’’وعدوں سے تکمیل تک ،کے شاہکار کارنامے ‘‘
تحریر و تبصرہ: مجیداحمد جائی ،ملتان شریفخواب کون نہیں دیکھتا ،ہر فرد جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہے اور سوتے ہوئے بھی ،لیکن خوابوں کی تکمیل اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو خوب محنت اور لگن سے ہمہ تن جدوجہد کرتے رہتے ہیں ۔اِسی طرح وعدوں کی تکمیل ہے ۔وعد ہ کروتو وفا کرو،وعدے پورے کرنے کے بارے میں احادیث موجود ہیں لیکن میرے جیسے کم فہم لوگ کہتے ہیں بلکہ اکثریت یہی کہتی ہے ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ‘‘ان کے لیے خوش خبری ہے کہ وہ جان لیں کہ وہ غلط ہیں ۔
انسان جو وعدہ کرتا ہے اُس کی تکمیل کے لیے پوری پوری جدوجہد کرتا ہے لیکن دُشمن عناصر راستوں میں دشواریاں ضرور پیدا کرتے ہیں اور اپنے اندر کے حسد کو باہر نکالتے ہیں ۔میں نے حسد کرنے والوں کی عاقبت خراب ہی دیکھی ہے ۔
وعدوں کی بات چل نکلی ہے تو ’’وعدوں سے تکمیل تک ‘‘محمد طاہر تبسم درانی کی کتاب ،میرے دل و دماغ کی اسکرین پر آ جاتی ہے ۔میں محمد طاہر تبسم درانی کو ادبی دوست کی حیثیت سے جانتا ہوں ،جن کا رشتہ قلم اور کتاب سے ہے وہ میرے یار ،دوست ہیں ۔یہ بھی سچ ہے کہ کتابوں سے زندگی بدل جاتی ہے ۔ قیصر عباس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’اگر آپ بھی سمجھتے ہیں کہ کتابوں سے زندگی نہیں بدلتی تو یہ جان کے خوش ہو جائیے کہ آپ غلط ہیں ،‘‘
میں کہتا ہوں آپ چاہتے ہیں کہ ’’ہم ہمیشہ زندہ رہیں تو کتاب پڑھا کریں ،کتا ب لکھا کریں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر گزار ہوں کہ اُس ذات نے مجھے کتب بینی کی طرف راغب کر رکھاہے ،جب تک کسی کتاب کا کچھ حصہ نہ پڑھ لوں نیند نہیں آتی ہے ۔اگر یہ بیماری ہے تو بھی مجھے قبول اور بے حد عزیز ہے ۔لوگ نیند کی گولیاں لے کر نیند کی وادی میں جاتے ہیں اور میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ میں کتاب پڑھ کر سوتا ہوں۔اور پُر سکون سوتا ہوں۔
تاریخ گواہ ہے قوموں کی ترقی کا راز کتابوں میں پنہاں ہے ۔کوئی ملک کسی حریف پر حملہ کرتا ہے تو اُس کا پہلا حدف لائبریوں کو ختم کرنا ہوتا ہے ،اس ملک ،اُس قوم کو ترقی نہ کرنے دی جائے ۔یعنی کتاب سے دُوری ترقی سے دُوری۔
آپ چاہتے ہیں کہ شعور کی بلندیوں پر پہنچ جائیں ،ترقی کر جائیں ،اچھے انسان بن جائیں تو میرا مشورہ ہے کتاب پڑھا کریں ۔چند دن قبل میرے پاس بھی ’’وعدوں سے تکمیل تک‘‘کتاب پہنچی،جی ہاں یہ کتاب کا نام ہے جس کے لکھاری ،میرے پیارے شفیق دوست،بھائی ’’محمد طاہر تبسم درانی‘‘ہیں ۔آپ اِسے جانتے ہوں گے لیکن میں ’’وعدوں سے تکمیل تک ‘‘سے پہلے انہیں نہیں جانتا تھا ،مطلب ان کے چھپے فن سے واقف نہیں تھا۔
’’وعدوں سے تکمیل تک ‘‘‘‘جب ورق ،ورق،لفظ ،لفظ پڑھ چکا توحقیت،بلکہ ’’محمد طاہر تبسم درانی ‘‘کی مکمل شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔یہ کتاب وعدے کراتی ہے ،وعدے نبھاتی ہے ،وعدوں کی تکمیل کی طرف لے کر جاتی ہے ۔سرورق بہت پیارا ڈئزائن کیا گیا ہے ۔بیک فلاپ پر موجودہ حکومت ،موجودہ وعدوں کی تکمیل کی تصویری جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
