Tuesday 2 May 2017

تبدیلی کھوکھلے دعوؤں اور دھرنوں سے نہیں آتی by M Tahir Tabassum Durrani


http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/05-05-2017/details.aspx?id=p13_09.jpg

تبدیلی کھوکھلے دعوؤں اور دھرنوں سے نہیں آتی

سورۃ الحجرات میں اللہ تبارک و تعالی ٰ کا فرمان ہے ۔اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دواور پھر اپنے کیے پرنادم ہونا پڑے۔مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں،تو اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جا ئے۔
بڑے نصیبوں والی وہ قوم ہوتی ہے جس کے حب الوطن اور وسیع النظر لیڈر میسر آتے ہیں کیوں کہ قومیں لیڈروں کے وژن سے بنتی ہیں۔ لیڈر ہی کسی قوم کو بلندیوں تک پہنچاتے ہیں اور لیڈر ہی قوموں کے زوال کے سبب بنتے ہیں۔پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے اور اس وقت اس ملک میں بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں جو پاکستان کی عوام کی قیادت کر رہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین،پاکستان پیپلزپارٹی (شہید بھٹو) پاکستان تحریک انصاف۔عوامی نیشنل پارٹی،جماعت اسلامی پاکستان،جماعت اسلامی پاکستان (ف)متحدہ وقومی مومنٹ ، پاکستان عوامی تحریک اور پاک سر زمین۔دیکھا جائے تو سبھی جماعتوں کا اپنا اپنا وژن ہے جس کے مطابق وہ کام کر رہی ہیں لیکن جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے سرفہرست دوبڑی جماعتیں ہی رہیں ہے جو کبھی اقتدار میں تو کبھی اپوزیشن میں رہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی 30 نومبر 1967ء کو معرض وجود میں آئی اور حکومت کا حصہ رہی ہے اور عوام میں بے حد مقبول رہی ہے ، اس کے بعد ایک ایسی جماعت معرض وجود میں آئی جس نے نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کی یہ جماعت 25اپریل 1996ء کو معرض وجود میں آئی ۔2013ء کے جنرل الیکشن میں ایسا لگ رہا تھا جیسے کلین سویپ کر دی گے مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی اور ناکامی کا سامنہ رہا اور اس بار بھاری مینڈیٹ سے پاکستان مسلم لیگ (نون)نے میدان مار لیااور پاکستان تحریک انصاف کو خیبر پختوں خواہ میں حکومت ملی ، لیکن وہ ڈیلور کرنے میں بھی ناکام رہی ۔آئے روز دھرنے ، جلسے جلوسوں نے اس کی ساخت کو بہت نقصان پہنچایا جس کی ذمہ داری بھی اس کی لیڈر شپ کو جاتی ہے۔ مسٹر خان نے الزامات کی بنیادپر عوامی نمائندہ جماعت جس کو عوام نے بھاری مینڈیٹ سے اپنا رہبر و رہنما چنا اسے گرانے کے لیے پے در پے وار کرنے شروع کر دیے اور حکومتِ وقت کو خوب نشانہ بنایا۔ پاکستان اس وقت ترقی کی راہوں پر گامزن ہو چکا ہے اور انشاء اللہ بہت جلد ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) کے نظریات یا ذاتیات کے ساتھ اختلاف ہوسکتا ہے ۔ لیکن ایک بات ماننا پڑے گی جب بھی بر سراقتدار آئے ہیں ملک میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آئی ہے ۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے مو جودہ حکومت بھر پو ر انداز میں کوشش کر رہی ہے اور پاور پلانٹس کی تنصیب کا کام تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔تبدیلی کھوکھلے نعروں اور دعوؤں سے نہیں آتی اس کے لیے عملی طور پر کام کر کے دکھانا پڑتا ہے ۔ صرف سڑکوں پرعوام کودر بدرکر کے تبدیلی نہیں آنے والی بلکہ پارلیمنٹ میں مل بیٹھ کر قوانین بنا کر عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہیے۔ کبھی پانامہ کا شور مچا کر عوام کو بیوقوف بنایا تو کبھی کوئی الزام لگا کر عوام کو لال بتی کے پیچھے لگا کر وقت ضائع کیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا کیس تھا جس میں دونوں فریقین کیس کی سماعت میں پیش پیش رہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور ہر روز کیس کی سماعت کے دوران بولے جانے والے ڈائیلاگز کو بریکنگ نیوزکے طور پر پیش کیا ، اخبارات کو بھی خوب شہ سرخیاں ملتی رہیں اور عوام میں بھی بے چینی پنپتی رہی۔پانامہ کا فیصلہ آنے سے پہلے تمام پارٹیوں کااتفاق تھاکہ معزز عدلیہ جو بھی فیصلہ دے گی سب اس کو قبول کریں گے جب معزز عدالت نے اپنا فیصلہ سنا یا تو پہلے سب نے لڈیاں ڈالیں لیکن جیسے وقت گذرا عدالت عالیہ کے فیصلے کے بر عکس بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوگیایقیناََ عدلیہ کے فیصلے پر اعتراض کرنا معزز جج صاحبان کی نیت پر شک کرنے اور عدالت پر کڑی ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ ابھی کوئی نہیں جانتاکہ کس کو فائدہ ہوا اور کس کو نقصان یہ وقت بتائے گا۔ مسٹرخان نے ایک اور یوٹرن لیا اور فرمانے لگے ہمیں عدالت کے فیصلے پر شک نہیں بلکہ دو جج صاحبان نے میاں صاحب کو نااہل قرار دیا ہے اس پر زور دے رہے ہیں۔اب ان کو کون سمجھائے جب آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور آپ خود فرماتے ہیں جمہوریت اکثریت رائے کی پابند ہے یعنی جدھر اکثریت ہوگی وہی فیصلہ منظور کیا جائے گا ، جب تین معزز جج صاحبان نے ان کے حق میں فیصلہ دیا تو دیدہ دلی سے فیصلے کو مان کر ایک تاریخ رقم کرتے اور آنے والے الیکشن کی تیاری کرتے تا کہ عوام میں ان کو خاص اہمیت حاصل ہوتی، اگلے دن پھر ایک نیا الزام لگا دیا گیا کہ مجھے خاموش کرنے کے لیے 10 ارب روپے کی آفر کرائی جارہی ہے۔ اتنا بڑا لیڈر اور ایسی باتیں ، قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد ان کی شخصیت کے بالکل منافی ہے ۔ جیسا وہ پانامہ کیس میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکے۔حال ہی میں اتنا بڑا الزام ایک منتخب وزیر اعظم پر لگانا کوئی اچھی روش نہیں اور یقیناََ وہ اس الزام کا دفاع کرنے میں بھی ناکام رہیں گے۔خود مہینوں دھرنا دیں اور اگر ملک و قوم کے معمار اساتذہ اپنا حق مانگنے کے لیے ایک دن دھرنا دیں تو سکول سے غیر حاضری پر طالبعلموں کا دن ضائع ہوتا ہے اور ان کی ایک دن کی تنخواہ کاٹنے کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے ، وہ کیا عجب منطق ہے ۔ لا ہور میٹرو بس کو جنگلہ بس کہنے والے خود ایسے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ خادم اعلیٰ کے منصوبوں سے کس قدر اتفاق کرتے ہیں لیکن ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
سادگی اور سٹیٹس کے خاتمے کا نعرہ لگانے والے خود اپنے اردگرد نہیں دیکھتے کتنے غریب لوگ ہیں جو ان کی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر ہیں،24 اپریل 2017 ء ایک نجی اخبار کے مطابق اب جناب مصطفےٰ کھر صاحب بھی پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کھر صاحب ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور پنجاب کے گورنر کی حیثیت سے اپنی خدمات ادا کر چکے ہیں لیکن ان کا پی ٹی آئی میں شامل ہونا اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی بھی اب صرف اشرافیہ کی جماعت ہے اور اپنے وژن سے کوسوں دور دیکھائی دے رہی ہے اور عوام بھی فیصلہ کر چکی کی آئندہ کس کو ووٹ دینا ہے ۔ کون سی جماعت خالی کھوکھلے نعرے لگا کر عوام کو بیواقوف بنا رہی ہے اب عوام سڑکوں پر خوار ہونے کبھی نہیں نکلے گی ۔عوام نعروں،جلسے جلوسوں اور دھرنوں کی سیاست کو دفنا چکی ہے ۔اب عوام میں شعور پیدا ہو چکا ہے کہ اب وہی برسر اقتدار آئے گا جو صحیح معنوں میں عوام کے مسائل کو حل کرے گا۔ عوام کو ریلف دے گا اور عوام کے لیے فلاحی منصوبے بنائے گا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