Monday 10 July 2017

احتساب کا شکنجہ صر ف شریف خاندان تک ہی کیوں؟by M tahir Tabassum Durrani


احتساب کا شکنجہ صر ف شریف خاندان تک ہی کیوں؟


یکم نومبر 2016ء کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی /قائد عمران خان صاھب نے ملک کے منتخب وزیر اعظم کے خلاف پانامہ لیکس کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں داخل کرایا جس کے مطابق میاں نوازشریف پر الزام لگایا گیاکہ ان کی آف شور کمپنیاں ہیں۔ معتصبانہ بیان بازی کرتے ہیں اور غیر قانانی طور پر پیسہ ملک سے باہر بھیجا گیا ہے۔23 فروری 2017ء کو معزز عدالت نے اس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ، دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا کہ واحد کیس ہے جو عوام میں دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اور زیادہ مقبول ہے ۔ ہر شخص کسی نہ کسی طرح سے اس کے رزلٹ کا خواہاں ہے ،سیاسی حلقوں میں بھی خوب گرما گرمی پائی جارہی ہے ۔
20اپریل2017ء کو معزز عدلیہ نے پانامہ کیس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل د ے دی جو نواز شریف کے خاندان کو اس کیس میں ملوث ہونے یا نہ ہونے کی تحقیق کرنے کے بعد رپورٹ جمع کرائے گی۔ پانامہ کیس پاکستان میں ہر ایک کے لیے دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے لیکن بہت سے لوگ ابھی بھی ایسے ہیں جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ ہوتا کیا ہے ؟ یہ کام کیسے کرتا ہے؟ اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
آف شور کمپنی(ادارہ) وہ فرم ہے جو کوئی شخص اپنے ملک سے باہر قائم کرے، یہ قانونی طور پر ان مقامات پر بنائی جاتی ہیں جہاں ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی ہو، اور یہ سوال نہ پوچھا جائے کہ سرمایہ کاری کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟، ایسی کمپنیوں کی آڈٹ رپورٹ نہیں مانگی جاتی اور نہ ہی سالانہ ریٹرن ظاہرکیاجاتا ہے۔
اس میں زرہ برابر بھی گنجائش نہیں کہ یہ ایک غلط کام ہے اور پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے ، اس کا احتساب ہونا چاہیے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پورے پاکستان میں صرف ایک ہی خاندان اس کیس میں ملوث ہے اور اسی خاندان کو سزا کا حقدار ٹھہرایا جائے، جبکہ پانامہ لیکس میں پاکستان کے دو سو (۲۰۰)سے زائد لوگوں کے نام ہیں لیکن وہ امن اور سکون کے ساتھ ملک میں اور ملک سے باہر بیٹھ کر شریف خاندان کے کیس کو انجوائے (enjoy)کر رہے ہیں کیا ان دو سو (۲۰۰)سے زائد لوگوں کا احتساب نہیں ہوناچاہیے؟ محترم عمران خان صاحب نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ بھی اس جرم میں ملوث ہیں ان کے خلاف ابھی تک ایسی کاروائی کیوں عمل میں نہیں لائی گئی؟ ٹی وی پر بیٹھے اینکرز نے عمران خان صاحب کو کبھی ایسے ڈس کس (discuss) کیا؟ جیسے شریف خاندان کو کیا جارہا ہے۔کیا صرف میاں برادران کے خلاف سوچی سمجھی سازش تو نہیں کی جارہی جیسے ماضی میں ان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے سازشیں کی جاتی رہی ہیں۔کیا ان دو سو (۲۰۰)سے زائد لوگوں کو بھی ایسے ہی گھسیٹا جائے گا جیسے شریف خاندان کو کیا جا رہا ہے یہ ایک سوال ہے جس کا جواب عوام چاہتی ہے۔
