص آرٹ ہے ان کے کلام میں شگفتگی اثر آفرینی اورروانی ہے ۔
کچھ عرصہ جالندھر ی صاحب ریاست خیر پور سندھ کے دربار سے وابستہ ہو گئے کچھ عرصہ بعد میر ریاست کے سامنے اپنی نظم ۔۔رقاصہ۔۔ پڑھی تو آپ حکمران کے غضب کا شکار ہوئے اور ریا ست بدر کر دیئے گئے حفیظ جالندھر ی مختلف رسائل کے مدیر بھی رہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ۔حفیظ ج لندھری نے دوسرے جنگ عظیم میں گورنمنٹ ملازمت اخیتار کر لی اور سانگ ایند پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹرجنرل مقر ر ہوئے ان کی شب و روز کی محنت اور لگن کے صلہ میں انگریرحکمرانوں نے ان کو ۔۔خان بہادر ۔۔کاخطاب دیا۔اور بعد میں اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔
حفیظ جالندھری کا شمارملک کے عظیم شعراء میں ہوتا ہے قیامِ پاکستان کے بعد 1952ء میں ملک پاکستان کا مشہور قومی ترانہ لکھنے کی سعادت بھی جنا ب حفیظ جالندھر ی صا حب کو حاصل ہے اس کے علاوہ انہیں برصغیرمیں ۔۔شاہنامہ اسلام ۔۔ لکھ کر جو شہرت اور پذیرائی ملی وہ انہیں کا حصہ ہے۔انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے تاریخ ہند بھی مرتب کی جو آج بھی بھارت کی سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے ۔قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی چند برس قومی ترانہ نہیں لکھا گیا تھاپھر 1952ء ایک ترانہ کمیٹی تشکیل پائی جس میں سات سو پچاس شعراء کرام نے شرکت کی اور اپنے اپنے ترانے پیش کیئے، جس میں سب سے زیا دو حفیظ جالندھری کے ترانے کو پسند کیا گیا،اس طرح کمیٹی میں پیش کی
 گئے سب ترانوں میں سے ان کے ترانے کو منظور کیا،اس ترانے کی دلچسپ با ت یہ ہے کہ اس ترانے کی دھن ایم اے چھاگلہ نے پہلے ہی بنا لی تھی ۔حفیظ جالندھری ہمارے قومی شاعر تھے جنہوں نے اپنی شاعری سے اپنے مقصد جذبات کی پور ی تشریح کی ۔
حفیظ جالندھر ی کی خواہش تھی کہ جب ان کا انتقال ہو تو ان کو شاہی مسجد کے زیرسایہ دفن کیا جائے 21دسمبر 1982 ء کو ہم سے یہ عظیم شاعر ہمیشہ کے لیئے جدا ہو گیا ، اپنی خالقِ حقیقی سے جا ملا، اُ ن کی خواہش کو پورا تو نہ کیا جاسکاکیونکہ انتظامیہ نے اس کے اجازت نہ دی جس کے بعد اس عظیم شاعر کی تدفین اقبال پارک کے گراؤنڈمیں کی گئی۔ اقبال پارک (منٹوپارک)جہاں مشہور قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اسی جگہ مینارِ پاکستان قائم ہے اسی شاندار گراؤنڈ کے ایک حصے میں یہ عظیم شاعر مدفون ہیں ، زندہ قومیں اپنے مشاہیر اور ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں ان کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کرتی ہے ہیں مگر افسوس ہم ان ہیروز کی یاد میں تو تقاریب منعقد کرتے ہیں جنہوں اس ملک کو صرف لوُٹا ہو یا اداکاروں ، فنکاروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت بھی ہے اور ہم اس کا باقاعدہ اہتمام بھی کرتے ہیں مگر حقیقی معنوں میں حفیظ جالندھری جیسے عظیم لوگوں کو بُھلائے بیٹھے ہیں ہم میں سے کئی ایسے افراد آج بھی ہیں جن کوحفیظ جالندھری اور ایسے کئی ہیروز ہیں جن کی نہ پیدائش کا پتہ اور نہ اُن کے وفات پانے کا علم اگر آج ہم نے اپنی نئی نسل کو ان عظیم لوگوں کے بارے نہ بتایا تو کل ہم بھی تاریخ کا حصہ بن جایں گے اور بقول حفیظ جالندھری!
                                                                                                            ہم ہی میں نہ تھی کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے 
                                                                                                            تم نے ہمیں بھُلا دیاہم نہ تمہیں بھُلا سکے ۔
مکمل تحریر >>

Thursday 17 December 2015

رحمتِ عالم نور مجسم


رحمتِ عالم نور مجسم

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقا ت کا شرف بخشا اور انسان کو تمام مخلوقا ت پر فضیلیت بخشی اور انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ یعنی نیب بنا کر بیھجا۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پید ا فرمایا تو فرشتوں نے عرض کی اے پروردگار انسان زمین پر فساد کریں گے ہم تمہاری عبادت کے لیئے کافی ہیں تو اللہ جلہ شانہُ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں آپ نہیں جانتے ۔رب کائنات نے اس زمین پر کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے جو اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچاتے رہے قرآنِ پاک سورۃالااحزات آیت نمبر 39 میں اللہ فرماتے ہیں :وہ جو اللہ کا پیٖغام پہنچاتے اور اس سے ڈرتے اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ کرتے اور اللہ بس ہے حساب لینے والا۔

