Thursday, 28 July 2016


آزاد میڈیا کا ہماری زندگی پر اثر
انسانی معاشرے کی بقا ء اور تعمیر و ترقی اور ملک کی ترقی میں ذرائع ابلاغ کو ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے اور اسے مملکت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔میرا آج کا موضع بالکل الگ تھلگ ہے اور شائد کسی کو اچھا بھی نہ لگے کیوں کہ پچھلے ایک دو مہینوں سے ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوں اخبار پڑھو تو لگتا ہے جیسے بس اب دنیا ختم ہونے والی ہے ، ٹیلی ویژن پر ٹالک شو دیکھ لو تو لگتا ہے جیسے جنگ لگنے والی ہے اور ہم اس دنیا سے بس رخصت ہونے والے ہیں ہر طرف افراتفری کا عالم ہے بے چینی سی ہر طرف پھیلی نظر آتی ہے ہمارے آزاد میڈیا نے تو ساری حدیں ہی پار کر ڈالیں اتنی آزادی بھی کیا جس میں آپ معاشرے میں ایک کھلبلی سی مچا دیں لوگوں کا زندگی سے اعتبار اُٹھ جائے ، کسی کے گھر کا چراغ بجھ جائے اور آپ اس کا براہ راست انٹرویولوگوں کو دکھا کر اپنے چینل کا بھاؤ بڑھایں ، ایک ماں کا لال کسی حادثے میں انتقال کر جاتا ہے اس دھکیاری ماں سے یہ پوچھنا کہ اب آپ کیا محسوس کر رہی ہیں ، اس کی کمی سے کیا فرق پڑا ؟ اور اب آگے آپ کیا کرنا چاہتی ہیں؟ کیا اسی کو آزادی صحافت کہتے ہیں؟ کسی علاقے میں دو سیکنڈ کا زلزلہ آ جائے توآپ پورے2 گھنٹے ٹی وی سکرین ہلا ہلاکر دنیا کو دہلاتے ہیں۔ ایک شریف پا پردہ خاتوں جو کسی دفتر میں کام کرتی ہے اپنی عزت کی حفاظت کے لیئے نقاب کرتی ہے ہمارا یہ آزاد میڈیا تب تک اسے نہیں بخشتا جب تک اس کا نقاب اتر نہ جائے، لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ ایک دوست سے بات چیت کے دوران اس نے بتایا کہ لندن میں ہر سال تقریباََ پچاس ہزار لوگوں کا خون ہوتا ہے ، وہاں بھی سٹریٹ کرائم ہوتے ہیں ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں وہاں بھی ہوتی ہیں ، وہا ں بھی لوگ خودکشی کرتے ہیں لیکن وہاں ایسی خبر چلانا سخت منع ہے جس سے معاشرے میں بے چینی پھیلے اور لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو وہا ں کا میڈیا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اور اس سے بھی اہم بات وہا ں کے لوگ
انوسٹیگیٹڈ(investigated information) انفارمیشن کے بنا کسی خبر پر یقین نہیں رکھتے اگر کسی نے بنا تصدیق کے کوئی خبر چلادی اور بعد میں وہ خبر جھوٹی نکلے تو بھاری بھر کم جرمانہ عائد کیا جاتا ہے ۔
ہمارے میڈیا کے کیا کہنے کہیں آگ برساتا ہے تو کہیں بارش، کسی کی دھوتی اچھالتا ہے تو کسی کی پگڑی ، کتے نے انسان کو کاٹ لیا تو معمولی خبر انسان نے کتے کو کاٹ لیا تو بریکنگ نیوز۔ واہ رے کیا کہنے ۔اگر پولیس ، آرمی یا رینجر کسی مطلوب دہشت گرد، چور ڈاکو یا گینگسٹر کو پکڑنے کے لیئے اپنی حکمت عملی اپناتے ہوئے کوشش کرتی ہے تو ہمارا آزاد میڈیا اس کی اتنی مشہوری کر دیتا ہے اور بار بار اپنے چینل پر اس کی کوریج دیتا ہے کہ دشمن مذید چکنا (ہوشیار)ہو جاتا ہے اسے پل پل کی خبر مل رہی ہوتی ہے ایسے حالات میں ضابطہ اخلاق کی پابندی کرانے والے ادارے سو کر اپنی نیندیں پوری کر رہے ہوتے ہیں اگر ایسا نہیں تو جب نجی ٹی وی پر اہلِ بیت کی شان میں گستاخی کی گئی تھی تو اس کی خلاف ایکشن لیتے ہوئے اسے تاحیات بند کیوں نہیں کیا گیا اگر اس وقت ایسا کیا جاتا تو باقی چینلز کو نصیحت ہو جاتی اور کبھی کوئی ایسا 
