Monday 1 January 2018

وعدوں سے تکمیل تک۔۔۔۔ نام اور کام میں فرق-نجم ولی خان



نام اور کام میں فرق

تحریر و تبصرہ ۔۔ نجم ولی خان
 صحافی، کالم نگار، اینکر پرسن


جناب محمد طاہر تبسم درانی کی تحریروں کا مجموعہ’’وعدوں سے تکمیل تک‘‘ میرے سامنے موجود ہے جس میں موجودہ حکومت کے مختلف منصوبوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ جب ہم ’’ صحافت‘‘ کی عمومی تعریف اور پہچان کی طرف جاتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ صحافت صرف تنقید کرنے اور دوسروں کی عزتیں پاما ل کرنے کا نام ہے۔ صحافی ایک مکھی کی طرح ہے جس کا کام ہی زخم اور گندگی کو ڈھونڈنا اور پھر اس پر منڈلاتے رہنا ہے ۔مگر پا کستان جیسے ترقی پذیر اور نیم جمہوری معاشرے میں ترقی اور جمہوریت کی حمایت ایک جہاد سے کم نہیں ہے اور یہی عظیم اور مقدس لڑائی محمد طاہر تبسم درانی نے اپنے قلم سے لڑی ہے۔ ہمارے بہت سارے مہربان اپنے قلم اور کیمرے کو آئین، جمہوریت اور ملکی ترقی پر حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ان کے ہاں یہی قلم ان تینوں کے دفاع اور حفاظت کے لیے استعمال ہوا ہے۔
صحافت ملک کے لیے کردار ادا کرنے والوں کو خراج تحسین بھی پیش کرتی ہے یہ کسی صحرا میں بہت محنت سے کھلنے والے پھولوں کی خوبصورتی اور رات کی سیاہ گھپ اندھیرے میں چمکنے والے ستاروں کو سراہنے کا بھی نام ہے۔صحافت کبھی نا انصافی نہیں کرتی جب اس کا ایک پلڑا بہت ہی جھکا ہوا ہے اور ’’وعدوں سے تکمیل تک ‘‘ کی صورت میں یہ تصنیف اس ترازو کے دوسرے پلڑے کو متوازن کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ 
یہ بات مان لینی چاہیے کہ کہیں اسٹبلشمنٹ کے کچھ مہروں کی دیدہ و نادیدہ سرپرستی ہوتی ہے اور کہیں خود نمائی کابڑھتا ہوا شو ق کہ سیاستدانوں کی کردار کشی کو رواج بنا لیا گیا ہے اور اس میں ہمارے بعض سیاستدانوں نے بھی غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔
وہ سیاست کے درخت کی اس ٹہنی کو کاٹ رہے ہیں جس پر خود بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر سمجھا جا تا ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں پر تنقید ہی آپ کہ عوامی اور مقبول لکھاری بناتی ہے مگر یہ تصور کافی حد تک ناکارہ اور غلط ثابت ہو چکا ہے یہ تصور قائم ہی اس بنیاد پر ہوا تھا کہ عوام محرومیوں کا شکار ہیں اور ان کی محرومیوں کے خلاف آواز بلند کرناہی مقبول ترین صحافت کی دلیل ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عوامی محرومیوں کا ازالہ ہو رہا ہے ایک آئینی، سیاسی اور جمہوری دور عوامی خدمت کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے مدت پوری کر رہا ہو، انفراسٹکچر، صحت، تعلیم، کھیل، صاف پانی، بجلی کے کارخانوں کے منصوبوں سمیت بے شمار شعبوں میں تاریخ ساز کام ہو رہے ہوں تو ایسے میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا ہی ملک و قوم کی حقیقی خدمت ہے۔ یہ مجموعہ ہمیں بتا رہا ہے کسی بھی محب وطن پاکستانی کا قلم اپنے وطن کی تعمیر، ترقی اور مضبوطی پر اسے سراہے بغیر نہیں رہ سکتا،
محمد طاہر تبسم نے جتنے بھی منصوبوں کی بات کی ہے وہ محض خیالی اور کتابی نہیں بلکہ یہ تمام منصوبے پنجاب سمیت ملک بھر میں پھیلے ہوئے اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیںیہ تصنیف ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے ووٹ کاحق ان کے لیے استعمال کریں جو ہمارے مسائل کو حل کر رہے ہیں، ہم اپنے اس ووٹ کو ان کے لیے احتساب کی صورت بھی بنا دیں جو ہمارے محض کھوکھلے دعوے کرتے اور بڑے بڑے نعرے لگاتے ہیں۔جنہوں نے سی پیک سمیت ترقی کے مختلف منصوبوں کا راستہ روکا اور جمہوریت کی راہ کو بھی کھوٹا کرنے کی کوشش کی ہے۔پاکستان کے عوام ایک حقیقی اور موثر تبدیلی کے خواہاں ہیں اور ہمیں اس تبدیلی کی ایک مکمل اور بھر پور گواہی اس کتاب میں ملتی ہے۔ اللہ کرے کہ ہم جو خواب دیکھ رہے وہ شرمندہ تعبیر ہوں اور ہم ایک آئینی، جمہوری اور خوشحال پاکستان کے مطمئن شہری ہوں۔
نجم ولی خان۔
( صحافی، کالم نگار، اینکر پرسن)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