ماضی کی طرح کیا ایک بار پھر ایک منتخب وزیر اعظم کو معزول تو کیا جارہا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جمہوریت پر شب خون مارنے کے برابر ہوگا۔ جرم کوئی بھی کرے اسے سز ملنی چاہیے لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے دو سو (۲۰۰)سے زائد لوگوں میں سے صرف ایک ہی خاندان کو عدالتوں میں کیوں بلایا جا رہا ہے۔میاں نواز شریف اور اس کے خاندان کو سزا ضرور ملنی چاہیے کیوں کہ جب بھی وہ برسر اقتدار آئے پاکستان کی خدمت کی، پاکستان میں انفراسٹیریکچرکو بہتر کرنے کی کوشش کی، بحرانوں سے نکالنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی۔ میاں صاحب کو تیسری مرتبہ اللہ رب العزت نے عزت سے نوازہ اور ملک کے وزیر اعظم کا قلمدان تھمایا جسے میاں صاحب نے نیک نیتی ، ایمانداری اور خلوص دل استعمال کیا۔غریبوں کے لیے بے شمار فلاحی کام کیے ، پہلی مرتبہ اکتوبر 1990ء کے الیکشن میں میدان مارا اور یو ں پہلی مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے ، لیکن میاں صاحب کو پانچ سال مکمل نہ کر نے دیا گیا جس سے بہت زیادہ منصوبہ جات ادھورے رہ گئے اور اپریل1993ء میں ان کو اس منصب سے ہٹا دیا گیا۔ لیکن میاں صاحب باہمت اور امن پسند طبیعت کے مالک ہیں جنہوں نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا اور فروری 1997ء کے الیکشن میں ایک بار پھر جیت کر وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے لیکن اس بار بھی 12 اکتوبر 1999ء کو آرمی ڈکٹیٹر نے ان کے حکومت کو ختم کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا، اس بار اس باہمت اور ایماندار وزیر اعظم کو ملک بدری جیسی سزا کاٹنی پڑی لیکن ان کے دل سے پاکستان کی محبت اور عوام کی خدمت کے جذبے کو کوئی نہ نکال سکا اور 2013 میں تیسری مرتبہ ملک پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ آیے میں آپ کو ان کے ابتداائی دور کے کچھ فلاحی منصوبہ جات کی مختصر تفصیل بتاتا ہوں پھر آپ خود فیصلہ کیجیے گا کہ ایسے نیک سیرت انسان کی قدر کرنی چاہیے یا نہیں ؟ فیصلہ آپ اپنے دل کی عدالت میں کیجیے گا۔ اپنے ہر دور میں عوامی فلاحی منصوبہ جات کی ایک نہ ختم ہونے والی تاریخ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
تعلیم کے شعبے میں گزشتہ کئی سالوں کی نسبت زیادہ رقم مختص کی گئی، چنانچہ 1989ء کے مقابلے میں 1986-1985ء میں 73 کروڑ اور 1986-1987ء میں 101کروڑ 85لاکھ رقم مختص کی گئی۔
وزیر اعلی ٰ کی کاوشوں کے نتیجے میں تعلیم کے شعبے کے لیے وزیر اعظم کے پروگرام سے بھی ساڑھے سات سو کروڑ روپے کی رقم حاصل کی گئی
281 بوائز پرائمری سکول اور 182گرلز پرائمری سکولوں کا درجہ بڑھا کر انہیں مڈل کا درجہ دیا گیا۔
اکیاون ہائی سکولوں کو انٹرکالج میں تبدیل کیا گیا
صحت عامہ 
صحت کے شعبے میں ایک ارب نو کروڑ کی خطیر رقم مختص کی گئی۔
1985-1986ء میں تیس (30)دہی صحت کے مراکز قائم کیئے گئے اور دیہات میں رہنے والوں کے لیے دو سوبیس (220) بنیادی یونٹ کھولے گئے۔
50 دیہی مراکز صحت میں 12بستروں کا اضافہ ایک ڈاکٹر اور اس کی رہائش گاہ کے علاوہ دانتوں کے ڈاکٹر کی خدمات بھی فراہم کی گئیں۔
400 بنیادی ہیلتھ یونٹوں میں جدید سہولتوں کا اضافہ کیا گیا۔لیبر روم ایکسرے پلانٹ ، ایمبولینس اور آپریشن تھیٹر کا سامان مہیا کیا گیا۔
1985ء میں آٹھ سو ڈاکٹروں کو 1986ء میں 2000ڈاکٹروں کو روزگار مہیا کیا گیا۔
پنجاب بھر کے تحصیل ہیڈکوارٹر میں ڈبل شفٹ نے کام شروع کر دیا۔
مواصلات کا نظام
بہاولنگر کے قریب دریائے ستلج پر بھوکان والے پتن پر دس کروڑ کی مالیت سے پختہ پل تعمیر کیا۔ اس پل سے بہاولنگر اور اوکاڑہ کا درمیانی فاصلہ تیس کلومیٹر کم ہو گیا۔
227 میل سڑکوں کو چوڑا کیا گیا۔
موجودہ دور حکومت۔پٹوار کے نظام میں اصلاح
عرصہ دراز سے زمینوں کے لین دین کے معاملے مین بہت سی پیچیدگیاں تھیں، لوگ پٹوار کے نطام سے مایوس ہو چکے تھے حکومت پنجاب نے عوام کی سہولت کے لیے انقلابی منصوبہ شروع کیا جس کا مقصد لوگوں کی زمینوں کا تحفظ اور پٹواریوں کی ہٹ دھرمی اور اجارہ داری سے چھٹکارا دلانا تھا۔ حکومت پنجاب نے عوام کی خدمات سرانجام دینے کے لیے عوام کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائزکرنے کا منصوبہ شروع کیا تا کہ عوام کو پٹوار خانوں کے چکر نہ لگانے پڑیں اور اپنا ریکارڈ کمپیوٹر کے ذریعے اپنے گھر پر بیٹھ کر دیکھ سکیں۔
آن لائن وہیکل رجسٹریشن کی سہولت 
ایک وقت تھاجب لوگ گاڑی کی رجسٹریشن کے لیے ایکسائز کے دفاتر کے چکر لگایا کرتے تھے پھر وہاں پر موجود ایجنٹس فافیا کے ہتھے چڑھ کر کرپشن اور رشوت خوری کا بازار گرم ہوا کرتا تھا جس عوام بہت پریشان تھی۔ حکومت پنجاب نے عوام کی اس مشکل کو آسان بنا دیا ہے اور آن لائن رجسٹریشن کا سلسلہ شروع کیا تاکہ شہری کسی بھی پریشانی کا سامنا کیے بغیر اپنی گاڑی کی رجسٹریشن کو یقنی بن بنا سکیں۔ شہریوں کو پسند کا نمبررجسٹر کرانے کے لیے ایکسائز کے دفاتر چکر نہیں لگانے پڑیں گے
خادم اعلیٰ صرف پنجاب کے خادم نہیں بلکہ پورے پاکستان کے بچوں کے ساتھ الفت اور نرم گوشہ رکھتے ہیں حال ہی میں انہوں نے صوبہ بلوچستان کے زہین طلباء و طالبات کے لیے ایک انقلابی اعلان کیا جس کے مطابق صوبہ بلوچستان کا ڈومیسائل رکھنے والے ذہین طالبعلم 
اس سکالر شپ کے مستحق ہوں گے
کسان پیکج
کسانوں کوبلا سود قرضوں کی فراہمی،کسانوں کے لیے زرعی ریلف پیکج، (پیداواری لاگت میں ، قرضوں میں اضافہ اور آسان فراہمی،کاشتکاروں کے نقصان کا ازالہ)ریلف کا حصہ ہیں۔پنجاب میں مفافع بخش زراعت کے فروغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی پیکج۔وزیر اعظم کاکھاد پر سبسڈی جاری رکھنے کا فیصلہ ۔
فیصلہ عوام کی عدالت میں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