Sunday 31 December 2017

’’وعدوں سے تکمیل تک ،کے شاہکار کارنامے ‘‘ مجید احمد جائی کیا کہتے ہیں


’’وعدوں سے تکمیل تک ،کے شاہکار کارنامے ‘‘

تحریر و تبصرہ: مجیداحمد جائی ،ملتان شریف
خواب کون نہیں دیکھتا ،ہر فرد جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہے اور سوتے ہوئے بھی ،لیکن خوابوں کی تکمیل اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو خوب محنت اور لگن سے ہمہ تن جدوجہد کرتے رہتے ہیں ۔اِسی طرح وعدوں کی تکمیل ہے ۔وعد ہ کروتو وفا کرو،وعدے پورے کرنے کے بارے میں احادیث موجود ہیں لیکن میرے جیسے کم فہم لوگ کہتے ہیں بلکہ اکثریت یہی کہتی ہے ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ‘‘ان کے لیے خوش خبری ہے کہ وہ جان لیں کہ وہ غلط ہیں ۔
انسان جو وعدہ کرتا ہے اُس کی تکمیل کے لیے پوری پوری جدوجہد کرتا ہے لیکن دُشمن عناصر راستوں میں دشواریاں ضرور پیدا کرتے ہیں اور اپنے اندر کے حسد کو باہر نکالتے ہیں ۔میں نے حسد کرنے والوں کی عاقبت خراب ہی دیکھی ہے ۔
وعدوں کی بات چل نکلی ہے تو ’’وعدوں سے تکمیل تک ‘‘محمد طاہر تبسم درانی کی کتاب ،میرے دل و دماغ کی اسکرین پر آ جاتی ہے ۔میں محمد طاہر تبسم درانی کو ادبی دوست کی حیثیت سے جانتا ہوں ،جن کا رشتہ قلم اور کتاب سے ہے وہ میرے یار ،دوست ہیں ۔یہ بھی سچ ہے کہ کتابوں سے زندگی بدل جاتی ہے ۔ قیصر عباس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’اگر آپ بھی سمجھتے ہیں کہ کتابوں سے زندگی نہیں بدلتی تو یہ جان کے خوش ہو جائیے کہ آپ غلط ہیں ،‘‘
میں کہتا ہوں آپ چاہتے ہیں کہ ’’ہم ہمیشہ زندہ رہیں تو کتاب پڑھا کریں ،کتا ب لکھا کریں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر گزار ہوں کہ اُس ذات نے مجھے کتب بینی کی طرف راغب کر رکھاہے ،جب تک کسی کتاب کا کچھ حصہ نہ پڑھ لوں نیند نہیں آتی ہے ۔اگر یہ بیماری ہے تو بھی مجھے قبول اور بے حد عزیز ہے ۔لوگ نیند کی گولیاں لے کر نیند کی وادی میں جاتے ہیں اور میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ میں کتاب پڑھ کر سوتا ہوں۔اور پُر سکون سوتا ہوں۔
تاریخ گواہ ہے قوموں کی ترقی کا راز کتابوں میں پنہاں ہے ۔کوئی ملک کسی حریف پر حملہ کرتا ہے تو اُس کا پہلا حدف لائبریوں کو ختم کرنا ہوتا ہے ،اس ملک ،اُس قوم کو ترقی نہ کرنے دی جائے ۔یعنی کتاب سے دُوری ترقی سے دُوری۔
آپ چاہتے ہیں کہ شعور کی بلندیوں پر پہنچ جائیں ،ترقی کر جائیں ،اچھے انسان بن جائیں تو میرا مشورہ ہے کتاب پڑھا کریں ۔چند دن قبل میرے پاس بھی ’’وعدوں سے تکمیل تک‘‘کتاب پہنچی،جی ہاں یہ کتاب کا نام ہے جس کے لکھاری ،میرے پیارے شفیق دوست،بھائی ’’محمد طاہر تبسم درانی‘‘ہیں ۔آپ اِسے جانتے ہوں گے لیکن میں ’’وعدوں سے تکمیل تک ‘‘سے پہلے انہیں نہیں جانتا تھا ،مطلب ان کے چھپے فن سے واقف نہیں تھا۔
’’وعدوں سے تکمیل تک ‘‘‘‘جب ورق ،ورق،لفظ ،لفظ پڑھ چکا توحقیت،بلکہ ’’محمد طاہر تبسم درانی ‘‘کی مکمل شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔یہ کتاب وعدے کراتی ہے ،وعدے نبھاتی ہے ،وعدوں کی تکمیل کی طرف لے کر جاتی ہے ۔سرورق بہت پیارا ڈئزائن کیا گیا ہے ۔بیک فلاپ پر موجودہ حکومت ،موجودہ وعدوں کی تکمیل کی تصویری جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
’’وعدوں سے تکمیل تک‘‘کی سیر کرنے نکلیں تو 176صفحات پر مشتمل پیاری اور معیاری کتاب ہے ۔جسے میرے ادبی دوست اور پاکستان ادب و پبلشر کے روح رواں محمد سمیع اللہ نے نہایت خوبصورتی اور محنت کے ساتھ شائع کیا ہے ۔خوش کن بات یہ ہے کہ اس ادارے کی پالیسی بہت پیاری ہے اوران کا وعدہ جو باخوبی نبھایا جا رہا ہے ۔’’No Profit,No Loss‘‘اس ادارہ سے ہر آنے والی کتاب مجھے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے ۔اپنا گرویدہ بناتی ہے ۔
’’وعدوں سے تکمیل تک ‘‘،سفید ،موٹے پیپر پر اپنے رنگوں کی کہکشاں سجائے ہوئے ہے ۔جس کی کمپوزنگ صفیہ خاتون نے کی ہے اور حرف بینی کے فرائض ’’احمد علی کیف‘‘نے نبھائے ہیں ۔لیکن مجھے احمد علی کیف سے شکوہ ہے کہ اُنہوں نے پروف بالکل بھی نہیں کیا ،ہاں ہو سکتا ہے اس کتاب کی پروف ریڈنگ سوتے میں کی گئی ہو۔ہر تحریرمیں چھ،دس کے کلیہ سے غلطیاں موجود ہیں جو پڑھتے ہوئے چاشنی کو کرکرا کر دیتی ہیں ۔فرض معاف نہیں ہیں اور اس کے بارے پوچھ گچھ ضرور کی جائے گی ۔موصوف نے اگر ذمہ داری لی تھی تو نبھاتے بھی ۔۔۔۔۔
’’وعدوں سے تکمیل تک ،‘‘دسمبر2017میں شائع کی گئی ہے جس کی نہایت اور مناسب قیمت 300روپے رکھی گئی ہے ۔میں محمد طاہر تبسم درانی کا نہایت شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے خلوص ،محبت و چاہت کے ساتھ تحفتاً ارسال کی ہے ۔یہ کتاب کہاں کہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے صفحہ نمبر 6پر تفصیل موجود ہے ۔
