Tuesday 27 September 2016

Karay Dar or Malik Makan .............by M Tahir Tabassum Durrani.


مکمل تحریر >>

Noor Jhan ........................by M Tahir Tabassum Durrani


مکمل تحریر >>

Monday 26 September 2016

کرائے دار اور مالک مکان by M Tahir Tabassum Durrani


کرائے دار اور مالک مکان
از قلم ۔ محمد طاہر تبسم درانی
tahirdurrani76@gmail.com 
wordreel.blogspot.com
0310 10 72 360
بقول شاعر:۔
چپ رہوں تو ہر نفس ڈستہ ہے ناگن کی طرح
آہ بھر نے میں ہے رسوائی کسے آواز دوں
انسان کو اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقا ت پر فضیلت عطا فرمائی اور اشرف المخلوقات کے رتبے سے نوازا۔ خاندانوں میں تقسیم کیا تا کہ ایک دوسرے کی پہچان ہو سکے، انسان کے لیئے زمین کا فرش بچھایا تا کہ انسان اس پر کھیتی باڑی کر ے اور اپنے لیئے خوراک کا انتظام کرے، اپنے نظام زندگی کو بہتر طریقوں سے چلا سکے ۔مختلف ادوار میں انسان نے خوب ترقی کی ، پہاڑوں ، جنگلوں میں رہ کر انسان نے اپنے زندگی کی شروعات کی اور وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے بہت ترقی کی ، مہینوں کی مسافت گھنٹوں میں ، ہزاروں میل دور بیٹھے شخص کے ساتھ براہِ راست بمہ متعلقہ بندے کی تصویر بات کرنے کا ہنر تو سیکھا ، ہزاورں میل ہوا میں اُڑنے کا فن تو نے سیکھا۔مگر جہاں اتنی ترقی کی وہیں کچھ انسانی اقدار اس تیزرفتاری میں بھول گیا۔آج ہم ہزاورں میل دو ر انسان کے قریب تو آ گئے مگر اپنے پڑوس میں اپنے بھائی کو بھول گئے۔ 
کچھ دوستوں کے ساتھ گفتگو ہو رہی تھی جسے سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے :۔
سنانا چاہتا ہوں حال دل جس ایک جملے میں
بکھر جاتا ہے وہ جملہ کبھی یک جاں نہیں ہوتا
ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے افراد ہیں جن کا تعلق متوست گھرانے سے ہے جو شب و روز محنت کرتے ہیں اور خواب دیکھتے ان میں سے اکثر کی زندگیا ں یوں ہی گزجاتی ہیں مگر وہ اپناایک چھوٹا سا گھر نہیں بنا سکتے ، اور اتفاق سے( اہل علم سے بڑی معذرت کے ساتھ ) ہمارے معاشرے میں ان کو کمتر سمجھا جاتا ہے اس کی کئی مثالیں اس کالم میں دوں گا ، ایک بار مجھے رمضان المبارک میں 27 رمضان جب تمام مسلمان بھائی شب قدر کی فضیلت اور شب بیداری کا شرف حاصل کرنے مسجد جاتے ہیں ، جب تمام علماء کرام اپنے اپنے انداز میں لمبی لمبی انسانی حقوق پر تقریریں سناکر واہ واہ لیتے ہیں اور صاحب استطاعت خوب پیسا پھینک رہے ہوتے ہیں اور لوگوں میں بلے بلے ہو رہی ہوتی ہے اور تقریر کے آخر میں ایک عجیب سا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے ، کہا جاتا ہے فلاں صاحب فلاں محکمے میں بہت بڑے آفیسر ہیں وہ آگے تشریف لائیں، فلاں صاحب تو بہت امیر آدمی ہیں وہ بھی آگے تشریف لائیں، اور جو بند ہ جو پورا ماہ تراویح ادا کرنے کے بعد وہاں بیٹھا ہوتا ہے اسے کہا جاتا ہے آپ پیچھے تشریف لے جائیں حاجی صاحب کو آگے آنے دیں۔ میں بھی وہیں بیٹھا تھا سلسلہ شروع ہوا پھولوں کی مالا دالنے کا، مسجد انتظامیہ میں سے ایک شخص نے ہا تھ میں پھولوں کی مالا پکڑی اور باری باری بڑے بڑے با اثر لوگوں کے گلے میں ڈالنا شروع کی ایک ہی قطار میں سب کے گلے میں ڈالی مگر ایک آدمی کو چھوڑ دیا ، میں نے عرض کی جناب ا ن صاحب کو بھی پہنا دیں یہ سارا مہینہ نماز تراویح باقاعدہ باجماعت ادا کرتے رہے ہیں ان کے گلے میں بھی ہار پہنا دیں تو انتظامیہ سرکار بولے کہ یہ کرائے دار ہے۔
بقول شاعر:۔
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیئے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
ایسی کئی مثالیں ہیں جو انسانیت کی تذلیل میں پیش پیش ہیں ، کسی محلے میں اگر چوری ہو جائے تو سب سے پہلے کرائے دار کو ذلت کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، کرائے دار گھر سے اگر پانی باہر آ جائے تو پور ا محلہ نصیحت و وعض کر نا شروع کردیتا ہے جیسے وہ انسان نہیں اچھوت کی بیماری ہو، قربانی جسے ہر مسلمان بڑے جوش و خروش سے مناتا ہے اور پاکستان میں توسنت ابراہیمی کو بھی ایک تقریب کے طور پر منایا جاتا ہے لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ سیلفیاں بنا تے ہیں اور خوب اترا اترا کر لوگوں کو بتاتے ہیں ایسے ہی ایک صاحب نے بڑے بیل کی قربانی دی اور جانور لا کر کر ائے دار کے گھر کھڑا کر دیا ، کرائے دار نے درخواست کی جناب میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں آپ مہربانی فرما کر اس جانور کو اپنے گھر کھڑا کر لیں تو جناب مالک نے فرمایا یہ گھر میر ا ہے اگر تو نے ادھر رہنا ہے تو ایسے ہی رہ جیسے میر ی مرضی ورنہ 2 دن کے اندر مکان خالی کرو اور چلتے بنو بے چارہ کرائے درا جو ٹھہرا گذارا کرنا پڑا۔
اور ویسے بھی جب سے ہمارے معاشرے میں مغربی تہذیب کی لعنت مسلط ہوئی ہے اس وقت سے اس نے ہمارے اسلامی معاشرے کا ملیا میٹ کر ڈالا ہے ہم اسلامی تہواروں کو بھی تقریبات کی صورت میں مناتے ہیں۔ایک صاحب بتا رہے تھے وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں 3 مرلہ کے گھر میں رہائش پذیر ہیں 3 بچے ہیں بیوی کو شوگر کی مرض لا حق ہے اور خود صاحب دل کے عارضہ میں مبتلا ہیں اور اتفاق سے کرائے دار ہیں، صاحب کی تنخواہ تقریبا 30000 (تیس ہزار روپے ) ہے ، ایک بیٹے کا داخلہ کالج میں ہوا جس سے وہ بہت خوش تھے کہ ان کے بیٹے کو اچھے کالج میں داخلہ مل گیا لیکن غریب انسان کو خوشیاں کم وقت کے لیئے ملتی ہیں ، مالک مکان کے بیٹے کی شادی ہے اور وہ فرما رہے ہیں اس سال کرایہ میں زیادہ بڑھاؤں گا ، اگر آپ نے رہنا ہے تومطلوبہ کرایہ ادا کریں ورنہ اپنا بوریا بستر گول کریں ،3 مرلہ کے گھر کے 15000(پندرہ ہزار روپے )۔ کرائے دار نے عرض کی جناب یہ تو میری بساط میں نہیں، تو انہوں نے گذرے 10 سالوں کا مان بھی نہ رکھا اور کہا اور جلد از جلد میرا مکان خالی کر دیں میں نے کو ئی یتم خانہ نہیں کھول رکھا ۔ اس مہنگائی کے دور میں جہاں اپنی دال روٹی بڑی مشکل سے چل رہی ہو بچوں کی اتنی زیادہ زیادہ فیسیں ادا کرنا ، پھر اتنازیادہ کرایہ ادا کرنا بہت مشکل عمل ہے ۔ اور ایسے حالات میں مالک مکان کی باتیں سننا اور سہنا مشکل کام ہے اس لیئے میری معاشرے میں کوئی عزت قدر نہیں کیونکہ میں کرائے دار ہوں۔
