Tuesday 10 January 2023

https://www.hilal.gov.pk/urdu-article/detail/Njk1MQ==.html

 حق کے لیے ہی لڑتا ہے وہ حق کا پرستار

 ملٹری انٹیلی جنس آفیسر کرنل سہیل عابد شہیدکی داستانِ شجاعت 
قوم کے ایک او رعظیم بہادر سپوت نے مادر وطن کا قرض چکا دیا ۔دشمن چاہے کتنا ہی مکار اور طاقتور کیوں نہ ہو، پاک فو ج کے جوان ،جواں مردی سے جواب دینا جانتے ہیں وہ وطن عزیز پر اپنی جان تو قربان کر سکتے ہیں لیکن اس کی عزت و ناموس پر آنچ نہیں آنے دیتے ۔ جب وہ پاک فوج میں شمولیت اختیار کر تے ہیں تو اُن کے دل میں صرف دو ہی باتیں ہوتی ہیں، پاکستان کے دفاع پر یا تو جان قربان کر کے شہید ہو جائیں گے یا غازی بن کر سُرخرو۔ اُن کے دل میں جذبۂ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے ۔پاک فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے ۔ یہ بہادر اور غیور سپوتوں کی فوج ہے ۔پاک فوج کے آفیسر مشکل وقت آنے پر اپنی جان کی پروا نہیں کرتے۔ وہ دوسری افواج کی طرح اپنے جونیئرز کو آگے نہیں بھیجتے بلکہ خود لیڈ کرتے ہوئے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں،یہی فرق افواج پاکستان کو دنیا کی دیگر افواج سے منفرد کرتا ہے 