’’نام اور کام کا فرق‘‘کے عنوان سے نجم ولی خان لکھتے ہیں ’’صحافی ایک مکھی کی طرح ہے جس کا کام ہی زخم اور گندگی کو ڈھونڈنا اور پھر اس پر منڈلاتے رہنا ہے ‘‘جانے کس غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔خود صحافی ہو کر منفی سوچ رکھتے ہیں ،صحافی مکھی کی طرح ہی کیوں،صحافی گلشن کا پھول کیوں نہیں ۔؟صحافی پھو ل کی طرح ،شگفتہ ،نرم دل اور حساس ہوتا ہے ۔جو مسلنے والے ہاتھوں میں بھی خوشبو چھوڑ جاتا ہے ۔مکھی تو زخم پر بیٹھ جائے تو اُس کو ناسور بنا دیتی ہے لیکن صحافی زخموں کا مداوا کر تا ہے ،کراتا ہے ،ناسور نہیں بننے دیتا۔صحافی انصاف دلاتا ہے ،صحافی گندگی کو ڈھوننے کی بجائے ،گندگی کو ختم کرانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔صحافی زخموں پر مرہم لگاتا ہے ،منڈلاتا نہیں۔
’’سچ لکھنے کی طاقت‘‘ کے عنوان سے شہزاد چوہدری کہتے ہیں ،طاہر درانی کی تحریر میں تابانی بھی ہے اور روانی بھی ہے اس کا انداز فکر مثبت ہے ،آپ سچ کہتے ہیں ۔
’’وعدوں کی تکمیل‘‘ کے عنوان سے میاں شہاز(پروف کی غلطی )۔۔۔۔میاں شہباز غوث مشیر وزیراعلی پنجاب کہتے ہیں اچھائی کے راستے میں رکاوٹیں ضرور آتی ہیں مگر جو صبر اور استقامت کے ساتھ ان رکاوٹوں کو عبور کر جاتے ہیں وہی کامیاب کہلاتے ہیں ۔اسی لیے تو کہتے ہیں صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے ۔
’’محمد طاہر تبسم دارنی میری طرح بزدل نہیں‘‘ میں گل نو خیز اختر لکھتے ہیں ’’سب سے بڑی بات یہ کہ ریگولر لکھتے ہیں ورنہ عموماًکالم نگار بیس پچیس کالموں کے بعد ہاپننے لگتے ہیں ،گل نو خیز اختر کو چاہے کہ جو ہاپننے لگتے ہیںیا لکھنا چھوڑ جاتے ہیں ان کی وجہ بھی جاننے کی کوشش کریں ۔آخر کیا محرکات ہیں جو اُنہوں نے قلم سے رشتہ توڑ دیا ۔۔۔۔کہیں واسطہ یا بالواسطہ اس میں ہم تو ملوث نہیں ،،سوچ طلب بات ہے ۔
’’سچائی کا نقیب‘‘،وقار عظیم نے عمدہ رائے سے نوازہ ہے اورمیرے پیارے ہر دل عزیز فرخ شہباز وڑائچ دلچسپی سے کہانی سناتے ہوئے کہانی بنا بھی دیتے ہیں ۔بڑی گہری اور سچی باتیں کر تے ہیں۔
’’ویلڈر سے رائٹر تک‘‘ ،لکھاری کا کچھ مکمل اور کچھ نامکمل تعارف ہے ۔اس کی زندگی میں کیا کیا نشیب و فراز آئے ،کتنے طوفانوں کا رُخ موڑا،کن کن مشکلات سے ٹکرائے ۔سب اس میں ملے گا ۔لیکن ان طوفانوں ،مشکلات ،مصبیتوں میں ہمت،حوصلے ،صبر سے کیسے مقابلہ کرتے ہیں ،یہی تحریر سیکھاتی بھی ہے ۔کامیاب وہی ہوتے ہیں جو مشکلات کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔جو صراط والے راستے پر گامزن رہتے ہیں ۔
’’محمد طاہر تبسم درانی‘‘ کی کہانی مجھ سے ملتی جلتی ہے جیسے انہوں نے فیکٹریوں میں خود کو تراشا،تلاش کیا ،خود کو ہیرا بنایا،کچھ اسی طرح میں بھی حالات سے نبردآزما ہوں ۔طاہر تبسم درانی آخر میں کہانی کو گول کرکے جلدی ختم کردیتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ کہانی تو ابھی باقی ہے ۔’’اظہار تشکر‘‘ میں رشتے داروں کے علاوہ درجنوں اپنے دوستوں کے نام گنواتے ہیں ۔ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ،ان کے بے حد مشکور ہیں ۔
’’وعدوں سے تکمیل تک ‘‘’’موجودہ حکومت‘‘یعنی مسلم لیگ نون کے وعدوں اور ان کی تکمیل پر لکھی گئی ہے ۔وعدوں سے تکمیل تک معلومات فراہم کرتی عمدہ کتاب ہے ۔مسلم لیگ نون کا پس منظر ایک کتاب سے مدد لے کر مختصر بیان کیا گیا ہے ۔جس میں تشنگی باقی رہ گئی ہے ۔زیادہ ترذکر میاں محمد نواز شریف کا کیا گیا ہے اور ان کے وعدوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے ۔کہیں اس کو موجود ہ دور کا شیر شاہُ سوری کہا گیا ہے تو کہیں کچھ ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکومت نے سب سے اہم اور ضروری کام کیے ہیں ۔
خامیاں کس میں نہیں ہے ۔وہ انسان ہی کیا جو غلطی نہ کرے ۔غلطیاں سر زد ہوتی ہیں اور جو غلطیوں سے سُدھار کی طرف آئے وہ کامیاب رہتا ہے ۔اور جو غلطیوں کی ٹوہ میں لگ جائے وہ خود کو برباد کرتا ہے ۔دُشمن بھی ہر شخص کے ہوتے ہیں اور موجودہ حکومت کے دوست نما دُشمن تو بے شمار ہوں گے ،جو اپنے ہتھکنڈیوں سے ماحول کو آلودہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں ۔جو کچھ نہیں کرتے وہ انسانوں کو لڑاتے ہیں ،ان میں نفرتیں پھیلاتے ہیں اور جونفرت کی فضا ء پیدا کرتے ہیں ،ان سے محبت بھلا کون کرے گا۔؟
مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف اور خادم اعلیٰ محمد شہباز شریف نے واقعی لوگوں کے دِلوں میں گھر کر لیا ہے ۔پنیسٹھ تحریریں ،یعنی 65وعدوں کی بات کرتی ’’وعدوں سے تکمیل تک پڑھنے والی خوبصورت کتاب ہے ۔جس میں چند ایک مقام پر بات کو بار بار دُہرایا گیا ہے ۔وعدوں سے تکمیل تک کی مکمل بات کی جائے تو بہت اچھی کتاب ہے ۔اس میں خامیاں کم اور اچھائیاں زیادہ ہیں ۔اُمید ہے محمد طاہر تبسم درانی صاحب یونہی مثبت سوچ کو لے کر لکھتے رہیں گے۔۔میں ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اُنہوں نے جامع اور معلوماتی کتاب لکھ کر ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔وعدوں سے تکمیل تک کو ہر لائبریری کی زنیت بننا چاہے تاکہ اس پاک وطن کا ہر طالب علم اس سے افادہ حاصل کر سکے ۔یہ طلبہ کے لیے بہت ہی اچھی کتاب ہے ۔طالب علموں کو اس سے ضرور بہ ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

