Monday 7 August 2017

پاکستان مسلم لیگ (ن)ایک منظم جمہوری جماعت By M Tahir Tabassum Durrani.



پاکستان مسلم لیگ (ن)ایک منظم جمہوری جماعت

ّفانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
بچپن میں ایک چوہدری کی کہانی سنی تھی سوچا کیوں نہ آپ سے بھی شیئر کر دوں ۔ چوہدری صاحب پنڈ کے نمبردار ہوتے ہیں اتفاق سے بیمار پڑ جاتے ہیں ان کا ایک وفادار مراثی نوکر ان کی خدمت پر معمورہوتا ہے بڑی معصومانہ شکل میں ادب سے پاؤں دباتے ہوئے چوہدری صاحب سے مخاطب ہوتے کہتا ہے جناب جان کی امان پاؤں تو کچھ پوچھ سکتا ہوں؟ چوہدری صاحب نے کہا تم ہمارے خاندانی نوکر اور خدمت گذار ہو ، ہاں پوچھو کیا پوچھنا ہے؟مراثی خوش ہو جاتا ہے اور پوچھتا ہے چوہدری صاحب اگر آپ کا انتقال ہو جاتا ہے تو پنڈ کانمبر دار کون بنے گا؟ چوہدری حیرانی سے دیکھتا ہے اور پھر مسکرا کو جوات دیتا ہے میرا بڑا بیٹا ، مراثی پھر پوچھتا ہے سرکا ر اگر وہ بھی فوت ہو گیا تو ؟ چوہدری نے جواب دیا میرا چھوٹا بیٹا، تیسری بار پھر مراثی نے یہی سوال کیا تو چوہدری صاحب غصے سے کہتے ہیں اگر پور ا پنڈ وی مر گیا تے مراثی دا بال نمبردار نئیں بننا۔
الیکشن 2013 ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن)نے واضع برتری حاصل کرتے ہوئے ملک میں اپنی حکومت قائم کی، 2013ء کے جنرل الیکشن میں تین بڑی سیاسی پارٹیاں سر فہرست رہیں اور ان تینوں پارٹیوں نے قومی اسمبلی میں اپنی اپنی سیٹیں باالترتیب حاصل کیں اور ملک میں اپنی اپنی سیا سی بساط کے مطابق حکومت کے ساتھ مل کر سیاسی سفر شروع کیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)نے قومی اسمبلی کی 166 نششتوں پر کامیابی حاصل کی پاکستان پیپلز پارٹی نے نے 42 سیٹیں حاصل کی کے دوسری جبکہ نئی ابھرنے والی سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے 35 نششتوں پر کامیابی حاصل کر کے تیسری پوزنیشن حاصل کی اور اس طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مرکزی حکومت قائم کی۔ اگر ووٹوں کی تعداد کی بات کی جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 14,874,104 پاکستانی پیپلزپارٹی نے 6,911,218 ووٹ حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی نے 7,679,954ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبرپر رہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بانی اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کے حلقے این اے ۱۲۰ کی بات کی جائے تو میاں صاحب نے اپنے حلقے میں 91666 جبکہ ان کے مد مقابل پی ٹی آئی کی نمائندہ امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے کافی ٹف ٹائم دیا اور 52321 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہیں اور پی پی پی کے امیدوار زبیر قادر صرف 2604 ووٹ لے سکے اس طرح میاں محمد نواز شریف کامیاب امیدوار ٹھہرے۔ قدرت ان پر ہمیشہ سے مہربان رہی ہے وہ مشکل وقت میں بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتے اور بڑی سے بڑی مشکل کا سامنہ دلیری اور ہمت سے کرتے ہیں۔
5 جون 2013 ء کی سہانی اور روشن صبح جب ملک پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی عوام کے ہر دل عزیر باہمت انسان نے پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا اور یوں یہ ملک کے تیسری مرتبہ بننے والے پہلے وزیر اعظم ٹھہرے، پارلیمنٹ میں واضع اکثریت سے ووٹ حاصل کر کے 244 ووٹوں کے ساتھ نمایاں رہے ان کے مد مقابل پی پی پی کے مخدوم امین فہیم (اللہ کریم ان پر کروٹ کروٹ 
رحمت نازل فرمائے آمین)42 ووٹ لے سکے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار مخدوم جاوید ہاشمی صرف31 ووٹ لے سکے ۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک سنہری دن تھا جب ہر دل عزیز پاکستان کے غیور اور عوامی لیڈر نے تیسری مرتبہ اس منصب کے قلمدان کوسمبھالا۔