کرنل سہیل عابد جن کے والد وہاڑی کے نواحی گائوں کے نمبر دار جبکہ ایک بھائی راجہ شیراز گل وکالت کے پیشہ سے منسلک اورچھوٹا بھائی یونین کونسل کا ممبر ہے ،نے پرائمری سے ایف اے تک کی تعلیم وہاڑی سے ہی حاصل کی جبکہ گریجویشن انہوں نے اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز ایچ نائن سے مکمل کی۔1990ء میں 90 پی ایم اے لانگ کورس کا حصہ بن کر پاک فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ جذبہ حب الوطنی سے سر شار یہ نوجوان پاک فوج میں کرنل کے عہدے پر فائض تھا۔ اگر وہ چاہتے توآپریشن کے دوران اپنے جونیئرز کو آگے بھیج سکتے تھے لیکن انہوں نے خود آپریشن کو لیڈکرنا بہتر سمجھا اِ ن کا جذبہ دیدنی تھا۔ انہوں نے خود اِس آپریشن کو لیڈکرتے ہوئے دشمن کے چھکے چھڑا دیے اور اسے بھاری نقصان پہنچایا ۔ آپریشن کے دوران بھاری مقدار میں اسلحہ بارود بھی برآمد ہوا۔ کرنل عابد سہیل کا دل وطن کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو کا عاشق تھا ، وہ وطن کی مٹی سانسوں میں سجائے جیتا تھا ۔ شہادت کا جذبہ اس قدر زیادہ تھا کہ شہادت سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار اپنی اِ س نظم میں کیا۔کرنل سہیل عابد شہید کی اپنی لکھی نظم آپ کی نذر ہے۔
میری وفا کا تقاضہ کہ جاں نثار کروں
اے وطن تری مٹی سے ایسا پیار کروں
میرے لہوسے جو تیری بہار باقی ہو
میرا نصیب کہ میں ایسا بار بار کروں
خون دل سے جو چمن کو بہار سونپ گیا
اے کاش اِ ن میں خود کو شمار کروں
مری دعا سہیل میں بھی شہید کہلائوں
میں کوئی کام کبھی ایسا یادگار کروں
جب پاک فوج کے جوانوں کے ایسے جذبے ہونگے تو وطن کو کوئی میلی آنکھ سے دیکھ ہی نہیں سکتا۔ جب کرنل سہیل عابدکا جسد خاکی اُن کے آبائی گائوں لایا گیا تو اُس بہادر باپ کی بہادری پر رشک آنے لگا۔ ایسا بہادر باپ بیٹے کی قربانی پر آنسو نہیں بہا رہا تھا بلکہ اللہ کا شکر ادا کر رہاتھا کہ میرے بیٹے کو اللہ نے عظیم الشان مرتبہ عطا کیا، یہ میرا ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا بیٹا ہے۔بھائیوں کو اپنے بھائی کی قربانی پر ناز، کہ اُن کے بھائی نے وطن عزیز کی خاطرجان کا نذرانہ پیش کر کے اپنی آخرت سنوار لی اور اللہ کے پسندیدہ بندوں میں اپنا نام لکھوا لیا۔وطن کے اس سپوت نے کتنے سہاگ اجڑنے سے بچا لیے، ملکی سالمیت پر جان نچھاور کر کے امن کی شمع روشن کر نے میں اپنا حقیقی کردار ادا کر دیا۔ہمارے یہ جوان پاکستان کی حفاظت پر مامو ر  ہونگے تو جو میلی آنکھ سے دیکھے گا اُس کی آنکھ پھوڑ دیں گے، اُٹھنے والی انگلی توڑ دیں گے ۔ یہ شیربہادر ، غازی مادروطن کے عظیم سپوت ہیں۔
کرنل عابد نے ایف سی کو نشانہ بنانے والے وطن دشمنو ں کو ایسا جواب دیا کہ عمر بھر یاد رکھیں گے۔ کرنل سہیل کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اُن کے خاندان میں یہ تیسری شہادت ہے۔ اُن کے دادا صوبیدار میجر راجہ احمد حسین عباسی نے جنگ عظیم دوئم مصر میں جام ِ شہادت نوش کیا تھا۔ ان کے چچا کیپٹن ظفر اقبال عباسی (جن کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے وہاڑی کے قریبی ریلوے اسٹیشن کو اُن کے نام سے منسوب کیا گیا ہے)نے 1949ء میں کشمیر کے محاذ پر جام ِ شہادت نوش کیا تھا اور حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ جرأت کا اعزاز اپنے نام کیا ۔ کرنل سہیل عابد بلوچستان ملٹری انٹیلی جنس ایم آئی کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے، اس بہادر آفیسر کرنل سہیل عابد نے کلی الماس میں اُن محفوظ ٹھکانوں کا پتہ لگایا جہاں یہ ظالم سفاک درندے تخریب کاری کے لیے منصوبہ سازی کررہے تھے۔یکم رمضان المبارک کو جام شہادت حاصل کرنے والے اس بہادر سپوت کی قربانی کو قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ کیونکہ یہ آپریشن کوئی معمولی آپریشن نہ تھا ۔
