Thursday 11 January 2018

زینب بیٹی ہے سیاست نہیں by m Tahir Tabassum Durrani



زینب بیٹی ہے سیاست نہیں


پاکستان ایسا ملک جہاں واقعات رونما ہونے کے بعد ایک دم سے پوری قوم یک جا ہو جاتی ہے ایسا لگتا ہے اس قوم کو نقصان پہنچانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا بطور قوم ہم بڑے بھلکڑ ہیں ، بھول جانا ہماری فطرت ہے واقعہ کوئی بھی ہو بہت دلخراش اور اذیت ناک ہوتا ہے یہ بس جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے ۔ کوئی بھی واقعہ رونما ہونے کے بعد جو کردار میڈیا کرتا ہے وہ بھی قابل ستائش ہے پاکستان میں جب میڈیا ابھی آزاد نہیں تھاواقعات ہیں جن کو دبا دیا جاتا تھا لیکن اب میڈیا نے قوم کو بیدار کر دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بات سامنے آتی ہے ایسے کئی دلخراش واقعات اس سے پہلے بھی رونما ہوتے تھے کئی سسکیوں کو دبا دیا جاتا ہوگا، کئی درد بھری آہوں کو بند کردیا جاتا ہوگا،انسانیت یونہی دم توڑتی رہتی ہوگی لیکن افسوس صد افوس کہ سیاسی مداری آج بھی اپنی دکان چمکانے کی خاطرمعاملے کو بڑھا چڑھا کر اسے سیاسی رنگ دے کر نمبر گیم شروع کر دیتے ہیں اور پھرہم بھی واقعہ رونما ہونے کے کچھ عرصہ بعد بھول جاتے ہیں اور پھر ایک نئے واقعہ کا انتظار کرتے ہیں کچھ سیاسی مفاد پرست واقعات پر خوب واویلا کرتے ہیں اور اپنی مشہوری کرنے کے لیے اظہار افسوس کرنے جاتے ہیں اور ریاست کے خلاف اکساتے ہیں حالانکہ ہونا تو یوں چاہیے کہ جب آپ کسی کی آواز بن رہے ہیں تو کریڈٹ اللہ کریم سے لیں لیکن ہم میڈیا پر بار بار اپنی تعریفوں کے پُل باندھنا شروع کر دیتے ہیں ، کمزور زہن لوگوں کو جذباتی تقریروں
کے ذریعے جذباتی کرتے ہیں جس سے ایک تو نقصان ہو ہی چکا ہوتا ہے دوسرا املاک کو اور قومی اداروں کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور پھر بالاآخر قانون نافذکرنے والے ادارے متحرک ہو جا تے ہیں جس سے مزید نقصان ہوتا ہے ۔ہمارے ملک پاکستان میں سیاسی مفاد کی خاطر کسی نے ہمیں لسان کی وجہ سے توڑا، کسی نے فرقوں میں بانٹ کر الگ کیا تو کسی نے صوبائیت کی بھینٹ چڑھا دیاکسی نے ایک پاکستانی نہ بننے دیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم نہ نون ہیں نہ شین ہیں نہ قاف ہیں عین نہ الف ہیں اور نہ ب ہیں ہم صرف پاکستانی ہیں اور سب ایک ہیں ۔
ذینب بیٹی جیسے واقعات پر صرف ماتم کرنا اور مذمت کرنا کافی نہیں ایسے مجرم کو سرعام پھانسی دی جانی چاہیے تا کہ ایسا سوچتے بھی انسان کانپ اٹھے ۔ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک کے باشندوں کی عزتوں کی حفاظت کریں اور ایسے عناصر کو قرار واقعی سز ا دیں ۔ اگر ماضی میں ایسے گھٹیا عناصر کی سرکوبی کی ہوتی تو آج قوم کی بیٹی کی عزت یوں پامال نہ ہوتی اور وہ کچرے کی ڈھیر میں نہ ملتی ، انسانیت کا جنازہ نکل چکا ہے یہ تو ایک واقعہ ہے جو میڈیا کے مثبت کردار، فیس بک (سوشل میڈیا) اور دیگر میڈیا کی وجہ سے منظر عام پر آگیا جس سے امید کی کرن پھوٹ رہی ہے کہ اس کومل جیسی معصوم بیٹی کی عصمت دری کا حساب اس ظالم درندے کوسزا دے کرلیا جائے گا ۔ معزز عدالت کا از خود نوٹس لینا ، اداروں کا متحرک ہونا اور آرمی چیف صاحب کاسیریس ہونا اس بات کی گواہی ہے کہ اب انشاء اللہ انصاف ضرور ملے گا۔ 
ایسے درندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے ۔
کسی ایک انسان کو قتل کرنا ساری انسانیت کا قتل کرنے کے برابر ہے:۔
مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْ? اِسْرَآءِ یْلَ اَنَّ?، مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَا?َا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا.(5: 32)
اِسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا، اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی انسان کو بچایا، اُس نے گویا تمام انسانوں کو بچا لیا۔جانتے بوجھتے ایک مومن کو قتل کرنے کا انجام ہمیشہ کی جہنم اور اللہ کا غضب اور اسکی لعنت ہے:۔
َمَنْ یَّقْتُلْ مُو?ْمِنًا مُّتَعَمِّداً فَجَزَاو?ُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَاَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیْماً(النساء 4/93)
’’اور جو کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے:۔تم پر تمہارا خون، مال اور عزت کی حرمت اسی طرح ہے جیسے مکہ مکرمہ کی۔حضور پُر نور حضرت محمدﷺ کی حدیث پاک ہے کہ ، مسلمان ایک جسم کی مانند ہے اگر جسم کی کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم محسو س کرتا ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کیسے مسلمان ہیں اتنی معصوم بیٹی کے ساتھ درندگی پھر اسے موت کی گھاٹ اتار دینا درندگی سے بھی بد تر فعل ہے جس کی مذمت نہیں بلکہ مرمت کرنی چاہیے۔
ذینب جیسے واقعات آج کے ترقی یافتہ دور میں ہونا اس بات کی نفی کرتا ہے کہ ہم نے ترقی کر لی کیونکہ ایسا زمانہ جہلیت میں ہوتا تھا لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے جس کے گھر بیٹی پیدا ہوتی تھی اس گھر میں صف ماتم بچھ جاتی تھی ،اگر آج بھی معصوم کلیوں کی عزتیں محفوظ نہیں آج کے ترقی یافتہ دور اور دور جہلیت میں کیا فرق ہے ؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔زنا کسی بھی مذہب کسی بھی معاشرے ( سوسائٹی) میں پسند نہیں کیا جاتا ہے یہ ایک انتہائی گھٹیا اور ناپسنددیدہ عمل ہے ۔اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے خاندان متاثر ہوتے ہیں دنیا اور آخرت کی تباہی مقدر بنتی ہے ۔کسی بزرگ نے بہت ہی پیاری بات کی تھی کسی چھوٹے گناہ کوچند لمحوں کی تسکین کے لیے نہ کرنا کیونکہ لذت ختم ہو جائے گی جبکہ گناہ قبر میں اور دوذخ تک ساتھ جائے گا۔اللہ جلہ شانہ کا ارشاد پاک ہے ( سورۃالنور 2:24) ‘‘ چنانچہ زانیہ عورت اور زانی مرد ان دونوں میں سے ہر ایک کو تم سو کوڑے مارو اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر إیمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین پرعمل کرنے کے معاملے میں تمہیں ان دونوں زانی اور زانیہ پر قطعاَََ ترس نہیں آنا چاہئے اور مومنوں میں سے ایک گروہ ان دونوں کی سزا کے وقت موجودہونا چاہیے۔ جبکہ اس پیاری بیٹی ذینب کے ساتھ تو دہرا ظلم ہوا ہے لہذا ایسے مجرم کے ساتھ نرمی کرنا یا معاف کرنا یا دیعت کا معاملہ کرنا ہرگز ہرگز قابل قبول نہیں اسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے ۔
ہمیں ذاتیات اور مفاد سے بالا تر ہو کر بطور قوم ایک ہو کر رہنا چاہیے قومی سانحے پر صرف مذمتی بیان دے کر ہم اپنی ذمہ داری سے سبقدوش نہیں ہو سکتے ہیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے یک مشت ہو کر قوم کے لیے اچھا کرنے کی ضرورت ہے نا کہ اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے الزام تراشی کرنی چاہیے ۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ حکومت وقت کے ساتھ مل کر ایسی حکمت عملی تیار کر یں اور قانون سازی کریں اور ایسے عناصر کی نشاندہی کریں تا کہ مجرم نشان عبرت بنیں۔خدا را ، نہ سندھی بنیں ، نہ بلوچی بنیں ، نہ پختو ن ، نہ پنجابی بلکہ صرف پاکستانی بن کر سوچیں کہ کس طرح دشمن ہمیں آپس میں لڑوا کر کمزور کر رہا ہے ۔بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں پھر ایسے واقعات پر سیاست کیوں؟خدا را زینب بیٹی ہے سیاست نہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