پروگرام نشر نہ کیا جاتا جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی۔اگر کوئی لڑکی گھر سے بھاگ کر شادی کر لے تواسے پسند کی شادی کا نام دے کر اس بے حیائی کو پھیلایا جاتا ہے اور خوب اس لڑکی کا ساتھ دیا جاتا ہے اور اسے ایک ہیرو کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ہمار ا اسلام پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے مگر بھاگ کر والدین کی عزت کو قدموں میں روند کر نہیں بلکہ ولی کا ساتھ ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ ایک اور زندہ مثال سوشل میڈیا کے ذریعے بلندیوں کوچھونے کے خواب سجائے ایک ماڈل ہے جس کا تعلق ڈیرہ غازی خان کے ایک انتہائی پسماندہ علاقے سے تھا ، اس ماڈل گرل نے اپنے کیرئیر کی شروعات ایک بس ہوسٹس سے کی اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے شوبز کی دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنے کی کوشش کی 2013 سے 2016 کا سفر اس خوبرو دوشیزہ نے بہت جلد طے کیا۔ اور اسی سال اپنے بھائی کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔اس قلیل مدت میں میڈیا نے اپنا کردار خوب ادا کیا اس ماڈل گرل کو اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لیئے خوب استعمال کیا اور تواور اسلام کا مذاق اُڑانے میں بھی اس ماڈل کو استعمال کیا اسے اتنی زیادہ کوریج دی کہ وہ ایک قلیل مدت میں اپنے آپ کو بالی ووڈ کی کسی مشہور ایکٹریس سے کسی بھی حال میں کم نہیں سمجھتی تھی ، آزاد میڈیا نے اس کے بھائی کی غیرت جگانے میں اہم کردار ادا کیا اور جب اس کی موت واقع ہوئی تو بڑی ہوشیاری اور مکاری سے اس واقع کو دوسروں پر ڈال کے چلتا بنا۔اللہ تعالیٰ مرحومہ پر ااپنی خاص رحمت اور جنت میں جگہ نصیب فرمائے آمین۔
میری باتیں بالکل عام سی اور سادہ سی ہیں لیکن میرا مقصد معاشرے میں ایک شعور بیدا ر کرنے کا ہے کہ ہماری زندگی میں اس آزاد میڈیا نے کیا کردار ادا کیا ہے ، اس سے ہمیں کتنا فائدہ اور کتنا نقصان پہنچا ہے ۔مارننگ شو میں میزبان خاتون کے اگر کپڑوں کی ہی بات جائے تو لگتا ہی نہیں کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ پروگرام دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو کلمہ کی بنیا د پر آذاد ہوا تھا ، جس میں شریعت محمدی ﷺ کے مطابق زندگی بسر کرنا تھا، اغیار کو کاپی کر کے ہمارا آزاد میڈیا ہمیں نیکی کا درس دیتا ہے تمام چینلز پر دشمن ملک کے تمام پروگرام نشر کیے جا رہے ہیں گھر گھر میں کارٹون سے لیکر ڈرامہ فلم تک دشمن ملک کی دیکھائی جا رہی ہے انڈین کلچر پورے ملک میں عام ہو رہا ہے بچوں کی نفسیا ت پر اس کا گہرہ ا ثر پایا جا رہاہے ۔ (پروگرام ہوسٹس)سیٹ پر بیٹھی وہ حسینہ جس نے کم از کم 25 ہزار کا سوٹ پہنا ہوتا ہے وہ سادگی اور سادہ زندگی کا درس دے رہی ہوتی ہے ۔رمضان کریم میں اینکر حضرات ایک جید عالم اور مفتی کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اور جیسے ہی چاند رات کا پروگرام کرتے ہیں تو جیسے راتوں رات انہوں نے خرافات و فحاشیا ت کی اعلیٰ ڈگری حاصل کر لی ہو۔
