Thursday 13 April 2017

کتابیں فرش پر اور جوتے شو کیس میں by M Tahir Tabassum Durrani


کتابیں فرش پر اور جوتے شو کیس میں

سکول کے زمانے میں علم بڑی دولت ہے کا مضمون پڑھایا جاتا تھا، علم ایک قوت ہے علم کے ذریعے ہمیں صرف مادی دولت ہی نہیں بلکہ روحانی سکون بھی ملتا ہے ، علم ایک زیور ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتاہر مذہب میں علم حاصل کر نے کو ایک اہمیت حاصل ہے اور ہمارے مذہب میں علم حاصل کرنا فر ض قرار دیا گیا ہے ۔علم کے بغیر کوئی انسان اپنی ذات کو بھی نہیں پہچان سکتا اور یوں اپنے مقصد حیات سے بھی بے خبر رہتا ہے علم سے ہی انسان نے اپنے رب کو پہچانا، علم حا صل کر کے انسان اپنی، اپنے معاشرے اور قوم کی بہتری کا سبب بن سکتا ہے ۔یہ علم ہی ہے جس کے ذریعے انسان نے سمندروں کو چیرنا سیکھا ہواؤں میں اُڑنا سیکھا میلوں دور بیٹھے انسان سے قربت حاصل کی۔کسی ملک کے سیاسی نظام میں استحکام ، اداروں میں مضبوطی ، ثقافتی ، معاشرتی ترقی صرف اور صرف علم حاصل کرنے کے راز میں پنہاں ہے علم کے بغیر کسی معاشرے کی ترقی ناممکن ہے اور لوگوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کا شعور علم کے بغیر ناممکن ہے۔
لاہور کو ادب کے حوالے سے بھی بہت زیادہ اہمیت ہے ، لاہور علماء ، مذہبی ، ادبی، تعلیمی، سیاسی الغرض تمام شعبوں کا گھر ہے ۔ یہاں بہت بڑے بڑے نامور دانشوروں نے اپنی تخلیقا ت سے لوگوں میں علم و ادب کی شمعیں روشن کیں۔ان میں ایک ایسا شخص بھی گزرا ہے جسے پاکستان کا انقلابی شاعر کہتے ہیں۔ اس عظیم شاعر کو جناب فیض احمد فیض نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ حبیب جالب ہی عوام کے صحیح نمائندہ شاعر ہیں جو نہ ڈرتے ہیں نہ جھکتے ہیں۔لاہور کے مشہور مال روڈ پر پاک ٹی ہاؤس کو ادبی لحاظ سے بہت اہمیت حاصل ہے یہاں پر بڑے بڑے شاعر ، ادیب ، دانشور اور ادبی شخصیات بیٹھ کر اپنی تخلیقا ت ایک دوسرے کودکھا کر سناکر داد وصول کرتے اور چائے کی چسکیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو، ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی اور فیض احمد فیض ایک ساتھ بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے۔ پاک ٹی ہاؤس کی تاریخ پاکستان کی تاریخ سے تھوڑی زیادہ پرانی ہے۔ پاک ٹی ہاؤس 1940ء میں ایک سکھ خاندان نے چائے کا ڈھابا بنایا تھا جہاں ادبی علمی شخصیات اکثر و بیشتر آتی تھیں۔ اس ڈھابا نے بہت جلد موجو دہ نام کو حاصل کر لیا۔
کل میں پاک ٹی ہاؤس میں ایک دوست کے ساتھ بیٹھ کر کچھ ادبی گفتگو کر رہا تھا کچھ سیکھنے کی بات کر رہا تھا تو میں نے وہاں پر احمد ندیم قاسمی اور دیگر ادبی لوگوں کی تصاویر دیکھیں ، یقیناََہم جیسے طفل مکتب کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔لیکن ایک چیز دیکھ کر بہت دکھ ہوا جب چائے پینے کے بعد واپس آرہے تھے ان اتنے بڑے بڑے نامور شخصیات کی کتابیں زمیں پر پڑی تھیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ ایک کالم لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تو اتنی بڑی بڑی شہرہ آفاق کتابیں جو کتنی عرق ریزی سے شائع کرائی ہونگی ۔ کتنی محنت اور لگن سے کام کیا ہوگا، لیکن آ ج وہ مال روڈپر گرد میں لپٹی زمین (فٹ پاتھ)پر پڑی اس قوم سے سوال کر رہی ہیں ، کیا ایسی قومیں ترقی کرتی ہیں؟ جن کی اتنی نایاب کتابیں زمین پر پڑی ہوں اور پاؤں کی زنیت بننے والے جوتے شیشے کے شو کیس میں سجائے گئے ہوں۔کتنے افسو س کی بات ہے کتابیں جو ہمیں علم کی روشنی سے مستفید کرتی ہیں وہ زمیں پر کھلی فضا میں گَر د میں لپٹی پڑی ہوں اور جوتوں کو چمکدار شیشوں کے اندرطرح طرح کی روشنیوں میں سجا کر رکھا ہو۔
کیا ہم بحیثیت قوم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمیں نہ علم کی قدر، نہ استاد کی عزت اور نہ کتاب کی عظمت کا خیال ۔ہم ایک دوسرے پر تنقید برائے تنقید کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم دوسر وں کو تو سدھارنا چاہتے ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانکنا تک گوارہ نہیں کرتے ۔ ہم دوسروں کی تو اصلا ح کرنا چاہتے ہیں مگر اپنی ڈوبتی نہیا کو نہیں دیکھنا چاہتے ۔ دشمن اپنے مضموم ارادوں میں کامیاب ہوتا چلا جا رہا ہے ہم ابھی تک ایک قوم نہیں بن سکے۔ہم اپنے لیڈرز کوبدلنا چاہتے ہیں ، مگر اپنے آپ کو نہیں۔تبدیلی نظام بدلنے سے یا لیڈرز بدلنے سے نہیں آنے والی تبدیلی خود کو بدلنے سے آئے گی۔علم کی آگاہی اور شعور سے ہی ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ممکن ہے ۔
کتنے افسو س کی بات ہے نہ حقو ق العباد کی فکر ، نہ فکرِ آخرت لیکن آرزو جنت الفردوس کی، ہمیشہ وہ قومیں ترقی کی منزلوں کو چھوتی ہیں جو علم کی دولت سے مالا مال ہوتی ہیں۔جو اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں ۔علم کی افادیت سے کون انکار کر سکتا ہے زمانہ قدیم سے دور حاضر تک ہر متمدن و مہذب معاشرہ علم کی اہمیت سے آگاہ ہے۔اسلام نے بھی علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ہمارے پیارے کریم آقا ﷺ نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔اتنی بڑی بڑی کتابیں پڑھ کربڑی بڑی ڈگری حاصل کر نے کے باوجود اگر شعور حاصل نہ کیا تو صرف کاغذ کے ٹکڑے اکھٹے کرنے کے سوا کچھ نہ کیا۔ آج ہم ذوال کی دلدل میں دھنستے جار رہے ہیں ، مصیبتوں ، پریشانیوں نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال رکھا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ علم کی دولت سے دوری اور کتابوں کے ساتھ بے وفائی ہے ۔ ہماری ایک بد قسمتی یہ بھی ہے پہلے سکول علم کے ساتھ شعور بھی پیداکرتے تھے مگر اب درسگاہیں صرف کاروبار کا زریعہ بن گئیں ہیں۔ کچھ عناصرتعلیم کے دشمن بن گئے ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق کررہے ہیں۔ ایک مرتبہ شیخ سعدی نے علم کی اہمیت کے بارے بہت خوبصورت انداز میں فرمایا جس آدمی میں علم نہیں وہ آدمی نہیں جانور ہے۔ اور جس گھر میں کوئی علم والا نہیں وہ گھر نہیں جانوروں کا دربار ہے۔اور جس ملک میں علم کا رواج نہیں وہ ملک نہیں حیوانات کا جنگل ہے۔ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے اور بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسی قوم جو کتاب کی افادیت اور علم کی دولت کو پاؤں کے تلے روندتی ہے اور جوتوں کو سروں پر سجاتی ہے ایسی قوم کو کتابوں کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