Monday 9 November 2015


علامہ اقبال کا تصور ریاست اور موجودہ پاکستان
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں 

نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں

9
نومبر 1877کو صوبہ پنجاب کے ایک شہر سیالکوٹ میں ایک بچے نے جنم لیا جسن کے والد شیخ نور محمد   جو کہ دوستوں میں نتھوکے نام سے جانے جاتے تھے ایک صوفی بزرگ تھے ، ماں کا نام امام بی بی اور ایک بھائی جس کا نام شیخ عطامحمد تھا۔

کوئی نہیں جانتا تھا یہ بچہ بڑا ہو کر نہ صر ف ماں باپ کا نام روشن کرے گا بلکہ ملک و قوم کا سرمایہ بنے گا یاور یہ بچہ بڑا ہو کر نہ صرف ایک شاعر کے نام سے پہچانا گیا بلکہ حکیم الاامت شاعرِمشرق کا لقب بھی انہیں کا مقدر بنا۔
جی ہاں میں بات کر رہا ہوں ڈاکٹر حضرت علامہ ا قبالؒ کی۔ آپ کی پرورش ایک نیک اسلامی گھرانے میں ہوئی ابتدائی تعلم سیالکوٹ سے ہی حا صل کی 1897میں بی اے ، 1899میں ایم اے اور 1908میں پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کی، آپ کو بچپن ہی سے علم سے لگاؤ اور اسلام سے محبت تھی ایک دن حضور پُرنورحضرت محمد ؐ سے عقیدت اور محبت کا یہ عالم تھا کہ جب آپ ؐ کا ذکر آتا تو آپ کی آنکھیں نم ہو جاتیں اور آپ زاروقطار رونا شروع کر دیتے، ایک مرتبہ آپ کے ایک قریبی ساتھی حسن اختر نے دریا فت کیا علامہ صاحب اللہ تعالٰی نے آپ کو جامع علوم سے نوازہ ہے ، آپ کو اتنے علوم کیسے حاصل ہوئے ؟ تو انہوں نے فرمایا میں بارگاہِ رسالت ماٰبؐ کا خوشہ چین ہوں اُس دسترخواں سے جو ٹکڑے میں نے کھائے ہیں اُسی کے بدولت اللہ تعالٰی نے مجھے اتنے علوم سے نوازہ ہے۔
علامہ صاحب ہر وقت بیٹھے رہتے اور سوچتے رہتے تھے کہ وہ کیا شے تھی کہ عرب بادہ نشین ، صحرانشین تھے ، جو بکریا ں چرایا کرتے تھے انہوں نے صدیوں پوری دنیا کی رہنمائی کی، اور صدیوں دنیا پر حکومت کی، اور دنیا کو ایسے ایسے کامل نظام دیئے کہ جس کی مثال صدیوں دوبارہ نہیں آئی،تو کیا وجہ ہے جو پیغام 
اُن بادہ نشینوں لے کر نکلے تھے جہاں سے انہوں نے اقتصابِ فیض کیا تھا اور دنیا پر حکمرانی کی تھی اور دنیا کے لیئے مثالیں چھوڑ یں تھیں آج ہمارے پاس پیغام تو وہی ہے اور ہم زوال کا شکا ر کیوں ہیں ؟؟
علامہ صاحب نے زوال کی ایک وجہ یہ بھی بتا ئی ہے۔
محمدؐ کی غلامی دینِ حق کی شرطِ اول ہے 
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
وہ اس بات کو بہت سوچتے تھے انہوں نے کئی بار اہلِ علم ودانش ، علماء دین بڑے بڑے سکالرز جو تھے اُن سے کہا کرتے تھے جمہوریت بھی دم توڑ رہی ہے ، سرمایہ داری بھی دم تور رہی ہے سوشلزم بھی دم توڑ جائے گی، اشتراکیت بھی آنے والے دنوں میں دم توڑ جائے گی تو ایسے وقت میں پھر کیا گنجائیش باقی رہتی ہے اُس پیغام کی جو ہمیں ملا تھا؟
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا
خاک کے زروں کوحمدوش کردیا
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے حادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کر در دیا
علامہ اقبال کا نظریہ ریاست وسیاست اور مقصدو مصدر اور مرکز قُرآن و سنت ہے اور علامہ صاحب کی نزدیک یہ بات خیالی نہ تھی بلکہ یہ ایک عملی وجود ہے ، عملی تسلسل کا نام ہے ، جیسا کہ ریاست ۔ ریاستِ مدینہ کہلاتی ہے ، حضورﷺ اس کے بانی بھی تھے اس کے حاکم اور محکوم اور ان معنوں میں خادم وہ 
خدمت گذار تھے، علامہ صاحب کا نظریہ بنیادی طورپر یہ نہیں ہے کہ 
Democracy is a government "of the people, by the people, and for the people."
علامہ اقبال کا نظریہ ریاست و سیاست و حکومت یہ ہے کہ، بھلے لوگوں کی حکومت ۔ بھلے لوگوں کے لےئے ، بھلے لوگوں کے زریعے اور بھلائی ک لیئے یہ نظریہ اس کے اردگرد گھومتا ہے۔
آپ نے اپنی شاعری کے زریعے نثر اور اپنے خطوط کے زریعے اپنی قوم کو نہ صرف جگایابلکہ ان میں بھلائی اور وطن کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کی ، ڈاکٹر علامہ اقبال نے نہ صر ف نظریہ پیش کیا بلکہ جو قوم میں بگاڑ تھا مسائل تھے بے چینے اضطراب تھا اس کو بھی ٹھیک کرنے کی کوشش کی، ڈاکٹر صاحب جب پنجاب اسمبلی کے رکن بنے تو آپ نے توہین دینی اکابرین کا ایک بل پاس کروایا، آپ نے باقاعدہ ناموسِ رسالت اورتحفط دین و اکابرین کا بل پاس کروایا۔
آپ نے اپنے نظریہ کو ایک نظم وطینیت سے اجاگر کیا، آپ فرماتے ہیں

