سرُوں کی ملکہ، ملکہ ترنم نور جہاں
1926 to 2000
از قلم ۔ محمد طاہر تبسم درانی
tahirdurrani76@gmail.com
wordreel.blogspot.com
0310 10 72 360
َِِِِشیکسپیئرکہتا تھاکچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں تو کچھ لوگ اپنی جدو جہد اور کارناموں کی وجہ سے وہ مقا م حاصل کر لیتے ہیں،انسان کبھی کبھی ایسے الفاظ بو ل جاتا ہے جو اس کی پہچان بن جاتے ہیں جیسے ملکہ ترنم نور جہاں نے گا نا گایاتھا جس کے بول ان کی پہچان بن گئے اور لوگوں کے دلوں میں نقش چھوڑ گئے،(گائے گی دنیا گیت میرے) ’ ’ اللہ وسائی‘ ‘ 21 ستمبر1926ء قصور میں’’ کوٹ مراد خاں‘‘ میں پیداہوئی نورجہاں کے والد کا نام مدد علی ، ماں کا نام فتح بی بی، اللہ وسائی کے بارے کوئی نہیں جانتا تھا کہ بڑی ہو کر نہ صرف اپنا بلکہ ملک وقو م کانام روشن کرے گی۔
اللہ وسائی نے کم عمری یعنی تقریبا 6 سال کی عمر میں اپنے گائیکی کے سفر کا آغاز کیا جب کلکتہ کے ایک سٹیج پر ڈائیریکٹر دیوان سری لال نے ان کو بے بی نورجہاں کے نام سے متعارف کرایا، نورجہاں کے لیئے یہ بات اور زیادہ خوش آئین تھی کہ جس خاندان میں انہوں نے آنکھ کھولی وہ خاندان پہلے سے ہی موسیقی سے وابستہ تھا ان کا اوڑھنا، بچھونا غرض کھانا پینا ہی موسیقی تھا، اللہ وسائی نے اپنے فن کا آغاز سٹیج پر فارمنس سے کیا یہاں انہیں خوب پذیرآئی ملی اور یوں اللہ وسائی نے بے بی نورجہاں تک کا سفر مکمل کیا۔نور جہاں نے اپنا فلمی سفر 1935ء میں کے ڈی مہرہ کی پنجابی فلم (پنڈ دی کڑی )سے کیا، میڈم نورجہاں کو جہاں بچپن سے گائیکی کا شوق تھا وہیں انہیں ایکٹنگ کا بھی جنون تھا، خاندانی طورطریقہ بھی کچھ ایسا تھا کہ انہیں روزانہ کچھ نیا کرنے کے لیئے تربیت گھر سے ہی مل جاتی تھی۔
پنجابی فلم پنڈ دی کڑی میں نورجہاں نے اپنی آواز کا بھی جادو جگایا اور ایک گانا بھی ریکارڈ کروایا، کہ گانا پہلا گانا تھا جو انہوں نے کسی فلم کے لیئے گایا تھا، گانے کے بول تھے ، ’ ’ لنگ آجا پتن چنان دا یا ر‘‘ اس کے بعد نورجہاں کو یکے بعد دیگرے فلموں میں کام ملتا گیا، دو سال بعد میڈم نورجہاں نے ایک اور فلم میں کام کیا جس کا نام تھا ’’ کل بکولی‘‘ اس فلم نے باکس آفس میں دھوم مچا دی اور خوب شہرت حاصل کی اور نور جہاں کو بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد یملہ جٹ میں کام کیا اس فلم میں بھی ملکہ نے خوب جم کر کام کیا اور خوب شہرت حاصل کی اگلے سال فلم ’’ چوہدری ‘‘ میں نو ر جہاں نے اپنےُ سروں کا جادو بھی جگایا اور میڈم کے گانوں نے دھوم مچا دی لوگوں میں میڈم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، اب اللہ وسائی ، میڈم نورجہاں کے نام سے جانی جاتی تھیں اس کے بعد نورجہاں نے اردو فلم میں بطور ہیروئن کام کیا اس فلم کے ڈائیریکڑشوکت رضوری تھے جن کو ایک فلم ساز دل سکھ پنچولی نے کام کرنے پر آمادہ کیا تھا، اس فلم کا نام ’’ خاندان ‘‘ تھا اور سب سے مزے کی بات اس وقت بے بی کی عمر صرف 15 سال تھی، اس فلم کی شہرت نے ان کے نام سے بے بی کا لفظ ہٹا کر میڈم نور جہاں بنا دیا۔اس فلم کی کامیابی کے بعد شوکت رضوی اور نور جہاں لاہور سے بمبئی چلے گئے اور وہاں جا کر شادی کر لی یوں بھی کہا جا سکتا ہے نورجہاں نے بہت کم عمری میں شادی کر لی۔