ہم بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں انسانیت کی باتیں کرتے ہیں، دہشت گردی کی روک تھام میں اپنا کردرار ادا کررہے ہیں ، لیکن اس سے بڑی دہشت گردی انسانی حقوق کی پامالی ہے اگر کوئی مالی طور پر کمزور ہے تو اس کی دادرسی کرنی چاہیے نا کہ اسے اس کی غربت کی سزا ۔کیا حکومت وقت نے کوئی ایسی قانوں سازی کی جس سے متوسط طبقے کو بھی فائد ہ پہنچے ، کیا کوئی ایسا قانون بنا یا جو ان درندہ صفت مالک مکان کو نکیل ڈال سکے۔ حکومت وقت سے درخواست ہے کہ ایسے اقدامات اور قانوں سازی کی جائے جومالک مکان اور کرائے دار دونوں کے لیئے فائدہ مند ہو ، جس سے ایک منظم معاشرے کی تشکیل ہو اور لوگ عزت سے اپنی زندگی کو بسر کر سکیں
مکمل تحریر >>

Wednesday 21 September 2016

سرُوں کی ملکہ، ملکہ ترنم نور جہاں by M Tahir Tabassum Durrani


سرُوں کی ملکہ، ملکہ ترنم نور جہاں 
1926 to 2000
از قلم ۔ محمد طاہر تبسم درانی
tahirdurrani76@gmail.com
wordreel.blogspot.com
0310 10 72 360
َِِِِشیکسپیئرکہتا تھاکچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں تو کچھ لوگ اپنی جدو جہد اور کارناموں کی وجہ سے وہ مقا م حاصل کر لیتے ہیں،انسان کبھی کبھی ایسے الفاظ بو ل جاتا ہے جو اس کی پہچان بن جاتے ہیں جیسے ملکہ ترنم نور جہاں نے گا نا گایاتھا جس کے بول ان کی پہچان بن گئے اور لوگوں کے دلوں میں نقش چھوڑ گئے،(گائے گی دنیا گیت میرے) ’ ’ اللہ وسائی‘ ‘ 21 ستمبر1926ء قصور میں’’ کوٹ مراد خاں‘‘ میں پیداہوئی نورجہاں کے والد کا نام مدد علی ، ماں کا نام فتح بی بی، اللہ وسائی کے بارے کوئی نہیں جانتا تھا کہ بڑی ہو کر نہ صرف اپنا بلکہ ملک وقو م کانام روشن کرے گی۔
اللہ وسائی نے کم عمری یعنی تقریبا 6 سال کی عمر میں اپنے گائیکی کے سفر کا آغاز کیا جب کلکتہ کے ایک سٹیج پر ڈائیریکٹر دیوان سری لال نے ان کو بے بی نورجہاں کے نام سے متعارف کرایا، نورجہاں کے لیئے یہ بات اور زیادہ خوش آئین تھی کہ جس خاندان میں انہوں نے آنکھ کھولی وہ خاندان پہلے سے ہی موسیقی سے وابستہ تھا ان کا اوڑھنا، بچھونا غرض کھانا پینا ہی موسیقی تھا، اللہ وسائی نے اپنے فن کا آغاز سٹیج پر فارمنس سے کیا یہاں انہیں خوب پذیرآئی ملی اور یوں اللہ وسائی نے بے بی نورجہاں تک کا سفر مکمل کیا۔نور جہاں نے اپنا فلمی سفر 1935ء میں کے ڈی مہرہ کی پنجابی فلم (پنڈ دی کڑی )سے کیا، میڈم نورجہاں کو جہاں بچپن سے گائیکی کا شوق تھا وہیں انہیں ایکٹنگ کا بھی جنون تھا، خاندانی طورطریقہ بھی کچھ ایسا تھا کہ انہیں روزانہ کچھ نیا کرنے کے لیئے تربیت گھر سے ہی مل جاتی تھی۔