اس طر ح ہر پیغمبر اعلیٰ اور اوران سے سب کے مراتب ایک دوسرے سے بڑھ کراعلیٰ، کسی کو اللہ نے اپنا کلیم اللہ کہا تو کسی کو روح اللہ کے درجے پر فائز کیا کہیں اسماعیل ذبیع اللہ ابراہیم خلیل اللہ تو کہیں آدم فصیح اللہ کے مرتبے پر فائز فرمایا مگر ایک حستی ایسی ہے جن کو ان تمام کے بعد بھیجا مگر رتبے میں محمدﷺ کو حبیب اللہ کہہ کر تما م انبیاء پر فضیلت فرما دی۔ قرآنِ پاک سورۃالااحزات آیت نمبر 40میں اللہ فرماتے ہیں :محمدﷺ تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ 
سب کچھ جانتاہے :۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا
سب سے اول تھا جس کو بنایا گیا
نورِ رحمت سے جس کو سجایا گیا 
ایسے تصویر محبوب کی کھینچ دی 
خود خدا کو بنا کے سرور آگیا
 زمانہ تھاجب ہر طر ف ظلمت کے کالے بادل چھائے ہوئے تھے جہالت کا دور دورہ تھا جب جاہل کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جب لوگ اپنی بیٹوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے جب عورت کو معاشرہ میں صرف حکارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ، جب غریب کا مال ہڑپ کر لیا جا تھاغلاموں کو اپنی جاگیر سمجھا جاتا تھا ایسے حالا ت میں ایک ایسے کامل انسان کی ضرورت تھی جو اس بکھرے ہوے شیرازے کو سمیٹ لیتا عورتوں کے حقوق کی بات کرتا غلاموں کو آزادی دلاتا ، ایسے حالات میں اللہ رب العزت نے اس وقت اپنے پیارے محبوب کو اس دنیا میں بھیجا جب رات کا اندھیرا اپنی تاریکیوں کو لے کر جا رہا تھا اور ایک روشن صبح کا نور طوع ہو رہا تھا تب میرے ہمار ے آپ سب کے کریم رحیم حلیم سرور دو جہاں وجہ کائنات حضرت محمدمصطفےٰﷺ اس دنیا فانی میں تشریف آے بقول شاعر
حبیب ٰ اُچی شان والیو ، جے تُسی آے تے بہاراں آیاں۔
12ربیع الااول پیر کے دن یعنی 571Ad ایک ایسا دن جس دن ظلمت کا بادل چھٹ گئے اور نورِ رحمت کا ظہور ہوا، ایک ایسا بنی ﷺ جس کی ذات کو پورے عالم کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا ، قرآن گواہی دیتا ہے : بے شک ہم نے آپ کو دو جہانوں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا، ڈاکٹر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا:۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا 
مرادین غریبوں کی بر لانے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے وال�آآپ کی تعریف کرنے کا لئے اگر زمانے بھر کے درختوں کی قلمیں بنا دی جایں اور پور ے سمندر کے پانی کی سیاہی بنا دی جائے اور پرند چرند انسان حیوان نباتات سب آپ کی تعریف لکھنے بیٹھ جایں تو آپ کی حیا تِ طیبہ کا ایک پہلو بھی نہیں لکھا جا سکتا ، کیونکہ آپ کے ذات بے مثل بے مثال ہے ، لوگ بچپن سے ہی آپ کو صادق اور امین کے نام سے جانتے تھے آپ بے حد خوبصورت شخصیت کے مالک تھے جب آپ کے چہرہ مبارک پر پسینہ نمودار ہوتا تو یوں لگتاگویا کوئی موتی چہرہ انورپر پڑا ہو، آپ ﷺ کو میرے اللہ نے کبھی یٰسن کبھی طحہٰ کبھی ولیل کے نام سے پکارا ،کسی نے امی حضرت عائشہ صدیقہؓ سے عرض کی کہ حضور کا اخلا ق کیا ہے تو اماں جان فرماتی ہیں سارا قرآن آپ کا اخلاق ہے ، سورہ العمران آیت نمبر31 میں اللہ فرماتے ہیں ،اے محبوب تم ان سے فرما دو ان لوگوں سے اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہوتو میرے فرمانبردارہو جاؤ، اللہ تمہیں دوست رکھے گااور تمہارے گناہ معاف کر دے گا بے شک وہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔
اس آیت کریمہ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو حضور ﷺ کی غلامی میں ہی کامیا بی کا راز پنہاں ہے ۔ بقو ل ڈاکٹر علامہ اقبال 
محمد کی غلامی دینِ حق کی شرطِ اول ہے 
ہو اگر اس میں خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے 
اس میں کوئی شک یا گنجائیش کی بات نہیں اگر حضرت محمد ﷺ کی غلامی حقیقی معنوں میں نصیب ہو جائے تو انسان کامل بن جاتا ہے حضرتِ بلال حبشی فرماتے ہیں ہم باپ دادا سے غلام چلتے آرہے ہیں ہم نے بہت تکالیف دیکھیں لیکن جب سے غلامیِ رسول میں آئے تو دنیا کے سردار بن گئے حبشی غلام سے سیدنا بلال حبشی بن گئے یہ سب فیض غلامی رسول کا ہے حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میرے باپ مجھے بکریاں چرانے کو کہا کرتے تھے اور وہ ریوڑ میں سمبھال نیں پاتا تھا مگر جب سے حضور کی غلامی نصیب ہوئی عر ب کی سر زمین پر ایک کامیاب حکومت قائم کی اور انصاف کی ایسی مثال قائم کی جو آ ج تک یاد کی جاتی ہے اور ایک ایسے معاشرے کی بنیا د رکھی جو آج تک قائم ہے۔
آقاءِ نامدار فخرموجودات رحمتِ عالم ، شافیِ محشر اتنے شفیق اور کریم تھے ایک بار آپ طائف کے مقام پر پیام حق لوگوں تک پہچانے کے لئے پہنچے ، جب آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام لوگوں کو سنایا تو لوگ آپ کے خلاف ہو گئے لوگوں نے آپ ﷺ پر پتھر برسا ئے آپ کے پاؤں مبارک لہولہان ہو گئے آپ کی تکلیف شاید اللہ جلہ شانہٗ کو بھی گوراہ نہ تھی فورا جبریل ؑ تشریف لائے اور عرض کی سرکا ر اگر آپ فرمایں تو ان کو اس پہاڑ کے درمیاں مسل کر ختم کر دیا جاے مگر سبحان اللہ میرے آقاﷺ نے فرمایا نہیں میں ان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں اے اللہ آپ ان پر رحم فرما اور ان کو صراطِ مستقیم نصیب فرما۔ آپ اتنے رحم کرنے والے کہ آپ نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا کہ جب کفار سے جنگ لڑو تو خیا ل رکھو اگر کوئی ضعیف تمہارے سامنے آجائے تو اسے معاف کر دینا، سبز پتوں والے درخت نہ کاٹنا، بچوں اور عورتوں کا خیال
