مریم نواز سیاسی افق کا ابھرتا ہوا روشن ستارہ
تقریر کرنا ، لوگوں کو متوجہ کرنا، اپنی بات لوگوں تک پہنچانا پھر داد لینا یا لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا، اپنی گفتگو کے ذریعے مطمعن کرنا اگر سچ پوچھیں تو یہ ایک بہت بڑا فن ہے جو ہر بندے کے پاس نہیں اگر کہا جائے کہ یہ ایک خدا داد صلاحیت ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اللہ رب العزت جسے چاہے اس فن سے نواز دے بہت سے پڑھے لکھے اچھے لوگ تعلیم یافتہ تو ہو سکتے ہیں لیکن اچھے سپیکر نہیں۔بولنے کا ڈھنگ ، بات سے بات کو جوڑنا اور اپنے موضوع پر رہتے ہوئے بات کرنا اللہ کی عطا ہے ۔ اگر ماضی کی بات جائے تو یہ فن اللہ کریم نے شہید ذولفقارعلی بھٹو صاحب کو عطا کیا تھا وہ عوامی لیڈر تھے اور عوام میں بے پناہ مقبول تھے لوگ ان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے گریز نہ کرتے تھے ان کے بعد ان کی بیٹی محترمہ شہید بے نظیر بھٹوصاحبہ میں یہ فن باکمال تھا وہ لفظوں کے جوڑ تور سے خوب واقف تھیں ان کو اپنے لفظوں پر خوب گرفت تھی۔
حا ل ہی میں ملک کاسیاسی پارہ کافی گرم رہا ، ملک میں کافی تبدیلی دیکھنے کو ملی کچھ جوڑ توڑ ہوئے ملک کے وزیر اعظم کو ناہل قرار دے کر کرسی سے ہٹایا گیا، مختلف سیاسی جماعتوں نے خوب جشن منایا الغرض ملک میں ایک عجیب سی کیفیت دیکھنے کو ملی ۔ ایک بات یہاں کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ قوم سے ایک سوال ہے۔ہم کیسی قوم ہیں ؟ سیاسی لیڈر کرسی سے ہٹے تو مٹھائیاں بانٹتے ہیں ، کوئی فوجی ڈکٹیٹر ملک میں مارشل لاء نافذ کرے تو مٹھائیاں بانٹتے ہیں، وہی فوجی ڈکٹیٹر جب کرسی سے ہٹایا جائے تو مٹھا ئیاں بانٹتے ہیں ۔ کوئی سیاست دان ملک میں واپس آئے تو فقید المثا ل استقبال پھول کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں اور بعد میں اس کے جانے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں ہم کون ہیں ؟ ہمیں آج تک فیصلہ ہی نہیں کرنا آیا تھا ۔ لیکن اب سیاسی شعور بیدار ہوچکا ہے وقت کو بدلتا دیکھ رہا ہوں لوگوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہو رہا ہے لوگوں کو اپنا لیڈر چننے کی تمیز آ چکی ہے لوگوں کو اپنے ووٹ کی قیمت کا اندازہ ہو چکا ہے لوگ اب جان چکے ہیں کہ ووٹ سے ہی وہ ملک میں تبدیلی لا سکتے ہیں ۔لوگوں کو یہ بھی اندازہ ہو چکا ہے کون شعبدہ باز / مداری ہے اور وہ کون لوگ ہیں جو صرف ڈگڈگی بجا کر لوگوں کواکھٹا کر کے اپنا مداری شو دیکھا رہے ہیں جس کا حاصل کچھ بھی نہیں ہے یہ صرف اور صرف سازش ہے ملک میں ترقی کی راہوں کو روکنے کی اور کون لوگ ہیں جو صرف دھرنوں اور دعووں کی سیاست سے اپنی دکان داری چمکا رہے ہیں۔حلقہ این اے 120 اس وقت ن لیگ کے لیے ایسا بن چکا ہے جیسے ایم کیو ایم کے لیے نائن زیرو، پی پی پی کے لیے گھڑھی خدا بخش، عوامی مسلم لیگ کے لیے لال حویلی(پنڈی)۔
اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کا رخ اور توجہ حلقہ این اے 120کے ضمنی الیکشن پر مرکوز ہیں سب کے سب اس وقت اپنی اپنی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں تمام سیاسی پارٹیوں کے امیدوار اپنی اپنی سیاسی مہم بھر پور انداز سے چلا رہے ہیں ۔ لیکن کل جیسے میں نے محترمہ مریم نواز شریف کا استقبال دیکھا لوگوں کا جوش و جذبہ دیکھا وہ یقین مانیں دیدنی تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی عظیم لیڈر اپنے عوام میں گھل مل گیا ہو۔ کہتے ہیں جتنے منہ اتنی باتیں ۔ لیکن یہ بات ماننا پڑے گی جس انداز سے مریم نواز اس وقت انتخابی مہم چلا رہی ہیں اس سے دوسری سیاسی پارٹیاں خوف ذدہ ہیں اور انہیں اپنی ہار واضع نظر آرہی ہے ۔ایک سیاسی پارٹی نے تو اپنا نمائندہ ہی ہٹا لیا کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ جیسے یہاں پر لوگ اپنے قائد کی بیٹی کا، جس انداز سے استقبال کیا ہے وہ ان کی ہار کی علامت بنتا جا رہا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں اپوزیشن پارٹی کا امیدوار بھی کا فی مضبوط ہے لیکن جیت مسلم لیگ (ن) کی واضع اکثریت سے نظر آرہی ہے ۔ جس انداز سے مریم نواز نے اپنی تقریر سے لوگوں کو متوجہ کیا اور وعدے لیے اپنے الفاظوں کو خوب استعمال کیا ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹوصاحبہ کی یاد تازہ کر دی ۔ شیر کی طرح دھاڑیں مارتی بجلی کی طرح گرجتی یہ دختر پاکستان جب عوام کی عدالت میں پہنچی تو لوگوں نے گُل پاشی کر کے اپنی بیٹی کا استقبال کیا۔ یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے کامیاب ہو کر میاں صاحب۳ بار وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔
مریم نواز سیاسی افق کا روشن ستارہ ہیں اور آنے والا وقت ان کا ہے ۔مریم نواز ایک سیاسی خاندان میں پیدا ہوئیں اور میاں محمد شریف جو کہ اتفاق گروپ کے بانی ہیں ان کی پوتی اور میاں محمد نواز شریف کی بیٹی اور خادم اعلیٰ کی بھتیجی ہیں 28 اکتوبر 1973 ء کو پیدا ہوئی اور ابتدائی تعلیم لاہور کے ایک نجی سکول سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر گری حاصل کی۔ مریم نواز 1997ء سے شریف ٹرسٹ کی چیئرپرسن بھی ہیں اور سیاسی سماجی اور فلاح و بہبود کے کاموں کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں انہوں نے 2012ء میں اپنے خاندان کے ایک رفاہی ادارے میں کام کا آغاز کیا اور سیاست میں باقاعدہ قدم 2013ء کی جنرل الیکشن میں رکھا۔الیکشن کے دوران ضلع لاہور کی الیکشن مہم کی ساری ذمہ داری ان کے کندھوں پر ڈالی گئی جسے مریم نے بخوبی نبھایااور ایک کامیا ب الیکشن مہم چلانے میں اپنا کردار ادا کیا اور اپنے والد کی کامیابی میں ایک اہم رول ادا کیا۔22 نومبر 2013ء کو انہیں وزیر اعظم یوتھ پروگرام کا قلم دان تھمایا گیاجس کو ایک سال کے قلیل عرصہ کامیابی کے ساتھ چلانے کے بعدانہوں نے چھوڑ دیا۔1992ء میں کیپٹن صفدر اعوان سے ان کی شادی ہوئی ۔مریم نواز بے پناہ صلاحیتوں کی مالک ہیں ۔ اگروہ اپنے والد کی جانشین نہ بھی ہوں تو بھی وہ ایک مکمل اور پختہ شخصیت کی مالک وہ سیاسی فہم و فراصت کی مالک ہیں اور پاکستان کے سیاسی افق کا ابھرتا ہوا روشن ستارہ ہیں۔ وہ ملک میں اپنا نام پیدا کر سکتیں ہیں۔