گفتار سیاست مین وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوامِ جہاں میں رقابت تو اسی سے 
تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے 
خالی ہے صداقت سے تو اسی سے
غرور کا گھر غارت ہوتا ہے اسی سے
آپ کے نظریہ سیاست و ریاست میں حکمران کی زندگی عوام کی خدمت ہے اور ان کے پاس حکمرانی اللہ جلہ شان کی دی ہوئی امانت ہے ، اور اگر حکومت ایمانداری سچائی اور انصا ف سے خالی ہو تو ایے حکمران عذابِ الٰہی کا انتظار کریں کیوں کہ قیامت والے دن سب سے مشکل حساب حکمران کا ہوگا
آپ کی سیا سی زندگی میں جھول نہیں تھا آپ کے مطابق ریاست میں امین اور صادق ہونا سب سے اہم معاملہ ہے آپ فرماتے ہیں
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ میں خاکِ مدینہ و نجف
علامہ صاحب نے ایسی خوبیوں کو اپنے کلام سے اپنی زبان سے اپنے قلم سے نمایاں کیا اور ایک ایسا ہی لیڈر منتخب کر کہ دیا یعنی قائدِاعظم محمد علی جناح ، جن کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی وہ صادق اور امین تھے
قائدِاعظم محمد علی جناح کے بارے اکثر لوگ کہتے تھے کہ وہ سیکولر ہین مگرقائدِاعظم محمد علی جناح اکثر بیانات میں فرمایا کرتے تھے : میں نے وہ کیا جو مجھے قرآنِ پاک اور سنت نے سیکھایا اور مین نے جو کچھ کیا اپنے آپ حضرت محمدﷺ کی امت کے لیئے کیا اور قیامت کے دن میں نے اُن کے پاس پیش ہونا ہے اور میں نے ایک خادمِ اسلام کے طور پرخدمت کی ہے:
ٓآج کا پاکستان فرقوں میں بٹا ہوا ہے ،جس نظریہ پر پاکستان آزاد ہوا تھا آج ہم اس سے میلوں دُور کھڑے ہیں قائدِاعظم محمد علی جناح کو سیکولر کہنے والے خود سیکولیزبن چکے ہیں، سودی نظام ملک میں رائیج ہے ، رشوت ستانی ، جھوٹ فریب ، بے روزگاری عام ہے ، بچوں کے ساتھ بد فعلی اور حکومتوں کے بلندوباگ صرف نعرے، عمل سے خالی حکمران، بچیوں کی عزتیں محفوظ نہیں، عوام مہنگائی کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اور حکمران مزید قرضہ لے کر ملک کو چلا رہے ہیں، حکمران اپنی حفاظت کے لیئے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں جبکہ عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہے موجودہ حکمران علامہ اقبال کے نظریہ ریاست کو بھُلا چکی ہے جس کے وجہ سے ہم آج زوال کا شکا ر ہیں
ہے ترکِ وطن سنت محبوب الٰہی

(دے تُوبھی نبوت کی صداقت کی گواہی                    (طاہر درانی                                         

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