رکھنا، اوراگر کوئی پناہ میں آجائے تو اسے بھی معاف کر دینا، جب فتع مکہ ہوئی تو بہت سے کفار بھی جنگی قیدی تھے اگرآپ چاہتے تو ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کر سکتے تھے جیسا وہ مسلمانوں کے ساتھ کیا کرتے تھے مگر میرے انیس الغریبن رحمت العالمین نے ایسا نہ کیا بلکہ ان سے کہا آپ ہمارے بچوں کو تعلیم کے زیور سے مزین کریں، آپ ﷺ کا حسن سلوک دیکھ کر بہت سے لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے ۔۔
بقو ل شاعر۔ اک لفظ نہیں ہے جو تیرے لب پہ نہیں ہے۔یعنی آپ کا ایسا در ہے جہاں غیریب تو کیا امیر بھی اپنا سر جھکاتے ہیں اور اتنا عطا کرتے ہیں کہ دوبارہ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی ، میرے آقا صرف انسانوں کے ہی نہیں بلکہ جن پرند حیوان سب کے لیئے رحمت ہیں جانور بھی آپ کی عزت اور تعظیم کرتے تھے ایک مرتبہ ایک کافر کے ہاتھ میں کچھ پتھرکی کنکریاں تھیں آپ کے پاس حاضر ہو ئے کہ میں تب ایما ن لاؤں گا کہ ااپ بتا دیں میرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا میں بتا ؤں یا تمہارے ہاتھ میں جو ہے وہ خود بتاے کہ میں کون ہوں جب آپ ﷺ اُن سے مخاطب ہوے تو پتھر بولنے لگے ائے اللہ کے پیارے نبیﷺ آپ نے مجھے یاد فرمایا۔ آپ اللہ کی نبی محمدﷺ ہیں ۔ ایسی شان والامیرا نبی جس کی گواہی قران دے ، جس کی قسمیں میرے رب نے کھایں ، ایسا نبی جو آبِ کوثر پلانے والا، ہم پینے والے ، جو جنت میں لے جانے والا ہم جانے والے ، جب نہ کوئی باپ کسی بیٹے کے کام آے گا جب نفسا نفسی کا آلم ہوگا ہر طرف گرمی ہوگی لوگ ایک ایک نیکی کو ترس رہے ہونگے آہ و پکار ہوگی ، محشر کا میدان ہوگا تب ایک آواز بلند ہو گی یا ربِ امتی یا رب امتی اور رب اپنے محبوب کو مخاطب ہو گا اے میرے نبی ہم نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا ، ہم تم کو اتنا عطا فرمایں گے کہ تو راضی ہو جائے گا آج تیرے مانگنے کا وقت ہے مانگ جو مانگنا ہے ، تب  میرے شفیق آقاﷺ اپنے رب سے عرض کریں گے میری امت کو بخش دےمیرے نبی ﷺ کا ذکر خود ربِ کائنا ت نے بلند فرمایا اور قرآن مجید میں ارشار ہوا: بے شک ہم نے آپ کے ذکر کو بلند فرمادیا۔
امت کے ساتھ محبت اور پیار اس قد ر تھا کہ جب آپ ﷺ کا وصال مبار ک کا وقت آیا تو آپ نے جبریل ؑ سے فرمایا میرے اللہ سے پوچھو میرے بعد میر ی امت کا کون رکھوالا ہوگا تو اللہ جلہ شانہٗ نے فرمایامیں اللہ خود حفاظت فرماوں گا ، آخری لمحا ت میں بھی آپ کی زبانِ اقد س پر صرف امت کا ہی ذکر تھا، اور روزِمحشر بھی یا رب امتی ۔اب بطور امتی ہم پر بھی کچھ فرض ہوتا ہے ، ہمیں سوچنا اور اس پر عمل کی ضرورت ہے کہ آج ہم اپنے پیار ے نبی ﷺ کی کتنی سنتوں پر عمل پیرا ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا ، میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا قبروں کو پوجا گاہ نہ بنا لینا، میں تمہارے لیئے دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک سنت اور ایک قرآن پاک ۔ان پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنی زندگیوں کو کامیاب بنا سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میری اطاعت کرنا چاہتا ہے پہلے میرے نبی کی اطاعت کرے ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم اپنے نبی کے احکامات پر کس قدر عمل پیرا ہیں۔صر ف جھنڈیا ں لگا کر ، جلوس نکال کر کیا ہم نے وہ اپنا فرض ادا کردیا جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا اور ہمارے کریم آقا نے جس امت کے لیے رو رو کر دعایں کیں کیا ایسے پیارے بنی کے لیئے صرف چراغاں کر لینا اور نماز نہ پڑھنا، سنتیں ادا نہ کرنا انصاف ہے؟۔یقیناًجواب نہیں ہو گا۔
آج ہمارے معاشرے میں بگاڑپیدا ہو گیا ہے ، بے چینی اور سکون سے عاری زندگی گذار رہے ہیں، آے روز کسی نہ کسی آفت مصیبت میں گھرے ہوئے ہیں، اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے حالانکہ اغیار پرُسکون زندگی گذار رہے ہیں ، کیوں کہ ہم نے وہ راستہ چھوڑ دیا جس کا حکم اللہ نے اور اللہ کی نبیﷺ نے ہمیں دیا تھا۔۔اور اللہ تو کسی کی چھوٹی سی نیکی کو بھی ضائع نہیں فرماتے اگر غیرمسلم کوئی نیکی کرتا ہے تو اللہ اس کوبھی اس کا اجر فرماتا ہے کیونکہ غیرمسلم کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اس لیئے اسے اسی دنیا میں عطا کر دیا جاتا ہے اور اہلِ ایمان کا حساب روز محشر ہونا ہیس لیئے ہمیں آخرت میں دیا جاے گا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم اپنے رب کے سامنے جایں گے تو کیا اعمال لے کر جایں گے جس کی وجہ سے جنت کے حقدار ٹھہریں گے وہ یقیناًحضورﷺ کی غلامی اور اطباع ہے اگر ہم اس سے سر گرداں ہوتے ہیں تو اس دنیا میں بھی روسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے ۔ یہ دنیا تو ایسے تیسے کٹ جائے گی مگر ابدی زندگی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور وہ ایسی زندگی ہے جس نے ختم بھی نہیں ہونا اللہ ہمیں اپنے آقاﷺ کی سچی اور پکی غلامی نصیب فرمائے اور روز محشر آپ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے آمین۔از محمد طاہر تبسم درانی
مکمل تحریر >>

