خطرے کی گھنٹی۔۔ تمباکونوشی کی نقصانات۔۔۔
ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں اسلام کی لفظی معنی سلامتی اور امن کے ہیں اسلام جہاں ہمیں بھائی چارہ ، رواداری، محبت اور پاکیزگی کا درس دیتا ہے وہیں حرام اور حلال کی تمیز بھی سیکھاتا ہے اور حرام چیزوں سے بچنے کی تلقین بھی کرتا ہے کیونکہ جتنا ہم حرام سے بچیں گے اتنا ہی صحت مند معاشرہ تشکیل پائے گا۔اسلام نے نشہ کو حرام قراردیا ہے کیونکہ اس سے برائیاں جنم لیتی ہیں لیکن دل محو حیرت ہے کہ اس کے نقصانات اور خطرات معلوم ہونے کے باوجود اس کے استعمال میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے انسان چند لمحوں کے سرور کی خاطر اپنی لاکھوں کروڑں کی زندگی کو ناقابل تلافی نقصان کے حوالے کر کے خوش ہورہا ہے ۔نوجوان نسل میں اس کا استعمال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور نشہ آور ادویات کی ترسیل اور خرید و فروخت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے قابل تشویش بات یہ ہے کہ درسگاہوں، سکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیز میں اس کی فروخت عام ہے ، ایک مزدور اپنی خون پسینے سے حاصل کی گئی رقم کو دھویں میں اڑا دیتا ہے۔کئی زندگیاں اور خاندان برباد ہو چکے ہیں۔ گھر وں میں لڑائی جھگڑے ، چوری ، ڈکیتی کی وارداتیں، عورتوں بچوں کی ساتھ بد فعلی یا زیادتی ، غیر قانونی کام ہوں، سڑک پرحادثے ہوں یا قتل و غارت کے واقعات سب اسی نشہ آور چیزوں کے استعمال کی وجہ سے ہیں۔
تمباکونوشی سب برائیوں کی جڑ ہے ، تمباکونوشی ایک آفت ہے جو انسانی تہذیب کا حصہ بنتی جا رہی ہے اور معاشرے میں برائی کی جڑوں کو مضبوط کرتی جا رہی ہے اس کے خطرات اور مکمل شعور ہونے کے باوجود لوگ اس سے بچنے کی فکر نہیں کرتے بلکہ تمباکو نوشی کو اپنا سٹیٹس سمبل(Status Symbol)سمجھتے ہیں۔ایک بات واضع کرنا چاہتا ہوں تعجب کی بات ہے سگریٹ / تمباکونوشی کے ڈبوں پراس کے نقصان اور مضر صحت ہونے کے پیغام کو شائع تو کیا جاتا ہے لیکن اس کے نقصان کو جانتے ہوئے بھی اس کی پیداوار اور ترسیل کو روکنے کے لیے کوئی عملی کام نہیں کیا جاتا۔حکومت وقت کی اولین ترجیحح اورذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی ہر اُس چیز کی روک تھام کریں جو انسانی صحت اور جان کے لیے خطرناک ہو۔معاشرے کو برائیوں اور نشے سے پاک رکھنا حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس جان لیوا اور گھناونے کاروبار میں ملوث ہیں ان کو قرا ر واقعی سزا دیں تا کہ آنے والی نسلوں کو اس موزی بیماری سے بچایا جا سکے کیونکہ تمباکو نوشی زہر قاتل ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اس ناسور کو پھلنے پھولنے سے روکنے میں اپنا اخلاقی فرض ادا کریں۔ والدین پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ تعلیمی اخراجات پور ے کرنے اور جیب خرچ دینے کے بعد اولاد کی ذمہ داریوں سے خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں حالانکہ ان پر اس سے بڑی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ اولاد پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں کہ ان کے دیے گئے جیب خرچ کو کہاں خرچ کیا جارہا ہے ۔ بچوں پر اندھا اعتبار و یقین کر لینا مستقبل کے ایسے نقصانات کو ہوا دیتے ہیں تمباکو نوشی نوجوان نسل کی رگوں میں زہر اتارنے کے برابر ہے اس سے معاشرے میں نہ صرف اضطرابی پیدا ہوتی ہے بلکہ ایک کمزور معاشرہ تشکیل پاتاہے۔آج ہم جس دور سے گذر رہے ہیں الیکٹرونک میڈیا ، سوشل میڈیا ہمیں ہر قسم کی آگاہی دے رہا ہے ۔ آگاہی ہونے کے باوجود ہم اس پر توجہ نہیں دے رہے تو ہمارا آنے والا کل یقیناََ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ والدین کو بچوں پر اور ان کے دوستوں پر کٹری نظر رکھنی چاہیے بچوں کے دوستوں کے بارے مکمل شعور و آگاہی رکھنی چاہیے کہ ان کا بچہ کس قسم کے دوستوں کے ساتھ مصروف رہتا ہے کیوں کہ انگریزی کی کہاوت بھی مشہور ہے ۔
