Friday 11 December 2015

دھاندلی خان از۔ محمد طاہر تبسم درانی

25اپریل 1996 ء کو پاکستان کی تاریخ میں ایک نئی سیاسی جماعت نے جنم لیا جس کے بانی پاکستان کرکٹ کے مشہور اور ہر دل عزیز شخصیت عمران خان ہیں جو اپنی پرسونیلیٹی اور کرکٹ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں، جی میری مُراد پاکستان تحریک انصاف ہے اس پارٹی کا مقصد پاکستان سے ماروثی سیاست کا خاتمہ اور ملک میں ایک مثبت تبدیلی لانا تھا، پہلی ایگزیکٹو کمیٹی جون 1996ء میں معرضِ وجود میں آئی، جس کے مبمران میں ، نعیم الحق، احسن رشید، حفیظ خان، محمود اعوان اور نوشیروان جیسے نامور سیاستدان شامل تھے ، 1992ء کے ورلڈ کپ کو جیتنے والے عمران خان نے ملک میں کرپشن بدعنوانی اور ایسے کئی غلیظ کاموں کو رکنے کے لیئے قدم اُٹھایا، وقت کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹی سی جماعت ملک میں ایک                     مضبوط پارٹی بن کر اُبھری، بقول شاعر
             میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
             لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔
پاکستان کے معرض وجود سے لیکر آج تک معصوم لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیئے صرف استعمال کیا گیا کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو کسی نے قرض اتاروملک سنوارو کے نعرے پر عوام کو بیواقوف بنایا۔ ایسے حالات میں دُکھیاری قوم ایک ایسے لیڈر کی تلاش میں تھی جو اُن کی زندگیوں میں تبدیلی لائے ان کے لیئے روزی کے دروازے کھولے، کرپشن کا خاتمہ کرے اور کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی لوگوں نے عمران کے کاندھے سے کاندھا ملایا، لوگوں کو یقین تھا اس بندے میں وہ سب کچھ ہے جس کی تلاش دکھیاری عوام تھی، لوگوں نے عمران خان کے ہر حکم پر لبیک کہا اور جہا ں بلایا لوگوں نے نہ رات دیکھی نہ دن ، نہ دھوپ دیکھی نا چھاوٗں، نہ گرمی نہ سردی، بس اپنے لیڈر کی آواز پر حاضری دی۔
2013ء کے جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف مُلک میں دوسری بڑی اور مضبو ط جماعت بن کر اُبھری، پاکستان پیپلزپارٹی اپنی منفردیت اور بھٹو خاندان کی وجہ سے جو1967ء سے معرض وجود میں آنے والی جمہوری جماعت پاکستان میں کئی بار حکومت بھی بنا چکی ہے اس کو شکست دینا جو یقیناً پاکستان تحریک انصاف کا ایک بہت بڑا معرکہ ہے ، شروع سے لیکر آج تک ملک میں صرف دو بڑی سیاسی جماعتیں ملک میں راج کر رہی تھیں ایسے حالا ت میں پاکستان تحریک انصاف کا دوسرے نمبر پر�آنا ایک بہت بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔
الیکشن سے پہلے تمام جماعتوں نے بڑ ے بڑے دعوے کیے عوام کے لیئے کئی فلاحی منصوبوں کے اعلان کیئے سیاسی نغموں رنگ برنگے قمقمے سے ہر طرف میلے کا سا ساماں ہوتا تھا،الغرض شہروں دیہاتوں ہرجگہ خوشی کا عالم ہوتا تھا ایسے میں پاکستان تحریک انصاف بھلا کیسے پیچھے رہتی اپنے انفرادی گانوں کی وجہ سے ہر جگہ میلا لگا ہوتا ڈھول کی تھاپ پر لُڈی ڈالی جاتی اور سیاسی نغموں پر رقص کیا جاتا۔
کئی بلندو باگ نعرے لگائے گئے مگر عوام کا اعتماد جیتنے میں ناکام رہی جنرل الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ نون کو کامیابی حاصل ہوئی اور پاکستان تحریک انصاف کو خیبر پختوں خواہ میں حکومت ملی اور یوں برسوں کی محنت رنگ لے ہی آئی پاکستان تحریک انصاف کے سپوٹران اور ووٹران میں خوشی کی لہر ڈوڑ گئی اور واقعی یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