Monday 14 December 2015

Ammanat main Khyanat


مکمل تحریر >>

Friday 11 December 2015

دھاندلی خان از۔ محمد طاہر تبسم درانی

25اپریل 1996 ء کو پاکستان کی تاریخ میں ایک نئی سیاسی جماعت نے جنم لیا جس کے بانی پاکستان کرکٹ کے مشہور اور ہر دل عزیز شخصیت عمران خان ہیں جو اپنی پرسونیلیٹی اور کرکٹ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں، جی میری مُراد پاکستان تحریک انصاف ہے اس پارٹی کا مقصد پاکستان سے ماروثی سیاست کا خاتمہ اور ملک میں ایک مثبت تبدیلی لانا تھا، پہلی ایگزیکٹو کمیٹی جون 1996ء میں معرضِ وجود میں آئی، جس کے مبمران میں ، نعیم الحق، احسن رشید، حفیظ خان، محمود اعوان اور نوشیروان جیسے نامور سیاستدان شامل تھے ، 1992ء کے ورلڈ کپ کو جیتنے والے عمران خان نے ملک میں کرپشن بدعنوانی اور ایسے کئی غلیظ کاموں کو رکنے کے لیئے قدم اُٹھایا، وقت کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹی سی جماعت ملک میں ایک                     مضبوط پارٹی بن کر اُبھری، بقول شاعر
             میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
             لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔
پاکستان کے معرض وجود سے لیکر آج تک معصوم لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیئے صرف استعمال کیا گیا کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو کسی نے قرض اتاروملک سنوارو کے نعرے پر عوام کو بیواقوف بنایا۔ ایسے حالات میں دُکھیاری قوم ایک ایسے لیڈر کی تلاش میں تھی جو اُن کی زندگیوں میں تبدیلی لائے ان کے لیئے روزی کے دروازے کھولے، کرپشن کا خاتمہ کرے اور کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی لوگوں نے عمران کے کاندھے سے کاندھا ملایا، لوگوں کو یقین تھا اس بندے میں وہ سب کچھ ہے جس کی تلاش دکھیاری عوام تھی، لوگوں نے عمران خان کے ہر حکم پر لبیک کہا اور جہا ں بلایا لوگوں نے نہ رات دیکھی نہ دن ، نہ دھوپ دیکھی نا چھاوٗں، نہ گرمی نہ سردی، بس اپنے لیڈر کی آواز پر حاضری دی۔
2013ء کے جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف مُلک میں دوسری بڑی اور مضبو ط جماعت بن کر اُبھری، پاکستان پیپلزپارٹی اپنی منفردیت اور بھٹو خاندان کی وجہ سے جو1967ء سے معرض وجود میں آنے والی جمہوری جماعت پاکستان میں کئی بار حکومت بھی بنا چکی ہے اس کو شکست دینا جو یقیناً پاکستان تحریک انصاف کا ایک بہت بڑا معرکہ ہے ، شروع سے لیکر آج تک ملک میں صرف دو بڑی سیاسی جماعتیں ملک میں راج کر رہی تھیں ایسے حالا ت میں پاکستان تحریک انصاف کا دوسرے نمبر پر�آنا ایک بہت بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔
الیکشن سے پہلے تمام جماعتوں نے بڑ ے بڑے دعوے کیے عوام کے لیئے کئی فلاحی منصوبوں کے اعلان کیئے سیاسی نغموں رنگ برنگے قمقمے سے ہر طرف میلے کا سا ساماں ہوتا تھا،الغرض شہروں دیہاتوں ہرجگہ خوشی کا عالم ہوتا تھا ایسے میں پاکستان تحریک انصاف بھلا کیسے پیچھے رہتی اپنے انفرادی گانوں کی وجہ سے ہر جگہ میلا لگا ہوتا ڈھول کی تھاپ پر لُڈی ڈالی جاتی اور سیاسی نغموں پر رقص کیا جاتا۔
کئی بلندو باگ نعرے لگائے گئے مگر عوام کا اعتماد جیتنے میں ناکام رہی جنرل الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ نون کو کامیابی حاصل ہوئی اور پاکستان تحریک انصاف کو خیبر پختوں خواہ میں حکومت ملی اور یوں برسوں کی محنت رنگ لے ہی آئی پاکستان تحریک انصاف کے سپوٹران اور ووٹران میں خوشی کی لہر ڈوڑ گئی اور واقعی یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
عمران خان صاحب کی ٹیم میں کچھ چلے ہوئے کارتوس شامل ہوگئے بظاہر تو پارٹی مضبوط ہوئی لیکن کہتے ہیں لیموں کا ایک قطرہ پورے دودھ کو خراب کرنے کے لیئے کافی ہوتا ہے۔عمران خان صاحب نے اپنی پارٹی میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی شامل کر لیا جو سیاسی طور پر اپنا وقار کھو چکے تھے جس سے لوگوں میں غموں غصہ بھی پایا جانے لگا۔ ایک ایسے وقت میں خان صاحب نے دھرنا دیا جب وہ سیاسی طور پر بہت منظم اور مضبو ط پارٹی کے طور پر اُبھرے ، لگتا یوں تھا کہ اب پاکستان پیپلزپارٹی اور نون لیگ ملک سے ہمیشہ کے لیئے ختم ہو جائے گی۔لیکن ایسا نہ ہوا اور خان صاحب نے دھرنا دے ڈالا ، لوگوں نے اس موقع پر بھی لیبک کہا اور سخت سردی کے موسم میں اسلام آباد ڈی چوک میں اپنے شب وروز گذارے۔ خان صاحب کی ایک بات جو میں نے نوٹ کی وہ پہلے کہتے ہیں پھر غور کرتے ہیں۔ اکثر اوقات جو بات بعد میں کرنے والی ہوتی ہے وقت سے پہلے کر دیتے ہیں جس سے ان کی ساخت کافی نقصان پہنچا، اس کی ایک مثال یوں لے لیں 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول کے بچوں پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے اور ابھی ماؤں کے لخت جگر کو جدا ہوے ایک مہینہ بھی نہیں ہوتا اور خان صاحب شادی کر لیتے ہیں جس وقت لوگوں کے دلوں پر ایک قیامت گذرتی ہے اور اس لمحے خان صاحب اپنی رنگ رلیوں میں مصروف ہوتے ہیں حالانکہ اس وقت ایک لیڈر کو اپنی عوام کے ساتھ دکھ میں شریک ہونا چاہیے تھا ان ماؤں کے آنسؤں کو صاف کرنا چاہیے ، خیبر پختوں خواہ کے لوگو ں نے عمران خان صاحب کو عزت مرتبہ دیا شائد خان صاحب اس کوہضم کرنے میں ناکام نظر آئے جس طرح خان صاحب تبدیلی کا نعرہ لگاتے تھے اُن کو چاہیے تھا کے پی کے کو ایک ماڈل بناتے لوگ انکے منصوبوں سے اتنے خوش ہوتے کہ دوسرے صوبوں سے مشینری اُٹھاتے اور کے پی کے میں لگاتے، لوگ اپنے بزنس وہاں شروع کرتے مگر افسوس خان صاحب جس قدر لوگوں میں مقبول ہوئے شاید آج وہ اتنے نہیں رہے بلدیاتی الیکشن میں ناکامی اور خاص کر اپنے گھر میانوالی اور راولپنڈی سے ہارنا ان کی مقبولیت میں کمی اور لوگوں کی پسندیدگی کم ہونے کی علامت ہے ، خان صا حب کی ذاتی زندگی پر کسی قسم کی بات کرنا میر ے خیا ل میں صحافتی اقدار کے منافی ہوگا کیونکہ ہر بندہ اپنے بارے بہتر سوچتا اور کرتا ہے مگر ایک بات یہا ں کرنا لازمی امر سمجھتا ہوں خان صاحب کو اپنی پارٹی میں ممبران پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ، اپنی پالیسیوں پر غور کرنا ہوگا، اپنے ورکر سے مشاورت کرنی ہوگی ، الیکشن میں ہارنے کی ایک وجہ پلاننگ میں فقدان ہے کسی بھی علاقہ میں اپنا نمائندہ چننے سے پہلے پارٹی سے مشاورت بہت ضروری ہے سابقہ بھابی محترمہ ریحام خان نے ایک بیا ن میں کہا تھا خان صاحب کو کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ، حالانکہ قرآنِ پاک میں فرمان ہے ایک دوسرے سے مشورہ کر لیا کرو، خان صاحب کے پاس اچھا موقع ہے وہ اسمبلی میں اپنے تما م ساتھیوں کے ساتھ جا کر بیٹھیں اور ایک مضبو ط اپوزیشن کا کردار ادا کریں تاکہ جمہوریت بھی ڈی ریل نہ ہو اور حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرے اور عوام کی فلاح کے نت نئے منصوبے بنا کر روشن پاکستان کی ضمانت دے او ر حکومت کوئی بھی غلط کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے ۔ اگر خان صاحب نے اپنی روش نہ بدلی اور ایسے ہی دھندلی کا رونا روتے رہے تو وہ اگلے پانچ سال بعد بھی وزیراعظم نہیں بن سکتے اور ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیرکبھی نہیں ہو سکے گا۔ 
مکمل تحریر >>

