Wednesday 26 October 2016

Friday 14 October 2016

مولا جٹ by M Tahir Tabassum Durrani


مولا جٹ ۔(ایک تاریخ ایک کہانی)


14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی ریاست ، اسلامی ری پبلک آف پاکستان کا ظہور ہوا شروع سے ہی اپنی الگ تھلگ پہچان اور حثیت کا مالک ہے۔پاکستان ایک ذرعی ملک ہے اور یہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں۔ ملک پاکستان آزا دی سے لیکر آج تک کسی نہ کسی وجہ سے دشمن کی سازشوں کا شکا ر رہا ہے ، شروع میں تقسیم کے وقت باونڈری وال میں بے ایمانی کی گئی پھر اثاثہ جات کی تقسیم میں بھی ہیرا پھیری کی گئی مگر ان تمام وجوہات کے باوجود پاکستان نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، جنگی حالات ہوں یا خوشی کے مواقع ، کرکٹ کا میدان ہو یا کبڈی اکھاڑا کسی بھی میدان میں پاکستان پیچھے نہیں ہے ۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کبھی کمی نہیں رہی جہاں کھیل کے میدان میں، مدثر نذر ، عظیم حفیظ،ظہیر عباس، جاوید میانداد ، شیر خان ، شاہد خان آفریدی اور ڈاکٹر عبدالقدیر پید ا کیئے وہیں جنگی حالات میں کپٹن سرور شہید، عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس اور ایم ایم عالم جیسے جوان پیدا کیئے ۔ غرض زندگی کے ہر میدان/شعبے میں پاکستان کسی بھی ملک سے کم نہیں، اسی طرح پاکستان کی فلم انڈسٹری نے بہت زیادہ ٹیلنٹ متعارف کرایا، پاکستان کی فلموں کو کاپی کر کے ہمسایہ ملک نے خوب نام کمایا۔
70 ستر کی دہائی میں پاکستان میں پنجابی فلموں کے ساتھ ساتھ اردو فلموں نے بھی بہت زیادہ بزنس کیااور باکس آفس میں بہت زیادہ کامیاب رہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان فلم انڈسٹری پستی کے طرف جارہی تھی ایسے حالات میں پاکستان فلم انڈسٹری کی ڈوبتی نہیا کو بچا نے کی اشد ضرورت تھی انہیں دنوں احمد ندیم قاسمی کی فلم" گنڈاسہ "کو بہت پذیر ائی ملی 1979ء میں ہدیتکار یونس ملک نے فلم بنانے کا ارادہ کیا اور اس وقت کے بہترین اور مشہور مصنف/ لکھاری ناصر ادیب سے ملے اور فلم لکھنے کو کہا، ہدیتکار یونس ملک کے وحم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اُن کی فلم "مولا جٹ "اس قدر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھ دے گی۔اگر یہ کہا جائے جب فلم انڈسٹری مالی طور پر خسارے میں جارہی تھی تب مولا جٹ نے نہ صرف ایک اچھی فلم تھی بلکہ اس فلم نے صنعت کو زندہ رکھنے میں مدد گار ثابت ہوئی۔
فلم" مولا جٹ "بغیر کسی وقفے کے لاہور ایک سینما گھر میں 130 ہفتے تک چلتے رہنے اور ہاؤس فل کا ریکارڈ قائم کیا اور اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھتی رہی اس سے پہلے مقامی فلم انڈسٹری زوال پذیر تھی اور مسلسل خسارے میں جارہی تھی ، فلم نے ناراض فلم بینوں کو دوبارہ سینما گھروں میں آنے پر مجبور کر دیا ۔