1942ء سے 1946ء کے دوران بہت سی کامیاب فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں میڈم نورجہاں نے کام کیا اور کامیابی کی منزلیں طے کیں۔ ان فلموں میں کچھ نام یہ ہیں’’ نوکر، دوستی ، نادان، لال حویلی، بھائی جان، گاؤں کی گوری، زینت، دل اور ہمجولی جیسے کامیاب فلموں میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا، زینت بطور خاص بہت زیادہ کامیاب ہوئی جس کی قوالی ’’ آہاں نہ بھریاں ، شکوے نہ کیئے‘‘ لوگوں کی دلوں پر نقش چھور گئی جس کو لوگ آج بھی یا د کرتے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد شوکت رضوی اور ملکہ نورجہاں پاکستان آگئے ، اور یہاں انہوں نے ایک فلم ’’ چن وے ‘‘ بنائی اس فلم کو باکس آفس میں بہت کامیابی ملی، اس کے بعد فلم ’’دوپٹہ ‘‘ کے گانے بے حد مقبول ہوئے اور خاص کر’’ چاندنی راتیں‘‘ نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے جہاں میڈم نور جہاں بہت خوش تھیں وہیں انہیں اپنی ذاتی زندگی میں ایک دکھ بھی برداشت کرنا پڑا انہیں دنوں شوکت رضوی نے ان کو اپنی زندگی سے الگ کرتے ہوئے طلاق دے دی۔ ان سے ان کی 4 بیٹیا ں اور 2 بیٹے ہیں۔ اس کے بعد 1959ء میں نورجہاں نے اعجاز سے شادی کر لی ان سے ان کے 3 بچے ہوئے۔
1965ء کی جنگ کے دوران میڈم ایک مجاہدہ کی حثیت سے سامنے آئیں، انہوں نے ثقافتی محاز پر جو خدمات سر انجام دیں و ہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی فنکارہ کے حصے میں نہیں آئیں ، جنگ کے دوراں انہوں نے تینوں افواج پاکستان کو خراج تحسن پیش کیا، انہوں نے 17 دن کی جنگ میں 17 نغمے پیش کیئے، ان نغمات کی دھنیں سینئر پروڈیوسر اعظم خان اور ملکہ ترنم نورجہاں نے مل کر مرتب کیں اور سینئر موسیکار سلیم اقبال سے بھی مشاورت کی جاتی تھی۔
1969ء میں آخرفلم جس کا نام ’’ مرزا غالب‘‘ نورجہاں کا بطور اداکارہ آخر ی سفر تھا اس کے بعد نور جہاں نے اداکاری کو خیرباد کہ دیا اور صرف موسیقی سے منسلک رہنے کا فیصلہ کیا اور ان کایہ فیصلہ انکی زندگی میں بہت ہی کامیاب رہا اور یوں موسیقی کی دنیا کی کوئل بن گئیں اور ان کے نام کے ساتھ ملکہ ترنم کا اضافہ ہو گیا۔ ملکہ ترنم نور جہاں نے بہت سے مشہور شاعروں کے گیت گائے ان میں فیص احمد فیص صاحب کی شہرہ آفاق غزل ’’ مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔
1971ء کا سال ملک پاکستان اور ملکہ ترنم نور جہاں دونوں کے لیئے بھاری ثابت ہوا، وطن عزیز کا ایک حصہ الگ ہوا جسے مشرقی پاکستان کہتے ہیں اور اسی سال نورجہاں کی اپنے شوہر اعجاز سے علحدگی طلاق کی صورت میں ہوئی ۔ میڈم نور جہاں کو حکومت پاکستان کی طرف سے بہتریں کارکردگی اور 1965ء کی جنگ میں مسلح افواج کے لیے نغمے پیش کرنے اور خیراج تحسین پیش کرنے کے عوض پرایڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازہ گیا۔
1980ء سے 1990ء کی دہائی میں میڈم نور جہاں کے گانوں کو ہر فلم میں شامل کیا جانے لگاے اور میڈم کے گانوں کو فلم کی کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا، میڈم نور جہاں کے چند مشہورپنجابی گانے ۔ ’’ وے اک تیرا پیار مینوں ملیا، جھانجھر دی پاواں چھنکار، ماہی آوے گا میں پھلاں نال دھرتی سجاواں گی، میں تے میرا دلبر جانی۔ قومی ترانوں میں ،’ ایہہ پتر ہٹاں تے ‘‘
1998ء میں انہوں نے پنجابی فلم ’’ سخی بادشاہ ‘‘ کے لیئے گایا جس کے بول تھے ’’ کی دم دا بھروسہ یار ‘‘ ملکہ ترنم نورجہاں نے کم وبیش دس ہزار (10000) گانے گائے ، میڈم نورجہاں کی آواز کو کوئل کی آواز سے مشاہبت دی جاتی ہے میڈم کی آواز اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ تھا ، 74 سال کی عمر میں 23 دسمبر 2000ء میں یہ چمکتا دمکتا ستارہ ہمیشہ کے لیئے اپنے ہزاروں چاہنے والوں کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ ملکہ ترنم نورجہاں آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں