Wednesday 21 February 2018

بند بوری میں کیا ہے by M Tahir Tabassum Durrani









بند بوری میں کیا ہے


انداز بیاں ہر ایک اپنا اپنا ہوتا ہے ۔مزاج سب کا الگ الگ ہوتا ہے کوئی تنقید برائے تنقید کرنے کا عادی ہوتا ہے تو کوئی تنقید برائے اصلاح کرنے کا متمنی ہوتا ہے ، لیکن میرا مزاج تھوڑ ا الگ ہے مجھے کانٹوں میں سے پھول چننے کی عادت ہے۔ مجھے لفظو ں کے نشتر چلانے نہیں آتے میں تو سب سے ایک ہی درخواست کرتا ہوں پھول بانٹنے سے خوشبو بعد میں بھی رہتی ہے ۔یہ دنیا چار دنوں کی ہے کسی کی دل آذاری کرکے خود کو آگے لے جانے کا کیا فائدہ بس خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیے۔

آج کا کالم سیاست سے بالکل ہٹ کر ہے کل ایک انجانے دوست کی کال موصول ہوئی ، آواز سے بڑی عمر کے لگ رہے تھے باتیں اتنی شیریں تھیں کہ ان کی باتوں کو ہی اپنا آج کا کالم بنا دیا۔ کہتے ہیں ایک بادشاہ نے اپنے چند وزراء کو حکم دیا کہ میرے ساتھ کتنی وفا داری رکھتے ہو، سب نے کہا بہت زیادہ تو بادشاہ نے کہا یہ ایک بوری لو اور دور دراز علاقوں سے میرے لیے اچھے سے اچھا کھانا لے آؤسب نے ہنسی خوشی اپنی اپنی بوری پکڑی اور حکم کی بجا آوری کے لیے نکل پڑے ،ایک وزیر بہت ہی زیادہ ایماندار تھا اس نے اچھے اچھے میوہ جات ، پھل /فروٹ او ربہترین اناج سے بوری بھر لی ، دوسرے وزیر نے بھی بوری اناج سے بھر لی لیکن اس کا خیال تھا کون سا بادشاہ نے دربار میں کھول کا چیک کرنا ہے لہذا اس نے آدھی بوری میں اچھا اناج بھرا لیا اور آدھی بوری میں سڑا ہو اناج اور پھل،تیسرے وزیر نے سوچا کون سا بادشاہ نے آج ہی سارا کھا لینا ہے لہذا اس نے گھا س پھوس اور اوپر اوپر چند اچھے اورسڑے ہوئے پھل رکھ لیے ۔ وعدے کے مطابق وہ اپنی اپنی بوری دربار میں بادشاہ کو پیش کر دی۔ بادشاہ نے حکم دیا تینوں کو الگ الگ جیل میں بند کر دو اور جو اناج بوری میں یہ لائے ہیں ان کی بوری ان کے پاس جیل میں رکھ دیں۔کچھ عرصہ بعد حکم دیا کہ جاؤ تینوں کو لے کر دربار میں پیش کریں ، اب بات بہت قابل غور ہے وہ وزیر جس نے اچھے اچھے اناج سے بوری بھری تھی وہ تندرست توانا جبکہ دوسرا بیمار پڑ چکا تھا جبکہ کہ تیسرے کی کچھ دنوں بعد ہی موت واقع ہو جاتی ہے ۔ یہ سارا واقع ہمیں اس بات کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے کہ ’’اے لوگو یہ دنیا چند دنوں کی ہے اور قبر میں جانا ہے لہذا اپنے اپنے اعمال کی بوری بھر لیں جیسے اعمال ہونگے ویسے ہی وہاں کی زندگی نصیب ہوگی۔