ٹی وی پر بیٹھا ایک اینکر بیک وقت بہت سے خوبیاں لیئے بیٹھا ہوتا ہے اللہ اللہ یہ کسی معجزے سے کم نہیں ایک انسان میں اتنی خوبیاں وہ ایک اچھا طبیب، ایک ماہر انجینیئر، بہترین موٹر مکینک، بہت ہی زبردست کُک (chef)ڈاکٹر ، اور ڈاکٹر بھی ایسا جس کے پاس تمام بیماریوں کا علاج موجود ہوتا ہے ایک شعلہ بیان مقرر اور سب سے بڑی خوبی اسلام کی سمجھ اور علم سے اس کا ہر پلو بھرا ہوتا ہے غرض ہر میدان میں وہ اپنی مثال آپ ہوتا ہے اس عظیم انسان پر کس قدر مہربان ہے میرا رب ذوالجلال جو بیک وقت اتنی خوبیوں سے کوٹ کوٹ بھر ا ہوتا ہے ۔
اس آزاد میڈیا کے بھی کیا کہنے امیر شہر کا بیٹا گم ہوجائے تو پوری کی پوری حکومتی مشینری کو جگا نے میں ایک بھر پور کردار ادا کرتا ہے اور غریب کی اولاد گُم ہو جائے تو ایف آئی آر لکھوانے میں کئی مسائل کا سامنا بیچارے والد کو اکیلے ہی کرنا پرتا ہے ، پنجاب میں آج کل ایک نیا مسلہ پیدا ہو گیا جس کا سدِباب ابھی تک نہیں کیا جا رہا اور ارباب اخیتار اپنی کرسی کے نشے میں مست سوئے ہوئے ہیں اور کئی ماؤں کے جوان سال کم عمر بچے اغوا کیے جار ہے ہیں ہماری التجا ہے کہ اس مسلے کی طرف حکومتِ وقت اور آزاد میڈیا مل کر توجہ دے اور اس کے ادراک میں اپناکلیدی کردار ادا کرے ۔
اسلام میں ذرائع ابلاغ کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے عوام الناس تک سچی اور صحیح خبر پہنچائی جائے اور اس میں مرچ مسالے کو استعمال نہ کیا جائے ذرائع ابلاغ (آزاد میڈیا)سچ کے اظہار میں کسی لالچ یامداہنت کا شکار نہ ہو اور صرف ایسی معلومات کی اشاعت کا بندوبست کریں جس سے عوام کے اندر نیکی اور تقویٰ کا عنصرپیدا ہووہ کسی ایسی خبر کی اشاعت سے ہرگز باز رہیں جس کا مقصد ان کے اخلاقیات پر حملہ کرنا ہویا اس سے دوسروں کی دل آزاری ہوجہاں میڈیا کو آزادی دی گئی ہے وہاں اسے بہت سی اخلاقی شرائط اور سماجی و معاشرتی قوانین کا پابند بھی کیا گیا ہے میڈیا کو آزادی دی گئی ہے اور کوئی اس آزادی کو سلب نہیں کرسکتا ساتھ ہی ساتھ میڈیا پر بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ حکومت وقت کے دیئے گئے ضابط اخلاق پر سختی سے عمل کریں اور معاشرے کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
مکمل تحریر >>

Thursday, 26 May 2016

یوم تکبیر ۔ آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

بقول شاعر( میں کھٹکتا ہوں دلِ کفر میں کانٹے کی طرح)
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات اتنے منفرد اہم اور تاریخی ہوتے ہیں کہ ان لمحوں کی اہمیت اور حثیت کا مقابلہ کئی صدیاں بھی مل کر نہیں کر 
