کاش ہم صرف اُمتی ہوتے
ربیع الاول شریف کا مہینہ اسلام میں بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس ماہ مقدس میں ہمارے پیارے نبیﷺ جلوہ افروز ہوئے تھے۔ ایک روائت کے مطابق اللہ کریم نے اس مہینہ کی برکت سے جب نبی آخرالزمان کو اس دار فانی میں بھیجا تو اس مہینہ ہر گھر میں صرف بیٹے پیدا کیے۔اس ماہ مقدس میں محافل ذکر و ازکار و نعت خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ کل مجھے بھی اسی طرح کی ایک محفل میں جانے کا شرف نصیب ہوا ، لوگوں نے اپنے اپنے انداز سے اظہار محبت کیا اور گلہائے عقیدت حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیے یقیناََ لطف و کرم اور رحمت کے اس عالم میں مجھے بھی چند گھڑیاں نصیب ہوئیں۔محفل کی آخر میں درودو سلام کے لیے سب احتراماََ کھڑے ہو گئے درودوسلام کے ایک شعر نے مجھے محو حیرت کردیا ۔ امتی امتی تیری قسمت پے لاکھوں سلام۔ اب آپ سوچیں گے کہ اس شعر کی وجہ سے کیسے حیرت طاری ہو سکتی ہے ؟ جی ہاں میں نے جب اس شعر پر غور کیا تو اپنے معاشرے میں ہونے والے مسائل میری آنکھوں کے سامنے آ گئے اور ٹولیوں میں بٹی ہوئی پوری قوم کی حالت زار میرے سامنے آگئی ۔
اس شعر کو ایسے کیوں نہیں پڑھا گیا۔وہابی تیری قسمت پے لاکھوں سلام، ایسے کیوں نہ پڑھا گیا سُنی تیری قسمت پے لاکھوں سلام، ایسے کیوں نہ پڑھا گیا ، شعیہ تیری قسمت پے لاکھوں سلام ، دیوبندی تیری قسمت پے لاکھوں سلام۔ جب سلام ہے ہی امتی کے لیے تو پھر یہ تفرقہ بازی کیوں؟ٹھیک ہے جو جس مسلک سے ہے وہ اپنے مسلک سے اپنی عبادات کو جاری رکھے لیکن ہیں تو ہم سب ایک نبی ﷺ کے امتی ، کاش ہم صرف امتی ہوتے تو جن مسائل کا آج سامنہ کر رہے ہیں وہ خود بخود ختم ہو جاتے کیونکہ آقا کریم ﷺ نے ہمیشہ اپنے امتی کہہ کر مخاطب کیا، نہ کہ اوپر بیان کردہ مسالک کے ساتھ نام لیا۔حتیٰ کہ قیامت والے دن بھی ایک آواز آ رہی ہو گی ۔ ’’یا رب امتی۔یا رب امتی ‘‘اے اللہ میری امت ، اے اللہ میری امت ۔ اور ہمارا حال دیکھیں ایک دوسرے کے دشمن بنے بیٹھے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے
کے لیے کیا کچھ نہیں کر رہے جبکہ قرآن مجید میں اللہ کریم ہمیں کسی مسلمان بھائی کا مذاق اڑانے سے بھی منع فرما رہا ہے تو نقصان پہنچانا ایزا دینا کتنا بڑا گناہ ہے۔ (سورہ الحجرات پارہ نمبر 26 آیت نمبر 11 )ترجمہ’’ اے ایمان والو مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں، ممکن ہے یہ ان مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں۔اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان مذاق اڑانے والی عورتوں سے بہتر ہوں۔اورآپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ۔اور نہ کسی کو برُے القاب سے پکارو۔ ‘‘ اب ذرا غور کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ جب تک ہم فرقوں میں بٹے رہیں گے دشمن ہمیں یوں ہی نقصان پہنچاتا رہے گا اور ہم صرف ماتم کر سکیں گے نہ کہ اپنی مشکلات کا حل ڈھونڈ سکیں گے۔ اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں اللہ کریم نے تمام خوبیاں رکھ دی ہیں اور دین اسلام کو پسند فرمایا ہے ’’ ان الدین الا اسلام‘‘یقیناََ دین اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے۔آقا کریم ﷺ کے ارشاد پاک ہے اس شخص نے اسلام کی حلاوٹ پالی جس نے اللہ کو اپنا رب ، اسلام کو اپنا دین اورمحمد ﷺ کو اپنا رسول تسلیم کر لیا۔سورہ آ ل عمران آیت نمبر 103 میں اللہ کریم نے واضع پیغام دیا ہے کہ ترجمہ’’اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رکھو، اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘
اسلام ہمیں تفرقوں اور نفرتوں سے منع فرماتا ہے اسلام ہمیں رواداری ، اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے اسلامی ریاست کے درج ذیل ستون ہیں اگر ہم ان پر عمل پیرا ہو جائیں تو دنیا اور آخرت خود بخود سنور جائے گی۔سورہ مائدہ میں اللہ کریم کا فرمان ہے ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ‘‘
اور ہم نے دین کو اپنے اپنے طریقے سے اپنا یا ہوا ہے ۔اسلامی ریاست کے ستون ،معامالات،معاشرت،اخلاقیات،عبادات اور ایمانیات پر مشتمل ہیں اسلامی معاشرے میں حکومت وقت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ، خارجی امور، فوج اور دفاع کے معاملات میں اپنا کردار ادا کرے امن و امان اور امور داخلہ کی حفاظت محکمہ پولیس کو حکم صادر کرے کہ وہ معاشرے میں امن و اما ن کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اسی طرح قوم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اخلاقیات، تقوی ٰ محبت روادری ، اخوت ، خوش کلامی ، شرم و حیا کے دامن کو نہ چھوڑے اور بحیثیت مسلمان اپنی عبادات کو اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقہ کی مطابق ادا کرے، نماز ، روزہ، حج ، ذکوٰۃ،کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں ، نرم گوئی،صبر و شکر،تواضع و انکساری اگر یہ تمام چیزیں ہم اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو معاشرہ خوبخود درست ہو جائے گا اور 6 سالہ معصوم بچی سے زیادتی کے بعد قتل جیسے واقعات وقوع پذیر نہ ہوں۔ظلم و ستم و بربریت کی انتہا دیکھیں پہلے اپنی حوس کا نشانہ بنایا پھرحوا کی بیٹی کو کھیتوں میں پھینک دیا۔کیا یہ انسانیت ہے ؟ ہم اسرائیل امریکہ اور دیگر ممالک کو اپنا دشمن گردانتے ہیں جبکہ ہمارے اپنے معاشرے میں ایسے دشمن عناصر اور درندہ صفت انسان موجود ہیں جن کا قلع قمہ کرنا زیادہ ضروی ہے ۔ کچھ ذمہ داری ہمارے علماء کرام پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کو سنوارنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں اور حکومت وقت کے ساتھ مل کر قانون سازی کریں تا کہ ایسے افراد جرم کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں اور گناہ کرنے سے اجتناب کریں۔
ہم اخلاقیات میں اتنے گر چکے ہیں کہ ہماری آنکھوں پر بے شرمی اور حوس کی پٹی اس قدر مضبوطی سے بندھ چکی ہے کہ ہم ماں بہن بیٹی کے عظیم رشتے کو بھی نظر انداز کر چکے ہیں۔بطور پاکستانی ہم حکومت وقت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے افراد کو سرعام چوک میں لٹکایا جائے اور ایسی عبرت ناک سزا دی جائے کہ ایسا سوچتے بھی انسان کانپ جائے ۔ اسلام میں تو ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی کہا گیاہے تو کیسے ممکن ہے ایک بھائی دوسرے بھائی کو تکلیف دے ۔ یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ ہم فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔آئیں مل کے یہ عہدکریں کہ ہم صرف امتی بن کر پاکستان کی سلامتی اور وقار بلند کرنے میں اپنا مثبت کردارا اد ا کریں گے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Please post your comments
شکریہ ۔