کرنل سہیل عابدپچھلے چھ ماہ سے بچوں اور گھر والوں سے دور ملک و قوم کی خدمت کر رہے تھے ۔ کرنل سہیل کے بچے ماں سے ناراض تھے اورضد کر رہے تھے کہ اس عید پر بھی ہمارے پاپا ہمارے ساتھ عید نہیں منائیں گے جبکہ والدہ بچوں کو کہتی ہے کہ ابھی آپ کے پاپا سے بات ہوئی ہے وہ اس عید پر ہمارے ساتھ ہونگے ۔ بچے والدہ کی بات پراطمینان کا اظہار کرتے ہیں اور سو جاتے ہیں لیکن والدہ کی نم آنکھیں اپنے خاوند کے انتظار میں لگی ہوئی ہیں ۔پھر اُن کے خاوند کا فون آتا ہے ۔ کرنل سہیل عابد بہت خوش تھے، وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور اپنی اہلیہ سے کہتے ہیں ، دیکھو مجھے مبارکباد نہیں دو گی مجھے اللہ نے بلوچستان میں آپریشن ردالفساد کے لیے بطور انچارج سلیکٹ کر لیا ہے ۔ وہ ایک شجاع اور جری انسان  تھے۔ کرنل عابد نے کہا آج میں بہت خوش ہوں، بیوی یہ سن کر ایک دم سے سکتے میں آگئی و ہ پہلے ہی چھ ماہ سے اپنے سر کے تاج کے انتظار میں تھی پھر اس خبر نے انہیں بالکل خاموش کر دیا، پھر سے آواز آئی مبارک باد نہیں دو گی ۔کانپتے ہونٹوں سے لب کشائی کرتے کہا ''مبارکبادجی '' اور فون بند کر دیا۔
بچوں کو کھانا دینے اور سلانے کے بعد اپنے خاوند سے بات کرنے کو جی چاہ رہا تھا، لیکن فون مسلسل بند جا رہا تھا۔ کافی کوشش کے بعد اپنے کمرے میں آکروہ سو جاتی ہیں۔اگلی صبح سحری کی تیاری میں مصروف ہیں کہ فون کی گھنٹی بجتی ہے '' السلام علیکم'' پھر دوسری طرف سے کچھ سنتی ہیں کہ آنکھوں سے نہ رکنے والی جھڑی جاری ہو جاتی ہے۔  جسم لاغر ہو جاتا ہے ، ٹانگیں کانپنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ وہیں گِر جا تی ہیں جبکہ کرنل سہیل کی والدہ ذکر و اذکار میں مصلے پر مصروف یہ ماجرا دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ پھر وہ فون اٹھاتی ہیں اور اگلے لمحے یہ کلمات کہتی ہیں '' یا اللہ قبول فرمانا، اے اللہ قبول فرمانا'' اور آنسو زمین پر گرتا ہے۔
کرنل سہیل عابدجو آپریشن ردالفساد کے انچارج تھے،انہوں نے آپریشن شروع کیا۔ دہشتگردوں کے پاس جدید اسلحہ تھا ، شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ یہ خود کش بمبار ملک میں بہت بڑی تباہی مچانا چاہتے تھے۔ اس آپریشن میں دشمنوں کو بھاری نقصان پہنچا۔ آپریشن میں سلمان بادینی جو کہ سو سے زیادہ لوگوں کو قتل کرنے میں ملوث تھا ، جس کے سر کی قیمت حکومت وقت نے بیس لاکھ روپے رکھی تھی، اُسے بھی واصل ِ جہنم کیا گیا۔ آپریشن میں دو خود کش بمبار وں کو بھی جہنم کی راہ د کھائی۔فائرنگ بہت شدید تھی لیکن  پاک فوج کے جوانوں کے جذبہ حب الوطنی کو آگے بڑھنے کو نہ روک سکی ۔ پورے آپریشن میں کرنل سہیل عابد فرنٹ سے لیڈ کر رہے کہ اچانک ایک گولی اُن کے سینے میں آ لگی جس سے وہ بُری طرح زخمی ہوگئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے  عظیم المرتبہ انسانوں کی صف میں کھڑے ہوگئے جب کہ چار جوان شدید زخمی ہوئے۔ اس طرح 16 مئی 2018ء کو ایک اور قوم کا بہادرسپوت جام شہادت نوش کر گیا۔اس آپریشن میں کرنل سہیل عابد بڑی بہادری سے لڑتے رہے ، آپریشن کے دوران اے ٹی ایف کے شدید زخمی ہونے والے حوالدار ثناء اللہ بھی شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔ کرنل سہیل شہیدعابدکا بیٹا احمد سالار اور تین بیٹیا ں ہمیشہ کے لیے اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہوگئیں اور بیوی نے اپنے سر کے تاج کو وطن عزیز پر قربان کر دیا۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ شہید کے درجات بلند فرمائے اور گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔
17مئی 2018ء کو جب اُن کا جسد خاکی سبزہلالی پرچم میں لپیٹ کر کوئٹہ سے خصوصی طیارے کے ذریعے اُن کے آبائی گائوں میں لایا گیا تو رقعت آمیزمناظر دیکھنے کو ملے۔ پاک فوج سے والہانہ محبت کرنے والے لوگوں کی کثیر تعداد اُمڈ آئی۔ خاندان کے لوگوں، عزیز و اقارب کے علاوہ عسکری قیادت نے بھی جنازے میں شرکت کی ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی گھروالوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور شہید کے درجات بلند فرمائے ۔ ہمیں اپنی فوج پر اور جوانوں پر فخر ہے ۔
 پاک فوج زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد۔ ||