سکتیں۔یہ منفرد قیمتی لمحات تاریخ کا دراصل وہ حساس موڑ ہوتے ہیں جہاں قوم اپنے لیئے عزت و وقار غرور و تمکنت ، زلت و رسوائی یا غلام محکومی میں سے ایک راستہ چُن لیتی ہے ، بزدل ، ڈرپوک ابن الوقت غلام ذہنیت کے لوگ ان تاریخ ساز لمحات کی قدر نہیں جانتے اور نہ ہی ان کے دل و دماغ کسی چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور نتیجتا ایسی قومیں غلام رہ جاتی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑی بھی نہیں ہو سکتیں پھر ایسی قوموں پر ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ ماضی کے گرد میں کھو کر تاریخ کی بوسیدہ کتابوں کا حصہ بن جاتی ہیں پاکستانی قوم غیرت اور ملکی سالمیت پر مر مٹنے والی قوم ہے یہ ایک زندہ قوم ہے اور اپنے ہیروز کہ ہمیشہ یاد رکھنے اور ان کی خدمات کو سرہانے والی قوم ہے دشمن نے جب بھی للکارہ اس قوم کے غیور اور بہادر سپوتوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے 1965ء کی جنگ میں پاک فوج کے جوانوں کا جذبہ دیدنی تھاجب انہوں نے اپنے جسموں سے بم باندھ کر بھارت کے کئی ٹینک تباہ کیئے اور بھارتی سورماؤں کو جہنم واصل کیا۔
1947ء کو دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی اسلامی سلطنت جس کو مدینہ ثانی بھی کہتے ہیں ، یہ پہلا اسلامی ملک ہے جس کے پاس اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیئے اور دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے اور کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے ۔ پاکستان جب سے آزاد ہوا ہمسایہ ملک بھارت نے اسے نقصان پہچانے میں کبھی کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی وہ اپنی جارحانہ حرکتوں سے باز نہیں آیا اور ہر وقت نقصان پہچانے کے لیئے کوئی نہ کوئی حکمتِ عملی اپنائے ہوا ہے ۔
1974ء میں بھارت نے پاکستان کو ڈرانے اور غرور کرنے کے لیئے دھماکے کیے اور ہر سطح پر پاکستان کو دھمکی آمیز لہجے کا استعمال شروع کر دیا، دشمن کا خیال تھا کہ وہ دھماکے کر کے پاکستان کو ڈرا دھمکا دے گا اور اس کی اس بزدالانہ حرکت سے پاکستان ڈر جائے گا اور یوں وہ اپنے آپ کو ایٹمی سپر پاور کہلائے گا، اس وقت کے نڈر اور بہادر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹونے ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیئے اسے (پاکستان) کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کا م کا آغاز ہو گیا، جب ہندوستان نے ایٹمی ڈھماکوں کا فیصلہ کر لیا تو پاکستان اس بات پر مجبو ر ہو گیا کہ اپنے ایٹمی پروگرام کو تیزی سے فروغ دے ، ایٹم بم بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا ، دنیا کی کوئی بھی طاقت خواہ آپ کے کتنے قریب کیوں نہ ہو کسی بھی قسم کے ایٹمی پروگرام میں آپ کا ساتھ ہرگز ہرگز نہیں دیتی کیونکہ ہر ملک ایٹمی عدم پھیلاؤ تنظیم کے تحت پابند ہوتا ہے ۔7 سال کی دن رات کی محنت اور کوششوں کے بعد مئی 1983ء میں پاکستان نے اپنا پہلا کولڈ ٹیسٹ کر کے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے ۔