میاں برادران نے جب پاکستان کی باگ ڈور سمبھالی اس وقت ملک مختلف بحرانوں کا شکار تھا، بجلی ، پانی ، گیس جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے لوگ ترس چکے تھے، 18-18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ گیس بحران اور پانی کی بوند بوندکو قوم ترس چکی تھی بم دھماکوں سے ملک لرز چکا تھا، چاروں سو خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے تھے، ملک میں اندھیروں کا را ج تھا نہ قانون نہ قانون کے محافظ، اندھیر نگری، ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں تھا، کراچی جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا تاریکیوں میں ڈوب چکا تھا، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ کا دور دورہ تھا، ایسے حالات میں میاں برادران نے ا س منصب کو تھاما،لیکن میاں برادران نے اپنی مدبرانہ صلاحیتوں ملک کے ساتھ محبت اور عوامی جذبے سے ان تمام حالات کو سازگار بنانے میں دن رات لگا دیے اور ملک میں اندھیروں کے خاتمے کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔عسکری قیادت کے ساتھ مل کر کراچی کا امن بحال کیا۔ کراچی کو تاریکیوں سے نکال کر واپس روشنییوں میں لائے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے حکمت عملی اپنائی اور ملک میں امن قائم کیا، لوڈشیڈنگ سے نجات دلائی ، سی پیک جیسے منصوبے کو شروع کر کے ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا، طالبعلموں کے لیے طرح طرح کی انعامی سکییمیں اور ہونہار طالبعلموں کے لیے لیپ ٹاپ، سولر سسٹم انعام میں میں دیے اور وظیفہ جات مقرر کیے تا کہ والدین پر اضافی بوجھ کم کیا جا سکے۔
ان تمام عظیم منصوبہ جات کے باوجود ملک دشمن قوتوں نے اس عظیم اور ہر دل عزیز لیڈر سے ایک بار پھر وزارت عظمیٰ چھین لی۔ ملک کے آئینی اور جمہوری وزیر اعظم نے من و عن سر تسلیم خم کرتے ہوئے عدالت عالیہ کے فیصلے کی عزت اور سر بلندی کی خاطر حکم کو سر آنکھوں پر رکھتے ہوئے 28 جولائی 2017ء کو منصب عظمیٰ سے علحدگی اختیار کر لی، لیکن میاں صاحب اور ان کی پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اس لیے جمہوری عمل کو نہ رکنے دیا اور 4 دنوں کے اندر پارلیمنٹ میں اپنا نیا وزیر پیش کر دیا۔یکم اگست 2017ء بروز منگل وزیر اعظم کے الیکشن میں اپنا امیدوار کھڑا کیا جس کے مدمقابل پی ٹی آئی نے اپنا امیدوار شیخ رشید احمد اور پاکستان پیپلز پارٹی نے سید نوید قمر ایم کیوایم کیطرف سے محترمہ کشور زہرہ جبکہ جماعت اسلامی کی طرف سے صاحبزادہ طارق اللہ صاحب نے اپنے اپنے کاغذات نامزگی جمع کرائے جانج پڑتا ل کے بعد تما م امیدواران کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی ، 2013ء کی طرح اس بار بھی جیت مسلم لیک (ن )کے امیدو ار شاہد خاقان عباسی کی نصیب میں آئی جن کو ۲۲۱ ووٹوں کی واضع برتری حاصل رہی اور انہوں نے بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا۔شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیر اعظم یعنی 45 دنوں کے لیے چنا گیا ہے لیکن خیال کیا جا سکتا ہے کہ انہیں اس منصب پر الیکشن 2018ء تک ہی رہنے دیا جائے گا کیوں کہ 45 دنوں کے بعد صرف 8 ماہ کے لیے نیا وزیر اعظم لانا ایک مشکل مرحلہ ہو سکتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنے بڑے دن ، جمہوریت کے داعی جنا ب عمران خان صاحب ایوان میں نہ آئے ، ا نا اور ضد کی حد یہ ہے کہ اپنے ہی نمائندے / امیدوار کو ووٹ دینے نہ آئے اس سے خان صاحب کے جمہوری ہونے اور اپنے امیدوار سے محبت کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے۔۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ایک بار پھر عمران خان صاحب کا گراف بلند ہوا ہے لیکن الیکشن 2018ء تک ان کا یہ گراف برقرار رہنا کافی مشکل دکھائی دے رہا ہے ۔الیکشن 2018ء میں ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ (ن)کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔اس لیے پی ٹی آئی کے لیے فل الوقت یہ کامیابی ضرور گنی جائے گی۔ کچھ دوست یہ تصور کر رہے ہیں کہ چوہدری نثار احمد پارٹی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکے ہیں جس کے وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے جس کا فائدہ پی ٹی آئی یا کوئی دوسری بڑی سیاسی جماعت آنے والے الیکشن لے سکتی ہے تو ایسی کوئی بات نہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک جمہوری اور منظم جماعت ہے اور آنے والے الیکشن میں کامیابی کا سہرہ بھی اسی جماعت کے سر ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