مکمل تحریر >>

Friday 29 December 2017

Presenting My Book to Mr Mehr Ijaz Ahmad Achlana Provincial Minister for Disaster Management

Presenting My Book,  to Mr Mehr Ijaz Ahmad Achlana Provincial Minister for Disaster Management

وعدوں سے تکمیل تک






مکمل تحریر >>

Thursday 28 December 2017

Presenting My Book to Press Secretary to Chief Minister Shahbaz Sharif Mr Shoaib Bin Aziz

اپنی کتاب وعدوں سے تکمیل تک ۔۔ شعیب بن عزیز ۔پریس سیکرٹری ٹو چیف منسٹر پنجاب کو پیش کرتے ہوئے


مکمل تحریر >>

طاہرتبسم درانی اپنی کتاب ۔۔۔وعدوں سے تکمیل تک۔۔ سینئر صحافی جناب مجیب الرحمن شامی صاحب کو پیش کرتے ہوئے


طاہرتبسم درانی اپنی کتاب ۔۔۔وعدوں سے تکمیل تک۔۔ سینئر صحافی چیف ایڈیٹر روزنامہ پاکستان جناب مجیب الرحمن شامی صاحب کو پیش کرتے ہوئے، سینئر صحافی نے نوجوان صحافی طاہر درانی کو مبارکباد پیش کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