اس فلم میں مرکرزی کردار محمد سلطان خان عرف سلطان راہی نے نبھایا اور منفی کردار جو کسی بھی فلم میں کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے" نوری نت "کا کردار مصطفے قریشی نے ادا کیا. 11 فروری 1979ء کو یہ شہکار فلم ریلیز ہوئی تو باکس آفس میں دھوم مچا دی ، اس فلم کے پروڈیوسر سروربھٹی جب کہ اس فلم کی کہانی ناصر ادیب صاحب نے لکھی، اس فلم کے ڈائیلاگ لوگوں میں بہت مشہور ہوئے اور سلطان راہی کا یہ ڈائیلا گ ہر زبان پر عام تھا۔"مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا"
دیگر کاسٹ میں اداکارہ آسیہ نے بطور مکھو جٹی جو کہ مولا جٹ کی منگیتر ہے کا کردار خوب نبھایا اور آسیہ کے ڈائیلاگ کو بھی لوگوں نے خوب سراہا، "جٹی تے آپ بڑی کھر دماغ اے" کاسٹ میں چکوری نے "دارو " جو کہ نوری نت کی بہن ہے اپنے کردار کو خوب ادا کیا۔ اس فلم کی سب سے بڑی خصوصیت اس کے پر کشش ڈائیلاگز تھے جو فلم بینوں کو بہت پسند تھے مصطفے قریشی یعنی نوری نت ایک اکھڑ بگڑا ہوا اور ضدی انسان ہے اور ان کا ڈائیلاگ " نواں �آیا ایں سوہنیا"بہت مشہور ہوا۔
اس فلم میں آوازوں کا جادو جگانے والوں میں ملکہ ترنم نورجہاں ، عنایت حسین بھٹی ، مہناز ، عالم لوہا ر اور شوکت علی شامل تھے ۔ اس فلم میں پنجاب کے کلچر کو پراون چڑھایا گیا، فلم میں کیفی نے بالا گاڈی کا کردار ادا کیا اس فلم کا شمار اپنے زمانے کی کامیاب ترین فلموں میں کیا جاتا ہے ۔
اس فلم کو کچھ عرصہ کے لیئے بند کردیا گیا تھا اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس فلم میں مار کٹائی ، لڑائی جھگڑا، اور تشدد زیادہ دکھایا گیا ہے جس کے وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے لیکن بعد میں اس پابندی کو ختم کر دیا گیا اور دوبارہ سینما گھروں میں نمائیش کی اجازت دے دی گئی ۔ اس فلم کے گانوں کی دھن ماسٹر عنائت حسین بھٹی نے ترتیب دی ، فلم کے مشہور گانوں میں "نشے دئیے بوتل نا اینی ات چُک نی ، میری اکو ڈیک وچ جاویں گی توں مُک نی" جسے خود عنائت حسین بھٹی نے گایا تھا۔
فلم بین آج بھی اس فلم کو پسند کرتے ہیں لیکن بہت سے ایسے ستارے ہیں جو اس فلم میں جگمگاتے رہے مگر آج ہم میں موجود نہیں لیکن مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ، اس فلم کے بعد انڈسٹری کو کافی سہارا ملا اورانڈسٹری ایک بار اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔ پھر ایک بار انڈسٹری میں زوال آگیا ایک ہر طرز کی فلمیں اور ولگر گانوں نے فلم بینوں کو سینماگھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ آج بھی عنائت حسین بھٹی اور ناصر ادیب جیسے لوگوں کی انڈسٹری کو ضرورت ہے تا کہ انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے ۔ فلم پروڈیوسر ز کو چاہیے کہ وہ ولگر زبان اور گانوں سے پرہیزکر یں اچھی و معیاری فلمیں بنا ئیں تا کہ فلم فیملی کے سا تھ دیکھی جا سکے ، حکومت وقت کو چاہیے کہ اس انڈسٹر ی کے لیئے باقاعدہ طور پر ایک منسٹری کی بنیاد رکھے اور سالانہ بجٹ میں اس کا حصہ دیا جائے تاکہ انڈسٹر ی اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے 
از قلم ۔ محمد طاہر تبسم درانی

wordreel.blogs.spot.com
0310 - 10 72 360
tahirdurrani76@gmail.com
مکمل تحریر >>