’’وعدوں سے تکمیل تک‘‘کی سیر کرنے نکلیں تو 176صفحات پر مشتمل پیاری اور معیاری کتاب ہے ۔جسے میرے ادبی دوست اور پاکستان ادب و پبلشر کے روح رواں محمد سمیع اللہ نے نہایت خوبصورتی اور محنت کے ساتھ شائع کیا ہے ۔خوش کن بات یہ ہے کہ اس ادارے کی پالیسی بہت پیاری ہے اوران کا وعدہ جو باخوبی نبھایا جا رہا ہے ۔’’No Profit,No Loss‘‘اس ادارہ سے ہر آنے والی کتاب مجھے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے ۔اپنا گرویدہ بناتی ہے ۔
’’وعدوں سے تکمیل تک ‘‘،سفید ،موٹے پیپر پر اپنے رنگوں کی کہکشاں سجائے ہوئے ہے ۔جس کی کمپوزنگ صفیہ خاتون نے کی ہے اور حرف بینی کے فرائض ’’احمد علی کیف‘‘نے نبھائے ہیں ۔لیکن مجھے احمد علی کیف سے شکوہ ہے کہ اُنہوں نے پروف بالکل بھی نہیں کیا ،ہاں ہو سکتا ہے اس کتاب کی پروف ریڈنگ سوتے میں کی گئی ہو۔ہر تحریرمیں چھ،دس کے کلیہ سے غلطیاں موجود ہیں جو پڑھتے ہوئے چاشنی کو کرکرا کر دیتی ہیں ۔فرض معاف نہیں ہیں اور اس کے بارے پوچھ گچھ ضرور کی جائے گی ۔موصوف نے اگر ذمہ داری لی تھی تو نبھاتے بھی ۔۔۔۔۔
’’وعدوں سے تکمیل تک ،‘‘دسمبر2017میں شائع کی گئی ہے جس کی نہایت اور مناسب قیمت 300روپے رکھی گئی ہے ۔میں محمد طاہر تبسم درانی کا نہایت شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے خلوص ،محبت و چاہت کے ساتھ تحفتاً ارسال کی ہے ۔یہ کتاب کہاں کہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے صفحہ نمبر 6پر تفصیل موجود ہے ۔
’’نام اور کام کا فرق‘‘کے عنوان سے نجم ولی خان لکھتے ہیں ’’صحافی ایک مکھی کی طرح ہے جس کا کام ہی زخم اور گندگی کو ڈھونڈنا اور پھر اس پر منڈلاتے رہنا ہے ‘‘جانے کس غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔خود صحافی ہو کر منفی سوچ رکھتے ہیں ،صحافی مکھی کی طرح ہی کیوں،صحافی گلشن کا پھول کیوں نہیں ۔؟صحافی پھو ل کی طرح ،شگفتہ ،نرم دل اور حساس ہوتا ہے ۔جو مسلنے والے ہاتھوں میں بھی خوشبو چھوڑ جاتا ہے ۔مکھی تو زخم پر بیٹھ جائے تو اُس کو ناسور بنا دیتی ہے لیکن صحافی زخموں کا مداوا کر تا ہے ،کراتا ہے ،ناسور نہیں بننے دیتا۔صحافی انصاف دلاتا ہے ،صحافی گندگی کو ڈھوننے کی بجائے ،گندگی کو ختم کرانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔صحافی زخموں پر مرہم لگاتا ہے ،منڈلاتا نہیں۔
’’سچ لکھنے کی طاقت‘‘ کے عنوان سے شہزاد چوہدری کہتے ہیں ،طاہر درانی کی تحریر میں تابانی بھی ہے اور روانی بھی ہے اس کا انداز فکر مثبت ہے ،آپ سچ کہتے ہیں ۔
’’وعدوں کی تکمیل‘‘ کے عنوان سے میاں شہاز(پروف کی غلطی )۔۔۔۔میاں شہباز غوث مشیر وزیراعلی پنجاب کہتے ہیں اچھائی کے راستے میں رکاوٹیں ضرور آتی ہیں مگر جو صبر اور استقامت کے ساتھ ان رکاوٹوں کو عبور کر جاتے ہیں وہی کامیاب کہلاتے ہیں ۔اسی لیے تو کہتے ہیں صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے ۔
’’محمد طاہر تبسم دارنی میری طرح بزدل نہیں‘‘ میں گل نو خیز اختر لکھتے ہیں ’’سب سے بڑی بات یہ کہ ریگولر لکھتے ہیں ورنہ عموماًکالم نگار بیس پچیس کالموں کے بعد ہاپننے لگتے ہیں ،گل نو خیز اختر کو چاہے کہ جو ہاپننے لگتے ہیںیا لکھنا چھوڑ جاتے ہیں ان کی وجہ بھی جاننے کی کوشش کریں ۔آخر کیا محرکات ہیں جو اُنہوں نے قلم سے رشتہ توڑ دیا ۔۔۔۔کہیں واسطہ یا بالواسطہ اس میں ہم تو ملوث نہیں ،،سوچ طلب بات ہے ۔