پنجابی فلم پنڈ دی کڑی میں نورجہاں نے اپنی آواز کا بھی جادو جگایا اور ایک گانا بھی ریکارڈ کروایا، کہ گانا پہلا گانا تھا جو انہوں نے کسی فلم کے لیئے گایا تھا، گانے کے بول تھے ، ’ ’ لنگ آجا پتن چنان دا یا ر‘‘ اس کے بعد نورجہاں کو یکے بعد دیگرے فلموں میں کام ملتا گیا، دو سال بعد میڈم نورجہاں نے ایک اور فلم میں کام کیا جس کا نام تھا ’’ کل بکولی‘‘ اس فلم نے باکس آفس میں دھوم مچا دی اور خوب شہرت حاصل کی اور نور جہاں کو بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد یملہ جٹ میں کام کیا اس فلم میں بھی ملکہ نے خوب جم کر کام کیا اور خوب شہرت حاصل کی اگلے سال فلم ’’ چوہدری ‘‘ میں نو ر جہاں نے اپنےُ سروں کا جادو بھی جگایا اور میڈم کے گانوں نے دھوم مچا دی لوگوں میں میڈم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، اب اللہ وسائی ، میڈم نورجہاں کے نام سے جانی جاتی تھیں اس کے بعد نورجہاں نے اردو فلم میں بطور ہیروئن کام کیا اس فلم کے ڈائیریکڑشوکت رضوری تھے جن کو ایک فلم ساز دل سکھ پنچولی نے کام کرنے پر آمادہ کیا تھا، اس فلم کا نام ’’ خاندان ‘‘ تھا اور سب سے مزے کی بات اس وقت بے بی کی عمر صرف 15 سال تھی، اس فلم کی شہرت نے ان کے نام سے بے بی کا لفظ ہٹا کر میڈم نور جہاں بنا دیا۔اس فلم کی کامیابی کے بعد شوکت رضوی اور نور جہاں لاہور سے بمبئی چلے گئے اور وہاں جا کر شادی کر لی یوں بھی کہا جا سکتا ہے نورجہاں نے بہت کم عمری میں شادی کر لی۔
1942ء سے 1946ء کے دوران بہت سی کامیاب فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں میڈم نورجہاں نے کام کیا اور کامیابی کی منزلیں طے کیں۔ ان فلموں میں کچھ نام یہ ہیں’’ نوکر، دوستی ، نادان، لال حویلی، بھائی جان، گاؤں کی گوری، زینت، دل اور ہمجولی جیسے کامیاب فلموں میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا، زینت بطور خاص بہت زیادہ کامیاب ہوئی جس کی قوالی ’’ آہاں نہ بھریاں ، شکوے نہ کیئے‘‘ لوگوں کی دلوں پر نقش چھور گئی جس کو لوگ آج بھی یا د کرتے ہیں۔ 
قیامِ پاکستان کے بعد شوکت رضوی اور ملکہ نورجہاں پاکستان آگئے ، اور یہاں انہوں نے ایک فلم ’’ چن وے ‘‘ بنائی اس فلم کو باکس آفس میں بہت کامیابی ملی، اس کے بعد فلم ’’دوپٹہ ‘‘ کے گانے بے حد مقبول ہوئے اور خاص کر’’ چاندنی راتیں‘‘ نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے جہاں میڈم نور جہاں بہت خوش تھیں وہیں انہیں اپنی ذاتی زندگی میں ایک دکھ بھی برداشت کرنا پڑا انہیں دنوں شوکت رضوی نے ان کو اپنی زندگی سے الگ کرتے ہوئے طلاق دے دی۔ ان سے ان کی 4 بیٹیا ں اور 2 بیٹے ہیں۔ اس کے بعد 1959ء میں نورجہاں نے اعجاز سے شادی کر لی ان سے ان کے 3 بچے ہوئے۔
