Tuesday 13 October 2015

میٹرو سرکار اک نظر ادھر بھی

کل ایک عمر رسیدہ خاتون میرے گھر کے سامنے سے گذر رہی تھیں ۔ مجھے دیکھا اور رُک کر کہا اللہ کے نام پر دس روپے یا کھانا کھلا دو بیٹا۔ میں نے ادب سے ان کو اندر آنے کو کہاتو انہوں نے اندر آنے سے معذرت کی اور کہا میری بیساکھیاں مجھے اندر آنے سے روک رہیں ہیں میں بیٹا اندر نہیں آ سکتی۔بیٹا آپ میر ی مدد کر سکتے ہیں تو کر دیں۔ان کا لہجہ دھیما آواز کانپ رہی تھی اور آنکھوں میں ہزاروں سوال۔ میں نے کرسی باہر منگوائی اور اُن کو بیٹھا دیا۔ تازہ کھانا کھلایا جب وہ کھانا کھا چُکیں تو میں نے نرم اور دھیمے لہجے میں عرض کی ماں جی اگر برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں۔ آپ پیشہ ور بھیکاری نہیں لگ رہیں ابھی اتنا ہی کہا تو ان کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو جاری ہو گئے ۔ میں نے معذرت کی اور کہا میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں اور معافی چاہتا ہوں آپ کو بُرا لگا۔ تو انہوں نے کہا بیٹا میں سچ میں کوئی پیشہ ور بھیکاری نہیں ہوں وقت اور حالات کی ماری ہوں، درد بھر ے لہجے میں ٹھنڈی آہ بھر ی اور کہا ایک وقت تھا جب میں خود لوگوں کو خیرات صدقات اور زکوٰۃ دیا کرتی تھی اور آج ایک بھیکارن۔
وہ بتاتی ہیں ان کے شوہر کی اپنی وین (گاڑی)ہوا کرتی تھی اپنا گھر تھا ایک حصہ کرائے پر دیا ہواتھا۔ پھر ان کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ علیل ہو گیا، علاج معالجہ میں ان کی وین بک گئی گھر گروی رکھ کر علاج کروایا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظورتھا، ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا، اس کے دو بیٹے تھے جو نشے میں لگ گئے اور دن بدن فاقوں نے ڈیرے ڈالنے شروع کر دیئے غربت اپنے عروج پر آگئی تو بوڑھی ماں جی کی ٹانگیں کام کرنا چھوڑ گیءں بیساکھیاں مقدر بن گییں ٹانگوں کا علاج کروایا چلنا پھرنا شروع ہو گییں کہ ایک دن ایک ون ویلر موٹر سایئکل والے نے ٹکر ماردی جس سے ان کے آپریشن پر گہرا ثر پڑا اور وہ پھر بیساکھیوں پر آگیءں۔ آج وہ کسمپرسی کی زندگی گذار رہی ہیں۔ ایک قدم بھی چلنا دشوار ہو گیا ہے ، میں شائد یقین نہ کرتا مگر سامنے والے گھر کی ایک بوڑھی خاتون نے اسکی کی اس کہا نی کی تصدیق کر دی اور کہا بیٹا قدرت کے کیا کرشمے ہیں، چاہے تو بادشاہ کو فقیر اور رفقیر کو بادشاہ بنا دے اس کے بھی آنسو جاری ہو گئے۔
میں یہ سب آ پ تک اس لیے نہیں پہنچا رہا کہ میں نے کوئی نیکی کی بلکہ اس لیئے کہ ہمارے معاشرے کتنے ایسے لوگ موجود ہیں اور ہمارے پاس ان کی بات سننے کے لیئے وقت نہیں ۔ ہم کتنے بے حس ہو گئے ہیں مدد کرنے کی بجائے تصویریں بنا رہے ہوتے ہیں اس لئے کہ ہم
نے سٹییٹس اپ ڈیٹ کرنا ہوتا ہے۔
کبھی ہم نے سوچا ہمارے پاس سب کچھ ہوتا ہے اور ہماری زبان نا شکری کے الفاظ بولتے تھکتی نہیں ۔ اتنی نعمتیں ہونے کے باوجود اگر کوئی ایک خواہش پوری نہ ہوتو ہم معاذاللہ کفریا الفاظ تک بول جاتے ہیں ۔ میری تو قسمت ہی خراب ہے، کبھی خود پہ ہی غور کر لیں، ہاتھ پاؤں آنکھ ناک کان اورزبان سب اللہ کی نعمتیں ہیں اگر ان کا شکر بجا لائیں تو ہماری آخرت اور دنیا دونوں سنور جائیں۔
اور اس اماں جی کا حوصلہ دیکھیں ، بیٹا میں اس کی رضا پر خوش ہوں، وہ میرا اللہ ہے میرا مالک ہے میں تو اس کا نا چیز بندہ ٹھہری ، شکر ہے رب ذولجلال کا جس نے مجھے یاد رکھا ۔ آے اللہ ہم سب کو اپنا شکرگذاربندہ بنا دے آمین۔
محمد طاہر تبسم درانی

1 comments:

Zeeshan Nasir نے لکھا ہے کہ

Wonderful Tahir sb

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