مکمل تحریر >>

Tuesday 2 July 2019

Tuesday 2 April 2019

کھیوڑہ سالٹ رینج نمت خدا وندی تحریر طاہر درانی

کھیوڑہ سالٹ رینج نعمتِ خدا وندی
از قلم۔ محمد طاہر تبسم درانی
0310-1072360
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بے شمار احسان کیے ، زندہ رہنے کے لیے کھانے کا بندوبست کیا ، اناج اُگانے اور سونے کے لیے زمین کو لیٹا دیا الغرض حضرت انسان کی خاطرو تواضع کے لیے انگنت نعمتیں نازل فرمائیں تا کہ انسان ان سے لطف اندوز ہو سکے اور سجدہ شکر بجا لائے ۔ پھر اپنی نعمتوں کا تذکرہ بھی خوب کیا قرآنِ مجید فرقان حمید کی سورۃ الرحمٰن میں اکتیس بار اس آیت کریمہ کو دہرایا ’’ کہ تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ‘‘ اس آیت کریمہ کو دہرانے کا مطلب اپنے بندوں کو اس بات کی تنبہ کرنا ہے کہ میں نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے نوازہ تا کہ تم شکر بجا لا سکواور اللہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط رکھوتا کہ تمہیں اور نواز سکوں ۔اگر اس سورۃ مبارکہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر دو نعمتوں کے بعد اللہ کریم نے اس آیت کریمہ کو نازل فرما یا’’ تم اپنے پروردگار کی کون کون سے نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ‘‘ اگردنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو جب کو ئی دوست اپنے دوست کے مشکل وقت میں کام آتا ہے، اُس کی کسی ضرورت کو پورا کرتا ہے ،لیکن دوسری طرف وہ انسان مسلسل احسان فراموشی کرتا ہے تو پہلا دوست یہ ضرور کہتا ہے کہ میں نے تیری فلا ں ضرورت کو پورا کیا تمہارے مشکل وقت میں تمہارا ساتھ دیا تمہیں میری کو ئی اچھائی یاد نہیں ؟ بالکل اسی طرح اللہ کریم اپنے بندوں کو بار بار یہ باور کروا رہے ہیں کہ میں نے تم پر اپنی نعمتوں کا نزول فرمایا اور تم شکر کرنے کی بجائے نافرمانی اور نا شکری کر رہے ہو۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اللہ کی نعمتوں سے مالا مال اسلامی ملک ہے ۔صوبائی دارلحکومت لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے تقریباََ250 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع جہلم کا ایک خوبصورت علاقہ کھیوڑا کا مقام ہے یہ مقام اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے اور یہ پہچان اللہ کے اُس نایاب تحفے کی وجہ سے جو دنیا میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے کھیوڑاکے مقام پر نمک کی وہ عظیم کان ہے جہاں نمک کی سب سے زیادہ مقدار نکالی جا رہی ہے ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت جتنا نمک اس کان سے نکالا جا رہے وہ مجموعی طور پر پاکستان کی دیگر کانوں سے نکالے جانے والے نمک سے زیادہ مقدار میں ہے قارئین کے لیے یہ بات دلچسپ ہو گی کہ پاکستان نمک کے ذخائرکے لحاظ سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آتا ہے دوسرے نمبر پرپولینڈ کے نمک کے ذخائر آتے ہیں۔ نمک ہمارے کھانوں کا ایک اہم جزو ہے کھانے میں اگر نمک کی کمی ہو تو اچھے سے اچھا کھانا بھی پھیکا اور بد مزہ ہو جاتا ہے اور اس لحاظ سے نمک کو کھانے کا سر دار جزو سمجھا جاتا ہے ہے کچھ جُملے بھی عام بولے جاتے ہیں ، فُلاں بڑا نمک حرام ہے ،فُلاں نمک حلال ہے ۔الغرض نمک کا ہماری روز مرہ زندگیوں کے ساتھ ایک گہرہ تعلق ہے ۔اور الحمد اللہ پاکستان نمک کے معاملے نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ وہ اسے فروخت کر کے دنیا میں اپنا ایک الگ مقام اور اہمیت رکھتا ہے ۔