Thursday 10 December 2015

اینٹی کرپشن ڈے

کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جو کسی بھی مضبو ط سے مضبوط عمارت کی بنیادوں کو اُکھاڑ کر رکھ دیتا ہے اور جس معاشرے میں اس کی جڑیں جتنی مضبو ط ہوتی جاتی ہیں اس معاشرے میں بگاڑ،بے چینی اضطراب عام ہو جاتا ہے لڑائی جھگڑے قتل و غارت معمول بن جاتاہے ماؤں بہنوں کی عصمتیں تار تار ہوجاتی ہیں بچوں کے مستقبل تاریک ہو جاتے ہیں اور ایک دن ایسی قومیں اپنے نقطء انجام تک پہنچ کر نیست و نا بود ہو جاتی ہیں اور تاریخ کا حصہ بن کر رہ جاتی ہیں اور جو قومیں اس سے سبق حاصل کر لیتی ہیں وہ دنیا پر حکمرانی کرتی نظر آتی ہیں۔ دنیا بھر میں 9دسمبر کو اینٹی کرپشن کا دن منایا جاتا ہے اور اس دن کو ہفتہ بھر کسی بھی دن منایا جا سکتا ہے ۔عام طور پر سمجھا جاتا ہے کرپشن صرف روپے پیسے کو ناجائز طریقے سے حاصل کرنا ہے لیکن اہلِ فکر اہلِ علم و دانش اس کی تعریف یہ نہیں کرتے ، وہ کہتے ہیں جھوٹ بولنا ، کسی کا حق مارنا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے اپنی نوکری کے دوران غیرضروری سرگرمیوں میں مصروف رہنا بھی کرپشن میں آتا ہے ، مختلف سماجی ادارے ، تعلمی ادارے ، نیب(نیشنل اکاونٹبیلٹی بیورو)اس موقع پرسیمنار منعقد کر کے لو گوں میں آگاہی پید ا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں ہم نے اپنا فرض پورا کردیالیکن ایسا نہیں ہم ایک مایئکرو پلیس۔چھوٹی سی جگہ پر بیٹھ کر چند لوگ اکھٹے ہو کر بھاشن دے کر اپنی زمہ داری سے بری زمہ ہو جاتے ہیں بس آخر میں کھایا پیا ایک دوسرے کے الفاظوں کی تعریف کی اور چلتے بنے ایسا کرنے سے کرپشن ہر گز ہرگز ختم نہیں ہونے والی۔
پاکستان فیڈرل یونین آف کالمنسٹ نے تعاون سے آج ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان نے انٹی کرپشن کے حوالے سے ایک سیمنار کا انعکاد کیا جس میں مُلک کے نامور شخصیات نے شرکت کی جس میں جناب سجاد میر، رؤف طاہر اور ڈاکٹر اجمل نیازی نے شرکت کی پروگرام کا آغاز حسب روایت تلاوت کلامِ پاک سے ہوئی تلاوت کا شرف جناب مسعود ثانی نے حاصل کیا، سٹیچ پر پروفیسر رضوان سلیم سندھو صاحب نے اپنی الفاظوں کا خوب جادو جگایا۔ سب سے پہلے مقرر ڈاکٹر نواز ایڈوائزر وی یو نے خطاب کیا انہوں نے کرپشن کو ختم کرنے پر بات کرتے ہوے فرمایا کہ انسان کی تربیت کی کمی کی وجہ سے انسا ن ایسے گھناونے جرم کا مرتکب بنتا ہے انہوں نے کہا انسان کی تربیت کی اصل جگہ ماں کی گود ہے انہوں نے اپنا بچپن کا واقعہ سناتے کہا کہ بچپن میں ابو کی جیب سے کچھ پیسے چرائے ماں نے پوچھا تو بتایا ہم تو ایسا کر ہی نہیں سکتے ، اگلے دن جب محلے کی دکان پر کچھ خرید رہے تھے تب کچھ جوتوں کی بوچھاڑ میں ہم گھر آئے یہ ماں کے جوتے تھے جو اس جھوٹ کی وجہ سے پڑے اگر ماں اس دن چھوڑ دیتی تو آج ہم میں بھی عیب ہوتے ایک اور بہت خوبصورت بات بتائی کہ جنا ب عبدالستار ایدھی صاحب کو بچپن میں دو آنے ملتے تھے ایک ایدھی صاحب کی پاکٹ منی اور ایک کسی ضرورت مند کی مدد کے لیئے یعنی بچپن سے ہی ان کی تربیت میں لوگوں کی مدد کرنا شامل تھا اور آج وہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی مثال ہیں۔
اس کے بعد سجادمیر صاحب نے اپنے انداز میں کرپشن کو ختم کرنے کے گُر بتائے انہوں نے یہاں میڈیا پر بھی زور دیا کہ میڈیا اپنا کردار صحیح معنوں میں ادا نہیں کر رہا وہ ہر خبر کو اس انداز میں پیش نہ کرے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو اس کے بعد رؤف طاہر صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا انہوں نے انتہائی سادگی کے ساتھ اپنے الفاظوں کو لوگوں تک پہنچایا ، انہوں نے اس بات پر زور دیا کرپشن ایک اکیلے بندے کا نام نہیں اس میں ہم سب کو مل کر اس زہرِقاتل سے