Sunday 5 March 2017

پی ایس ایل فائنل ہنگامہ ویلڈن خادم اعلیٰ by M Tahir Tabassum Durrani



پی ایس ایل فائنل ہنگامہ ویلڈن خادم اعلیٰ
پھر سیٹی بجے گی
سٹیج سجے گا
اور تالی بجے گی
اب کھیل جمے گا
جی ہاں یہ ہیں وہ الفاظ جس نے پاکستانی قوم کا حو صلہ بڑھایا ۔ ایک ولو لہ اور جوش پیدا کیا، پاکستانی ایک زندہ قوم ہیں یہاں کے مرد عورت بچہ بوڑھا سب کرکٹ کے دیوانے ہیں۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں وہ زندہ دلی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ جیسے ہرچیزکا ایک دل ہوتا ہے ایسے ہی پاکستان کا بھی دل ہے اور وہ دل ہے لاہور۔: ایویں تے نیئی کیندے لاہور لاہوراے: لاہوریے اپنی مہمان نوازی میں پور ی دنیامیں مشہور ہیں۔میں نے ایک بات نوٹ کی ہے لاہورمیں کوئی بھی تقریب ہو کوئی بھی موقع ہو ، لاہوریے اس میں بڑھ چڑھ حصہ لیتے ہیں۔شب قدر ہو یاشب برات ، راتوں کونماز، قیام الیل، نوافل اور دیگر محافل کا بندوبست کیا جاتا ہے ، محرم الحرام میں اس کے تقدس اور احترام میں کھانے پینے لنگر نذر و نیاز کا اہتمام کرتے ہیں، 12ربیع الاول شریف پر گلیوں بازاروں کو دلہن کے طرح سجانے کے ساتھ ساتھ لنگر کا وسیع انتظام کر تے ہیں الغرض کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تو کیسے ممکن ہے ہر دل عزیز کھیل کا موقع ہو اور لاہوریے کسی سے پیچھے رہ جائیں اتنی گھمبیر صورت حال جب ہرطرف دھماکو ں کا خوف ہو، ملک میں سات دنوں میں متعدد دھماکے ہو چکے ہوں جہاں لوگ گھروں تک محصورہوکر رہ گئے ہوں، لوگ باہر نکلناہی نہ چاہتے ہوں وہاں ایک ہی رات میں کرکٹ کے میدان میں سیٹی بجانے سٹیج سجانے 
، تالی بجانے اور کھیل جمانے کے لیے بیچے جانے والے ٹکٹس فوراََ بک جائیں اور sold out (سب بِک گیا)کا بورڈ آویزاں کرنا پڑے وہاں اس زند ہ قوم کو 21 توپوں کی سلامی تو بنتی ہے ۔ جیسے ہی حکومت وقت نے اعلان کیا کہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل میچ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا لوگوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی جیسے مردہ جسم میں جان آگئی ۔ اپنے پسند کے ہیروز کی شرٹس کی خریداری میں دیوانہ وار لوگ چل نکلے ، خواتین نے اپنے بناؤ سنگھار کے لیے بیوٹی سیلونز کا رخ کر لیا کسی نے اپنے چہرے پر اپنے پسند کی ٹیم کا لوگو بنوایا تو کسی نے پاکستان کا جھنڈا پینٹ کروایا۔ خواتین کا جوش و خروش دیدنی تھا لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بڑی بڑی ٹی وی سکرین لگا کر اس پروگرام کا کامیا ب بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لاہو کی ر سڑکوں پر برقی قمقمے لگا کر دلہن کی طرح سجایا گیا۔ امن کے دشمنوں کے منہ پر ایک تماچہ ہے پوری دنیا کو ایک واضع پیغام جاتا ہے پاکستانی نڈر اور امن پسند قوم ہے ۔
عالمی دہشتگردی کا اگر ریکارڈ دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دہشتگردی کی لسٹ میں پاکستان 13 ویں نمبر پر آتا ہے جبکہ بھارت کا نمبر16وان ہے اس طرح اگر دیکھا جائے تو بھارت کا پاکستان سے صرف دو نمبر کا فرق ہے اور بھارت باتیں ایسے کرتا ہے جیسے اس جیسا کوئی امن پسند اور پُر امن ملک ہی نہیں اور دہشتگر دی کی لسٹ میں شامل ہی نہ ہو۔حالانکہ بم دھماکے وہاں پر بھی ہوتے ہیں لیکن آی پی ایل کا پور ا یونٹ انڈیا میں ہوتا ہے یہاں تک کہ ورلڈ کپ تک کے میچز بھی انڈیا میں ہوتے ہیں تب نہ تو غیرملکی کھلاڑیوں کو کوئی مسلہ پیش آتا ہے بلکہ وہ یہاں آنا پسند کرتے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ تھائی لینڈ میں بھی دھماکے ہوتے ہیں تو کیا وہاں سیرو سیاحت بند ہوجاتی ہے ۔ اس صورت حا ل کو دیکھا جائے تو کیا یہ صرف پاکستان میں کرکٹ کو ختم کرنے کی سازش تو نہیں؟ حال ہی میں عمران خان صاحب نے ایک بیان دیا کہ پی ایس ایل کا فائنل پاکستان میں کرانا ایک پاگل پن ہے ۔ ان کی بات اپنی جگہ شائد وہ ملک میں امن و امان کی صورت حال سے مطمعن نہ ہوں اس لیے وہ ایسا کہہ رہے ہوں ۔ لیکن جناب عمران خان صاحب بھارت میں بھی دھماکے ہوتے ہیں لیکن وہاں کی کرکٹ بحال ہے کوئی گراؤنڈ سنسان نہیں۔وہاں پر جب کسی علاقے میں میچ ہوتا ہے تو پور ا پور ا علاقہ سیل (close) کر دیا جاتا ہے ۔ جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو پورا گھر اس تکلیف کو برداشت کرتا ہے سب مل کر اس کا مقابلہ کرتے ہیں اکیلا انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہوتو پورا جسم درد کی شدت محسو س کرتا ہے ۔ علاج کرانے کے کچھ عرصہ بعد ہی صحت بحال ہوتی ہے ۔
ملک میں امن قائم کرنے کے لیے موجودہ حکومت کی کوششوں کی تعریف کرنی چاہیے ۔دشمن کے مذموم عزائم و ناپاک ارادوں کو مٹانے کے لیے اپنے ذاتیات سے بالا تر ہو کرہمیں متحد ہونا ہوگا ۔ خادم اعلیٰ کی پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہورمیں کروانے، غیرملکی کھلاڑی جن میں ڈیرن سیمی، مارلن سموئل،ڈیود میلان،مورگن اور کرس جورڈن کو مطمعن کرنے اور آسٹریلوی کمنٹیٹرز کو پاکستان لانے پر ان کی محنت، لگن اور ایمانداری پر شک کرنا سرا سر زیادتی ہوگی۔ انہوں نے نیک نیتی کے ساتھ ملک میں کرکٹ کی بحالی کے لیے کام کیا،اور انہوں نے عسکری قیادت کے راہنماؤں کے ساتھ مشاورت کرنے کے بعد فائنل میچ لاہور میں کرانے کا فیصلہ کیا۔ الغرض گھر کے حالا ت جیسے بھی ہوں، مہمان نوازی میں کبھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑنی چاہیے ۔لوگ ہمیشہ تنقید ہی کرتے ہیں لیکن جو اچھا کام کر رہا ہو ا سکی بلاشبہ (appreciate) تعریف کرنی چاہیے۔خادم اعلی اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب اور دیگر ادارو ن کے سربراہان نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں دن رات ایک کر کے محنت کی جس کی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے۔
بالاآخر وہ دن آگیا جس کا انتظار تھا، سٹیج بھی سجاسیٹی بھی بجی اور کھیل بھی جما ۔چچا کرکٹ اور چاچا ٹی 20 نے بھی میچ گرمایا ۔ علی ظفر نے براہ راست سیٹی بجا کر شائقین کرکٹ کے دل جیت لیے۔ فاخر ، علی عظمت نے بھی میلا لوٹا، تقریب کے شروع میں پاکستان کے عظیم شہدا کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ سیاسی راہنماؤں نے عوام میں بیٹھ کر میچ کا نظاراکیا، حکومت پنجاب نے اس ایونٹ کو کامیاب بناکر پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھولنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔شائقین کو کسی بھی پریشانی سے بچنے کے لیے بہتر سے بہتر حکمت عملی سے کام لیا، شائقین کے لیے پارکنگ سے 36 شٹل بسیں چلائی گئیں۔ شائقین کرکٹ کی راہنمائی کے لیے شٹل سروس پر ہدایات نامہ بھی آویزاں کیا جس پر گیٹ نمبر ،انکلوژردرج تھا، بزرگ شہریوں کے لیے گیٹ نمبر اور گیٹ کا نام درج تھے ،خصوصی افراد کے لیے ماجد خان گیٹ مختص کیا گیا۔ اس بار فتح کا سہرا پشاور زلمی کے سر رہا، غیرملکی کھلاڑی اور پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی نے پاکستان کی سکیورٹی کو سہراہا اور دوسرے غیرملکی کھلاڑیوں کا پاکستان آنے کی دعو ت دی انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان کے لوگ بہت خوش مزاج اور دوستانہ ہیں انہیں بالکل کوئی خوف خطرہ محسوس نہیں ہوا۔اس بار پاکستانی بلے باز کامران اکمل نے میدان مارا جنہوں نے اس ایونٹ میں سب سے زیادہ رنز بنائے کپتان ڈیرن سیمی مین آف دی میچ قرار پائے۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور غیرملکی چینل ٹین سپورٹ (ten sports)کے شکریہ جنہوں نے اس میچ کو براہ راست دیکھا کر شائقین کرکٹ کے دلوں میں اپنے نقش اتار دیے ۔
بقول شاعر۔
ؔ ؔ تندیِ بادِمخالف سے نہ گھبرا ائے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