مورخین اس کی تاریخ کے بارے میں کچھ خاص نہیں لکھتے البتہ اس بات پر سبھی کا اتفاق ہے کہ 322 قبل مسیح جب سکندر اعظم جب راجہ پورس سے لڑنے کے لیے نمک کے درے نندنہ سے گذر کر کھیوڑا کے مقام پڑاؤڈالااور اپنی فوجیں انہیں پہاڑوں میں چُھپا دیں ۔اسی دوران سکندر اعظم کا گھوڑا بیمار پڑ گیااورگھوڑے نے کان کی دیواروں کا چاٹنا شرو ع کر دیا اور گھوڑا تندرست ہو گیا پھر کچھ لوگوں نے بھی ان دیواروں کو چاٹنا شروع کر دیاجہاں انکشاف ہوایہاں قدرت نے نمک کا ایک انمول خزانہ چھپا رکھا ہے۔ کان جنجوعوں راجوں کے پاس رہی پھر مغلیہ دور میں یہ کانیں شاہی حکومت کے پاس آگئیں پھر آزدی کے بعد یہ حصہ پاکستان کی ملکیت بنا اوریہ کانیں پاکستان کے حصے میں آگئیں ۔ماہرین ارضیات کی تحقیق کے مطابق جہاں اب یہ نمک کے پہاڑ ہیں جن کو ’’ سالٹ رینج ‘‘ کہا جاتا ہے واقع ہیں یہ حصہ صدیوں پہلے سمندر کی تہہ میں تھا پانی کے بہاؤ، رساؤ بخارات کی وجہ سے یہ چٹانیں وجود میں آ گئیں پھر رفتہ رفتہ سمند ر ختم ہو گیا لیکن نمک کا یہ ذخیرہ زمین کے اندرمحفوظ ہوگیا ۔
موجودہ نظام ایک انجنیئر نے بنا یا تھا جس کا نام علی خان بتایا جاتا ہے ۔یہ اللہ کا انمول خزانہ 110 مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے ایک اندازے کے مقابق اس کان سے سالانہ 325000ٹن نمک حاصل کیا جاتا ہے ۔نمک نکالنے کے لیے ایک خاص طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ 50 فیصد نمک نکالا جاتا ہے جبکہ بقیہ 50 فیصد ستون اور دیوار کا کام کرنے کی غرض سے چھوڑ دیا ہے ۔اس کان کی 19 منزلیں ہیں جبکہ کہ گیا رہ (11) منزلیں زیر زمین ہیں ۔ کھیوڑا سے شروع ہونے والا یہ پہاڑی سلسلہ کالا باغ، میانوالی تک جاتا ہے ۔ کان کنی کا آغاز انگریز دور میں 1849ء میں شروع ہوا1872ء میں کان کے اندر نمک کے بڑے بڑے بلاکس کو لانے کے لیے چھوٹی ریلوے لائن بچھائی گئی اس ریل گاڑی کو کھینچنے کے لیے شروع میں گھوڑوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو ریل کے ڈبو ں کو باہر کھینچ کر لاتے پھر وقت بدلتا گیا اور ٹیکنالوجی سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے بجلی سے چلنے والے انجن کی مدد سے ریل کو کارآمد بنا یا گیا ۔کان کُنی کا طریقہ کار پہلے سادہ اور مشکل تھا یعنی ہتھ دستی خود ساختہ اوزار استعمال کیے جاتے بعد میں بجلی سے چلنے والے اوزاروں کا استعمال ہونے لگا اس کے بعد بارود کے ذریعے کان کو دھماکہ کر کے نمک حاصل کیا جانے لگا۔
کان میں کام کرنے والوں کی تعداد کافی ہے اور اس علاقے کے لوگ زیادہ تر اسی شعبے سے وابسطہ ہیں ۔ کچھ لو گ اپنا کاروبار بھی کرتے ہیں وہ نمک سے بنی خوبصورت آرائشی اشیا ء کوفروخت کرتے ہیں اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی مختلف اشیاء سیاحوں کو اپنی طرف مائل کر لیتی ہیں ، نمک سے بنے گلدان، ٹیبل لیمپ اور دیگر آرائشی اشیاء قابل ذکر ہیں۔ اس کان کے انتظامات پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کا رپوریشن کے پاس ہیں ۔شروع شرو ع میں کم لوگ اس کان کی سیر و تفریح کے لیے آتے تھے لیکن لوگوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اور سیاحوں کی بڑھٹی ہوئی تعداد کی وجہ سے پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کا رپوریشن نے ٹکٹ لگا دی جس سے اچھی خاصی انکم ہو جاتی ہے پاکستان اور دنیا بھر سے سیاح اس تاریخی کان کو دیکھنے آتے ہیں اور ٹکٹ حاصل کرکے کان کے اندر کی سیر کرتے ہیں ۔ داخلی دروازہ پہاڑوں کی نسبت بہت چھوٹا ہے ۔ چھوٹی ریل گاڑی جو نمک کو باہر لانے کے کام آتی ہے ایک ڈیڑھ کلومیٹر تک سیاحوں کو بھی اندر لے جانے اور واپس لانے میں مدد کرتی ہے لیکن اس کے لیے بھی الگ سے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے ۔کان کے اندر بہت گھُپ اندھیر ا ہوتا ہے لیکن برقی قمقموں کی وجہ سے ایک الگ دنیا 
کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ یہ کان دمہ کے مریضوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے اس لیے انتظامیہ نے کان کے اندر نمک کی دیواروں سے بنا ایک ہسپتال قائم کر رکھا ہے جس میں دمہ کے مریض کو رکھا جاتا ہے اور اس کی بیمار ی اللہ کے فضل سے تندرستی میں بدل جاتی ہے ۔ پیدل چلنے والوں کو احتیاطی تدابیر بھی بتائی جاتی ہیں کیونکہ اندر مختلف جگہوں سے نمک نکال لینے کی وجہ سے وہاں تالاب بن چکے ہیں ان تالابوں میں آج تک کوئی حادثہ پیش نہیں آیا چونکہ تالاب میں نمکین پانی موجود ہوتا ہے اگر اللہ نہ کرے کوئی گر بھی جائے تو وہ ڈوبتا نہیں ، وہاں پر یہ فقرہ بالکل ٹھیک کام کرتا ہے ’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ اگر کوئی گر بھی جائے تو مزدور / ورکر اوپر سے رسہ پھینکتے ہیں جسے پکڑ کر تالاب میں گرا ہوا انسان باہر آجاتا ہے ۔