نجا ت حاصل کرنا ہو گی اور اس میں سب سے زیادہ اہم رول کردار اساتذہ کرام او ر ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان جیسے ادارے ادا کرسکتے ہیں، کیونکہ یہاں نئی نسل کو علم سکھایا جاتا ہے اس کے بعد ڈاکٹر مہدی حسن صا حب نے خطاب کیا نہوں نے کہا کہ آج کل ادارے روبورٹ پیدا کر رہے ہیں ہیں انسان نہیں وہ ایم بی اے یا ڈاکٹر تو بن جاتے ہیں لیکن اندر سے انسان نہیں بناتے ، ادروں پر بھی لازم ہے کہ کروڑ پتی ارب پتی بننے کی بجائے قوم کے معماروں کی صحیح رہنمائی کریں ، کمپیوٹر سائینس نہ پڑھاءں بلکہ انسانیت کا درس دیں مذہب کو جمہوریت سے دُور رکھیں، اور انہوں نے اس بات پر زور دیا آج کے نوجوان کو تاریخ پڑھائی جائے ان کو بتایا جائے پاکستان کتنی محنت اور قربانیوں سے آزاد ہوا، اس آزادی میں اور ہجرت کرنے والوں نے اپنی جانوں کے نذرانے کیسے پیش کیئے تقریبنا پچاس ہزار خواتین کو اغواہ کر لیا گیا تب جا کر ہم اس آزاد ملک کے شہری بنے اگر آج کا نوجوان صرف تاریک ہی پڑھ لے تو آدھی سے زیادہ کرپشن خودبخود ختم ہو جائے گی
اس کے بعد جناب ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے اپنے مخصوص انداز ، مزاح مزاح میں بہت سی ایسی باتیں کیں جن سے کرپشن کو ختم کیا جا سکتا ہے انہوں نے میٹھے اور دھیمے انداز میں نیب کی بھی کلاس لی اور مذاق مذاق میں کہا اب یہ ادارہ انٹی کرپشن نہیں بلکہ ایک آنٹی کرپشن انہوں نے اپنے بچپن کا واقعہ بتاتے ہو ئے اپنے اساتذہ کرام کا بھی ذکر کیا اور کہا ہمارا سکول آسمان کی چھت کے نیچے ہوا کرتا تھا بیٹھنے کی لیئے ڈیسک نہیں بلکہ ٹاٹ بھی نہیں ہوا کرتے تھے ہم زمین پر بیٹھا کرتے تھے ہمارے محترم استاد کے لیئے جو کرُسی ہوا کرتی تھی وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی تھی ، سکول کی عمارتیں کچی جبکہ استاد بڑے پکے ہوا کرتے تھے اُ ن ساتذہ کرام کو اپنے لیے کچھ ملے یا نہ ملے وہ اپنے طالبعلم کی روشن مستقبل کے خواہاں ہو ا کرتے تھے وہ ہر غلطی پر سزا دیتے تھے اور آج ان کی سزا کی وجہ سے ہم معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں اس وقت سے ڈنڈے کھا رہے ہیں اور آج کا نوجوان ڈنڈی مار رہاہے جو اس ڈنڈے سے زیادہ خطرناک ہے ہم اپنے اساتذہ کرام سے کھاتے تھے انہوں نے ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان اور جنات شہزاد چوہدری چئرمین پی ایف یو سی کا بھی شکریہ ادا کیا اور شہزاد چوہدری صاحب کی محنت کو سراہا، اور کہا ایسے سیمنا ر منعقد ہوتے رہنے چاہیے لیکن افوس مجھے نہیں لگتا اس مُلک سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکے کیوں کہ جب تک ہم ایک ایک اپنے آپ کو درست نہیں کر یں گے چہرے بدلنے یا ادارے بنانے سے کو ئی فرق نہیں پڑنے والا اس لیئے ہم سب کو ذاتی طور پر ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے آخر میں صدرِ محفل عزت ماٰب ڈاکٹر نوید اے ملک صاحب نے اپنی مختصر تقریر میں ایک چھوٹی سی بات پر اختتام کیا کہ ہم سب کو پتہ ہے کیا غلط کیا درست ہے بس رات کو سوتے وقت اپنا احتساب کر لیا کریں تو ساری کی ساری کرپشن خود ہی ختم ہو جائی گی۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے تما م مہمانوں آنے والے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور خوب صورت ہائی ٹی سے مہمانوں کی تواضع کی۔
میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں شہزاد چوہدری صاحب ، فرخ شہباز ورایچ صاحب ، جناب بابر صاحب پروگرام منیجر وی ٹی وی اور ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان کے تمام انتظامیہ کا جنہوں نے اس پروگرام کو خوب سے خوب بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
از ۔ محمد طاہر تبسم درانی
مکمل تحریر >>