مکمل تحریر >>

Wednesday 27 December 2017

عطا ء الحق قاسمی پروفیسر آف اُردو لٹریچر By M Tahir Tabassum Durrani



عطا ء الحق قاسمی پروفیسر آف اُردو لٹریچر

وہ ایک شخص کہ منزل بھی راستا بھی ہے
وہی دعا بھی وہی حاصل دعا بھی ہے ! عطاء

عطاء الحق قاسمی سے کو ن واقف نہیں ، وہ استاد بھی ہیں ، سفارتکار بھی ہیں ،مزاح نگار بھی ہیں ،کالمنگار 
بھی ہیں اُ رد و ادب کے ماہر بھی ۔ اُردو ادب میں وہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں ان کا نام ہی ان کی پہچان ہے اور سب سے بڑی بات وہ استاد ہیں کیوں کہ استا د کا رتبہ سب سے اعلیٰ و اکبر ہے ۔ وہ قومیں جو استاد کی عزت اور احترام نہیں کرتیں کبھی کامیابی کی منزلوں کو نہیں چھو سکتیں ۔استاد ہی کی وجہ سے انسان نے آسمان کی بلندیوں کو چھوا۔اسلام میں بھی استاد کا بہت ادب اور مقام ہے استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے ،مولا علی شیر خدا کا فرمان ہے ’’جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا میں اس کا غلام ہوں،چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے‘‘۔ اتنی بڑ ی ہستی کے اس فرمان سے ہمیں استاد کی عزت و احترام و مرتبے کا خوب اندازہ ہو جاتا ہے کہ استاد کا کتنا مقام ہے ۔آقا کریمﷺ نے خود کو معلم کہا اور صحابہ کرام رضوان اللہ آپ ﷺ کے شاگرد آپ کا کتنا احترام کرتے تھے ، استاد کی عزت اور قدر کرنے والوں میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان ہی دیکھ لیں جنہوں نے اپنے استاد کی عزت کی خاطر خود کو تکلیفوں میں رکھا اور پھر آج وہ کس مقام و مرتبے پر فائض ہیں ۔
ہارون الرشید خلیفہ وقت نے ایک بار امام مالک سے درخواست کی کہ مجھے حدیث پڑھا دیا کریں جس پر امام مالک فرماتے ہیں ’’علم کے پاس لوگ آتے ہیں ، علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا،تم کچھ سیکھنا چاہتے ہوتو میرے حلقہ درس میں آسکتے ہو‘‘
عطا ء الحق قاسمی پاکستان کا فخر ہیں انہوں نے اُردو ادب کی اشاعت و تبلیغ میں گراں خدمات پیش کی ہیں ، انہیں گورنمٹ آف پاکستان نے 1991ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے نواز ہ اور اس وقت کے صدر نے یہ ایوارڈ پیش کیا، ان کی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازہ گیا، 2014ء میں ان کی عزت افزائی میں ہلالِ امتیاز ایوارڈ صدر پاکستان جناب ممنوں حسین نے پیش کیا۔ ایسے لوگ کم ہی پیدا ہوتے ہیں قاسمی صاحب کی اردو ادب کے لیے خدمات کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے لیکن افسوس کچھ کم ظرف ان پر بہتان لگا کر اپنی دکان چمکانا چاہتے ہیں کچھ نااہل اور بے ادب لوگ جن کا ادب سے کوسوں واسطہ نہیں اور سستی شہرت کی خاطر ان کی شخصیت پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں ان کو پہلے اپنے گریبانوں میں دیکھنا چاہیے یہ وہ لوگ ہیں جن کے اپنے دامن کیچڑ سے بھرے ہوئے ہیں اور ایسے شفیق انسان ،خوش گفتاراور حلیم انسان پر بہتان اندازی کر رہے ہیں
قاسمی صاحب بھارت کے شہر امرتسر میں جب پاکستان ابھی آزاد نہیں ہوا تھا 1943ء میں پیدا ہوئے ان کے والد محترم ایک مذہبی شخص تھے جن کے نام مولانا بہاوالحق قاسمی امرتسر میں ایک معلم تھے ۔ پاکستان بننے کی بعد قاسمی صاحب کے والد پاکستان ہجر ت کرکے پنجاب کی شہر وزیر آباد میں آباد ہوئے جبکہ کہ بعد میں لاہو ر میں سکونت اختیار کی جہاں قاسمی صاحب نے اپنی ابتدا ئی تعلیم مکمل کی ۔ایم اے او کالج لاہور سے انہوں نے بی اے کی ڈگری مکمل کی ، اس کے بعد انہوں نے پاکستان کے معروف اردو اخبار میں بطور سب ایڈیٹر نوکری شروع کی اس اخبار کے ایڈیٹر جناب مجید نظامی صاحب تھے ۔ کچھ عرصہ بعد قاسمی صاحب نے بطور کالمنگار روزنامہ جنگ میں لکھنا شروع کردیا۔ ان کے لکھنے کا انداز دوسرے کالمنگاروں سے مختلف تھا آپ نے عوام کے سنجیدہ مسائل کو مزاحیہ انداز میں بیان کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کی اور مسلہ ارباب اختیار تک پہنچایا ، ان کا انداز بیان دھیمہ اور پر لطف ، اور مزاح مزاح میں دل کی بات کر دینے والا ۔ 1997 تے 1999ء تک وہ ناروے اور تھائی لینڈ کے سفیر کے طور پر بھی اپنی خدمات پیش کر چکے ہیں ۔ ان کے بے شمار کتابیں مارکیٹ اور اہل علم و دانش کی لائبریریوں کی زینت بن چکی ہیں، ہنسنا منع ہے، مزید گنجے فرشتے ، عطایئے ،شوقِ آوارگی اورگوروں کے دیس میں نے قارئین بہت مقبولیت حاصل کی اس کے بعد روزن دیوار سے ، دنیا خوبصور ت ہے ، جرم ظریفی، ملاقاتیں ادھوری ہیں، 1991ء میں دلی دور است اور ایسی بے شمار تصانیف ہیں جو ان کے مزاح اور لکھنے کی ترجمانی کرتی ہیں ان کے ٹی وی ڈرامے اپنی شناخت خود رکھتے ہیں ان کے مشہور ڈرامہ جات ’’خواجہ اینڈ سن، شب دیگ اور شیدا ٹلی نے شہرت کے جھنڈے گارھے ۔شاعری میں بھی قاسمی صاحب کا کوئی ہم پلہ نہیں انہوں نے اپنی منفرد شاعری سے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ۔
قومیں ہمیشہ اپنے ہیروز کو یاد کرتی ہیں ، ان کے کارناموں کو یاد کرتے ہوئے خیراج تحسین پیش کرتی ہیں ،لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا
پڑتا ہے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی روش نے ہمیں ایک دوسرے کی احترام اور عزت کو بھی بھلا دیا ہے ۔ہم قدر نا قدرے اور خود غرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں استاد کی عزت کرنا بھی نہیں آتی ، ہم اکثر ہمسایہ ملک کی نقل کرتے ہیں لیکن وہ تو اپنے فلمی ہیروز کو بھی اتنی عزت دیتے ہیں کہ تاریخ میں ایسی نظیر نہیں ملتی ادھر ہم وہ ہیں جو صرف چڑھتے سورج کے پجاری ہیں جب قاسمی صاحب برسر اقتدار تھے تو کسی کی جرت نہ تھی ان کی بارے ایک لفظ بھی نکا ل سکے لیکن جیسے انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا مخالفین نے بغلیں بجانا شروع کر دیں۔لیکن آخر میں ایک بات ضرور کروں گا، یہ مقافات عمل ہے ، جو کرو گے وہ بھرو گے آج اگر ہم اپنے سینئرز کی عزت نہیں کریں گے اپنے بڑوں کے ساتھ شفقت اور احترام سے پیش نہیں آئیں گے تو آنے والا کل ہمارے ساتھ بھی یہی ہونے جا رہا ہے بس وقت کا انتظار کریں۔