مجھے قائد اعظم کے وہ تاریخی جملے یا د آر ہے ہیں جب انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا( پاکستان کی حفاظت کے لیئے میں تنہا لڑوں گا جب تک میرے جسم میں خون کا آخری قطرہ تک موجود ہے مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ آپ کو پاکستان کی حفاظت کے لیئے جنگ لڑنی پڑے تو کسی صورت ہتھیار نہ ڈالیں ۔ صحراؤں میدانوں جنگلوں اور سمندروں میں جنگ جاری رکھیں)
جس وقت پاکستان نے ایٹم بم کا کولڈ ٹیسٹ کیا اس وقت دنیا میں ایٹمی تجربات پر پابندی لگانے کی کوششیں تیزکردی گیں تھیں اور پاکستان کی حکومت کے لیئے ایٹمی ٹیسٹ کرنا ایک بہت بڑا چیلنج اور بہادری کا کام تھا۔ مئی1998 ء میں ہندوستا ن نے ایک بار پھر راجھستان کے علاقے میں ایٹمی تجربات کرنے کا فیصلہ اس کی خام خیالی تھی کہ وہ ایک عالمی سپر پاور بننے جا رہا ہے، تیرہ مئی 1998ء ہندوستان نے 5 ایٹمی دھماکے کیے۔ پاکستان ان دھماکوں کے جواب دینے کا بہت شدت سے انتظار کر رہا تھا 14 مئی 1998ء کو ڈیفنس کمیٹی آف دی کیبنٹ کا اجلاس وزیراعظم کی سربراہی میں ہوا اور میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو بھر پور جواب دینا چاہیے ، ابھی دھماکوں کا فیصلہ ہی ہوا تھا کہ اس کی خبر امریکی صدر بل کلنٹن کوہو گئی ، امریکہ نے پاکستان کو قرضے معاف کرنے اربوں ڈالرامداد دینے اور اس کے بدلے ایٹمی پروگرام بند کرنے کے لیے دباؤ ڈاالا جانے لگا ایف سولہ طیارے جو پاکستان کی ملکیت تھے مگر امریکہ نے روک رکھے تھے وہ بھی پاکستان کو دینے کا وعدہ کیا ۔
پاکستان کی تاریخ میں 28مئی کا دن ایک تاریخی دن اور بہت بڑ ی اہمیت کا حامل دن ہے جب بھارت کے 5 دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے 6 دھماکے کر کے اپنی برتری ثابت کی۔ 28مئی 1998ء کو نمازِ مغرب سے پہلے ٹیسٹ ٹیم ہیلی کاپٹروں کے ذریعے چاغی سے خاران منتقل ہو گئی وہاں ایٹم بم کا ایک آخری ڈیزئن ٹیسٹ کیا جانا تھا یہ سائز میں چھوٹا تھا مگر طاقت میں چاغی والے بموں سے زیادہ تھا، پاکستان کے ایٹمی تجربات کی کامیابی نے پور ی ٹیسٹ ٹیم کو سجدہ ریز کر دیا اور زمیں کا 55 ڈگری سینٹی گریڈ گرم زمیں بھی سجدہ کو نہ روک سکی ، دشمن ان تجربات سے کافی خوف ذدہ ہو ا او اب اس کہ نظر آرہاتھا کہ جو خواب ان نے دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور بھارت دنیا میں ایٹمی طاقت بن کا سپر پاور نہیں بن سکتا۔ پاکستانی سائنسدانوں نے بھارت کے اس خواب کو خاک میں ملادیا تھا اور پوری پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی بیرونی جارحیت کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات کو مکمل طور پر مٹایا جا سکے۔
پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہے جو کسی بھی جارحیت یا دشمن کا منہ توڑجواب دینے کی طاقت رکھتا ہے جو طاقتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام/ صلاحیت کے خلاف ہیں ان کے پاس اب صرف ایک راستہ رہ جات ہے کہ وہ پاکستان کو اندر سے کمزور اور غیرمستحکم بنایں اور پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دیا جائے اور اسے دنیامیں بد نام کیا جائے اور ایک ناکام ریاست بنادیا جائے ، دنیا کو شائد یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کلمہ کی بنیاد پر معر ضِ وجود میں آیا ہے اور اسکی حفاظت اللہ جلہ شانہ ہی فرما رہے ہیں۔