عمران خان صاحب کی ٹیم میں کچھ چلے ہوئے کارتوس شامل ہوگئے بظاہر تو پارٹی مضبوط ہوئی لیکن کہتے ہیں لیموں کا ایک قطرہ پورے دودھ کو خراب کرنے کے لیئے کافی ہوتا ہے۔عمران خان صاحب نے اپنی پارٹی میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی شامل کر لیا جو سیاسی طور پر اپنا وقار کھو چکے تھے جس سے لوگوں میں غموں غصہ بھی پایا جانے لگا۔ ایک ایسے وقت میں خان صاحب نے دھرنا دیا جب وہ سیاسی طور پر بہت منظم اور مضبو ط پارٹی کے طور پر اُبھرے ، لگتا یوں تھا کہ اب پاکستان پیپلزپارٹی اور نون لیگ ملک سے ہمیشہ کے لیئے ختم ہو جائے گی۔لیکن ایسا نہ ہوا اور خان صاحب نے دھرنا دے ڈالا ، لوگوں نے اس موقع پر بھی لیبک کہا اور سخت سردی کے موسم میں اسلام آباد ڈی چوک میں اپنے شب وروز گذارے۔ خان صاحب کی ایک بات جو میں نے نوٹ کی وہ پہلے کہتے ہیں پھر غور کرتے ہیں۔ اکثر اوقات جو بات بعد میں کرنے والی ہوتی ہے وقت سے پہلے کر دیتے ہیں جس سے ان کی ساخت کافی نقصان پہنچا، اس کی ایک مثال یوں لے لیں 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول کے بچوں پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے اور ابھی ماؤں کے لخت جگر کو جدا ہوے ایک مہینہ بھی نہیں ہوتا اور خان صاحب شادی کر لیتے ہیں جس وقت لوگوں کے دلوں پر ایک قیامت گذرتی ہے اور اس لمحے خان صاحب اپنی رنگ رلیوں میں مصروف ہوتے ہیں حالانکہ اس وقت ایک لیڈر کو اپنی عوام کے ساتھ دکھ میں شریک ہونا چاہیے تھا ان ماؤں کے آنسؤں کو صاف کرنا چاہیے ، خیبر پختوں خواہ کے لوگو ں نے عمران خان صاحب کو عزت مرتبہ دیا شائد خان صاحب اس کوہضم کرنے میں ناکام نظر آئے جس طرح خان صاحب تبدیلی کا نعرہ لگاتے تھے اُن کو چاہیے تھا کے پی کے کو ایک ماڈل بناتے لوگ انکے منصوبوں سے اتنے خوش ہوتے کہ دوسرے صوبوں سے مشینری اُٹھاتے اور کے پی کے میں لگاتے، لوگ اپنے بزنس وہاں شروع کرتے مگر افسوس خان صاحب جس قدر لوگوں میں مقبول ہوئے شاید آج وہ اتنے نہیں رہے بلدیاتی الیکشن میں ناکامی اور خاص کر اپنے گھر میانوالی اور راولپنڈی سے ہارنا ان کی مقبولیت میں کمی اور لوگوں کی پسندیدگی کم ہونے کی علامت ہے ، خان صا حب کی ذاتی زندگی پر کسی قسم کی بات کرنا میر ے خیا ل میں صحافتی اقدار کے منافی ہوگا کیونکہ ہر بندہ اپنے بارے بہتر سوچتا اور کرتا ہے مگر ایک بات یہا ں کرنا لازمی امر سمجھتا ہوں خان صاحب کو اپنی پارٹی میں ممبران پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ، اپنی پالیسیوں پر غور کرنا ہوگا، اپنے ورکر سے مشاورت کرنی ہوگی ، الیکشن میں ہارنے کی ایک وجہ پلاننگ میں فقدان ہے کسی بھی علاقہ میں اپنا نمائندہ چننے سے پہلے پارٹی سے مشاورت بہت ضروری ہے سابقہ بھابی محترمہ ریحام خان نے ایک بیا ن میں کہا تھا خان صاحب کو کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ، حالانکہ قرآنِ پاک میں فرمان ہے ایک دوسرے سے مشورہ کر لیا کرو، خان صاحب کے پاس اچھا موقع ہے وہ اسمبلی میں اپنے تما م ساتھیوں کے ساتھ جا کر بیٹھیں اور ایک مضبو ط اپوزیشن کا کردار ادا کریں تاکہ جمہوریت بھی ڈی ریل نہ ہو اور حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرے اور عوام کی فلاح کے نت نئے منصوبے بنا کر روشن پاکستان کی ضمانت دے او ر حکومت کوئی بھی غلط کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے ۔ اگر خان صاحب نے اپنی روش نہ بدلی اور ایسے ہی دھندلی کا رونا روتے رہے تو وہ اگلے پانچ سال بعد بھی وزیراعظم نہیں بن سکتے اور ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیرکبھی نہیں ہو سکے گا۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