Wednesday 27 December 2017

عطا ء الحق قاسمی پروفیسر آف اُردو لٹریچر By M Tahir Tabassum Durrani



عطا ء الحق قاسمی پروفیسر آف اُردو لٹریچر

وہ ایک شخص کہ منزل بھی راستا بھی ہے
وہی دعا بھی وہی حاصل دعا بھی ہے ! عطاء

عطاء الحق قاسمی سے کو ن واقف نہیں ، وہ استاد بھی ہیں ، سفارتکار بھی ہیں ،مزاح نگار بھی ہیں ،کالمنگار 
بھی ہیں اُ رد و ادب کے ماہر بھی ۔ اُردو ادب میں وہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں ان کا نام ہی ان کی پہچان ہے اور سب سے بڑی بات وہ استاد ہیں کیوں کہ استا د کا رتبہ سب سے اعلیٰ و اکبر ہے ۔ وہ قومیں جو استاد کی عزت اور احترام نہیں کرتیں کبھی کامیابی کی منزلوں کو نہیں چھو سکتیں ۔استاد ہی کی وجہ سے انسان نے آسمان کی بلندیوں کو چھوا۔اسلام میں بھی استاد کا بہت ادب اور مقام ہے استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے ،مولا علی شیر خدا کا فرمان ہے ’’جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا میں اس کا غلام ہوں،چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے‘‘۔ اتنی بڑ ی ہستی کے اس فرمان سے ہمیں استاد کی عزت و احترام و مرتبے کا خوب اندازہ ہو جاتا ہے کہ استاد کا کتنا مقام ہے ۔آقا کریمﷺ نے خود کو معلم کہا اور صحابہ کرام رضوان اللہ آپ ﷺ کے شاگرد آپ کا کتنا احترام کرتے تھے ، استاد کی عزت اور قدر کرنے والوں میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان ہی دیکھ لیں جنہوں نے اپنے استاد کی عزت کی خاطر خود کو تکلیفوں میں رکھا اور پھر آج وہ کس مقام و مرتبے پر فائض ہیں ۔
ہارون الرشید خلیفہ وقت نے ایک بار امام مالک سے درخواست کی کہ مجھے حدیث پڑھا دیا کریں جس پر امام مالک فرماتے ہیں ’’علم کے پاس لوگ آتے ہیں ، علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا،تم کچھ سیکھنا چاہتے ہوتو میرے حلقہ درس میں آسکتے ہو‘‘
عطا ء الحق قاسمی پاکستان کا فخر ہیں انہوں نے اُردو ادب کی اشاعت و تبلیغ میں گراں خدمات پیش کی ہیں ، انہیں گورنمٹ آف پاکستان نے 1991ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے نواز ہ اور اس وقت کے صدر نے یہ ایوارڈ پیش کیا، ان کی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازہ گیا، 2014ء میں ان کی عزت افزائی میں ہلالِ امتیاز ایوارڈ صدر پاکستان جناب ممنوں حسین نے پیش کیا۔ ایسے لوگ کم ہی پیدا ہوتے ہیں قاسمی صاحب کی اردو ادب کے لیے خدمات کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے لیکن افسوس کچھ کم ظرف ان پر بہتان لگا کر اپنی دکان چمکانا چاہتے ہیں کچھ نااہل اور بے ادب لوگ جن کا ادب سے کوسوں واسطہ نہیں اور سستی شہرت کی خاطر ان کی شخصیت پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں ان کو پہلے اپنے گریبانوں میں دیکھنا چاہیے یہ وہ لوگ ہیں جن کے اپنے دامن کیچڑ سے بھرے ہوئے ہیں اور ایسے شفیق انسان ،خوش گفتاراور حلیم انسان پر بہتان اندازی کر رہے ہیں
