Monday 4 December 2017

کشکول توڑا جا سکتا ہے مگر کیسے؟ By M Tahir Tabassum Durrani


میرا نیا کالم۔کشکول توڑا جا سکتا ہے مگر کیسے؟ ایک بار ضرور پڑھیے گا اور اپنی آراء سے مستفید فرمایے گا۔۔
روزنامہ سماء لاہور

کشکول توڑا جا سکتا ہے مگر کیسے؟

جب سے پاکستا ن آزا د ہوا ہے اس اسلامی مملکت خداداد کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے غربت بے روزگاری، تعلیم کی کمی، دہشتگردی اور بے شمار مسائل ہیں جس کے وجہ سے ترقی کی پہیہ آہستگی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ بچپن سے سنتے پڑھتے آ رہے ہیں ملک میں ترقی کا پہیہ جام ہو چکا ہے ملک بیرونی امداد پر چل رہا ہے ، سیاست دان ملک لوٹ کر کھا گئے ، امیر امیر سے امیر تر ہو رہا ہے جبکہ غریب ، غریب سے غریب تر ہو تا چلا جا رہا ہے ۔ فلاں حکومت نے قومی خزانے کو خالی کر دیا فلاں حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد قوم بدحالی کا شکار ہو گئی۔ ایسے کئی سوال ہیں جو ہم بچپن سے سنتے آر ہے ہیں مگر صورت حال وہی ہے زندگی اپنی روانی سے آخرت کی طرف کا سفر کر رہی ہے ۔ بطور قوم ہم نے اخلاقیات اور اخلاص کا تو جنازہ ہی نکا ل دیا ہوا ہے ہم نے ڈگریاں بھی لے لی ہیں نام کے ساتھ انجینئر، ڈاکٹر بھی لگوا لیا ہے لیکن عمل سے خالی زندگی ہے۔دوسروں کو نیچا دکھانے کی خاطر ہم اپنا ایمان تک بیچ دیتے ہیں ۔ الزام تراشی کو ہم نے اپنا اشعار بنا رکھا ہے سب سے سبقت لے جانے کے دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ۔