Sunday 6 December 2015

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=68516
My new Colomns On Hamari Web........Plz visit and comments

ماؤں کے لخت جِگر مرتے رہیں گے اور ہم موم بتی جلاتے رہیں گے

(M Tahir Tabassum , Lahore)

زندگی انسان کو صرف ایک بار ملتی ہے اور جو ملتی ہے سب کو برابر ملتی ہے بس جانے کا وقت مقرر ہے جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں آسکتی اور جو سانسیں باقی ہیں وہ پور ی کئے بنا قبر میں نہیں جا سکتے بس فرق صرف اتنا ہے کوئی اسے راہِ حق پر گذارتا ہے تو کو ئی دنیا داری میں، کوئی اپنی زندگی کو انسانیت کی خدمت میں توکوئی درندگی میں ۔

کسان بنجر زمین میں حل چلا کر زمین کو نرم کرتا ہے پھر اس میں بیج بوتا ہے پھر پانی لگاتا ہے پھر موسم کی سختیوں کو جھیلتا ہے گرم سردی برداشت کرتا ہے پھر جا کر پھل تیا ر ہوتا ہے ان دنوں کسان کی خوشی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتاوہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا ہوتا ہے اسی دوران جب فصل پک چکی ہو پھل تیا ر ہو گیا ہو اور پھر ایک طوفان آجائے اور اس کا ہر ا بھرا لہلاتا گلشن ۔تیار پھل اس طوفان کی نذر ہو جائے تو اس کے دکھ کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے یہ تو ایک کسان ہے جو صرف چند ماہ مشقت کرتا ہے اور وہ اس قدر دکھوں کھو جاتا ہے جیسے اس کی ساری زندگی کی پونجی ختم ہو گئی ہو۔
آج کل اخبار نیوز چینل ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں ، ٹرین پٹڑی سے ڈی ریل ہو گئی کئی لوگ زندگی کی بازی ہار گئے زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے اور اس کے بعد ایک کمیٹی بنا دی جاتی ہے جس میں مرنے والوں کے لواحقین کو لاکھوں کی امداد دی جارہی ہے ۔کبھی ہم آپ سب ستنے پڑھتے دیکھتے ہیں ایک بیس سالہ نوجوان کو تاوان نہ دینے پر مار دیا گیا ہے کبھی ہم نے سوچا اس بے چاری ماں پہ کیا گذرتی ہے جو اپنے بچے کو 9 ماہ اپنے پاس رکھتی ہے پھر جنم دیتی ہے اس کو چلنا سیکھاتی ہے اسے بات کرنے کا ہنر سیکھاتی ہے اسے پال پوس کر بڑاکرتی ہے بیس سال کے بعد یہ فصل پکتی ہے کتنی امیدیں کتنی خواہشیں ہوتی ہیں اس کے دل میں ، میرا بیٹا بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا ، انجینیر بنے گا، پائیلٹ بنے گا، حتٰیکہ اُس کے اپنے بالوں میں چاندی چمکنے لگتی ہے پھر ایک بے رحم گولی اُس ما ں کی ساری خوشیوں کو مار دیتی ہے ، کبھی اندازہ کیا 20سال ہونے میں وہ پل پل اپنے لخت جگر کو بڑا ہوتا دیکھتی ہے وہ اس کسان کی طرح مصیبتیں برداشت کرتی ہے، موسموں کی سختیوں جھیلتی ہے وہ خو د کو پریشان کر لیتی ہے مگر اپنے لخت جگر کو زرہ برابر محسوس نہیں ہونے دیتی ، پھر سفاک درندہ انسان اس ماں کے بیٹے کو چند ٹکوں کی خاطر اپنی حوس کا نشانہ بنا دیتا ہے ،آج میں کوئی کالم نہیں لکھ رہا بس ایسے واقعات سن کر پڑھ کر دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے دل کرتا ہے چیخ چیخ کر روؤں دل کا بوجھ ہلکا کروں ۔اپنے درد کو الفاظوں کے رنگ میں ڈاھلنے کی کوشش ہے اور اُن ماؤں سے اظہار ہمدردی ہے جو اس قُرب اور پریشانی میں ہیں۔