(A man is known by the company he keeps)
ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایسے افراد جو تمباکونوشی کثرت سے کرتے ہیں وہ متعدد بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں تمباکوپھیپھڑوں کے کینسر کے ساتھ ساتھ اور بھی مہلک (جان لیوا)بیماریوں کا سبب بن رہی ہے ۔ اندھا پن، شوگر، جگر کی بیماری اور بڑی آنت کے کینسر جیسی بیماریاں پید ا ہو سکتی ہیں۔ تمباکو نوشی کو قتل قبل از مرگ کا سبب بننے والی بیماری بھی کہا جا سکتا ہے۔تمباکونوشی کرنے والے افراد خود تو ان بیماریوں کا شکار ہوتے ہی ہیں لیکن وہ لوگ جن کو یہ دھواں چھو کر گذر جاتا ہے وہ دل کے عارضہ کا شکار ہو سکتے ہیں۔تمباکونوشی کرنے والے افرادنظر کی کمزوری جیسے مرض پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایسی خواتین جو دوران حمل تمباکونوشی کرتی ہیں ان کے ہاں بچوں کی پیدائش متاثر ہو سکتی ہے ۔کٹے ہونٹ والے بچے کی پیدائش بھی ہو سکتی ہے ۔اس کے علاوہ دوران حمل پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں جسم کے دفاعی صلاحیتوں میں اور جوڑوں کا درد بھی ہو سکتا ہے ۔
حکومت وقت نے جیسے انرجی و کولڈ ڈرنک کو سکولوں کالجوں یونیورسٹیز میں مکمل پابندی لگائی ہے ہم بطور عوام اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں ایسے ہی عملی طور پر تمباکوکی خرید و فروخت اور ترسیل پر مکمل پابندی عائد کی جائے کیونکہ یہ کام صرف حکومت وقت ہی کر سکتی ہے ۔ حکومت وقت اس بات کا احسن طریقے سے اندازہ لگا سکتی ہے کہ یہ کس قدر مو زی مرض ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ایک پڑھا لکھا طبقہ بھی اس کے خطرات و نقصانات کا اندازہ لگا سکتا ہے ۔آیئے مل کر اس موذی مرض سے بچنے کے عملی طور پر ایک عہد کریں اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن نشین کر لیں۔
سب سے پہلے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور اسلامی ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام ہمیں ایسی تما م خرافات سے منع کرتا ہے جس میں نشہ کا زرہ برابر بھی عنصر شامل ہو۔اس کے بعد اس کے مضر اثرات کو اپنے دماغ میں رکھنا چاہیے ، زندگی اللہ تعالیٰ کے دی ہوئی امانت ہے جس کو لوٹانا بھی ہے اس لیے اس کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔ایسی تمام مضر اشیاء جن سے عارضی اور فرضی طور پر سکون، سرور میسر ہو لیکن مستقبل میں اس سے جان کو خطرہ لاحق ہو اسے ابتدائی مرحلے پر ہی ترک کر دینا عقل مندی ہے۔اس کے لیے ایک وقت متعین کر لینا چاہیے اس کے بعد چاہے طبیعت جتنا مرضی میلان کرے اس سے باز رہنا چاہیے ۔ ایسے دوستوں اور محفلوں سے بچنے کو شش کرنی چاہیے جو اس بری عادت میں مبتلا کرنے کا باعث ہو۔اسلام نے نشہ حرام قرار دیا ہے اس کی خریدو فروخت کو بھی منع فرمایا ہے ، یعنی ایسی چیزوں کو بیچنا خریدنا بھی ممنوع قرار دیا ہے ۔ارشاد نبویﷺ ہے۔ کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر چلتا ہے ، اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ غور کر لے کہ وہ کس کو اپنا دوست بنا رہا ہے۔ ا چھی صحبت اوراچھے دوست ہی انسان کو ایسی خرافات اور برائیوں سے پاک رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
مکمل تحریر >>