سوشل میڈیا نے تو تمام حدیں ہی پار کر دی ہیں ہر سیاسی پارٹی کا ورکر دوسروں پرکیچڑ اچھالنے میں مشغول ہے اگر کوئی ایک کو بُرا سمجھتا ہے تو دوسرا دوسری پارٹی کو بُر ا سمجھتا ہے تو جناب عالی پھر کون سی سیاسی پارٹی ملک و قوم کی رہبر و رہنما ہے تو عرض یہ ہے کہ پہلے ملک و قوم کے لیے کام کر کے دکھائیں پھر بلند و باگ نعرے لگائیں۔ملک ترقی کی منزلوں کو تب ہی پارکر سکتا ہے جب تک ملک کا ہرفرد اپنے حصے کا کام مکمل نہیں کر لیتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ صرف حکومت وقت اپنے حصے کا کام درست نہیں کر رہی جس کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے کھڑا ہے جبکہ اگر غورسے اس مسلے کی طرف رجوع کریں اور اپنی آنکھوں پر سے انا کی پٹی اتار یں اور صرف ملک و قوم کے بارے سوچیں تو یقین مانیں ہم اپنے اندر خود شرمندہ ہوں گے کہ ہم بطور قوم بھی کچھ نہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔جبکہ اللہ کریم نے کامیابی کے لیے قرآن مجید میں واضع ارشاد فرمایا ہے ۔ سورہ النجم آیت نمبر-40 38-39 ’’وان لیس لل انسان اِلا ما مسعیٰ‘‘
ترجمہ ’’اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کو وہ کوشش کرتا ہے ‘‘ اس آیت کریمہ کی روشنی میں اگر ہم تھوڑا غور کریں اور اس کی گہرائی میں جائیں تو پتہ یہ چلتا ہے کہ جب تک انسان محنت نہیں کرتا اپنے کل کے لیے حکمت عملی تیار نہیں کرتا تو کامیابی کیسے مل سکتی ہے کامیابی کے لیے سعی یعنی محنت کی ضرورت ہے یہ آیت کریمہ اس بات پر توجہ مبذول کرواتی ہے یہ تقا ضہ کرتی ہے کہ ہمیں باہمی تعاون اور قومی اتحاد کی اشد ضرورت ہے دشمن قوتیں ہمیں لسان، علاقوں ،قوموں میں بانٹ رہی ہیں آج ہم صرف پاکستان کا نہیں سوچتے صرف اپنی ذات کی تسکین کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ روز محشر ہم سب نے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ، اللہ سبحان تعالیٰ پوچھیں گے کہ ہم نے جو تم کو عطا کیا وہ تو نے کیسے خرچ کیا جو وقت دیا وہ کیسے گذارا ، اگر ہم اپنے کام صرف ایمانداری ، خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ کریں تو وہ گذرا وقت بھی ہمارے لیے باعث رحمت ہوگا۔ ہمارے لیے پہلے پاکستان ہونا چاہیے پھر دوسری بات۔ سورہ النجم کی اگلی آیت میں اللہ کریم فرماتے ہیں ، ترجمہ ’’اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی، پھر اسے پور ا بدلہ دیا جائے گا‘‘ ان آیات کریمہ کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے ملک و قوم کے لیے جتنی دل و جان سے بہتری کی کوشش کریں گے اللہ ہمارے ملک پاکستان کے لیے آسانیاں اور ترقی کی راہیں کھولیں گے۔
جب قوموں میں تضاد اور برائیاں زیادہ ہو جاتی ہیں تو اللہ کریم اس علاقے پر اپنا عذاب نازل فرما دیتے ہیں ۔ یہ سارے مسائل صرف اسے لیے ہیں کہ ہم نے قرآن سے دوری اختیار کر لی اور اغیار کی گو د میں جا بیٹھے آج ہم قرآن پاک کی تعلیمات کو یکسر بھلا چکے ہیں اللہ تعالیٰ نے سورہ الدخان آیت نمبر 10-11 میں فرمایا۔’’ تو تم اس دن کے منتظر رہو جب آسمان ایک ظاہر دھواں لائے گا یہ ہے درد ناک عذاب‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت نمبر 15 ۔۔ ’’ ہم اس عذاب کو تھوڑی دیر کے لیے ہٹا دیں گے مگرتم پھر بھی وہی کرنے والے ہو‘‘۔
آج ہم طرح طرح کی آزمائشوں اور مصیبتوں میں گھرے ہوئے ہیں اپنے آپ کو درست کرنے کی بجائے دوسروں پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ ہم حکومت وقت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ وہ ملک کو قرضوں پر چلا رہے ہیں کبھی ہم نے یہ سوچا کہ جب ہماری آمدنی ایک سو روپے ہے اور ہمارا خرچہ ایک سو پچاس روپے تو ظاہر سی بات ہے ہمیں پچاس روپے قرضہ ہی لینا پڑے گا یہی حال ہمارے ملک کا ہے ہم دفتروں میں فیکٹریوں میں جہاں جہاں بھی روزگار کمار ہے ہیں کام ایمانداری سے نہیں کرتے پور وقت کام کو نہیں دیتے ، بلا وجہ اپنے ذاتی مفادات کو ملحوظ رکھ کرہرتالیں کر دیتے ہیں، راستے روکتے ہیں جس کے وجہ سے معیشت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے ادارے خسار ے میں چلے جاتے ہیں اور آخر میں ادارے کے مالکان کو قرضہ لینا پڑتا ہے جس کا بوجھ پاکستان کی معیشت پر پڑتا ہے اور حکومت وقت کو مجبوراََ قرضہ لینا پڑتا ہے اگر ہم اپنے حصے کا کام ایمانداری اور لگن سے کریں تو یقین مانیں پاکستان ترقی کرے گا اور کشکول خود بخود ٹوٹ جائے گا۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