میں کوئی مولوی نہیں ہوں اور نہ ہی عالم ہوں حضور اکرم ﷺ کے ادنیٰ سے امتی اور غلام ہوں،غلطی کر سکتا ہوں لہذا غلطی کی صورت میں معافی کا طلبگار ہوں۔ حضر ت محمد ﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تو حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے آپ ﷺ سے ایک بات ارشا د فرمائی ’’اپنی امت کو بتا دیجیے گا کہ جنت ایک چٹیل میدا ن ہے اس کی تزائین و آرائش آپ کے اعمال سے ممکن ہے ہاں جب تم دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے تو تم نے جنت میں اپنا ایک پلاٹ لے لیا اب اس پلاٹ پر عمارت تمہارے اعمال سے تعمیر ہوگی جتنے اعمال اچھے صالح ہونگے اتنے ہی خوبصورت محلات کے آپ مالک بن جاؤ گے ۔قرآن مجید فرقان حمید میں بھی اللہ تعالیٰ کا ارشا د پا ک ہے۔ پارہ نمبر ۲۷ سورہ الرحمن آیت نمبر ۲۶۔۲۷ ’’ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہ ہو جانے والی ہے اور تیرے رب کی ذات جو عظمت اور بزرگی والی ہے و ہی ہمیشہ رہے والی ہے ‘‘
یہ تو بحثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ قدرت کا قانون ہے کہ اس کائنات میں صرف اسی کی بقا ہے سب اپنی اپنی زمہ داری پوری کر رہے ہیں باقی سب مخلوق کو لوٹ کر واپس جانا ہے ۔یعنی موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔اتنا سب کچھ جاننے کا باوجود ہماری گردن میں سریا سمجھ سے باہر یہ بھی جانتے ہوئے عزت ذلت رزق زندگی سب میرے اللہ کریم کے پاس ہے پھر بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی غرض سے بڑے بڑے گناہ مول لے لیتے ہیں جن کا نتیجہ صرف اللہ کی ناراضگی مول لینے کے سوا کچھ نہیں۔ایک اور واقع نظروں سے گذرا اچھا لگا جس میں نصیحت اور ہدیت تھی سوچا کیوں نہ اپنے قارئین کو بھی مستیفد کروں ہو سکتا ہے ا س کالم کو پڑھنے کے بعد کوئی ایک بھی راہ راست پر آ گیا تو میرا کالم اثر دکھا گیا۔ ’’ ایک انجینئر دسویں منزل پر کام کر رہا ہوتاہے اسے نیچے کسی ورکر سے بات کرنا درکار ہوتی ہے وہ کافی آوازیں لگاتا ہے لیکن ورکر سن نہیں پاتا ، انجینئر کو ایک ترکیب سوجھتی ہے وہ دس روپے اوپر والی منزل سے نیچے پھینکتا ہے نیچے کام کرنے والا ورکر وہ پیسے اٹھا لیتا ہے اور اِدھر اُدھر دیکھے بغیر کام میں مصروف ہو جاتا ہے اب انجینئر اس سے زیادہ رقم والا نوٹ پھینکتا ہے جسے پھر وہی ورکر پیسے اٹھا کر ر اِدھر اُدھر دیکھے بغیر کام کرنا شروع کر دیتا ہے اب کی بار انجینئر ایک کنکری اس کے سر میں مارتا ہے جس سے اسے تکلیف ہوتی ہے اور وہ فورا اوپر کی جانب دیکھتا ہے اور انجینئر اسے اپنا کام بتا دیتا ہے ۔
یہی حال ہماری زندگیوں کا بھی ہے کہ اللہ کریم اپنی فضل اور کرم کی بے انتہابارش بارساتا ہے تا کہ بندہ اوپر اپنے رب کا شکر بجا لائے لیکن ہم بجائے شکریہ ادا کرنے کے گلے شکوے کرتے ہیں کہ ابھی یہ بھی نہیں ملا وہ بھی نہیں، اور جب اللہ کی طرف سے کچھ مشکل پیش آتی ہے یا معاملات خراب ہوتے ہیں تو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہمیں ہر وقت اللہ سے پناہ اور معافی مانگنی چاہیے اور جو نعمتیں اللہ نے دے رکھی ہیں ان کا شکریہ ادا کریں تو اللہ تعالی ٰ وہاں سے عطا کرتے ہیں جہاں انسان گمان بھی نہیں کرسکتا۔ڈاکٹر علامہ اقبا ل نے کیا خوب کہا۔
؂وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر!
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