’’سچائی کا نقیب‘‘،وقار عظیم نے عمدہ رائے سے نوازہ ہے اورمیرے پیارے ہر دل عزیز فرخ شہباز وڑائچ دلچسپی سے کہانی سناتے ہوئے کہانی بنا بھی دیتے ہیں ۔بڑی گہری اور سچی باتیں کر تے ہیں۔
’’ویلڈر سے رائٹر تک‘‘ ،لکھاری کا کچھ مکمل اور کچھ نامکمل تعارف ہے ۔اس کی زندگی میں کیا کیا نشیب و فراز آئے ،کتنے طوفانوں کا رُخ موڑا،کن کن مشکلات سے ٹکرائے ۔سب اس میں ملے گا ۔لیکن ان طوفانوں ،مشکلات ،مصبیتوں میں ہمت،حوصلے ،صبر سے کیسے مقابلہ کرتے ہیں ،یہی تحریر سیکھاتی بھی ہے ۔کامیاب وہی ہوتے ہیں جو مشکلات کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔جو صراط والے راستے پر گامزن رہتے ہیں ۔
’’محمد طاہر تبسم درانی‘‘ کی کہانی مجھ سے ملتی جلتی ہے جیسے انہوں نے فیکٹریوں میں خود کو تراشا،تلاش کیا ،خود کو ہیرا بنایا،کچھ اسی طرح میں بھی حالات سے نبردآزما ہوں ۔طاہر تبسم درانی آخر میں کہانی کو گول کرکے جلدی ختم کردیتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ کہانی تو ابھی باقی ہے ۔’’اظہار تشکر‘‘ میں رشتے داروں کے علاوہ درجنوں اپنے دوستوں کے نام گنواتے ہیں ۔ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ،ان کے بے حد مشکور ہیں ۔
’’وعدوں سے تکمیل تک ‘‘’’موجودہ حکومت‘‘یعنی مسلم لیگ نون کے وعدوں اور ان کی تکمیل پر لکھی گئی ہے ۔وعدوں سے تکمیل تک معلومات فراہم کرتی عمدہ کتاب ہے ۔مسلم لیگ نون کا پس منظر ایک کتاب سے مدد لے کر مختصر بیان کیا گیا ہے ۔جس میں تشنگی باقی رہ گئی ہے ۔زیادہ ترذکر میاں محمد نواز شریف کا کیا گیا ہے اور ان کے وعدوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے ۔کہیں اس کو موجود ہ دور کا شیر شاہُ سوری کہا گیا ہے تو کہیں کچھ ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکومت نے سب سے اہم اور ضروری کام کیے ہیں ۔
خامیاں کس میں نہیں ہے ۔وہ انسان ہی کیا جو غلطی نہ کرے ۔غلطیاں سر زد ہوتی ہیں اور جو غلطیوں سے سُدھار کی طرف آئے وہ کامیاب رہتا ہے ۔اور جو غلطیوں کی ٹوہ میں لگ جائے وہ خود کو برباد کرتا ہے ۔دُشمن بھی ہر شخص کے ہوتے ہیں اور موجودہ حکومت کے دوست نما دُشمن تو بے شمار ہوں گے ،جو اپنے ہتھکنڈیوں سے ماحول کو آلودہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں ۔جو کچھ نہیں کرتے وہ انسانوں کو لڑاتے ہیں ،ان میں نفرتیں پھیلاتے ہیں اور جونفرت کی فضا ء پیدا کرتے ہیں ،ان سے محبت بھلا کون کرے گا۔؟
مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف اور خادم اعلیٰ محمد شہباز شریف نے واقعی لوگوں کے دِلوں میں گھر کر لیا ہے ۔پنیسٹھ تحریریں ،یعنی 65وعدوں کی بات کرتی ’’وعدوں سے تکمیل تک پڑھنے والی خوبصورت کتاب ہے ۔جس میں چند ایک مقام پر بات کو بار بار دُہرایا گیا ہے ۔وعدوں سے تکمیل تک کی مکمل بات کی جائے تو بہت اچھی کتاب ہے ۔اس میں خامیاں کم اور اچھائیاں زیادہ ہیں ۔اُمید ہے محمد طاہر تبسم درانی صاحب یونہی مثبت سوچ کو لے کر لکھتے رہیں گے۔۔میں ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اُنہوں نے جامع اور معلوماتی کتاب لکھ کر ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔وعدوں سے تکمیل تک کو ہر لائبریری کی زنیت بننا چاہے تاکہ اس پاک وطن کا ہر طالب علم اس سے افادہ حاصل کر سکے ۔یہ طلبہ کے لیے بہت ہی اچھی کتاب ہے ۔طالب علموں کو اس سے ضرور بہ ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