1965ء کی جنگ کے دوران میڈم ایک مجاہدہ کی حثیت سے سامنے آئیں، انہوں نے ثقافتی محاز پر جو خدمات سر انجام دیں و ہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی فنکارہ کے حصے میں نہیں آئیں ، جنگ کے دوراں انہوں نے تینوں افواج پاکستان کو خراج تحسن پیش کیا، انہوں نے 17 دن کی جنگ میں 17 نغمے پیش کیئے، ان نغمات کی دھنیں سینئر پروڈیوسر اعظم خان اور ملکہ ترنم نورجہاں نے مل کر مرتب کیں اور سینئر موسیکار سلیم اقبال سے بھی مشاورت کی جاتی تھی۔
1969ء میں آخرفلم جس کا نام ’’ مرزا غالب‘‘ نورجہاں کا بطور اداکارہ آخر ی سفر تھا اس کے بعد نور جہاں نے اداکاری کو خیرباد کہ دیا اور صرف موسیقی سے منسلک رہنے کا فیصلہ کیا اور ان کایہ فیصلہ انکی زندگی میں بہت ہی کامیاب رہا اور یوں موسیقی کی دنیا کی کوئل بن گئیں اور ان کے نام کے ساتھ ملکہ ترنم کا اضافہ ہو گیا۔ ملکہ ترنم نور جہاں نے بہت سے مشہور شاعروں کے گیت گائے ان میں فیص احمد فیص صاحب کی شہرہ آفاق غزل ’’ مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔ 
1971ء کا سال ملک پاکستان اور ملکہ ترنم نور جہاں دونوں کے لیئے بھاری ثابت ہوا، وطن عزیز کا ایک حصہ الگ ہوا جسے مشرقی پاکستان کہتے ہیں اور اسی سال نورجہاں کی اپنے شوہر اعجاز سے علحدگی طلاق کی صورت میں ہوئی ۔ میڈم نور جہاں کو حکومت پاکستان کی طرف سے بہتریں کارکردگی اور 1965ء کی جنگ میں مسلح افواج کے لیے نغمے پیش کرنے اور خیراج تحسین پیش کرنے کے عوض پرایڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازہ گیا۔
1980ء سے 1990ء کی دہائی میں میڈم نور جہاں کے گانوں کو ہر فلم میں شامل کیا جانے لگاے اور میڈم کے گانوں کو فلم کی کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا، میڈم نور جہاں کے چند مشہورپنجابی گانے ۔ ’’ وے اک تیرا پیار مینوں ملیا، جھانجھر دی پاواں چھنکار، ماہی آوے گا میں پھلاں نال دھرتی سجاواں گی، میں تے میرا دلبر جانی۔ قومی ترانوں میں ،’ ایہہ پتر ہٹاں تے ‘‘
1998ء میں انہوں نے پنجابی فلم ’’ سخی بادشاہ ‘‘ کے لیئے گایا جس کے بول تھے ’’ کی دم دا بھروسہ یار ‘‘ ملکہ ترنم نورجہاں نے کم وبیش دس ہزار (10000) گانے گائے ، میڈم نورجہاں کی آواز کو کوئل کی آواز سے مشاہبت دی جاتی ہے میڈم کی آواز اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ تھا ، 74 سال کی عمر میں 23 دسمبر 2000ء میں یہ چمکتا دمکتا ستارہ ہمیشہ کے لیئے اپنے ہزاروں چاہنے والوں کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ ملکہ ترنم نورجہاں آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں
مکمل تحریر >>

Monday 5 September 2016

چھ ستمبر پرچم اور قوم کی سربلندی کا دن


چھ ستمبر پرچم اور قوم کی سربلندی کا دن 
از قلم ۔ محمد طاہر تبسم درانی
کالم ایڈیٹر کالم پواینٹ
ممبر پاکستان فیڈریل یونین آف کالمنسٹ
0310 10 72 360
tahirdurrani76@gmail.com
wordreel.blogspot.com