مکمل تحریر >>

Tuesday 19 December 2017

کاش ہم صرف اُمتی ہوتے By M Tahir Tabassum Durrani



www.sama.pk/epaper/page/10/
www.abtak.com.pk/qaalam.htm




مکمل تحریر >>

کاش ہم صرف اُمتی ہوتے By M Tahir Tabassum Durrani


کاش ہم صرف اُمتی ہوتے 

ربیع الاول شریف کا مہینہ اسلام میں بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس ماہ مقدس میں ہمارے پیارے نبیﷺ جلوہ افروز ہوئے تھے۔ ایک روائت کے مطابق اللہ کریم نے اس مہینہ کی برکت سے جب نبی آخرالزمان کو اس دار فانی میں بھیجا تو اس مہینہ ہر گھر میں صرف بیٹے پیدا کیے۔اس ماہ مقدس میں محافل ذکر و ازکار و نعت خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ کل مجھے بھی اسی طرح کی ایک محفل میں جانے کا شرف نصیب ہوا ، لوگوں نے اپنے اپنے انداز سے اظہار محبت کیا اور گلہائے عقیدت حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیے یقیناََ لطف و کرم اور رحمت کے اس عالم میں مجھے بھی چند گھڑیاں نصیب ہوئیں۔محفل کی آخر میں درودو سلام کے لیے سب احتراماََ کھڑے ہو گئے درودوسلام کے ایک شعر نے مجھے محو حیرت کردیا ۔ امتی امتی تیری قسمت پے لاکھوں سلام۔ اب آپ سوچیں گے کہ اس شعر کی وجہ سے کیسے حیرت طاری ہو سکتی ہے ؟ جی ہاں میں نے جب اس شعر پر غور کیا تو اپنے معاشرے میں ہونے والے مسائل میری آنکھوں کے سامنے آ گئے اور ٹولیوں میں بٹی ہوئی پوری قوم کی حالت زار میرے سامنے آگئی ۔
اس شعر کو ایسے کیوں نہیں پڑھا گیا۔وہابی تیری قسمت پے لاکھوں سلام، ایسے کیوں نہ پڑھا گیا سُنی تیری قسمت پے لاکھوں سلام، ایسے کیوں نہ پڑھا گیا ، شعیہ تیری قسمت پے لاکھوں سلام ، دیوبندی تیری قسمت پے لاکھوں سلام۔ جب سلام ہے ہی امتی کے لیے تو پھر یہ تفرقہ بازی کیوں؟ٹھیک ہے جو جس مسلک سے ہے وہ اپنے مسلک سے اپنی عبادات کو جاری رکھے لیکن ہیں تو ہم سب ایک نبی ﷺ کے امتی ، کاش ہم صرف امتی ہوتے تو جن مسائل کا آج سامنہ کر رہے ہیں وہ خود بخود ختم ہو جاتے کیونکہ آقا کریم ﷺ نے ہمیشہ اپنے امتی کہہ کر مخاطب کیا، نہ کہ اوپر بیان کردہ مسالک کے ساتھ نام لیا۔حتیٰ کہ قیامت والے دن بھی ایک آواز آ رہی ہو گی ۔ ’’یا رب امتی۔یا رب امتی ‘‘اے اللہ میری امت ، اے اللہ میری امت ۔ اور ہمارا حال دیکھیں ایک دوسرے کے دشمن بنے بیٹھے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے 
کے لیے کیا کچھ نہیں کر رہے جبکہ قرآن مجید میں اللہ کریم ہمیں کسی مسلمان بھائی کا مذاق اڑانے سے بھی منع فرما رہا ہے تو نقصان پہنچانا ایزا دینا کتنا بڑا گناہ ہے۔ (سورہ الحجرات پارہ نمبر 26 آیت نمبر 11 )ترجمہ’’ اے ایمان والو مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے یہ ان مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں۔اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان مذاق اڑانے والی عورتوں سے بہتر ہوں۔اورآپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ۔اور نہ کسی کو برُے القاب سے پکارو۔ ‘‘ اب ذرا غور کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ جب تک ہم فرقوں میں بٹے رہیں گے دشمن ہمیں یوں ہی نقصان پہنچاتا رہے گا اور ہم صرف ماتم کر سکیں گے نہ کہ اپنی مشکلات کا حل ڈھونڈ سکیں گے۔ اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں اللہ کریم نے تمام خوبیاں رکھ دی ہیں اور دین اسلام کو پسند فرمایا ہے ’’ ان الدین الا اسلام‘‘یقیناََ دین اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے۔آقا کریم ﷺ کے ارشاد پاک ہے اس شخص نے اسلام کی حلاوٹ پالی جس نے اللہ کو اپنا رب ، اسلام کو اپنا دین اورمحمد ﷺ کو اپنا رسول تسلیم کر لیا۔سورہ آ ل عمران آیت نمبر 103 میں اللہ کریم نے واضع پیغام دیا ہے کہ ترجمہ’’اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رکھو، اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘
اسلام ہمیں تفرقوں اور نفرتوں سے منع فرماتا ہے اسلام ہمیں رواداری ، اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے اسلامی ریاست کے درج ذیل ستون ہیں اگر ہم ان پر عمل پیرا ہو جائیں تو دنیا اور آخرت خود بخود سنور جائے گی۔سورہ مائدہ میں اللہ کریم کا فرمان ہے ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ‘‘ 
اور ہم نے دین کو اپنے اپنے طریقے سے اپنا یا ہوا ہے ۔اسلامی ریاست کے ستون ،معامالات،معاشرت،اخلاقیات،عبادات اور ایمانیات پر مشتمل ہیں اسلامی معاشرے میں حکومت وقت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ، خارجی امور، فوج اور دفاع کے معاملات میں اپنا کردار ادا کرے امن و امان اور امور داخلہ کی حفاظت محکمہ پولیس کو حکم صادر کرے کہ وہ معاشرے میں امن و اما ن کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اسی طرح قوم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اخلاقیات، تقوی ٰ محبت روادری ، اخوت ، خوش کلامی ، شرم و حیا کے دامن کو نہ چھوڑے اور بحیثیت مسلمان اپنی عبادات کو اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقہ کی مطابق ادا کرے، نماز ، روزہ، حج ، ذکوٰۃ،کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں ، نرم گوئی،صبر و شکر،تواضع و انکساری اگر یہ تمام چیزیں ہم اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو معاشرہ خوبخود درست ہو جائے گا اور 6 سالہ معصوم بچی سے زیادتی کے بعد قتل جیسے واقعات وقوع پذیر نہ ہوں۔ظلم و ستم و بربریت کی انتہا دیکھیں پہلے اپنی حوس کا نشانہ بنایا پھرحوا کی بیٹی کو کھیتوں میں پھینک دیا۔کیا یہ انسانیت ہے ؟ ہم اسرائیل امریکہ اور دیگر ممالک کو اپنا دشمن گردانتے ہیں جبکہ ہمارے اپنے معاشرے میں ایسے دشمن عناصر اور درندہ صفت انسان موجود ہیں جن کا قلع قمہ کرنا زیادہ ضروی ہے ۔ کچھ ذمہ داری ہمارے علماء کرام پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کو سنوارنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں اور حکومت وقت کے ساتھ مل کر قانون سازی کریں تا کہ ایسے افراد جرم کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں اور گناہ کرنے سے اجتناب کریں۔
ہم اخلاقیات میں اتنے گر چکے ہیں کہ ہماری آنکھوں پر بے شرمی اور حوس کی پٹی اس قدر مضبوطی سے بندھ چکی ہے کہ ہم ماں بہن بیٹی کے عظیم رشتے کو بھی نظر انداز کر چکے ہیں۔بطور پاکستانی ہم حکومت وقت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے افراد کو سرعام چوک میں لٹکایا جائے اور ایسی عبرت ناک سزا دی جائے کہ ایسا سوچتے بھی انسان کانپ جائے ۔ اسلام میں تو ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی کہا گیاہے تو کیسے ممکن ہے ایک بھائی دوسرے بھائی کو تکلیف دے ۔ یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ ہم فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔آئیں مل کے یہ عہدکریں کہ ہم صرف امتی بن کر پاکستان کی سلامتی اور وقار بلند کرنے میں اپنا مثبت کردارا اد ا کریں گے۔
مکمل تحریر >>

