Monday, 9 October 2017

اقوام کی ترقی میں زبانوں کا کردار By M Tahir Tabassum Durrani

اقوام کی ترقی میں زبانوں کا کردار

لسان عر بی کا لفظ ہے جس معنی ہیں زبان، بولی، بھاشا بنیادی طور پر زبان وہ پُل ہے جو لوگوں کے درمیاں تبادلہ خیال کرنے ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔یا ایسی آوازیں جن کے ذریعے ہر قوم اپنے اغراض و مقاصدبیان کرے۔ہر علاقے ، ملک اور قوم کی الگ الگ زبان ہوتی ہے لیکن مقصد ایک ہی ہے کہ اپنے الفاظ دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ۔زبان کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جو بولی جاتی ہیں۔مادری زبان یعنی ایسی زبان جو انسان اپنے ماں باپ سے بچپن میں سیکھتا ہے اسے آبائی زبان ،نسلی زبان یا پیدائشی زبان بھی کہا جاتا ہے اس کے بعد دوسری زبان کا نمبر آتا ہے یعنی ایسی زبان جو اس کی مادری تو نہ ہو لیکن اس کے اردگرد بولی جاتی ہو۔سرکاری زبان ایسی زبان جو ہم روزمرہ زندگی میں نہیں بلکہ سرکاری مقاصد حاصل کرنے کے لیے بولتے ہیں اس کو قانونی زبان بھی کہتے ہیں اور یہ گورنمنٹ کی طرف سے لاگوکی جانے والی زبان ہوتی ہے ۔قومی زبان ، ایسی زبان جو کسی قوم یا ملک کی پہچان اور شناخت کی علامت سمجھی جاتی ہے جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بھی بولی جاتی ہیں ۔ جیسے پنجابی، سندھی ، بلوچی، ہندکو، سرائکی، پشتووغیرہ ۔ زبان کی مدد سے ہم ایک دوسرے سے رابطہ کر کے اپنے احوال بھی بیان کر تے ہیں اپنے جذبات احساسات کو اپنے محبوب تک پہنچانے میں زبان ہی رابطہ کا ذریعہ ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اس کی زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے لیکن اب یہ سلسلہ آہستہ آہستہ شہروں کی طرف بڑھ رہا ہے اس لیے شہری زندگی کی مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے لیکن حکومت وقت ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے سر بستہ ہے اور گاہے بگاہے عوام کی بہتری کے لیے مختلف منصوبہ جات پرعملی طور پر کام کر رہی ہے ۔طالبعلم کسی بھی ملک کا سرمایہ اور اثاثہ ہوتے ہیں حکومت پنجاب نے ایک انتہائی موثر اور انقلابی پروگرام شروع کیا جس کی مدد سے طالبعلموں کے لیے مختلف وظائف مقرر کیے گئے تا کہ ہونہار طالبعلموں کی حوصلہ افزائی ہو سکے اور یہ ہونہار ملک و قوم کی خدمت کر کے ملک کا نام روشن کر سکیں۔ چیف منسٹر ٹیلنٹ سکالر شپ کے ذریعے ہونہار طالبعلموں کے چائنہ زبان سیکھنے کے لیے بالکل مفت پروگرام کا اعلان کیا ۔ یہاں پر تاریخ کا ایک واقعہ بیاں کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں جب مسلمان ناکام ہوئے تو سر سید احمد خان نے ایک خوبصورت جملہ کہا تھا، کہ مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھ کر میرے سرکے بال سفید ہو گئے ، انہوں نے مسلمانوں پر اس بات کا زور دیا کہ وہ تعلیم حاصل کرکے انگریزی زبان پر عبور حاصل کریں کیونکہ اس وقت برصغیر پر انگریز کا راج تھا اور مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری انگریزی زبان سے لا علمی تھی ، جب سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کو انگریزی زبان سیکھنے کا کہا تو اس وقت بھی لوگ ان کے خلاف ہو گئے اور کہنے لگے کہ ملاں ہمیں فرنگی کی زبان یعنی انگریزی سیکھا کر انگریز بنانا چاہتا ہے لہذا وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ سر سید احمد خان صاحب نے جو کہا وہ سچ ثابت ہوا کیونکہ جب آپ کسی کی زبان ہی نہیں سمجھ سکتے تو آپ اس سے بات کیسے کر سکتے ہیں یااپنا اظہارِخیال کیسے کر سکتے ہیں ، قومیں وہی بنتی ہیں جو تعلیم کو اپناشعار بناتی ہیں۔
