Tuesday 13 October 2015

رانگ ک

رانگ کال
چھٹی کا دن تھا گھر آرام کر رہا تھا گھنٹی بجی، بیوی سے کہا یا ر دروازے پہ دیکھوکون آیا ہے وہ چائے پی رہی تھی تھوڑے تیور بدلے اور کہا :اچھا جاتی ہوں: آواز آئی سنئیے کوئی صاحب آپ کا پوچھ رہے ہیں میں نے دروازہ کھولا سامنے بہت پرانا دوست تھا،دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا، میرا چھوٹا سا گھر ہے لہذا گیراج میں ہی پلاسٹک کی کرسیاں اور میز لگائی اور ڈرایئنگ روم بنا لیا۔میں بہت خوش تھا لیکن میرے دوست کے چہرے پر خوشی نظر نہیں آرہی تھی میں نے چائے اور بوتل کا بیوی سے کہا اور ہم باتیں کرنا شروع ہو گئے ، میں نے بے ساختگی میں پوچھ ہی لیا ،جناب کیا با ت ہے �آپ سے اتنے عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے لیکن آپ کو خوشی نہیں ہوئی؟ ابھی اتنی بات ہی کی کہ اُس کی آنکھوں سے بڑے بڑے آنسوٹپکنے لگے، یوں لگا جیسے میرا پوچھنا اسے پسند نہ آیا ہو میں نے کہا میرے دوست اگر میری بات بُری لگی تو میں معذرت کرتا ہوں ، لو بوتل پیو، وہ کچھ پریشان تھا اُس کی آنکھوں میں بہت سے سوال تھے،میں نے اسے تسلی دی اور کہا معاملہ کیا ہے ؟ کیوں پریشان ہو؟ ابھی بات مکمل نہیں ہوئی تھی وہ بے ساختہ رونے لگا ،اس کے خواب جیسے بکھر گئے ہوں، ارمانوں کا خون ہو گیا ہو، خوشیان چکنا چور ہو گییں ہوں ،میں نے کہا بڑ ے افسوس کی بات ہے تم شادی شدہ ہو ایک بچہ ہے بیوی ہے گھر بار نوکری سب کچھ تو ہے پھر اس طرح رونے دھونے کی کیا وجہ ہے بے حد اصرار پر اُس نے بتایا۔۔۔۔۔
چھ سال پہلے مجھے آفس میں ایک کال آئی تھی ، اور وہ دیھمے لہجے میں بولی مجھے نوکری کی تلاش ہے آپ میر ی مدد کر سکتے ہو؟ میں نے کہا میڈم میںآپ کو جانتا تک نہیں نوکری کیسے دلا سکتا ہوں وہ بولی جان پہچان بات کرنے سے ہو ہی جاتی ہے ، اس کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔اس کی آوا ز میں کمال کا جادُد تھا دوسرے دن آفس آیا تو کچھ بے چین سا تھاجیسے کسی کا انتظار ہو، کام میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا تقریبا آدھا دن گذر گیا مگر بے چینی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ کھانے اور نماز کے وقفے کے بعد بھی وہ حال تھا، کوئی تین ساڑھے تین کا وقت تھافون کی گھنٹی بجی دلِ مضطرب میں جان آگئی فون اُٹھایا اور کہا ۔ہیلو جی کون ؟ اس کے بعد دل زور زور سے دھڑکنا شروع ہو گیا وہی کال تھی جس کا کل سے انتظار تھا، بولی ہائے کیسے ہو ، میں نے کہا جی ٹھیک ہوں ،بولی ویری گُڈ ، اچھا میر ے کام کا کیا سوچا ، نہ چاہتے ہوے کہہ دیا جی جلد کام ہو جائے گا ، مے آئی ہیو یور موبائیل نمبر پلیز، وہ بولی اتنی جلدی بھی کیا ہے فل حال میرے آفس کا نمبر لے لو، میں نے غنیمت سمجھا اور نوٹ کر لیا،اس طر ح پھر روز لمبی لمبی باتیں شروع ہو گیءں اور یوں ایک سلسلہ چل نکلا، میں اکثرآفس سے آدھی چھٹی لے لیتا اور اسے ملنے چلا جاتا اب صورت حال یہ تھی وہ نہ تو کال کرتی نہ میسج بلکہ میں خود ہی رابط کرتا ، اس نے کہا میر ی جاب کا کیا بنا ، میں نے کہا اپنا سی وی دو ، اس پر اس کی تعلیم کم تھی اسے ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے دیا اب میری ذمہ داری گھر کا کام کاج نہ کرنا اور اس کو ہر قسم کی سہولت دیناتھی، کبھی کتابیں دینے جا رہا ہوں کبھی مشقیں حل کروانے میں مدد ، کبھی لیپ ٹاپ دینے جار رہا ہوں ، یہ سب کرنے سے میری اور میری بیوی میں اکثر لڑائی ہو جاتی کہ اب آپ ٹائم گھر نہیں دے رہے ، میری اس وجہ سے میرا بچہ بھی پریشان تھا، اسے بھی وقت نہیں دے پاتا تھا، وہ پڑھائی میں کمزور ہوتا گیا،بعض اوقات تو بیوی سے جھگڑا اس قدر بڑھ جاتا کہ نوبت طلاق تک آ ن پہنچی، اب بات میا ں بیوی کے تعلق تک نہ تھی بہن بھائی بھی ناراض رہنے لگے ، لیکن ملاقاتوں کا سلسلہ آگے سے آگے نکلتا گیا، اب وہ اپنے خوبصورت انداز میں پیا ر کا اظہار بھی کرنے لگی شادی کروں گی تو صرف آپ سے ، ایک فرق دونوں میں تھا وہ امیر سوسایئٹی کی تھی اور میرا دوست محلے میں رہنے والا۔ اس کی دو باتیں تھیں ایک اپنی خوبصورتی کی تعریف کروانااور شاپنگ کرنا۔ اکثر شاپنگ کا کہتی جان یہ لے د و نا اب وہ لینا ہے، اور میں لے دیتا تھا، بیوی بچے نے اگر کچھ مانگ لیا تو وہ مہنگائی کا رونا دھونا کہہ کر جان چھڑوا لی،وہ شاپنگ کی بعد ہر بات ماننے کو تیار ہو جاتی ، سینما فلم دیکھنے سے پہلے شاپنگ کروا دو پھر مووی دیکھیں گے، اب ایک بات جو تشویش نا ک تھی جب بھی میں اسے کوئی کام کہتا فورا اسلام درمیا ن لے آتی ، دیکھو یہ وہ گناہ ہے ، لیکن شاپنگ کرنی ہو گھومنا ہو یا کوئی ایسا کام جو اسے فائدہ دے وہ جائز ہے،
میں نے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ اسے خوشی دوں مگر اس کی خوشی صرف شاپنگ تک محدود تھی ، اسے سوچ سوچ کر میں شوگر کا مریض ہو گیا ہوں ،مگر اسے حاصل کرنے میں ناکام رہا، میرا گھر میرا بچہ سب کچھ تباہی کے دہانے پر ہے ، اس کے بارے جانتا بھی ہوں اسے مجھ سے نہیں چیزوں سے پیار ہے پھر بھی کیوں اسے کی یاد میں مست رہتا ہوں نہ دنیا کی خبر ہے نہ اپنی تباہی کا علم ، کیا کسی کے جذبات احساس کی کوئی قدر نہیں سب کچھ پیسہ اور شاپنگ ہی ہے؟اور وہ چیخ چیخ کر رونے لگا۔
میں نے اسے تسلی دی اور پنجابی کی ایک مثال دی، ڈولے بیراں دی کُجھ نیں گیا، چُن کے جھولی وچ پا لئے۔
گھر اپنا ہی اچھا ہوتا ہے جیسا بھی ہو، وہ بیوی جو آپ کے جوتے پالش کرتی ہے ، سارا دن گھر میں آپ کا انتظار کرتی ہے آپ کے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے سارا دن مزدوروں کی طرح کام کرتی ہے اور معاوضہ صرف خاوند کی ایک پیار بھری نظر یا مسکراہٹ ، اسے آپ مہینوں کچھ نہ لے کر دیں بس ایک بار اس کی تعریف کر دیں کہ آج خدا کی قسم کتنی خوبصورت لگ رہی ہو اس کے جُملہ کسی شاپنگ سے کم نہیں اور شرماتے ہوئے کہے گی آپ بھی نا۔
لوگ پتہ نہیں بیویوں سے پیار کا اظہار کیوں نہیں کرتے حالانکہ پیار کی اصلی حقدار بیوے ہی ہوتی ہے خاوند کے اس ایک جملے سے گھر کی رونقیں بحال ہو جاتی ہیں۔میرے دوست اب بھی کچھ نہیں بگڑا ، اپنے گھر جاؤ اور اپنی بیوی سے معافی مانگ لو اُس کا ظرف دیکھنا وہ تجھے نہ صرف معاف کر دے گی بلکہ کہے گی ۔میں کہتی تھی نہ کہ وہ رانگ      کال تھی۔۔۔
طاہر تبسسم  درانی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