Monday 11 December 2017

مسلمانوں کی غیرت ایمانی پر ٹرمپ کا وار By M Tahir Tabassum Durrani

My Today Article 
http://www.abtak.com.pk/qaalam.htm
dailysama.epapers.pk/10




مکمل تحریر >>

مسلمانوں کی غیرت ایمانی پر ٹرمپ کا وار By M Tahir Tabassum Durrani


مسلمانوں کی غیرت ایمانی پر ٹرمپ کا وار

کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے 

وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ!
حکیم الاامت قلندر لاہور شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے کیا خوب نوجوانوں کی توجہ مبذول کروائی ہے کہ آج کے نوجوان کے اندر وہ جوش اور ولولہ دیکھائی نہیں دیتا جو پہلے مسلمان نوجوانوں میں تھا۔دشمن اپنے ناپاک ارادوں سے پہلے ہمیں یکجا ہونے سے روکتا رہا پھر ہم میں نفرتوں کے بیج بو کر ہمیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم کرتا رہا اور ہمارے رہبرو رہنما ان کے اشاروں پر ناچتے رہے اور آج وہ ہمارے مقدس مقامات کی بے حرمتی کر رہا ہے اور ہم خواب غفلت میں سونے کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کے اس شعر کی اگر گہرائی میں جائیں تو پتہ چلتا ہے وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں ،وہ آج کے نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ایک وقت تھا جب ایک سترہ سالہ نوجوان سات ہزار کی فوج لے کر ہندوستان کی طرف روانہ ہوا اور دیبل پر حملہ کیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوا اور اسے فتح کرتے ہوئے راجہ داہر کو جہنم واصل کیا اور وہاں سے عورتوں بچوں کو آزاد کرایا۔ یہ جنگ صرف ایک خط کی وجہ سے لڑی گئی تھی ایک مظلوم عورت نے مسلمان ہونے کے ناطے مدد مانگی تھی یہ غیرت مسلمانی کا ایک واقعہ ہے جو بیان کیا۔ حضرت محمد ﷺ کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی کی طرح رہنا چاہیے ایک اور جگہ فرمایا مسلمان ایسے رہے کہ اگر مشرق میں ایک مسلمان کے پاؤں میں کانٹا چبھے تو مغرب کے مسلمان کو اس کی تکلیف محسوس ہو۔
اب آئیں ذرا سرزمین مقدس کی طرف اس کی کیا اہمیت ہے قرآن اور حدیث نے اس کا بہت ذکر کیا ہے ۔ حضو ر پُر نو رﷺ کی دعا سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نما ز ادا کرتے تھے ، 2 ہجری 624 ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھااسے قبلہ اول بھی کہتے ہیں۔ یورپی زبان میں اسے یروشلم کہتے ہیں عربی میں اس کا نام مقدس یعنی پاک ہے اور منصنفین اسے بیت المقدس لکھتے ہیں یعنی پاک سر زمین۔بیت المقدس سے مراد ایسا پاک گھر جن کے ذریعے گناہوں سے پاک ہونا ہے۔بیت المقدس پہاڑوں پرآباد ہے اور ان میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے ۔ کوہِ صیہون کے نام کی وجہ سے ہی یہودیوں نے عالمی تحریک صیہونیت کی بنیادر کھی۔اس مقام کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے سورہ الااسراء (سورہ بنی اسرایل پارہ نمبر15) آیت نمبر 1 ترجمہ’’ پا ک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کوایک رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے اردگر د ہم نے برکت رکھ دی ہے‘‘۔
اس آیت کریمہ کی روشنی میں ہمیں یہ بات واضع ہوتی ہے کہ اس مقام کی اللہ کریم کے ہاں کتنی اہمیت اور برکت ہے۔فلسطین اور شام کا علاقہ بھی بابرکت ہے۔اس سر زمین کے مقدم اور با برکت ہو نے کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشا د پاک ہے سور ہ المائدہ آیت نمبر 21، ’’اے میرے قوم کے لوگوداخل ہو جاؤ اس سرزمینِ مقدس میں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے‘‘آج اگر دیکھا جائے توبہت کم مسلم ممالک ہیں جہاں امن ہے باقی تمام مسلمان ممالک یہودو نصاریٰ کے ظلم و ستم اور بربریت کا شکار ہیں ، شام فلسطین، ایران ، عراق، بوسینیا، کشمیر ، لیبیا، یمن ، روہنگیا جیسے کتنے ممالک ہیں جہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم ہے ۔نہتے مسلمان بہن بھائیوں پرظلم کیا جا رہا ہے ، زندہ مسلمانوں کو جلایا جا رہا ہے ،زندہ لوگوں کی گردنیں کا ٹی جا رہی ہیں اور پھر بھی الزا م ہے کہ مسلمان دہشتگردہیں۔اور ہم زندہ لاشیں صرف ماتم کرنے اور مذمت کرنے کے لیے رہ گئے ہیں۔
غیرت مسلمانی یکسر ختم ہو چکی ہے کیونکہ ہم نے اپنے محور و مرکز کو چھوڑدیا ہے ۔ اللہ اور اس کے پیارے نبی کی باتوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔ صرف اپنی ذات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ آج دشمن کھل کر سامنے آچکا ہے اور وہ غیرت مسلمانی کو للکار رہا ہے لیکن ہم سو رہے ہیں کیونکہ ہماری سوچ کو بھی محدود کر دیا گیا ہے کہ یہ میرا معاملہ نہیں جب میری بات ہو گی تو دیکھیں گے لیکن دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا چلا جا رہا ہے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم کا دائرہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے جس پر اقوام عالم کی سپر طاقیتں بھی خاموش ہیں ۔ ہماری نوجوان نسل کو موبائل اوردیگر لغویات پر لگا دیا گیا ہے جبکہ نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ کھیل نیزہ بازی، تیراکی ، تیر اندازی ،گُھڑ سواری جیسے کھیل تھے کیونکہ اس سے جسم چست اور توانا رہتا ہے بیماریاں گھیرا نہیں ڈالتیں اور دشمن کا مقابلہ جم کر کیا جاتا ہے مگر آج کے نوجوان کو کمروں کی حدود تک محدود کر دیا گیا ہے وہ ان ڈور کھیل کھیلنا پسند کرتا ہے جس سے جسم بیکار اور بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔ دشمن ہمیں اندرونی طور پر کمزور کر رہا ہے ۔
بیت المقدس پر حملہ مسلمانوں پر حملہ تصور کیا جانا چاہیے ۔ قبلہ اول کی توہین کی گئی ہے ۔کاش ہم فرقوں میں نہ بٹے ہوتے ۔ کاش ہم نفرتوں کے شکار نہ ہوتے کاش ہم صرف مسلمان ہوتے ۔کاش ہم نے قرآن کو اپنی زندگی کا رہبرو رہنما بنا لیا ہوتا ۔ کاش ہم نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ پر عمل پیرا ہوتے تو آ ج ہم ظلم و ستم و بربریت کا شکار نہ ہوتے اور امریکہ کو جرت نہ ہوتی کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کادارلحکومت بناتا ۔
ہم بہت کچھ بن گئے لیکن مسلمان نہ بن سکے۔ہم نے اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر غیر کی تعلیمات کو اپنا لیا۔یہودو نصاریٰ کبھی بھی مسلمانوں 
کے دوست اور خیر خواہ نہیں ہو سکتے قرآن مجید نے ہمیں اس کی تلقین کی ہے سورہ المائدہ آیت نمبر 51 ترجمہ’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گاوہ بے شک انہیں میں سے ہے ۔ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دیکھاتا‘‘۔کہاں گیا وہ محمد بن قاسم والا جذبہ ، کہاں گئی غیرت ایمانی؟
مکمل تحریر >>