پاک چائنہ راہداری منصوبہ ایک ایسا لازوال منصوبہ ہے جو پاکستان کی تقدیر بدل رہا ہے ابھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوا لیکن اس کے ثمرات ملنے بھی شروع ہو گئے ہیں پاکستان کے کئی ہمسایہ ممالک پاکستان کے ساتھ تجارتی روابط قائم کرنا چاہتے ہیں،ان ممالک میں روس، برطانیہ ایران بھی شامل ہیں جس کے لیے ایک اور منصوبہ زیر غور ہے جس پرحال ہی میں ایک کانفرنس بھی ہو چکی ہے جس کے مطابق ایک نیا پراجیکٹ ون بیلٹ ون روڈ کا قیام ہے یہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا منصوبہ ہوگا جس کے لیے سمندری راستہ اختیار کیا جائے گا اس منصوبہ کو سلک روڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سمندری منصوبہ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ چین سے جنوبی ایسٹ ایشیا، افریقہ اور وسطی ایشیا کو آپس میں جوڑے گاجس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بڑھے گی اور پاکستان ترقی کرے گا۔ پنجاب گورنمنٹ آنے والے دنوں میں چائنہ زبان کو نصاب میں بطور اختیاری مضمون شامل کرنے جا رہی ہے اور آنے والے وقت میں تمام سرکار ی درسگاہوں میں چائنہ زبان بطور لازمی مضمون پڑھایا جائے گا ۔ کیونکہ چائنہ راہداری منصوبہ اور دیگر کئی منصوبہ جات چونکہ چائنہ ہی کام کر رہا ہے اس لیے پاکستانی عوام کو چائنہ زبان پر گرفت دلانے کے لیے چیف منسٹر ٹیلنٹ سکالرشپ پروگرام کے تحت300 (تین سو)ہونہار طالبعلموں کو سرکاری خرچے پر چین بھیجا گیا تا کہ آنے والے وقت میں دونوں ملکوں میں تجارتی اور دوستانہ تعلقات میں مذیدبہتری پیدا ہو سکے ، اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کی طلبا و طالبات کے لیے 10% (دس فیصد)زیادہ کوٹہ رکھا گیا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ طالعلموں کو اس پروگرام کے تحت مستفید کیا جا سکے۔پاکستان اور چین کے لوگوں کے درمیان ابلاغ کو موثر بنانے میں چائنہ لینگوئج سکالر شپ پروگرام بہت مفید ثابت ہوگا۔
اس پروگرام امیدوارکے لیے امیدوار کے پاس پنجاب کا ڈومیسائل ہونا لازم ہے اور اس کے عمر 22سے 24 سال رکھی گئی ہے14 سالہ تعلیم مکمل ہو اور آخری امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ہو اور پورے تعلیم دورانیہ میں تھرڈ ڈویژن نہ ہو, امیدوار جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند و توانا ہو۔ امیدوارسے ایک تحریری امتحان لیا جائے گا جس میں کامیابی کے بعد امیدوار کو اہل سمجھا جائے گا اور چین کے بہترین یونیورسٹیز میں دو سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے بھیج دیا جائے گا۔بلاشبہ یہ ایک انقلابی منصوبہ ہے ۔ یہ پروگرام مرحلہ وار شروع کیا گیا ہے پہلے مرحلے میں میرٹ پر پورے اترنے والے 66ہونہار طالبعلموں کو چین بھجوا گیا جو چین کی بہترین یونیورسٹیز سے تعلیم مکمل کر نے کے بعد پاکستان میں اپنی خدمات سر انجام دیں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں چار سو سے زیادہ ہونہار طالبعلم اس سہولت سے مستفید ہونگےAیا A+گریڈ حاصل کرنے والے طالبعلموں کو پاکستان واپسی پر گورنمنٹ کے درسگاہوں میں ملازمت دی جائے گی۔اگر دیکھا جائے تو مفت میں تعلیم بھی حاصل کرو اور بعد میں سرکاری اداروں میں نوکری کی سہولت بھی جس سے یقیناََ ملک میں حقیقی معنو ں میں تبدیلی آئے گی اور لوگ خوشحالی کی زندگی بسر کریں گے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