کان کے اندر سیاحوں کے لیے مختلف قسم کے پروگرامز بھی مرتب کیے جاتے ہیں کبھی موسیقی کا پروگرام کبھی فیملی کے لیے پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں اندازے کے مطابق روزانہ 500 سے 600 افراد اس قدرت کے انمول خزانے کی سیر کرنے آتے ہیں ۔کان کے اندر بہتر حکمت عملی کو اپناتے ہوئے آدھانمک نکالا جاتا ہے تا کہ بقیہ دیواریں ستونوں اور پُل کا کام کر سکیں تا کہ کان نیچے کو نہ بیٹھ جائے جس سے خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے ۔کچھ حصہ اتنا گہرا کھودا جا چکا ہے کہ نیچے پانی نکل آیا ہے جس کے وجہ سے کافی جگہوں پر جھیلیں بن چکی ہیں ۔آنے جانے کے لیے نمک کو کاٹ تراش کر سیڑھیاں بنائی گئیں ہیں ۔ ایک ڈیرھ کلومیٹر اندر جا کر ایک چوکی نما جگہ بنی ہوئی ہے جہاں سے چار مختلف راستے نکلتے ہیں ۔ایک طرف نمک سے بنی خوبصورت مسجدہے جسے بادشاہی مسجد کا نام دیا گیا ہے یہ مسجد سیاحوں کو اپنی طرف مائل کر لیتی ہے اس مسجد کو 1994ء میں تعمیر کیا گیا تھا اس پر خوبصورت جگمگاتے برقی قمقمے اس مسجد کو خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں، اس سے تھوڑا آگے جائیں تو ایک ایسی جگہ آتی ہے جہاں پہاڑوں سے ہر وقت پانی رستا رہتا ہے اور پھر قطروں کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور اسی حالت میں جم جا تی ہے اور لڑیوں کی صورت نظر آتا ہے اس جگہ کو ’’ اشک نمک ‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے تھوڑا آگے جا کر نمک سے بنا خوبصورت مینار پاکستان نظر آتا ہے جس کے اندر بلب روشن ہوتے ہیں شفاف نمک سے باہر آتی روشنی اسے مزید خوبصورت اور جاذبِ نظر بنا دیتی ہے ۔ کان کے اندر مختلف حصوں کو نام بھی دیے گئے ہیں جیسے ’’ بانوں بازار، شیش محل،بھاٹی گیٹ اور پُل صراط‘‘وغیرہ۔ کان کے اندر اگر آپ چاہیں تو اپنے ساتھ گائیڈ بھی لے جا سکتے ہیں جو نہ صرف آپ کی راہنمائی کرتا ہے بلکہ مختلف حصوں کے بارے آگاہی بھی دیتا ہے جس سے سیاحت کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
سیاحوں کی خاطر تواضع کے لیے پارکنگ ایریا کے سامنے بہت بڑا ہوٹل ہے جو بہترین کھانا اور چائے مناسب داموں آپ کی خدمت میں پیش کرتاہے اسی ہوٹل کے ساتھ چھوٹی چھوٹی سرکاری دکانیں موجود ہیں جہاں سے آپ اپنے پیاروں کے لیے نمک سے بنے تحفے تحائف خرید سکتے ہیں ۔ہوٹل سے لیکر ٹکٹ گھر تک عارضی آہنی لوہے کی بنی چھت موجود ہے تا کہ سیاح گرمی کی شدت سے بچ سکیں ۔داخلی راستے سے پہلے سکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے واک تھرو گیٹ بنایا گیا ہے جہاں جامہ تلاشی کے بعد سیاحوں کو اندر جانے کی اجازت ملتی ہے پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کا رپوریشن نے بچوں کے لیے جھولے ، سرکس اور دیگر تفریحی چیزوں کا بھی بندوبست کیا ہوا ہے ۔
اتنی بڑی نعمت لیکن افسو س ہم اس نمک کو بھارت جیسے دشمن ملک کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ رہے ہیں جبکہ بھارت میں اس نمک کو بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔اور اپنی مذہبی رسومات میں استعمال کرتا ہے جبکہ یہودی بھی اس کا استعمال ’’کوشر ‘‘ حلال کے طور پر کرتے ہیں۔ اگر اسی صنعت پر توجہ دی جائے تو پاکستان اپنی معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے اگر بھارت پاکستان کے ساتھ کیے معاہدے توڑ سکتا ہے تو پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ نمک کے معاہدے کو توڑ کر اسے مہنگے داموں فروخت کر کے اپنا لوہا منوائے بھارت کے ساتھ دیگر ممالک کو بھی
نمک کی سپلائی دی جانی چاہیے تا کہ اس صنعت کو اور اس سے وابستہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتربنایا جاسکے 