Friday 8 December 2017

Child Labor: Endangering our Future. by Naeema Siddiqui

A very informative article by Naeema Siddiqui.
 Iqbal Masih was born in 1983. He was a Pakistani child who became a symbol of abusive child labour in developing countries. His family sold him at the age of 4 to return the amount of six hundred rupees, borrowed by them. Iqbal had to work twelve hours a day, seven days a week with only a thirty-minute break. Despite working day and night, he was unable to pay the debt due to increasing interest. Iqbal escaped his slavery after he got to know that the Supreme Court of Pakistan had declared bonded slavery as illegal.
Later, he joined a school for the victims of bonded labour, Bonded Labour Liberation Front (BLLF) and completed a four-year education in just two years. He made speeches and initiated a movement against child labour throughout the world. In 1994, he got the Reebok Human Rights Award. Regrettably, he was murdered in Muridke when he was just 12 years old. Iqbal became an inspiration for the creation of the organizations like ‘Free the Children’ a Canada-based charity and Iqbal Masih Shaheed Children Foundation.
The unfortunate Iqbal is still alive in all the children who are victims of child labour in Pakistan. This is not just a story of a single child but of the millions of children who are living in a state of despondency with never ending labour hours. Pakistan is a developing country and it has a lot of social and political problems which demands an immediate response of the government and of its people. Amongst those, a major problem is of child labour. Child labour is a curse which not only destroys the present of a country but also endangers its future. The children of a country are known to be its future. If they are living in a pathetic condition then the future of that country is not safe and it will make the situations even worse.
The basic health facilities, the right to education, food and clothing of children must be the top priority of a government. A country where the access to educational facilities is limited and children must work to feed their families, does not expect a better future because child labour starts a vicious cycle of poverty which continues to operate. The sufferings and pains which these children have to bear every single day are beyond description. The government only should not be blamed for this, but the society which allows child labour to exist is also subject to criticism.
When people see the children suffering, they shut their eyes without taking any step towards its eradication. Why? Because they believe that these kids are born to suffer and it is their destiny. If they had felt their pain, they would have taken an action for bringing it to an end. As a society, we need to awaken our value system because the people in government are the same as we are. If as a society, we are so inconsiderate then we should not expect our governments to take any notice of this.
The heinous crime has spread like an epidemic across both rural and urban Pakistan. Moreover, in rural areas children mostly work in agriculture and in urban areas, their work is more of a diversified nature. They work in restaurants, hotels, rag-picking, auto-workshops and begging. The worst form of child labour is where they are exposed to the perilous work environment, forced to do the work heavier than their physical capabilities. They also have to bear physical, psychological and sexual abuse and they are forced to work for longer hours. Most of the time, they also have to work with dangerous tools and machinery which could cause physical injury and may result in their death.
One of the main causes of child labour in Pakistan is poverty. According to the report of Asian Development Bank, in Pakistan 29.5% of its population lives below the national poverty line. This poverty results in child labour and other evils in Pakistan. The children have to work to provide their families with meals three times or maybe two times a day. The 18th Amendment in the constitution of Pakistan delegates all child welfare and labor problems from the Federal Government to the four Provincial Governments. According to the United State, Bureau of International Labour Affairs, Pakistan made a moderate advancement in efforts to eliminate the worst forms of child labor in 2016. The government of Punjab took an initiative by passing the legislation ‘The Punjab Restriction on Employment of Children Ordinance 2016’. According to this ordinance, the children below the age of 15 are prohibited from doing any kind of labour and adolescents between the age of 15 and 18 are prevented from doing any hazardous work. This law will help to eliminate the child labour issues but the implementation of the law is the real challenge before the Punjab Government.
The solution of child labour could be the replacement of it with adult labour. On the one hand, this measure could reduce the rate of unemployment in the country and on the other hand the adult labour force will get better wages as compared to child labour. On an individual level and as a society as well, we can boycott those brands in which child labour is being employed. As most of our industries are based on child labour, so to save them from a heavy loss, a deadline can be given to replace child labour with adult labour. In addition to, the government must make it mandatory for the children attending schools and provide them with free education, books and uniforms.
Campaigns can be started to encourage and motivate illiterate families about the importance of education in a child’s life that it doesn’t only offer a better present but also ensures a bright future. If we all start taking small steps to improve the conditions of these deprived and unfortunate children, it will lead to a greater impact on their lives, inculcate a new soul in our society and will contribute towards a better Pakistan.
مکمل تحریر >>

Monday 4 December 2017

کشکول توڑا جا سکتا ہے مگر کیسے؟ By M Tahir Tabassum Durrani


میرا نیا کالم۔کشکول توڑا جا سکتا ہے مگر کیسے؟ ایک بار ضرور پڑھیے گا اور اپنی آراء سے مستفید فرمایے گا۔۔
روزنامہ سماء لاہور

کشکول توڑا جا سکتا ہے مگر کیسے؟

جب سے پاکستا ن آزا د ہوا ہے اس اسلامی مملکت خداداد کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے غربت بے روزگاری، تعلیم کی کمی، دہشتگردی اور بے شمار مسائل ہیں جس کے وجہ سے ترقی کی پہیہ آہستگی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ بچپن سے سنتے پڑھتے آ رہے ہیں ملک میں ترقی کا پہیہ جام ہو چکا ہے ملک بیرونی امداد پر چل رہا ہے ، سیاست دان ملک لوٹ کر کھا گئے ، امیر امیر سے امیر تر ہو رہا ہے جبکہ غریب ، غریب سے غریب تر ہو تا چلا جا رہا ہے ۔ فلاں حکومت نے قومی خزانے کو خالی کر دیا فلاں حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد قوم بدحالی کا شکار ہو گئی۔ ایسے کئی سوال ہیں جو ہم بچپن سے سنتے آر ہے ہیں مگر صورت حال وہی ہے زندگی اپنی روانی سے آخرت کی طرف کا سفر کر رہی ہے ۔ بطور قوم ہم نے اخلاقیات اور اخلاص کا تو جنازہ ہی نکا ل دیا ہوا ہے ہم نے ڈگریاں بھی لے لی ہیں نام کے ساتھ انجینئر، ڈاکٹر بھی لگوا لیا ہے لیکن عمل سے خالی زندگی ہے۔دوسروں کو نیچا دکھانے کی خاطر ہم اپنا ایمان تک بیچ دیتے ہیں ۔ الزام تراشی کو ہم نے اپنا اشعار بنا رکھا ہے سب سے سبقت لے جانے کے دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ۔