قاسمی صاحب بھارت کے شہر امرتسر میں جب پاکستان ابھی آزاد نہیں ہوا تھا 1943ء میں پیدا ہوئے ان کے والد محترم ایک مذہبی شخص تھے جن کے نام مولانا بہاوالحق قاسمی امرتسر میں ایک معلم تھے ۔ پاکستان بننے کی بعد قاسمی صاحب کے والد پاکستان ہجر ت کرکے پنجاب کی شہر وزیر آباد میں آباد ہوئے جبکہ کہ بعد میں لاہو ر میں سکونت اختیار کی جہاں قاسمی صاحب نے اپنی ابتدا ئی تعلیم مکمل کی ۔ایم اے او کالج لاہور سے انہوں نے بی اے کی ڈگری مکمل کی ، اس کے بعد انہوں نے پاکستان کے معروف اردو اخبار میں بطور سب ایڈیٹر نوکری شروع کی اس اخبار کے ایڈیٹر جناب مجید نظامی صاحب تھے ۔ کچھ عرصہ بعد قاسمی صاحب نے بطور کالمنگار روزنامہ جنگ میں لکھنا شروع کردیا۔ ان کے لکھنے کا انداز دوسرے کالمنگاروں سے مختلف تھا آپ نے عوام کے سنجیدہ مسائل کو مزاحیہ انداز میں بیان کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کی اور مسلہ ارباب اختیار تک پہنچایا ، ان کا انداز بیان دھیمہ اور پر لطف ، اور مزاح مزاح میں دل کی بات کر دینے والا ۔ 1997 تے 1999ء تک وہ ناروے اور تھائی لینڈ کے سفیر کے طور پر بھی اپنی خدمات پیش کر چکے ہیں ۔ ان کے بے شمار کتابیں مارکیٹ اور اہل علم و دانش کی لائبریریوں کی زینت بن چکی ہیں، ہنسنا منع ہے، مزید گنجے فرشتے ، عطایئے ،شوقِ آوارگی اورگوروں کے دیس میں نے قارئین بہت مقبولیت حاصل کی اس کے بعد روزن دیوار سے ، دنیا خوبصور ت ہے ، جرم ظریفی، ملاقاتیں ادھوری ہیں، 1991ء میں دلی دور است اور ایسی بے شمار تصانیف ہیں جو ان کے مزاح اور لکھنے کی ترجمانی کرتی ہیں ان کے ٹی وی ڈرامے اپنی شناخت خود رکھتے ہیں ان کے مشہور ڈرامہ جات ’’خواجہ اینڈ سن، شب دیگ اور شیدا ٹلی نے شہرت کے جھنڈے گارھے ۔شاعری میں بھی قاسمی صاحب کا کوئی ہم پلہ نہیں انہوں نے اپنی منفرد شاعری سے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ۔
قومیں ہمیشہ اپنے ہیروز کو یاد کرتی ہیں ، ان کے کارناموں کو یاد کرتے ہوئے خیراج تحسین پیش کرتی ہیں ،لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا
پڑتا ہے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی روش نے ہمیں ایک دوسرے کی احترام اور عزت کو بھی بھلا دیا ہے ۔ہم قدر نا قدرے اور خود غرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں استاد کی عزت کرنا بھی نہیں آتی ، ہم اکثر ہمسایہ ملک کی نقل کرتے ہیں لیکن وہ تو اپنے فلمی ہیروز کو بھی اتنی عزت دیتے ہیں کہ تاریخ میں ایسی نظیر نہیں ملتی ادھر ہم وہ ہیں جو صرف چڑھتے سورج کے پجاری ہیں جب قاسمی صاحب برسر اقتدار تھے تو کسی کی جرت نہ تھی ان کی بارے ایک لفظ بھی نکا ل سکے لیکن جیسے انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا مخالفین نے بغلیں بجانا شروع کر دیں۔لیکن آخر میں ایک بات ضرور کروں گا، یہ مقافات عمل ہے ، جو کرو گے وہ بھرو گے آج اگر ہم اپنے سینئرز کی عزت نہیں کریں گے اپنے بڑوں کے ساتھ شفقت اور احترام سے پیش نہیں آئیں گے تو آنے والا کل ہمارے ساتھ بھی یہی ہونے جا رہا ہے بس وقت کا انتظار کریں۔



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