مکمل تحریر >>

Tuesday 28 August 2018

A Tribute to Martyr :Lft. Faiz Sultan Malik by M Tahir Tabassum Durrani



مکمل تحریر >>

Thursday 16 August 2018

A Tribute to Martyr General Zia Ul Haq by M Tahir Tabassum Durrani


مکمل تحریر >>

A Tribute to martyr Captain Najam Riaz Raja By M Tahir Tabassum Durrani


مکمل تحریر >>

A Tribute to martyr Lalak Jan By M Tahir Tabassum Durrani


مکمل تحریر >>

A Tribute to martyr Saif Ali Khan janjoa By M Tahir Tabassum Durrani


مکمل تحریر >>

A Tribute to Captain (R)Ahmad Mobin by M Tahir Tabassum Durrani


مکمل تحریر >>

Monday 2 July 2018

پاک فوج کے ساتویں۔۔۔عظیم ہیرو۔۔میجر محمد اکرم شہید کی یاد میں By M Tahir Tabassum Durrani

پاک فوج کے ساتویں۔۔۔عظیم ہیرو۔۔میجر محمد اکرم شہید کی یاد میں ایک تحریر
آج کے روزنامہ جہاں پاکستان میں ۔۔۔۔پاک فوج کو خیراج تحسین پیش کرتے ہوئے 

مکمل تحریر >>