آج دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے ایٹم بم اپنے مایہ ناز سائنسدانوں کی ان تھک محنت اور کوششوں سے بالکل اپنے طور پر بنایا ہے اور قابل فخربات یہ ہے کہ اس میں کسی غیر ملکی ایجنسی کی یا کسی غیر ملک کی امداد یا عنصر شامل نہیں ۔
پاکستان کا جوہری پروگرام پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ نہایت اور موثر نظام کے تحت اپنی راہ پر گامزن ہے کیونکہ یہ پروگرام ارضِ وطن کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کی ممکن صلاحیت رکھتا ہے ملکی دفاع کو نا قابل تسخیر کا سہرہ بھی اسی پروگرام کو جاتا ہے۔28 مئی کا دن پاکستان میں یومِ تشکر اور یوم تکبیر کے طور پر منا یا جاتا ہے ہر سال ملک بھر میں یوم تکبیر بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا تا ہے پوری قوم سر بسجود ہو کر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتی ہے ملک بھر کی تمام سماجی غیر سماجی سیاسی غیرسیاسی جماعتوں کی جانب اس سلسلے میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ریلیاں نکالی جاتی ہیں ، جلسے جلوس اور سیمنار منعقد کیے جاتے ہیں۔

مکمل تحریر >>

Monday, 16 May 2016

ڈاکٹر مسیحا یا قصائی

ڈاکٹر مسیحا یا قصائی
زندگی انسان کو صرف ایک بار ملتی ہے اس میں اتار چڑھاؤ ، نشیب و فراز آتے رہتے ہیں انسان کو اچھے بُرے ہر قسم کے لوگ بھی ملتے ہیں زندگی ریل گاڑی کی طرح ایک پٹڑی پر چلتی رہتی ہے مختلف اسٹیشن آتے ہیں لوگ سوار ہوتے ہیں اور اتر جاتے ہیں کبھی کوئی ہمیشہ کے لئے آپ کا ساتھ نہیں دیتا ،بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنکو اچھے اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والے دوست یا خیرخواہ ملتے ہیں زندگی دن بدن تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے (یعنی آخرت کیطرف)گھڑی کی سوئیاں ہر لمحے باور کروا رہی ہیں کہ مزید ایک پل کم ہو گیا ہے ، کسی نے کیا خوب کہا ہے گھڑی کی ٹِک ٹِک مسلسل ایک کڑی ضرب ہے زندگی کی سانسوں پر ، جو ایک ایک سانس کاٹ رہی ہے اور انسان کتنا نادان ہے جو زندگی کم ہونے کی خوشی مناتا ہے ۔ 
انسان فنا ہے اور ایک دن اپنے خالقِ حقیقی سے واپس جا کر ملنے والا ہے لیکن پھر بھی دنیا کی حرص اس قدر ہے کہ انسانیت تک بھول جاتا ہے ایک زمانہ تھا جب ہم لوگ سنتے تھے کہ ڈاکٹر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لیئے مسیحا ہوتا ہے وہ دکھی انسانیت کی خدمت کرتا ہے ، ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ ہوتا ہے ، جہا ں عام انسا ن بیماری کے خلاف نا اُمید ہو جاتا ہے وہا ں ڈاکٹر روشنی کی کرن ہوتا ہے اور لوگ اس پیشے سے وابستہ لوگوں کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جیسامیں نے پہلے کہا اچھے اور بُرے انسان ہر معاشرے اور ہر دور میں پائے جاتے ہیں ایسے ہی ڈاکٹرز میں بھی اچھے اور برے لوگ موجود ہیں کچھ لوگ محبت اور صرف خدمتِ خلق کے جذبے سے سر شار ہوتے ہیں تب نہ صرف لوگ ان کی عزت کرتے ہیں بلکہ ان کو اپنا مسیحا مانتے ہیں لیکن جب سے ڈاکٹر اور مریض کے رشتے نے گاہک کا رشتہ اپنایا ہے تب سے انسانیت تو جیسے فوت ہی ہو گئی ہو۔