سوشل میڈیا نے تو تمام حدیں ہی پار کر دی ہیں ہر سیاسی پارٹی کا ورکر دوسروں پرکیچڑ اچھالنے میں مشغول ہے اگر کوئی ایک کو بُرا سمجھتا ہے تو دوسرا دوسری پارٹی کو بُر ا سمجھتا ہے تو جناب عالی پھر کون سی سیاسی پارٹی ملک و قوم کی رہبر و رہنما ہے تو عرض یہ ہے کہ پہلے ملک و قوم کے لیے کام کر کے دکھائیں پھر بلند و باگ نعرے لگائیں۔ملک ترقی کی منزلوں کو تب ہی پارکر سکتا ہے جب تک ملک کا ہرفرد اپنے حصے کا کام مکمل نہیں کر لیتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ صرف حکومت وقت اپنے حصے کا کام درست نہیں کر رہی جس کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے کھڑا ہے جبکہ اگر غورسے اس مسلے کی طرف رجوع کریں اور اپنی آنکھوں پر سے انا کی پٹی اتار یں اور صرف ملک و قوم کے بارے سوچیں تو یقین مانیں ہم اپنے اندر خود شرمندہ ہوں گے کہ ہم بطور قوم بھی کچھ نہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔جبکہ اللہ کریم نے کامیابی کے لیے قرآن مجید میں واضع ارشاد فرمایا ہے ۔ سورہ النجم آیت نمبر-40 38-39 ’’وان لیس لل انسان اِلا ما مسعیٰ‘‘
ترجمہ ’’اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کو وہ کوشش کرتا ہے ‘‘ اس آیت کریمہ کی روشنی میں اگر ہم تھوڑا غور کریں اور اس کی گہرائی میں جائیں تو پتہ یہ چلتا ہے کہ جب تک انسان محنت نہیں کرتا اپنے کل کے لیے حکمت عملی تیار نہیں کرتا تو کامیابی کیسے مل سکتی ہے کامیابی کے لیے سعی یعنی محنت کی ضرورت ہے یہ آیت کریمہ اس بات پر توجہ مبذول کرواتی ہے یہ تقا ضہ کرتی ہے کہ ہمیں باہمی تعاون اور قومی اتحاد کی اشد ضرورت ہے دشمن قوتیں ہمیں لسان، علاقوں ،قوموں میں بانٹ رہی ہیں آج ہم صرف پاکستان کا نہیں سوچتے صرف اپنی ذات کی تسکین کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ روز محشر ہم سب نے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ، اللہ سبحان تعالیٰ پوچھیں گے کہ ہم نے جو تم کو عطا کیا وہ تو نے کیسے خرچ کیا جو وقت دیا وہ کیسے گذارا ، اگر ہم اپنے کام صرف ایمانداری ، خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ کریں تو وہ گذرا وقت بھی ہمارے لیے باعث رحمت ہوگا۔ ہمارے لیے پہلے پاکستان ہونا چاہیے پھر دوسری بات۔ سورہ النجم کی اگلی آیت میں اللہ کریم فرماتے ہیں ، ترجمہ ’’اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی، پھر اسے پور ا بدلہ دیا جائے گا‘‘ ان آیات کریمہ کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے ملک و قوم کے لیے جتنی دل و جان سے بہتری کی کوشش کریں گے اللہ ہمارے ملک پاکستان کے لیے آسانیاں اور ترقی کی راہیں کھولیں گے۔
جب قوموں میں تضاد اور برائیاں زیادہ ہو جاتی ہیں تو اللہ کریم اس علاقے پر اپنا عذاب نازل فرما دیتے ہیں ۔ یہ سارے مسائل صرف اسے لیے ہیں کہ ہم نے قرآن سے دوری اختیار کر لی اور اغیار کی گو د میں جا بیٹھے آج ہم قرآن پاک کی تعلیمات کو یکسر بھلا چکے ہیں اللہ تعالیٰ نے سورہ الدخان آیت نمبر 10-11 میں فرمایا۔’’ تو تم اس دن کے منتظر رہو جب آسمان ایک ظاہر دھواں لائے گا یہ ہے درد ناک عذاب‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت نمبر 15 ۔۔ ’’ ہم اس عذاب کو تھوڑی دیر کے لیے ہٹا دیں گے مگرتم پھر بھی وہی کرنے والے ہو‘‘۔
آج ہم طرح طرح کی آزمائشوں اور مصیبتوں میں گھرے ہوئے ہیں اپنے آپ کو درست کرنے کی بجائے دوسروں پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ ہم حکومت وقت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ وہ ملک کو قرضوں پر چلا رہے ہیں کبھی ہم نے یہ سوچا کہ جب ہماری آمدنی ایک سو روپے ہے اور ہمارا خرچہ ایک سو پچاس روپے تو ظاہر سی بات ہے ہمیں پچاس روپے قرضہ ہی لینا پڑے گا یہی حال ہمارے ملک کا ہے ہم دفتروں میں فیکٹریوں میں جہاں جہاں بھی روزگار کمار ہے ہیں کام ایمانداری سے نہیں کرتے پور وقت کام کو نہیں دیتے ، بلا وجہ اپنے ذاتی مفادات کو ملحوظ رکھ کرہرتالیں کر دیتے ہیں، راستے روکتے ہیں جس کے وجہ سے معیشت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے ادارے خسار ے میں چلے جاتے ہیں اور آخر میں ادارے کے مالکان کو قرضہ لینا پڑتا ہے جس کا بوجھ پاکستان کی معیشت پر پڑتا ہے اور حکومت وقت کو مجبوراََ قرضہ لینا پڑتا ہے اگر ہم اپنے حصے کا کام ایمانداری اور لگن سے کریں تو یقین مانیں پاکستان ترقی کرے گا اور کشکول خود بخود ٹوٹ جائے گا۔


مکمل تحریر >>