ٹی وی پر ایک ماں کی آواز سنی ، کہتی ہیں میرا جوان بیٹا مارا گیا میں عدالت میں کیس نہیں لڑ سکتی کیونکہ غریب ہوں جوان بیٹیا ں ہیں اور جس نے میرے بیٹے کا قتل کیا وہ طاقتور ہیں ، میں اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر اپنا کیس واپس لیتی ہوں ، کہتے ہیں معاشرہ انسانوں سے مل کر بنتے ہیں اور جس معاشرے میں انصاف نہیں ملتا وہا ں درندگی ہوتی ہے وہا ں جنگل راج ہوتا ہے جہا ں صرف چونٹیوں کو سزا اور ہاتھی گھوڑے آزادی سے گھومتے ہیں، میرے ایک دوست مسجد کے خدام بھی ہیں نماز ادا کرنے کے بعد باہر تشریف لا رہے تھے کہ پولیس نے پکڑ لیا کہ مسجد میں سپیکر کی اجازت نہیں لہذا آپ اور قاری صاحب کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج ہے ، پکڑ کر لے گئے اور مزے کی بات دیکھیں مسجد میں بیٹھ کر اس پولیس والے نے دو اور لوگوں سے کہا آپ اپنے آڈی کا رڈ دیں تا کہ امام صاحب کی ضمانت کرائی جا سکے ، پولیس گردی کا اندازہ اس بات سے لگائیں دوسرے دن ان سب کے خلاف جنہوں نے قاری صاحب کی ضمانت کی خاطر اپنے کارڈ دئیے معزز پولیس نے ان کے خلاف بھی چلان کاٹ دیا .اور معزز جج صاحب کو پیش کر دیا۔ اس سے انکی پھرتیوں کا اندازہ لگایں، ادھر کرنسی سملنگ کیس کی حسینہ کے کیس کا اندازہ لگایں، ادھر کرنسی سملنگ کیس کی حسینہ کا کیس عوام کے سامنے ہے محترمہ کے خلاف چلان تک پیش نہ کیا گیا اور اب معزز عدالت محترمہ کا پاسپورٹ بھی واپس کر رہی ہے ، ابھی دو دن پہلے کا واقع ہے شیخوپورہ میں ایک نوجوان کو پولیس مقابلہ ڈال کر جان سے مار دیا گیا ہے ، اور الزام ہے کہ پولیس نے بیس لاکھ روپے مانگے جو کہ غریب والدین دینے کی سکت نہیں رکھتے تھے اور غربت کی پاداش میں جوان بیٹے کی لاش اُٹھانا پڑی ، اس کی بہن غم سے نڈھال رو رو کر بتا رہی تھی یہ میرے بھائی کا قاتل ہے مگربلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے ۔

قصور واقع تب تک لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا جب تک ٹی وی کی رونق بنا رہا، موم بتی مافیا بھی دکھ کا اظہار کرتا رہا، چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیئے اور اینکر چسکے لے لے کر والدین کی آواز بنا رہا مگر افوس کوئی رزلٹ نہ نکلا، میری قوم کی یاداشت کافی کمزور ہے یہ تو سیالکوٹ میں دو حافظ بھائیوں کا قتل بھی بھول چکی ہوگی،زین کیس، گنگا رام ہسپتال ، چھوٹی معصوم بچی کا ریپ کیس قصور میں بچوں کا ریپ، ایسے کتنے انگنت واقعات ہیں جو عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں ، یا غریبوں کو پیسوں کا لالچ دے کر یا اوپر سے پریشرائیز کروا کر کیس ختم کر دیا جاتا ہے ان باتوں سے میری مراد یہ نہیں کہ معزز عدالتیں کام نہیں کر رہیں ، عدالت ثبوتوں اور گواہوں کے بیا نات پر چلتی ہے ہمار ا نظام ہی ایسا ہے کہ معززعدلیہ کو کیس صحیح بتایا ہی نہیں جاتا گواہوں کو عدالتوں پہنچے ہی نہیں دیا جا تا ، زیادہ حثیت والے لوگ اپے اثر رسوخ کی وجہ سے جلد ضمانت کروا لیتے ہیں اور باہر آکر پھر سے جرم کرتے ہیں اور اس طرح معاشرے میں بی چینی اضطراب پید ا ہوتا ہے ۔ ایسے فرسودہ نظام کو جڑوں سے اُکھاڑ کر پھینکنے کی ضرورت ہے جہاں ماؤں کے لخت جگر مرتے ہوں ، جہا ں انصاف نہ ملتا ہو، جہا ں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جائے ایسے نظام معاشرے صرف تباہ ہوسکتے ہیں، قومیں دفن ہو سکتی ہیں زوال مقدر بن جاتا ہے ۔

اگر ہم سوتے رہے تو وہ دن دور نہیں جیسے آج ایک ماں نے اللہ کی رضا سمجھ کر خاموش ہو گئی کل ہم میں سے کو ئی اور اللہ کی رضا سمجھ کر خاموش ہو جائے گا ہم اپنے پیاروں کی قبروں پر موم بیتاں جلاتے رہیں اور ظالم لوگ ہمارے گھروں کو قبرستان بناتے رہیں گے ۔
بقول شاعر ۔
حاکم شہر کی بند گلی کے پیچھے
آج پھر اک شخص کو خوں اگلتے دیکھا
تم سمجھتے ہو کہ ہوتے ہیں درندے ظالم
ہم نے انسان کو انسان نگلتے دیکھا
مکمل تحریر >>