شہیدوں کی زمیں ہے یہ جسے پاکستان کہتے ہیں                                                    
یہ بنجر ہو کے بھی بزدل کبھی پیدا نہیں کرتی                                                   
پاکستان اور بھارت میں جنگ شروع ہو گئی لاہور پر تین طرف سے بھارت کا تابڑتوڑ حملہ پاکستانی فوج کی جوابی کاروائی کے بعد دشمن 
بھاگ کھڑا ہواپاکستانی علاقے آزاد کرالیئے گئے فضائی جنگ میں 22 بھارتی طیاروں کو تباہ کر دیا گیا پہلے دن کی جنگ میں (آٹھ سو) 800 بھارتی فوجیوں کوموت کی گھاٹ اتار دیا گیا، پاکستان نے بھارت کے عزائم خاک میں ملادیئے۔
میں اپنے ایک دوست کے گھر بیٹھا تھا میرا دوست آرمی سے ریٹائیرڈ تھا اوپر بیان کردہ تحریر ایک پرانے اخبا ر کے تراشے سے پڑھ رہا تھا کہ اچانک میرے دوست کے والد محترم جناب ریٹایئرڈ صوبیدار محمد خان کور آف انجینیرنگ 20 انجینیر بٹالین بھی ہمارے ساتھ ہو لیئے میرے اخبار کے الفاظ شائد وہ سن چکے تھے اُ ن کی آنکھوں میں آنسو تھے ، میں نے اُ ن سے آنسوؤں کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا بیٹا مجھے میری جوانی اور وہ بھارت کا مکرہ چہرہ سامنے آگیا جب بھارت نے 6 ستمبر کو پاکستان پر اچانک حملہ کر دیا اور اس کی خام خیالی تھی کہ وہ صبح کا ناشتہ جم خانہ میں کرے گا۔ میں اس وقت لانس نائک تھا جب بھارت نے 7 ستمبر کو پانچ سو ٹینکوں کی مدد سے پچاس ہزار فوج کے ساتھ سیالکوٹ پر حملہ کیا تھا لیکن اس وقت پاکستانی عوام اور پاک فوج کے جوانوں کا جذبہ دیدنی تھا بھارت کے خیال میں یہ چند سو فوجی تھے مگر ان کے ساتھ پورا پاکستان کھڑا تھا بچہ بوڑھا جوان عورت مرد سب فوجی تھے ، جب مقصد صر ف حق کے پرچم کی سربلندی ہو تو اپنے رب سے جان کے بدلے جنت خرید لینا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں تھا، پاک فوج کا یہی جذبہ شہادت اپنے سے تین گنا بڑی طاقت کے سامنے ڈٹ گیا اور دشمن کو نیست و نابود کر دیا۔ ان کی کانپتی آواز میں آج بھی جذبہ تھا وہ بتاتے ہیں بیٹا جنگیں اوزاروں یا ہتھیاروں سے نہیں جذبوں اور قربانیوں سے جیتی جاتی ہیں وہی قومیں دنیا میں اپنا وقار بر قرار اور زندہ رہتی ہیں جو اپنا دفاع مضبوط رکھتی ہیں پاکستانی قوم نے 6 ستمبر1965ء بھارتی فوج کے غیراعلانیہ حملے کا بھر پور جواب دیکر یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک غیور اور بہادر قوم ہے جو اپنا دفاع کرنا جانتی ہے اور اپنے ملک پاکستان کو دشمن کی کسی بھی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے ۔
بڑے تو کیا بچے بھی اس ملک کے سپاہی ہیں چونڈہ کے مقام پر جہاں سب سے بڑی لڑائی لڑی گئی ، فوجی دستے رواں دواں تھے محاز پر جاتے ہوئے راستے میں دو کم سن بہن بھائیوں نے فوجی دستے کو روک لیا اور ان کی خدمت میں مرغی اور گنے پیش کیئے اور کہا ہم بہت چھوٹے ہیں ہم فوج کے شانہ بشانہ تو کھڑے نہیں ہو سکتے مگر اپنی طرف سے یہ چھوٹا سے نذرانہ پیش کرتے ہیں جس پر برگیڈیر ان کا جذبہ دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے اور کہا ہمیں ان چیزوں کی ضرورت نہیں بلکہ آپ کی معصوم دعاؤں کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا جس قوم کے بچوں کا یہ حوصلہ اور ہمت ہو وہ کبھی بھی کسی بھی وقت دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔
اسی جنگ کو موقع پرایک اور وقعہ سنایا لاہور میں ایک بھیکاری تھا جو سارہ دن لاہور کے گھروں سے بھیک مانگتا تھا ، لوگ اسے بہت بُرا بھلا بھی کہتے مگر وہ سب کی جھڑکیاں سنتا رہتا مگر اپنی اس حرکت سے باز نہ آتا اور پیسے جمع کرتا رہتاہر روز شام کے وقت ریلف فنڈ میں آکر جمع کرا دیتا اور ایک دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتا اور اپنا پرانا روٹی کا ٹکڑا نکالتا اور پانی میں بھگو کا کھا لیتا، ایک صحافی یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے اس بھیکاری سے مخاطب ہو کر کہا تم ایسا کیوں کرتے ہو تو بھیکاری نے بڑے جذبے سے جواب دیا جناب میں غریب آدمی ہوں اپنے ملک کے لیئے اور تو کچھ کر نہیں سکتا جو پیسہ جمع کرتا ہوں لا کر جمع کرا دیتا ہوں ، کیونکہ آج مجھے ان کی ضرورت نہیں جب میر ا ملک سلامت رہے گا تو مجھے رزق ملتا رہے گا اور میں کبھی بھوکا نہیں مروں گا۔
جب فوجیوں کے لیئے خون کی ضرورت کے لیئے اعلان کیا گیا تو لوگوں کا جذبہ دیدنی تھا، بلڈ بنک کا باہر ایک نہ ختم ہونے والی لمبی قطار تھی لوگ جوق در جوق خون دینے کے لیئے اکھٹے ہو گئے اس قطار میں ایک ایسا نوجوان تھا جو بہت ہی کمزور تھا جب اس کی باری آئی تو فوجی جوان نے اس کا وزن کیا اور خون لینے سے انکار کر دیا کہ آپ کی صحت اجازت نہیں دیتی لہذا آپ کا خون ہم نہیں لے سکتے ، اس کی آنکھوں میں آنسوتھے وہ روتا ہوا باہر آیا ، اسے ایک ترکیب سوجھی اس نے باہر دکاندار سے دو باٹ لیئے اور اپنے جسم کے ساتھ کپڑوں کے اندر باندھ کر پھر قطار میں کھڑا ہوگیا۔ 
ایسے واقعات آج بھی لہوگرما دیتے ہیں ، جب بھی دشمن نے پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھا پاک فو ج کے جوانوں نے اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر دشمن کو کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ بھارت نے رات کے اندھرے میں بذدلوں کی طرح اچانک حملہ کیا تو اس کا خیال تھا کہ پاکستان کو آج نیست ونابود کر دیں گے مگر سرحدوں کے محافظ جا گ رہے تھے اور پوری قوم اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی تھی قوم نے نہ صرف خوراک اور دیگر سامان کے ڈھیر لگائے بلکہ نوجوانوں کی ٹولیا ں دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے گھروں سے نکل آیں جب آرمی چیف نے چندے کا اعلان کیا کہ ایک فرد ایک پیسہ جمع کرائے وہ ایک ٹینک دیں گے، لوگوں نے بڑھ چڑھ کا اس کارخیر میں اپنا اپنا حصہ ڈالا، جب دشمن کھیم کرن اور چونڈہ (سیالکوٹ)میں بری طرح شکست زدہ ہوا تو اس نے سرگودھاپر فضائی حملہ کر دیا ، وہاں کے شاہینوں نے دشمن کے چار جہاز چند لمحوں میں ہی مار گرائے اور بھارت کے فضائیہ کی کمر توڑ ڈالی1965ء کی جنگ میں بی آربی نہرایک دفاعی لائین ثابت ہوئی بھارت نے پاکستان پر شب خون مارا تو ان کا خیال تھا کہ راتوں رات ہم پاکستان کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیں گے اور ناشتے میں لاہور کے مشہور پائے کھایں گے لیکن ان کو یہ پتہ نہیں تھایہ ز مین اللہ کا ولیوں کی زمین ہے ، لاہو داتا علی ہجویری ، حضرت میاں میر، مادھولال حسین، حضرت بابا موج دریا کی نگری ہے ، سیالکوٹ میں قلندرِ لاہور ڈاکٹر علامہ اقبال کا گھر اور پیر مراد علی کا دربار موجود ہے ان کو یہ پتہ نہیں تھا شیر سویا بھی ہوتو شیر ہی ہوتا ہے ۔
بھارت کیسے بھول گیا ان کے پاس ایک ایسا شیر جوان بھی تھا جس نے پا نچ منٹس میں پانچ وار کرکے دشمن کے پانچ شکار کیئے تھے جی ہاں یہ کارنامہ بھی پاکستان ائرفورس کے ایک جوان نے کر دکھایا تھا جسے دنیا آج ایم ایم عالم کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے ان کاپور انام محمد محمود عالم تھا لیکن ائر فورس کے جوان ان کوشاہین کے نام سے جانتے ہیں یہ شاہین آج ہم میں موجود نہیں اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں مگر ان کے کارنامے آج بھی پاکستان کی تاریخ میں روشن ستارے کی مانند ہیں 1965 ء پاک بھارت جنگ میں سرگودھا کے محاذ پرپانچ بھارتی ہنٹر طیاروں کوایک منٹ کے اندر اندر مار گرانے کا عالمی ریکارڈقائم کیااور سب سے بڑی بات 4 طیارے صرف 30 سیکنڈ میں مار گرائے اور دنیا میں ائر کموڈور ایم ایم عالم کے نام سے شہرت پائیMM Alam nickname was"Little Dragon" 
اگر یہاں پر قوم کے بہادر سپوت میجر عزیز بھٹی شہید کا ذکر نہ کیا گیا تو ان کی وطن کے لیئے دی گئی قربانی کا حق ادا نہ ہوگا۔
میجر عزیز بھٹی شہید لاہور میں اپنے فرائض کو بھر پور انداز میں نبھا رہے تھے وہ چھ راتوں سے مسلسل جاگ رہے تھے ان کی آنکھوں میں زرہ برابر بھی نیند نہیں تھی وہ چیتے کی طرح چوکنا تھے اور مسلسل دشمن کو زیر کر رہے تھے دشمن ا ن کے چٹان جذبوں کی فصیل پھلانگنے میں مسلسل ناکام ہو رہا تھا، آسمان پر ان کے استقبال کی تیاریاں مکمل تھیں اور پھر دشمن کی تو پ کا گولہ ان کا سینہ چیر جاتا ہے درختوں پر بیٹھے پرندوں کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور میجر عزیز بھٹی ملک کا دفاع کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر لیتے ہیں اس عظیم کارنامے پر حکومت پاکستان نے ان کو پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا ۔ اللہ جلہ شانہ ان کے درجات بلند فرمائے آمین۔
شاعر نے اس موقع پر کیا خوب کہا ہے ۔
شہیدانِ وطن کے حوصلے تھے دید کے قابل                                                 
وہاں پر شکر کرتے تھے جہاں پر صبر مشکل تھا                                                 
مکمل تحریر >>