ایک دوست کو اللہ جلہ شانہ نے بیٹی کی رحمت سے نوازہ ، ایک سال ہو گیا تھا مبارکباد دینے نہیں گیا تھا، اتفاق سے چھٹی تھی سوچا مبارکباد بھی دے آؤں اور اس کے گلے شکوے بھی دور کر آؤں، جب میں اس کے گھر پہنچا تو وہ خوشی سے پھولا نا سمایا ، مبارکباد دی وہ خوش بھی ہوا اوراسکے آنسو بھی آنکھوں سے ٹپکنے لگے ۔میں نے آنسوں کی وجہ پوچھی تو خاموش ہو گیا اور چائے کی طرف اشارہ کیا، میرے بے حد اصرار پر اس نے بتایا۔
میں ایک غریب انسان بارہ (12000)تیرہ ہزار روپے کماتا ہوں کرائے کا گھر ہے بتا ؤ ایسے میں پرائیویٹ ہسپتا ل کیسے برداشت کر سکتا ہے ، میں نے کہا آپ سرکا ری ہسپتا ل سے اپنا کیس کروا لیتے جس پر اس نے کہا چھ ماہ میں اپنے بیوی کو سرکار ی ہسپتا ل سے باقاعدہ چیک اپ کرواتا رہا ہوں ۔ رجسٹریشن کا رد بھی میرے پا س موجو د ہے ، لیڈی ڈاکٹر نے کہا تھا جب حالت نازک ہو گی تو فورا ہمارے پاس لے آنا ڈیلیوری کر دیں گے میں نے حسب ضرورت پانچ چھ ہزا ر پکڑے اور اسی سرکار ی ہسپتال لے گیا جہاں سے رجسٹریشن کروائی تھی اور ہر مہینے دو بار چیک کروانے جایا کرتا تھا ، جب ہم لوگ ہسپتا ل پہنچے توہمارے ساتھ بھیکاریوں جیسا سلوک کرنے لگے کبھی اس طرف لے جاؤ کبھی اُس طرف پھر جا کر میری بیوی کو اندر لے گئے اور 3 تین گھنٹون بعد واپس لے جانے کو کہہ دیا، ہم لوگ بہت پریشان تھے ایسا کیوں کر رہے ہیں انہوں نے کہا ہمارے پاس ڈاکٹر کم ہیں اور آپریشن کرنا پڑے گا نارمل ڈیلیوری نہیں ہوسکتی ہم آپریشن بھی ما ن گئے پھر کہنے لگے آپریشن تھیٹر ایک ہی ہے او ر مریض زیادہ لہذا آپ اپنے مریض کو لے جایں ہم نے فورا اپنے مریض کو ایک اور بڑے سرکاری ہسپتا ل میں لے گئے انہوں نے تو حد ہی کر دی ایک گھنٹے بعد کہنے لگے ہمارے پاس ان کا کوئی ریکارڈ نہیں لہذا جہا ں سے چیک اپ کرواتے تھے وہیں لے جایں ، بہت پریشان حال مریض کی طبیعت مزید بگڑتی جا رہی تھی وہ نازک سے نازک حالت میں ہوتی جا رہی تھی مگر ان قصائیوں پر غصہ آرہا تھا حکومت ان کو کتنی تنخواہیں دیتی ہے کتنی مرعات دیتی ہے اور یہ ایسا رویہ اخیتار کیے ہوئے ہیں بہت سے افسردہ حا لت میں ایک پرائیویٹ ہسپتا ل کا رخ کیا جہا ں جاتے ہیں انہوں نے 150000ایک لاکھ پچاس ہزار پہلے جمع کرانے کا کہا باقی ٹیسٹ وغیرہ لیں گے پھر بتایں گے مریض کے ساتھ کیا کرنا ہے اتنے زیادہ پیسے سنتے ہی میرے تو پاؤں تلے سے زمین جیسے نکل گئی ہو میں ایک غریب آدمی اتنی بڑی رقم کا بندوبست کہا ں سے کرتا ، اپنے مریض کو وہاں سے لیا اور باہر آکر بے بس رونا شروع کر دیا ایک دوست کو فون کیا اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا رات نو 9 بجے سے صبح 6 بج گئے تھے مگر میری پریشانی بڑھ رہی تھی ، میرا دوست کچھ دیر بعد میر ے پاس آگیا اور ہم نے مزنگ کے قریب ایک نجی ہسپتال کارخ کیا ، وہا ں پر دو لیڈی ڈاکٹرز ہیں دونوں ماں بیٹی ہیں اور ان کے ہاتھ میں بھی چھر ی جس کے دو منہ ہوتے ہیں ان سے بات کی توکہنے لگی میرے پاس ٹائم نہیں جو انتظار کرتی رہوں آپریشن کروانا ہے تو بتایں میں نے پیسوں کی بات کی کو کہتی آپ کو معلوم نہیں پرائیویٹ ہسپتال میں سستا نہیں ہوتا چلو آپ پچاس ہزار جمع کراویں ۔میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں تو کہتی جلد بتایں میں نے اور بھی کوئی کام کرنا ہے بڑی منتوں سماجتوں سے 45 ہزارروپے پے بات مان گئی ۔ یوں میرے دوست نے میری مدد کی اور میری بیٹی پیدا ہوئی۔
یہ صرف ایک واقع ہے ایسے بے شمار واقعات ہیں جو بیان سے بھی باہر ہیں دل خون کے آنسو روتا ہے کیا غریب آدمی اولا د پیدا کرنے سے پہلے ایک لاکھ روپے جمع کرے پھر اس نعمت کا سوچے ؟ ایک ڈاکٹر حکومت سے ایک اچھی تنخواہ لیتا ہے مرعات لیتا ہے ۔ ایک نرس جو کہ 16 و یں سکیل میں کام کرتی ہے جو سارے کام کرتی ہے وارڈ دیکھتی ہے ، ایمرجنسی میں کام کرتی ہے میڈ وائف ایک مخصوص کا م کے سوا کوئی کام نہیں کرتی جب کہ LHV صرف فون سننے میں مست رہتی ہے ڈاکٹر زصاحبان سیاسی بنیادوں پر آئے روز ہڑتا ل کرتے ہیں اور اپنے مطالبات منوانے کی خاطر ہسپتالوں میں کام نہیں کرتے، کبھی سوچااس وقت کتنے مریض اذیت کا شکار ہوتے ہیں کتنے مریضوں کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے فوت بھی ہو جاتے ہیں اور آپ صرف چند ٹکوں کی خا طر یا سیاسی مفاد کو پورا کرنے کے لیئے انسانیت کا خون کر دیتے ہیں۔ حکومیتں بلند و باگ دعوے کرتی ہے ، ہر طر ف پانامہ لیکس ، آف شور کمپنیاں ، کرپشن کا ذکر ہے ، ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہو رہی ہے ایک جماعت اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیئے دوسری جماعت پر کیچڑ پھینک رہی ہے سب کے سب ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہیں مگر کسی میں اتنی ہمت ہے کہ عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیئے اسمبلی میں کوئی بل پاس کروائے۔ کسی کو میٹرو پر اعتراض ہے تو کوئی اورنج ٹرین کے پیچھے اپنی سیاست چمکا رہا ہے ، کیا اس درندگی سے بچنے کے لیئے بھی کوئی حکمت عملی بنائی ؟ ڈاکٹرز اپنی مرضی اور پیسووں کے لالچ میں ایک تندرست حاملہ خاتوں کا آپریشن کر دیتے ہیں 
کیا یہ کرپشن نہیں ؟ 
کیا یہ جرم نہیں؟
2015ء میں پنجاب اسمبلی میں عورتوں کے حقو ق اور ان کے تحفظ پر ایک قانون پاس کیا گیا جس کی رو سے عورتوں پر تشدد اور ان کی عزت کی خلاف ورزی جرم ہو گا تو جناب سرکار ی ہسپتالوں کے ڈاکٹرز جان بو جھ کر کیس نہیں لیتے کیوں کہ ہر ڈاکٹر نجی ہسپتا ل میں کام کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضو ں کا علا ج معالجہ کیا جائے پھر وہ اپنی کمیشن کہاں سے وصول کریں گے۔ حکومتِ وقت کو چاہیے جب بھی کو ئی ڈاکٹر سرکاری ملازمت اختیار کر ے اس کے لیئے لازم ہو کہ وہ کسی پرائیویٹ ہسپتا ل میں کام نہیں کرے گا ۔ 
سرکاری ہسپتالوں کے عملہ کی تربیت کی جائے کہ مریض اور لواحقین کے ساتھ نرمی سے پیش آیں ڈاکٹرز کو چاہیے کہ وہ خدمت خلق اور انسانیت کے جذبے سے کام کریں تاکہ لوگ انہیں اپنا مسیحا مانیں نا کہ قصائی۔
مکمل تحریر >>