Monday, 2 October 2017

شہر خموشاں اور یوم عاشور by M Tahir Tabassum Durrani


شہر خموشاں اور یوم عاشور

آئے بن ٹھن کے شہر خموشاں میں وہ
قبردیکھی جو میری تو کہنے لگے
ارے آج اتنی تو اس کو ترقی ہوئی
اک بے گھر نے اچھا سا گھر لے لیا
قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے فانی ہونے اور ہر چیز کے فناہ ہونے کی یاد دلا ئی ہے انسان ہو یا حیوان ہر جاندار چیز کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، کیونکہ یہ دل لگانے کی دنیا نہیں یہ عارضی زندگی ہے ۔قل نفس ذائقہ الموت۔ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے ، یعنی انسان ہوں یا جن ، فرشتے ہوں الغرض اللہ جلہ شانہ زندہ ہیں اس کے سوا سب فانی ہیں ۔ کل دسویں محرم اپنے ایک عزیز کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے گیا جہاں پر بڑے بڑے نام دیکھے ایسے ایسے نام جن کی ہیبت سے لوگ دہل جاتے تھے جو کبھی سمجھتے تھے ان کے بغیر شائد دنیا کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا، ایسے ایسے خوبصورت جوان وہاں پر سوئے دیکھے جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ مرتے تھے ان کو دیکھنے کے لیے بے تاب دیوانہ وار لوگ انتظار کرتے تھے ، ایسے ایسے بہادر کرنل اور جرنل کوبھی وہاں سوئے دیکھا جن کے فیصلوں سے کبھی ملکوں کی تقدیر بدل جایا کرتی تھی ، بہنوں کے بھائی، ماؤں کے لخت جگر، سروں کے تاج، بیٹیوں کے باپ کو مدفن دیکھا، وقت کے جابر کو زمین کی خاک میں ملتے دیکھا۔آنکھیں نم ہوتی ہی چلی جا رہیں تھیں جانے کس کس کا غم تھا کبھی ماں کی جدائی یاد آتی تو کبھی باپ کی شفقت سے محرومی ستاتی ،کبھی دوستوں کے ساتھ گذرا وقت یاد آتا جو آج اللہ کریم کے پاس اس دنیا کی رنگینی کو چھوڑ کر موٹ کی آغوش میں چلے گئے تھے۔
دسویں محرم کا دن اسلام میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے یہ وہی دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کا وجود فرمایا۔اسی دن حضرت آدم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے معافی کا شرف بخشا، اسی دن عرش ، کرسی اور چاندستارے وجود میں آئے ، اسی دن زمین پر پہلی بارش ہوئی، اسی دن قیامت برپا ہوگی اور یہی وہ دن ہے جس دن نواسہ رسولﷺ حضر ت امام حسینؓ نے اسلام کی سربلندی اور وقت کے جابر کے سامنے کلمہ حق ادا کرتے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ہمارے اکثر دوست احباب اس دن اپنے پیاروں سے عقیدت و احترام اور فاتحہ خوانی کے لیے شہرخموشاں کا رخ کرتے ہیں جو کہ اچھی رویت ہے بحثیت مسلمان ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے پیاروں کی قبروں پر جا کر ان کے لے ایثال ثواب کریں اور اپنی حثیت کے مطابق صدقہ و خیرات بھی کریں۔جہاں لوگ اپنے پیاروں کی قبر پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے جاتے ہیں قبرستانوں میں ایک میلے کا سا سماں نظر آتا ہے اپنے مرحومین کی قبروں کی مرمت کرتے ہیں وہیں ایک عجیب بات یہ بھی سامنے آئی پھول پتیاں بیچنے والے اس دن سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔قبرستان ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہمیں اپنی موت کو یاد کرنا چاہیے تا کہ ہم بطور مسلمان اپنی آخرت کی فکر پیدا کریں لیکن افسوس وہاں پر بھی کاروبار کرنے والے دیہاڑی باز اپنے اوزار خوب تیز کر کے رکھتے ہیں گُل فروش منہ مانگے داموں پھول فروخت کرتے ہیں۔ خوشبو پیدا کرنے والی اگر بتی جو دس روپے کا پورا پیکٹ مل جاتا ہے اس دن ایک اگر بتی پورے دس روپے کی ملتی ہے ، بات مہنگی چیز ملنے کی نہیں صرف توجہ مبذول کروانا مقصد ہے کہ ہم کتنے خود غرخ ، بے حس ہو چکے ہیں وہ جگہ جہاں ہم سب نے ایک نہ ایک دن دفن ہونا ہے لوگ اپنی موت کو بھول کر وہاں پر بھی بے ایمانی اور غیر قانونی طریقے سے پیسہ کمانے کی حرص میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
بقول شاعر۔ْ
کیا بشر کی بساط
آج ہے کل نہیں
اس شعر میں شاعر نے انسان کی اوقات کو خوب احاطہ کیا ہے دنیا کی رنگینیوں اور مستیوں میں انسان ایسے مست ہو جاتا ہے جیسے یہی اس کے لیے سب کچھ ہے اس عارضی دنیا کو بہتر بناتے بناتے اپنی اُخروی زندگی کو خراب کر بیٹھتا ہے یہ عارضی اور کمزور زندگی ہے جس کی جستجو میں ہم اپنے رات دن ایک کر دیتے ہیں اس دنیا کی بہتری کی خاطر ہمیشہ رہنے والی زندگی کو یکسر بھلا بیٹھے ہیں کیونکہ آج ہم زندہ ہیں تو کل ہمارا مسکن بھی ایک چھوٹی سی قبر ہے۔قبرستان میں داخلی راستے پر ہدایات نامہ نصب تھاجسے پڑھ کر دل محو حیرت اور آنکھیں پُرنم ہوگئیں وہ انسان جو کبھی محل میں رہتا تھا بڑے بڑے کمروں میں مہنگے مہنگے نوادرات (شو پیس)رکھتا تھا آج اس کے لیے 4*6 کی قبر مختص کر دی گئی اور لکھا تھا قبر کے اردگرد دیوار بنانا منع ہے اور اپنے گھر کی چاردیواری اتنی اونچی کہ اگر کسی غریب کے گھر پاس ہے تو اس ہوا تک نہ لگے ۔ہمیں شہرخموشاں میں جاکر نصیحت پکڑنی چاہیے ۔انسان اتنے بڑے بڑے محلات نما گھر بنارہا ہے لیکن آخر میں وہی 4*6 کی قبر جس میں امیر غریب کی تفریق کے بغیرایک چھوٹا سا گھر ملتا ہے ۔بڑے نصیب اور قسمت کی بات ہے کہ یہ 4*6 کی قبر بھی انسان کو مل جائے۔یو ں تو شہرخموشاں کو جائے عبر ت بھی کہتے ہیں اور سامان عبرت کا حصول ہی وہ شرط واحد ہے جس کی وجہ سے اسلام میں قبروں کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے تاکہ ہم عبرت پکڑیں اور آخرت کی تیاری کر سکیں۔ہم جب بھی قبرستان جائیں پہلے داخل ہونے کی دعاپڑھنی چاہیے اسلام و علیکم یا اہل القبور۔پوری دعا کا ترجمہ یہ ہے ۔ سلام ہو تم پر اے اہل قبور، اللہ تعالی ٰ ہماری اور آپ کی بخشش فرمائے ،تم آگے جاچکے ہواور ہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔
حال ہی میں کراچی کے ایک قبرستان میں آگ لگنے کا واقع رونما ہوا ، مسلمان ہونے کے ناطے بہت ہی افسو س ہوا ہماری آخری آرام گاہ کے ساتھ بھی ایسا سلوک نا قابل معافی جرم اور قابل مذمت و صد افسوسناک ہے ، اس میں انتظامیہ کا قصور ہے یا ہم سب کا کس کو مجرم ٹھہرائیں؟یہ واقع تو میڈیا کی کوریج کی وجہ سے عام لوگون تک پہنچ گیا لیکن ایسے کئی قبرستان موجود ہیں جن میں نہ صفائی کا انتظام ہے نہ کو قبروں کی حفاظت کا انتظام ، اس کے ساتھ ساتھ منشیات فروش بھی اپنی آخرت کو بھول کر یہ گھناؤنا جرم یہیں بیٹھ کر تے ہیں حکومت وقت سے ہم تقاضہ کرتے ہیں قبرستانوں کی حفاظت کے لیے عملی طور پر اقدام اٹھائیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنی رائے دیں ۔اور دوست احباب سے شئیر کریں۔

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Please post your comments

شکریہ ۔